سورۃ سبا اور سورۃ فاطر کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
سورۃ سبا
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی پچپن آیات ہیں۔
اس سورت کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں کا مالک ہے اور زمین بھی اسی کی حمد کے گیت گاتی ہے اور آخرت میں بھی اسی کی حمد کے گیت گائے جائیں گے۔ یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واضح اشارہ ہے کہ آپؐ کے دور میں آپؐ کے سچے غلام زمین اور آسمان کو حمد وثنا سے بھر دیں گے۔
اس کے بعد پہاڑوں کی تشریح کرتے ہوئے یہ بھی فرما دیا کہ پہاڑوں سے مراد جفا کش پہاڑی قومیں بھی ہوتی ہیں جیسا کہ داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے پہاڑوں کو ظاہری طور پر مسخر نہیں گیا بلکہ پہاڑوں پر بسنے والی جفا کش قوموں کو مسخر کر دیا گیا۔ پس گزشتہ سورت کے اختتام پر جن پہاڑوں کا ذکر ہے ان کی تشریح یہاں فرما دی گئی۔
اس بیان کے بعد وہ جنّ جو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے لئے مسخر کئے گئے تھے اور ان سے وہ بہت بھاری کام لیا کرتے تھے ان کی تشریح فرمائی گئی کہ یہ جنّ انسانی جنّ تھے۔ وہ جنّ نہیں تھے جن کو عرفِ عام میں آگ کے شعلوں سے بنا ہوا سمجھا جاتا ہے۔ آگ تو پانی میں داخل ہوتے ہی بھسم ہو جاتی ہے مگر ان جنّوں کے متعلق قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا گیا کہ وہ سمندر میں غوطہ لگا کر موتی نکالنے کا کام کرتے تھے حالانکہ آگ کے بنے ہوئے جنّ تو سمندر میں غوطہ نہیں مار سکتے۔دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ یہ جنّ زنجیروں سےبندھے ہوئے تھے حالانکہ آگ کے جنّ تو زنجیروں سے نہیں باندھے جاسکتے۔اور یہ تمام امور آلِ داؤد پر شکر واجب کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو اوّل درجہ پر جسمانی اور روحانی آلِ داؤد تھے اس شکر کا حق ادا کیا۔ مگر جب آپ کو یہ خبر دی گئی کہ آپ کا بیٹا جو آپ کے بعد تخت نشین ہو گا ایک ایسے جسد کی طرح ہے جس میں کوئی روحانی زندگی نہیں تو اس وقت آپ نے یہ دعا کی کہ اے خدا! اِس صورت میں اُس کے دور میں اس سلطنت کی صف لپیٹ دے۔ مجھے اس دنیاوی سلطنت سے کوئی غرض نہیں۔ چنانچہ بعینہٖ ایسا ہی ہوا۔ حضرت سلیمان ؑ کے بعد جب آپؑ کا بیٹا وارث ہوا تو رفتہ رفتہ انہی پہاڑی قوموں نے یہ معلوم کرتے ہوئے کہ ایک بے عقل بادشاہ ان پر مسلط ہے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور حضرت سلیمان ؑ کی ظاہری سلطنت پارہ پارہ ہو گئی۔
جب عظیم سلطنتیں ٹوٹا کرتی ہیں تو بجائے اس کے کہ اہلِ سلطنت آپس میں محبت کے نتیجہ میں یہ دعا کرتے رہیں کہ ہمیں ایک دوسرے سے قریب تر رکھ، وہ نفرتوں کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے دُور ہٹنے کی دعائیں کرتے ہیں، تو ایسی صورت میں وہ قصے کہانی بنا دیئے جاتے ہیں اور اللہ کے غضب کی چکی تلے پیسے جاتے ہیں اور پھر ان کی بستیوں میں اتنی دوری ڈال دی جاتی ہے کہ ان کے درمیان ایک عجیب ویرانی کا منظر دکھائی دیتا ہے جس میں جھاؤ وغیرہ اُگتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے ان کو عظیم الشان باغات اور کھیتوں سے نوازا گیا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس صبر کی تعلیم گزشتہ سورت کے آخر پر دی گئی تھی،اب پھر اسی کی تکرار ہے کہ تُو بہر حال صبر سے کام لیتا چلا جا۔ اور آپؐ کے دل کو یہ عظیم الشان خوشخبری دے کر ثبات بخشا گیا کہ پہلی عظیم سلطنتیں تو چھوٹی چھوٹی قوموں کی طرح ہیں لیکن تجھے اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کی روحانی بادشاہی عطا فرمائی ہے۔
اس کے بعد مخالفین کو دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے فیصلہ طلب کرنے کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اکیلے اکیلے یا دو دو اللہ کے حضور کھڑے ہو کر دعائیں کریں اور پھر غور کریں کہ یہ علم و حکمت کا شہزادہ جس کو قرآن حکیم عطا کیا گیا ہے ہر گز مجنون نہیں۔
پھر فرمایا تُو اس بات پر غور کر کہ جب وہ شدید بے چین ہوں گے اور وہ بے چینی دور ہونے والی نہیں ہو گی تو وہ قریب کے مقام سے پکڑے جائیں گے۔ قریب کا مکان تو حَبْلِ جان ہے یعنی ان نفوس کے اندر سے ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ اور اگلی آیت میں دور کے مکان سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے توبہ کرنا ایک بہت دور کی بات ہے۔ جب اپنے ساتھ پیش آمدہ واقعات پر بھی ان کو توبہ کی توفیق نہیں ملی تو اللہ کی پکڑ کے خوف سے جسے وہ بہت دور دیکھ رہے ہیں انہیں کیسے حقیقی توبہ کی توفیق مل سکتی ہے۔ ایسے منکرین اور ان کی نفسانی خواہشات کے حصول کے درمیان ہمیشہ ایک روک ڈال دی جاتی ہے جیسا کہ ان سے پہلے زمانہ کے منکرین کے ساتھ ہوتا رہا ہے لیکن وہ بد نصیب ہمیشہ شکوک میں مبتلا رہتے ہیں۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ745-746)
