• 12 مئی, 2025

رسول اللہﷺ کی عائلی زندگی کے حسین پہلو

دعا کا حقیقی مصداق

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ عبادالرحمان کی ایک دعا کا ذکر یوں فرماتا ہے ۔
اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔

(الفرقان:75)

یہ دعا حقیقی طور پر وہی کر سکتا ہے اور سچے رنگ میں اسی کے حق میں قبول ہو سکتی ہے جو اپنے جیون ساتھی اور اولاد کے لئے قرۃ العین ہو۔ وہ شخص جو اہل و عیال کے لئے ظالم اور تندخُو ہو یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس کی بیوی اور اولاد اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے۔ کیونکہ نفرت کبھی محبت کے بچے پیدا نہیں کرتی اور محبت کو کبھی کڑوے پھل نہیں لگتے۔ اس پہلو سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کی عائلی زندگی کو اس کے ایمان کی علامت قرار دیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا اَکْمَلُ الْمَومِنِینَ اِیْمَانًا اَحْسْنُھُمْ خَلْقًا وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِکُمْ ۔ مومنوں میں سے ایمان کے لحاظ سے کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ اور تم میں سے خلق کے لحاظ سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں سے بہترین اور مثالی سلوک کرتا ہے۔

(ترمذی کتاب النکاح باب حق المراۃ علی زوجھا حدیث نمبر1082)

یہ اکمل المومنین یعنی کامل ترین مومن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کون ہو سکتا تھا اسی لئے آپؐ نے فرمایا
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل و عیال سے حسن سلوک کرنے والا ہوں۔

(ابن ماجہ کتاب انکاح باب حسن معاشرۃ النساء حدیث نمبر 1967)

یہ ایک حیرت انگیزموازنہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کے درمیان مقام کی کوئی نسبت نہیں۔ اہل بیت کا سب کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عطا کردہ ہے۔ اس کے باوجود آپ رسول اللہؐ کو ان پر جھکتے ہوئے اور ان کے لئے بچھتے ہوئے اسی طرح دیکھتے ہیں کہ گویا آسمان زمین سے گلے مل رہا ہے اور سورج نے ذروں کو تابانی بخش دی ہے۔

آئیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی طرف چلیں اور ازواج مطہرات کی آنکھوں سے دیکھیں کہ ان کا مقدس شوہر اور ہمارا محبوب رسولؐ کیسا تھا۔

گھریلو ماحول

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول ہے کہ گھر میں داخل ہوتے ہی بلند آواز سے السلام علیکم کہتے اور رات کے وقت آئیں تو سلام ایسی آہستگی سے فرماتے ہیں کہ بیوی جاگتی ہو تو سن لے اور سو گئی ہو تو جاگ نہ پڑے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آپ کے اہل بیت کا بیان ہے کہ آپؐ گھر میں بلندآواز سے کلام نہیں کرتے۔ نہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر برا مناتے ہیں بلکہ ایک لازوال بشاشت اور غیرمفتوح مسکراہٹ ہے۔ ازواج کہتی ہیں آپ سب سے نرم خُو، اخلاق کریمانہ کی بارشیں برسانے والے بہت ہنسنے والے اور بہت مسکرانے والےہیں۔

(طبقات ابن سعد جلد اول ص 365)

حضرت عائشہ ؓفرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کوئی درشت کلمہ اپنی زبان پر نہ لائے۔ نیز فرماتی ہیں کہ آپؐ تمام لوگوں سے زیادہ نرم خُو تھے اور سب سے زیادہ کریم۔ عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے، آپؐ نے منہ پر کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے ہی رہتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا یہ بھی بیان ہے کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت ؐ نے اپنے کسی خادم یا بیوی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔

(شمائل الترمذی باب فی خلق رسول اللہؐ)

صبح کھانے کو جو کچھ میسر ہوتا تو کھا لیتے ورنہ فرماتے آج ہم روزہ رکھ لیتے ہیں۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب جواز صوم النافلۃ حدیث نمبر 3299)

آپ نے کھانے میں کبھی کوئی عیب نہیں نکالا اگر پسند ہوتا ہے تو کھا لیتے ورنہ خاموشی سے اٹھ جاتے کوئی تکلیف دہ لفظ استعمال نہیں کرتے۔

صحیح بخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبی حدیث نمبر 3299)

رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دئیے یا جگائے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرما لیتے۔

(صحیح مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف حدیث نمبر 3831)

وہ مغربی تہذیب جو عورت کے حقوق کی ٹھیکیدار بنتی ہے اس کا آج بھی یہ حال ہے کہ 1973ء کے ایک سروے کے مطابق یورپ میں ہر سال 27ہزار ایسے شدید واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جن میں مرد اپنی بیویوں کو مارمار کر زخمی کر دیتے ہیں۔

1915ء میں یہ قانون بنا تھا کہ مرد اپنی بیوی کو مار سکتا ہے مگر شرط یہ ہے جس چھڑی سے مارے وہ مرد کے انگوٹھے کی موٹائی سے زیادہ نہ ہو۔1974ء میں Erin Pizzyکی کتاب Scream quietly or the neighbours will hearمیں عورتوں پر ظلم کی دردناک داستانیں رقم کی گئی ہیں۔ جن میں مار مار کر عورتوں کی ہڈیاں توڑنے، سگریٹ سے جلد جلانے اور خطرناک زخموں کا تذکرہ ہے شراب کی بوتلیں ان کے سروں پر مار مار کر توڑی جاتی ہیں اور باندھ کر سگریٹ سے جلایا جاتا ہے۔

(الفضل 7جنوری 2003ء)

اس کے مقابل پر آج سے 1400سال قبل عفو مجسم اور رحمت تمام کا نمونہ کل عالم کے لئے مشعل راہ ہے۔
آپ کی وفاداری اور حسن و احسان کا یہ منظر کتنا دلکش ہے کہ
حضرت خدیجہ ؓ کی زندگی میں بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی آپؐ نے کئی سال تک دوسری بیوی نہیں کی، اور ہمیشہ محبت اور وفا کے جذبات کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ کا محبت بھرا سلوک یاد کیا۔لمبی عمر پانے والی آپؐ کی ساری اولاد حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے تھی اس کی تربیت و پرورش کا خوب لحاظ رکھا۔ نہ صرف ان کے حقوق ادا کئے بلکہ حضرت خدیجہ ؓ کی امانت سمجھ کر ان سے کمال درجہ محبت فرمائی۔ حضرت خدیجہ ؓ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کران کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے خدیجہ ؓ کی بہن ہالہ آئی ہیں۔ گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوںمیں بھجوانے کی تاکید فرماتے۔ الغرض آپؐ خدیجہؓ کی وفاؤں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں مجھے کبھی کسی زندہ بیوی کے ساتھ اتنی غیرت نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ ہوئی حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پاچکی تھیں۔ کبھی تو میں اکتا کر کہہ دیتی یا رسول اللہؐ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اتنی اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں اب اس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں۔ آپ ؐ فرماتے نہیں نہیں خدیجہ اس وقت میری ساتھی بنیں جب میں تنہا تھا۔ وہ اس وقت میری سپر بنیں جب میں بے یارومددگار تھا۔ وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پرفدا ہو گئیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد عطا کی۔ انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا۔

(مسلم کتاب الفضائل۔ فضائل خدیجۃ ۔بخاری کتاب الادب باب حسن العہد من الایمان مسند احمد جلد 6ص 118)

گھر کے کاموں میں شرکت

گھر میں موجودگی کے دوران آپ ازواج کے شانہ بشانہ گھر کے معمولی کاموںمیں حصہ لیتے ہیں۔ انسانی عقل حیران ہوتی ہے کہ دنیا کا سب سے معمور الاوقات وجود جس سے بڑھ کر مصروفیت کا تصور بھی ممکن نہیں وہ گھر میں ایک ایک لمحہ کو اہل خانہ کے لئے خوشگوار اور یادگار بناتا ہے۔ اور ازواج قطرہ قطرہ آپ کی محبت کشید کرتی ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ وسلم گھر کے جو کام کرتے تھے ان کا نقشہ حضرت عائشہ ؓ نے اس طرح کھینچا ہے کہ حضورؐ اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے تھے اور اپنا کپڑا سی لیا کرتے تھے۔

(مسند احمد حدیث نمبر33756)

دوسری روایات میں ہے کہ آپؐ اپنے کپڑے صاف کر لیتے، ان کو پیوند لگاتے، بکری کا دودھ دوہتے، اونٹ باندھتے، ان کے آگے چارہ ڈالتے، آٹا گوندھتے اور بازار سے سودا سلف لے آتے۔

