• 20 جولائی, 2025

سو لفظوں کی کہانی

سو لفظوں کی کہانی
مائیکرو فکشن رائٹنگ، انگریزی طرز تحریر کی ایک دلچسپ اور منفرد صنف

سولفظوں کی کہانی تحریر کی ایک ایسی صنف ہے جس میں پورے سو الفاظ میں تحریر لکھی جائے انگریزی طرز تحریر Drabble سے ماخوذ ہے۔اس کا بنیادی مقصد اختصار کے ساتھ اپنے مدعا کو دلچسپ اور معنی خیز انداز میں بیان کرناہے۔ تحریر افسانوی، رومانوی،مذاحیہ اور تجسس سمیت کسی بھی معروف صنف میں ہو سکتی ہے۔ڈریبل کاخیال سب سے پہلے Monty Python کی کتاب Big Redمیں ملتا ہے جو 1971ء میں شائع ہوئی۔مونٹی ایک برطانوی کامیڈین اور مصنف تھے۔انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی پر بھی کام کیا۔اپنی کتاب Big Red میں انہوں نے word game کا ذکر کیا جس میں شاملین کو پہلے سے دیے گئے عنوانات کے تحت سو الفاظ میں ایک تحریرلکھنا تھی۔جو بھی مقررہ وقت میں تحریر لکھ لیتا فاتح قرار پاتا۔مختصر طرز تحریر کی اس صنف کے جد امجد ایک فرانسیسی مصنف Felix Fenon کو بھی مانا جاتا ہے جو اپنے تین سطری افسانوں کی وجہ سے مشہور تھے۔

Wilfrid Laurier University کی انتظامیہ نے 2011ء میں یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات میں 100 Words Centennial Drabble Contest کے نام سے 100 الفاظ پر مشتمل مختصر تحریر لکھنے کا مقابلہ منعقد کروایا۔مقابلہ کے شرکاء کسی بھی موضوع پر تحریر لکھ سکتے تھے۔اسی طرح مائیکرو فکشن جس میں پورے 55 الفاظ میں تحریرلکھی جاتی تھی۔نیز بیس،تیس اور اسی الفاظ میں بھی لوگوں نے فلیش فکشن لکھنے میں طبع آزمائی کی لیکن ڈریبل کو اس میں منفرد مقام حاصل ہے۔ مائیکرو فکشن میں اتنی شہرت کسی اور طرز تحریرکے حصے میں نہیں آئی۔300 اور اس سے کم الفاظ پر مشتمل تحریر مائیکرو فکشن شمار ہوتی ہے۔ کم سے کم کی کوئی قید نہیں ایک مائیکرو فکشن کہانی چند الفاظ پربھی مشتمل ہو سکتی ہے۔

برصغیر پاک و ہندمیں اردو میں اس صنف کو متعارف کروانے کا سہرا روزنامہ جنگ اور جیو نیوز سے وابستہ صحافی اور مصنف مبشر علی زیدی کے سر ہے۔سلاست و روانی ان کی تحریرکا خاصہ ہے۔ روزنامہ جنگ میں ان کی 1500 سے زائد کہانیاں شائع ہوئیں۔ سولفظوں کی کہانیوں کا ایک مجموعہ بعنوان ’’نمک پارے‘‘ بھی شائع شدہ ہے۔ اپنی کہانیوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ’’یہ اتنی مختصر نہیں ہوتیں کہ تشنگی سے تڑپتا چھوڑ دیں، اتنی طویل بھی نہیں ہوتیں کہ سیراب کردیں۔ صرف ایک گھونٹ پانی ملتا ہے، کچھ پیاس رہ جاتی ہے۔ سو لفظوں کی کہانیاں لکھنے کا آغاز 80 کی دہائی میں برطانیہ میں ہوا۔ یہ کام کھیل کھیل میں شروع ہوا۔ اب نہایت سنجیدگی سے کیا جارہا ہے اور مغرب میں مقبول ہوتا جارہا ہے۔ مقبول ہونے کی وجہ سب جانتے ہیں۔ اس عہد میں لوگوں کے پاس فرصت کم ہے۔ کچھ فرصت ہے تو وہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی نذر ہوجاتی ہے۔ ناول اور طویل کہانیوں کے قاری کم ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں سو پچاس لفظوں کی کہانیاں بہت کشش رکھتی ہیں۔ آپ سفر کر رہے ہوں، کہیں کسی کا انتظار کر رہے ہوں، فلم کا انٹرویل ہو، ٹی وی کے ڈرامے کا وقفہ ہو، کرکٹ میچ میں بارش ہوجائے، کہیں بھی آپ کو چند منٹ مل جائیں۔ ایک کہانی شروع کریں اور وہ آپ کی کولڈڈرنک ختم ہونے سے پہلے ختم ہوجائے گی۔ ان کہانیوں کے لکھنے کا جواز یہ ہے کہ ان کی وجہ سے قاری کے پاس کہانی نہ پڑھنے کا جواز کوئی نہیں۔‘‘