سورۃ فاطر
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی چھیالیس آیات ہیں۔
اس سورت کا آغاز بھی اس سے پہلی سورت کی طرح الحمد ہی سے ہو رہا ہے۔ گزشتہ سورت میں اللہ تعالیٰ کی زمین و آسمان پر بادشاہی اور زبانِ حال سے ساری کائنات کے خدا تعالیٰ کی حمد میں مشغول رہنے کا ذکر ہے اور اس جگہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین و آسمان کو پہلی بار پیدا فرمایا اس پر حمد کی طرف متوجہ ہونے کا ارشاد ہے کیونکہ زمین و آسمان کو ابتدا میں پیدا کرنا بے مقصد نہیں ہو سکتا۔ اور زمین و آسمان کے وجود سے پہلے ایک پیدا کرنے والے ربّ کی رحمانیت کی طرف اشارہ ہے۔
آیت نمبر2میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو دو دو اور تین تین اور چار چار پَر رکھتے ہیں۔ اس سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ فرشتوں کے کوئی ظاہری پَر ہوتے ہیں بلکہ مادہ کی چار بنیادی Valencies کا ذکر ہے جس کے نتیجہ میں تمام کیمیاوی کرشمے رونما ہوتے ہیں۔ خصوصاً خدا پرست سائنس دان اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ کاربن کی چار Valencies کے دوسرے مادوں سے کیمیاوی ردّ عمل کے نتیجہ میں وہ زندگی وجود میں آئی ہے جسے سائنس دان Carbon based Life کہتے ہیں۔ قرآن کریم کی اس آیت میں یہ ذکر فرما دیا گیاکہ اس سے زیادہ پَروں والے فرشتے بھی موجود ہیں جن کو تم اِس وقت تک نہیں جانتے اور ان کے اثر کے تابع بہت سے عظیم الشان کیمیاوی تغیرات وجود میں آئیں گے جن کا اس وقت کاانسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اس سورت میں ایک دفعہ پھر دو ایسے سمندروں کا ذکر ہے جن میں سے ایک کا پانی کھارا اور ایک کا میٹھا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز صنعت ہے کہ کھارے پانی میں پرورش پانے والے جانداروں کا گوشت بھی میٹھا ہی رہتا ہے اور میٹھے پانی میں پرورش پانے والے جانوروں کا گوشت بھی میٹھا ہی ہوتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ کھاری پانی مسلسل پینے والی مچھلیوں کا گوشت اس پانی کے کھاری اثرات سے کلیتًہ منزہ ہے۔
اس کے بعد ایسی آیات (نمبر17-18) آتی ہیں جو بنی نوع انسان کو متنبہ کر رہی ہیں کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور اس کے انکار پر مصر رہے تو اگر اللہ چاہے تو تمہیں زمین پر سے نابود کر دے اور تمہاری جگہ ایک اور مخلوق لے آئے اور یہ اللہ تعالیٰ کی شان ِ کبریائی سے بعید نہیں۔
اس کے بعد پھر انسان کو متوجہ فرمایا گیا کہ زمین پر زندگی کی ہر شکل آسمان سے برسنے والے پانی سے ہی فیض اٹھاتی ہے اور اس پانی سے مختلف قسم کے پھل اُگتے ہیں۔ ان کے رنگ الگ الگ ہیں۔ یہ رنگوں کا اختلاف اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس طرح ایک ہی رنگ کی مٹی سے پیدا کئے جانے والے پھلوں کے تم مختلف رنگ دیکھتے ہو اسی طرح اگرچہ انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں مگر ان کے رنگ بھی مختلف ہیں اور ان کی زبانیں بھی مختلف ہیں حالانکہ زبانیں بھی ایک ہی زبان سے نکلیں اور اب ان کے درمیان کوئی بھی مشابہت دکھائی نہیں دیتی سوائے ان دیکھنے والوں کے جن کو اللہ تعالیٰ عرفان نصیب فرمائے۔
یہ لوگ جو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں زمین میں پیدا ہونے والی چیزوں کے حوالہ سے تو اس کا کوئی شریک قرار نہیں دے سکتے تو کیا پھر اُن کا تصور اُن آسمانوں میں اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے جن آسمانوں کا ان کو کچھ بھی علم نہیں۔
اس کے بعد بنی نوع انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان از خود اپنے مداروں پر قائم نہیں ہیں بلکہ اگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ہاتھ ان کو مسلسل تھامے نہ رہیں تو اگر ایک دفعہ یہ اپنے مداروں سے ہٹ جائیں تو زمین و آسمان میں قیامت آجائے گی اور کبھی پھر دوبارہ اَجرامِ سماوی کسی مدار پر قائم نہ ہو سکیں گے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ759-760)
(عائشہ چودہری۔جرمنی)