(شفاعیاض باب تواضعہ)

مزید بیان کیا گیا ہے کہ ڈول مرمت کر لیتے خادم اگرآٹا پیستے ہوئے تھک جاتا تو اس کی مدد کرتے اور بازار سے گھر کا سامان اٹھا کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے تھے۔

(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد 4ص 264و اسدالغابہ)

خوشیوں میں شمولیت

گھر میں کام کاج کے ساتھ اپنی ازواج کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شامل ہوتے اوراسے کبھی وقت کا ضیاع نہ سمجھتے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب میں بیاہ کر آئی تو میں حضورؐ کے گھر میں بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی تھیں۔ جو میرے ساتھ مل کر گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ جب حضور ؐ گھر تشریف لاتے(اور ہم کھیل رہی ہوتیں) تو میری سہیلیاں حضور ؐ کو دیکھ کر ادھر ادھر کھسک جاتیں لیکن حضور ؐ ان سب کو اکٹھا کرکے میرے پاس لے آتے اور پھر وہ میرے ساتھ مل کر کھیلتی رہتیں۔

(صحیح بخاری کتاب الادب باب الانبساط الی الناس حدیث نمبر5665)

جب حضورؐ جنگ تبوک سے واپس آئے یا شاید یہ اس وقت کی بات ہے جب حضورؐ خیبر سے واپس آئے تو حضرت عائشہ ؓکے پاس تشریف لائے۔ ان کے صحن میں ایک جگہ پردہ لٹک رہا تھا ہوا کا ایک جھونکا آیا تو اس پردہ کا ایک سرا ہٹ گیا۔ اس پردہ کے پیچھے حضرت عائشہ ؓ کی گڑیاں رکھی تھیں پردہ ہٹا تو وہ نظر آنے لگیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عائشہ ؓ یہ کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا میری گڑیاں ہیں۔ حضورؐ کی نظر پڑی تو دیکھا کہ ان گڑیوں کے درمیان میں ایک گھوڑا کھڑا ہے جس کے چمڑے کے پر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا مجھے ان گڑیوں کے درمیان میں کیا نظر آ رہا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ گھوڑا ہے۔ آپؐ نے پوچھا (پروں کی طرف اشارہ کرکے) کہ گھوڑے کے اوپر یہ کیا چیز ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ پر ہیں۔ آپؐ نے فرمایا بھئی تعجب ہے پروں والا گھوڑا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپؐ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان کا بھی ایک گھوڑا تھا جس کے بہت سے پر تھے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب میںنے یہ کہا تو حضورؐ بے اختیار ہنس پڑے اور ایسی شگفتہ کھلی ہوئی ہنسی تھی کہ حضورؐہنسے تو دہن مبارک اتنا کھل گیا کہ مجھے حضورؐ کے سامنے کے آخری دانت بھی نظر آنے لگے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب اللعب بالبنات حدیث نمبر4284)

حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہی تھی تو میں نے حضورؐ سے دوڑ کا مقابلہ کیا اور حضورؐ سے آگے نکل گئی۔ بعد میں میرا بدن بھاری ہو گیا تو پھر میں نے حضورؐکے ساتھ دوڑ لگائی لیکن حضورؐ مجھ سے آگے نکل گئے اور فرمایا۔ اے عائشہ! یہ اس جیت کا بدلہ ہے جو تو نے مجھ پر پہلے حاصل کی تھی۔

(ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی السبق علی الرجل حدیث نمبر 2214)

ایک عید کے موقع پر اہل حبشہ مسجد نبویؐ کے وسیع دالان میں جنگی کرتب دکھا رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ سے فرماتے ہیں کہ کیا تم بھی یہ کرتب دیکھنا پسند کرو گی اور پھر ان کی خواہش پر انہیں اپنے پیچھے کر لیتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ وہ دیر تک آپؐ کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آپؐ کے رخسار کے ساتھ رخسار ملا کر یہ کھیل دیکھتی رہیں آپؐ بوجھ سہارے کھڑے رہے یہاں تک کہ میں خود تھک گئی۔ آپ ؐفرمانے لگے اچھا کافی ہے تو اب گھر چلی جاؤ۔

(بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید حدیث نمبر 897)