مبشر زیدی کی ایک کہانی بعوان ’’دامن‘‘ الفضل کے قارئین کی نذر۔

’’میں رنگ ساز ہوں۔کپڑوں اور جھنڈوں کے رنگ بدل دیتا ہوں۔چند دن پہلے ایک صاحب آئے۔

کہنے لگے۔ میری قمیص رنگ دو گے بھائی؟

میں نے کہا۔ کیوں نہیں۔ کون سے رنگ میں رنگوانی ہے؟

بولے۔ پہلے میں گلابی پارٹی میں تھا۔ اب آسمانی پارٹی میں چلا گیا ہوں۔ بس نئی پارٹی کے رنگ میں رنگ دو۔
میں نے دو دن بعد بلالیا۔ وہ آئے تو قمیص دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے خفا ہوگئے۔ ’’اس پر دھبے تو ویسے ہی لگے ہوئے ہیں۔‘‘

میں نے کہا۔ بھائی میاں۔ رنگ بدلنے سے دامن پر لگے دھبے صاف نہیں ہوتے۔‘‘

اخبارات کے علاوہ معاصر اردو بلاگنگ ویب سائیٹ بھی سو لفظوں کی کہانیاں شائع کرتی ہیں جن میں مکالمہ ڈاٹ کام سرفہرست ہے۔ اس پر خاکسار کی 50 سے زائد سولفظوں کی کہانیاں شائع ہو چکی ہیں۔انہی میں سے ایک کہانی بعنوان ’’تصویر‘‘ قارئین الفضل کی نذر۔

’’گرد سے اٹا چہرہ۔ تیکھے دلکش نقوش۔

بڑی مگر ویران آنکھیں۔

خشک ہونٹ ستواں ناک دھنسے ہوئے عارض۔

اس کے وجود پر فاقوں نے ڈیرے ڈالے تھے۔

سگنل پر رک کر میں نے مختلف زاویوں سے اس کی کئی تصاویر بنائیں۔

عالمی مقابلہ فوٹوگرافی کے لیے یہ بہترین انتخاب تھا۔

میری تصویر کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔

سال کی بہترین تصویر قرار پائی۔

انعام کے ساتھ بھاری معاوضہ ملا۔

کچھ دن بعد اخبار گردی کرتے خبر پر نظر پڑی۔

اسی گداگر لڑکی کی تصویر کے ساتھ خبر تھی۔

’’فاقوں سے تنگ ماں نے بچے سمیت خود کشی کر لی‘‘۔

اسی طرح عزیزم ذیشان محمود (سیرالیون) کی بھی سو لفظی تحریرات مکالمہ پر شائع ہوتی رہی ہیں اور اب تک 30 کہانیاں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی ایک کہانی بعنوان ’’دوا‘‘ قارئین الفضل کے لیے۔

جی ڈاکٹر صاحب! اس کے منہ سے بس یہ ہی نکل سکا۔

آپ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ پھل، یخنی اور نرم غذا کھائیں۔

جی ڈاکٹر صاحب!

کھانسی مزید بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ دوا تبدیل کر رہا ہوں لازمی لیں۔

جی ٹھیک جناب!بھائی یہ دوا کتنے کی ہے؟

450 روپے کی۔

اس نے جیب سے پیسے نکال کر گنے تو اسے بیوی کی بات یاد آئی کہ واپسی پر گھی، چینی، پیاز اور آلو لیتے آنا۔

پھر ہمیشہ کی طرح وہ میڈیکل سٹور چھوڑ کر سبزی کی ریڑھی کی طرف بڑھ گیا۔‘‘

متنوع موضوعات کو سو لفظوں تک محدود رکھتے ہو ئے تحریر کو اس طرح ترتیب دینا کہ وہ قاری پر نفس مضمون کو واضح کرنے کے ساتھ دلچسپ اور معنی خیز بھی ہو ایک مشکل امر ہے۔ہر مصنف اپنے انداز سے لکھتا ہے، سو لفظوں کی قید میں رہتے ہوئے لکھاری کے پاس چونکہ زیادہ آپشن نہیں ہوتے اس لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جاتا ہے جو با معنی ہوں۔ بالخصوص آخری سطور میں مضمون کو سمیٹ کر تحریر کا اختتام پنچ لائن کے ساتھ افسانوی انداز میں کیا جاتا ہے۔ایسا اختتام جو قاری کو کہانی دوبارہ پڑھنے پر مجبور کر دے۔ مائیکرو فکشن کا اختصار ہی اس کی خوبصورتی ہے اس میں نا تو زیادہ کردار شامل کیے جا سکتے ہیں نہ کردار تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔نو آموز لکھاریوں کو اس صنف میں بھی طبع آزمائی کرنی چاہیے۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

نیشنل اجتماع مجلس انصاراللہ سینیگال2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