بے تکلف دوست

ازواج کے ساتھ آپ کا تعلق دوستوں کا سا نظر آتا ہے۔ اور بے تکلفی اور مزاح نے ان حجروں میں نور بھر دیا۔
ایک دفعہ حضرت ابوبکر ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر کے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ اندر آئے تو حضرت عائشہ ؓ کو بلند آواز میں حضورؐ کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے سنا۔ حضرت ابو بکرؓ غصہ میں آ گئے اور چاہا کہ حضرت عائشہ ؓ کو پکڑ کر ایک تھپڑ لگائیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آڑے آ گئے۔ ابو بکرؓ ، عائشہ کو کہہ رہے تھے کہ میں آئندہ تجھے حضورؐ کے سامنے بلند آواز سے بولتے ہوئے نہ سنوں۔ اور اسی غصہ میں وہ چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد حضورؐ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا۔ تو نے دیکھا ہے کہ میں نے اس آدمی کی مار سے تجھے کس طرح بچایا۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر ؓ دوبارہ آئے تو میاں بیوی کو راضی خوشی پایا تو کہنے لگے کہ مجھے اپنی صلح میں بھی شریک کر لو جس طرح تم نے مجھے اپنی لڑائی میں شریک کیا تھا۔ حضورؐ نے بلاتوقف فرمایا۔ ہاں ہاں، ہم تمہیں شریک کرتے ہیں۔

(ابو داؤد کتاب الادب باب المزاح حدیث نمبر 4347)

یہ مقدس رسولؐ تو کل عالم کو اس صلح و آشتی کی جنتوں میں شریک کرنا چاہتا ہے۔ خوشا نصیب وہ لوگ جو اس کے نقش قدم پر چل کر اپنی دنیا اور آخر ت کو سنوارتے ہیں۔

آپؐ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور دشمنوں کو اپنا بنانے کی خدادا د صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ اور یہ بارش اہل خانہ پر بھی اسی شان کے ساتھ برستی ہے۔

ام المومنین حضرت صفیہ ؓ جو رسول اللہؐ کے شدید معاند اور یہودی قبیلہ بنو نضیر کے مشہور سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ جنگ خیبر میں حضرت صفیہؓ کا باپ اور ان کا خاوند مسلمانوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی یہود خیبر پر احسان فرماتے ہوئے حضرت صفیہ ؓ کو اپنے عقد میں لینا پسند فرمایا۔ اپنے جانی دشمن کی بیٹی صفیہ ؓ کو بیوی بنا کر اپنی شفقتوں اور احسانوں سے جس طرح انہیں اپنا گرویدہ کیا اور ان کا دل آپؐ نے جیتا وہ بلاشبہ انقلاب آفریں ہے۔جنگ خیبر سے واپسی کا وقت آیا تو صحابہ کرام نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ آنحضرتؐ اونٹ پر حضرت صفیہ ؓ کے لئے خود جگہ بنا رہے ہیں وہ عبا جو آپ نے زیب تن کر رکھی تھی اتاری اور اسے تہہ کر کے حضرت صفیہ ؓ کے بیٹھنے کی جگہ پر بچھا دیا۔ پھر ان کو سوار کراتے وقت اپنا گھٹنا ان کے آگے جھکا دیا اور فرمایا اس پر پاؤں رکھ کے اونٹ پر سوار ہو جاؤ۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر حدیث نمبر 3879)

حضرت صفیہ ؓ کا بیان ہے کہ چونکہ جنگ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ میرے باپ اور شوہر مارے گئے تھے اس لئے میرے دل میں آپ کے لئے انتہائی نفرت تھی مگر آپؐ نے میرے ساتھ ایسا حسن سلوک فرمایا کہ میرے دل کی سب کدورت جاتی رہی۔ حضرت صفیہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ خیبر سے ہم رات کے وقت چلے تو آپؐ نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیا مجھے اونگھ آگئی اور سر پالان کی لکڑی سے جاٹکرایا۔ حضورؐ نے بڑے پیار سے اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھ دیا اور فرمانے لگے۔ اے لڑکی۔ اے حیی کی بیٹی ذرا احتیاط ذرا اپنا خیال رکھو۔ پھر رات کو جب ایک جگہ پڑاؤ کیا تو وہاں میرے ساتھ بہت بہت محبت بھری باتیں کیں۔ فرمانے لگے دیکھو تمہارا باپ میرے خلاف تمام عرب کو کھینچ لایا تھا اور ہم پر حملہ کرنے میں پہل اس نے کی تھی اور یہ سلوک ہم سے روا رکھا تھا جس کی بنا پر مجبوراً تیری قوم کے ساتھ ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا، جس پر میں بہت معذرت خواہ ہوں۔ مگر تم خود جانتی ہو کہ یہ سب کچھ ہمیں مجبوراً اور جواباً کرنا پڑا ہے۔ حضرت صفیہ ؓ فرماتی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں رسول کریمؐ کے پاس سے اٹھی تو آپؐ کی محبت میرے دل میں ایسی رچ بس چکی تھی کہ دنیا میں آپؐ سے بڑھ کر مجھے کوئی پیارا نہ رہا۔

(مجمع الزوائد ھیثمی باب فی حسن خلقہ جلد 9ص 15)

یہ واقعہ رسول اللہ کے خلق عظیم کا شاہکار اور آپؐ کی عائلی زندگی کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ مگر حضرت صفیہ ؓ ان عاشقان رسولؐ میں اکیلی نہیں تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کم از کم 3شادیاں دشمن قبائل میں ہوئی تھیں۔ مگر رسول اللہؐ کے حسن سلوک نے نہ صرف ان ازواج کو بلکہ ان تمام قبائل کو فتح کر لیا تھا۔

دشمن قبائل کی تسخیر

شعبان 5ھ میں حضرت جویریہ ؓسے رسول اللہؐ کا نکاح ہوا حضرت جویریہ ؓ کا باپ حارث بن ابی ضرار بنو مصطلق کا سردار تھا۔ اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا۔ یہ قبیلہ لوٹ مار، ڈاکہ و رہزنی میں بھی ایک نام رکھتا تھا۔ اسلام کے خلاف جنگوں میں بنو مصطلق بھی ضرور شریک ہوتے تھے۔ اسی بناء پر جب غزوہ بنی مصطلق ہوا تو اس کے نتیجہ میں بہت سے افراد قیدی کے طور پر مدینہ لائے گئے جن میں سردار قبیلہ حارث بن ابی ضرار کی بیٹی بّرہ(حضرت جویریہؓ) بھی تھی۔اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی۔ صحابہ ؓ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے آقاؐ نے بنو مصطلق کی رئیس زادی کو شرف ازدواجی عطا فرمایا ہے تو انہوں نے اس بات کو خلاف شان نبویؐ سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی قبیلہ کو اپنی قید میں رکھیں۔ چنانچہ اس طرح ایک سو گھرانے یعنی سینکڑوں قیدی بلا فدیہ یک لخت آزاد کر دئیے گئے۔ اسی بناء پر حضرت عائشہ ؓ فرمایاکرتی تھیں کہ جویریہ اپنی قوم کے لئے نہایت مبارک وجود ثابت ہوئی ہے۔ اس رشتہ اور اس احسان کا یہ نتیجہ ہوا کہ بنو مصطلق کے لوگ بہت جلد اسلام کی تعلیم سے متاثر ہوکر اپنی پرانی عادات ڈکیتی و رہزنی چھوڑ کرنیک نمونہ اختیار کرنے لگے اور پھر بلا تاخیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو گئے۔

(سیرۃ ابن ہشام باب غزوۃ بنو المصطلق و ذکر ازواجہ)

حضرت ام حبیبہؓ کا باپ ابو سفیان عمائد ین قریش میں سے تھا اور غزوہ احد اور حمرء الاسد ، احزاب وغیرہ لڑائیوں میں ابو سفیان ہی قائد قریش نظر آتا ہے مگر اس تزویج مبارکہ کے بعد وہ کسی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرتا نظر نہیں آتا، بلکہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد خود بھی اسلام کے جھنڈے کے نیچے آ کر پناہ لیتا ہے۔

حضرت ام حبیبہ ؓ کا باپ ابو سفیان عمائدین قریش میں سے تھا اور غزوہ احد اور حمراء الاسد ، احزاب وغیرہ لڑائیوں میں ابو سفیان ہی قائد قریش نظر آتا ہے مگر اس تزویج مبارکہ کے بعد وہ کسی جنگ میں مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرتا نظر نہیں آتا، بلکہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد خود بھی اسلام کے جھنڈے کے نیچے آ کر پناہ لیتا ہے۔

یہ ام حبیبہ ؓرسول اللہؐ کے عشق میں اس قدر مخمور تھیں کہ ایک دفعہ ان کا والد ابو سفیان ملنے آیا اور رسول اللہؐ کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو ام حبیبہ ؓنے بستر لپیٹ دیا۔ ابو سفیان سخت برہم ہو ا مگر انہوں نے کہا کہ آپ مشرک ہیں اور یہ رسول اللہؐ کا بستر ہے اس لئے اس پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔

(الاصابہ جلد 7ص 653)

عدل کا معراج

مخفی مگر دیر پا اثرات کی حامل حکمتوں کے تحت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کا شانۂ اقدس میں بیک وقت مختلف المزاج، حیثیت اور عمر کی بیویاں ہیں۔ ان میں رؤسائے عرب کی چشم و چراغ بھی ہیں اور غریب و نادار لڑکیاں بھی۔ صاحب جمال بھی ہیں اور صاحب کمال بھی ۔ سن رسیدہ بھی ہیں اور چودہ پندرہ سال کی عمر والی بھی۔ تیز مزاج بھی ہیں اور حلم و صبر والی بھی۔ گویا کاشانۂ نبوت میں مختلف الخیال عناصر کا اجتماع ہے۔ ان سب کی استعدادوں، ضروریات اور عقل و فہم کے مطابق ان کے حقوق کی ادائیگی اور تربیت ایک پہاڑ معلوم ہوتا ہے جبکہ نبوت کے دیگر لاتعداد فرائض بھی آپ کے منتظر ہوتے ہیں مگر یہ آپؐ ہی کی شان ہے کہ ازواج مطہرات کے درمیان حیرت انگیزطور پرعدل و انصاف فرماتے ہیں۔

چنانچہ آپؐ کھانے پینے، پہننے، گزارہ اور ملاقات میں ہر ایک بیوی کے ساتھ مساوی سلوک فرماتے ہیں۔ عموماً بعد نماز عصر ہر ایک بیوی کے مکان پر تشریف لے جا کر ان کی ضروریات معلوم فرماتے ہیں اور بعض دفعہ سب بیویوں سے ایک مکان میں مختصر ملاقات فرماتے ہیں اور نوبت بہ نوبت ہر ایک کے گھر میں استراحت فرمایا کرتے ہیں۔ کسی حال میں بھی ایک بیوی کو دوسری کی حق تلفی کی اجازت نہیں دیتے اور ان بے خطا تدبیروں کے ساتھ پر سوز دعاؤں کے تیر بھی شامل ہیں۔ ہمیشہ یہ دعا زبان مبارک پر جاری رہتی ہے کہ اے میرے اللہ میری یہ تقسیم اس دائرہ میں ہے جس میں مجھے اختیار ہے یعنی اپنے دائرہ اختیار میں میں اپنی تمام ازواج سے انصاف کا سلوک کرتا ہوں مجھے ان باتوں میں ملامت نہ کرنا جن میں میرا کوئی بس نہیں چلتا۔

(جامع ترمذی۔ ابواب النکاح باب فی التسویۃ بین الضرائر حدیث نمبر1059)

ازواج کے مابین محبت کے خواہاں

آپؐ چاہتے تھے کہ آپ کی ازواج کے مابین بھی محبت اور الفت کے تعلقات پیداہوں اور حتی الامکان کوئی رنجش نہ ہو۔
حضرت عائشہ ؓروایت کرتی ہیں کہ میں نے گوشت کی یخنی نکال کر اس میں کچھ آٹا ملا کر اسے پکایا۔ عرب میں یہ بڑا مقوی اور زود ہضم کھانا تھا جسے خزیرہ کہتے تھے۔ حضرت سودہؓ بھی وہیں تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ میں نے سودہ سے کہا آؤ کھا لو۔ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ میں نے پھر اصرار کیا انہوں نے پھر انکار کر دیا۔میں نے پھر کھانے پر اصرار کیا اور کہا کہ اگر تم اب بھی نہیں کھاؤ گی تو میں اسے تمہارے منہ پر مل دوں گی۔ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ چنانچہ میں نے خزیرہ لے کر ان کے منہ پرلیپ کر دیا۔ حضورؐ نے یہ ماجرا دیکھا تو ہنس پڑے۔ اور یہ عادلانہ فیصلہ فرمایا کہ آپؐ نے مجھے بٹھا لیا اور سو دہ سے فرمایا کہ اب تم یہ خزیرہ عائشہ کے منہ پر مل دو۔ چنانچہ سودہ نے بھی از راہ مذاق ایسا ہی کیا۔ اور حضورؐ خوب ہنسے۔

(شرح المواھب للزرقانی جلد 4ص 271)

سفروں میں احسان کا سلسلہ

عدل اور احسان کا یہ سلسلہ سفروں میں بھی جاری رہتا ہے عام طور پر سفروں کے وقت قرعہ اندازی کرکے ایک بیوی کو ساتھ لے جاتے ہیں اور وہ آپ کے جود و کرم سے فیضیاب ہوتی ہے۔

پہلے عورت

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ عسفان سے واپسی کے وقت ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ حضورؐ کے پیچھے اونٹنی پر حضرت صفیہ ؓ بیٹھی ہوئی تھیں۔ اونٹنی کے ٹھوکر کھانے کی وجہ سے دونوں گر پڑے۔ ابو طلحہ حضورؐ کو سہارا دینے کے لئے لپکے۔ حضورؐ نے فرمایا علیک المراۃ پہلے عورت کا خیال کرو۔ ابو طلحہ یہ سن کر منہ پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہ کے پاس آئے اور ان پر کپڑا ڈال دیا۔ پھر ان دونوں کے لئے سواری کو درست کیا ۔ حضورؐ اور حضرت صفیہ اس پر سوار ہو گئے۔

(بخاری کتاب الجھاد حدیث نمبر2856)

حضور ؐ کا فرمان کیسا عجیب ہے میرا خیال چھوڑ و عورت کی خبر لو، گویا Ladies First کا محاورہ سب سے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جاری ہوا۔

ایک سفر میں آپؐ کی بیویاں اونٹوں پر سوار تھیں کہ حدی خواں انجشہ نامی نے اونٹوں کو تیز ہانکنا شروع کر دیا۔ آنحضرتؐ فرمانے لگے ’’ اے انجشہ! تیرا بھلا ہو۔ ان نازک شیشوں کا خیال رکھنا۔ ان آبگینوں کو ٹھوکر نہ لگے۔ یہ شیشے ٹوٹنے نہ پائیں ۔ اونٹوں کو آہستہ ہانکو‘‘۔ اس واقعہ کے ایک راوی ابو قلابہ ؓ بیان کیا کرتے تھے کہ دیکھو رسول اللہ ؐ نے عورتوں کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو شیشے کہا۔ یہ محاورہ اگر کوئی اور استعمال کرتا تو تم لوگ عورتوں کے ایسے خیر خواہ کوکب جینے دیتے ضرور اسے ملامت کرتے۔

(مسلم کتاب الفضائل باب رحمۃ النبیؐ حدیث نمبر 4287)

جس طرح گلاس کے پیکٹ پر لکھا ہوتا ہے Glass With Care اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محاورہ عورت کے لئے ایجاد فرمایا تھا۔
روایات میں حضرت عائشہ ؓ کا ہار ایک سے زیادہ مرتبہ گم ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ ایک ایسے ہی موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت سے حضرت عائشہ ؓ کے ہار کی تلاش میں کچھ لوگ بھجوائے اور نتیجۃً اسلامی لشکر کو اس جگہ پڑاؤکرنا پڑا جہاں پینے کے لئے پانی میسر تھا نہ وضو کے لئے ۔ ایسی صورت میں حضرت عائشہؓ کے والد حضرت ابو بکرؓ بھی آپؓ سے ناراض ہو گئے اور سختی سے انہیں فرمانے لگے:تم ہر سفر میں ہی مصیبت اور تکلیف کے سامان پیدا کر دیتی ہو۔ مگر آنحضورؐ نے کبھی ایسے موقع پر حضرت عائشہؓ کو کوئی سخت کلمہ نہیں کہا حالانکہ ان کی وجہ سے آپؐ کو پورے لشکر کا پروگرام بدلنا پڑا اور تکلیف بھی اٹھانی پڑی۔

(صحیح بخاری کتاب التیم باب فلم تجدوماء اً حدیث نمبر 322)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ناز نخرے اور زیادتیاں برداشت کرتے مگر ان سے عفو کا سلوک فرماتے۔
حضرت میمونہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات رسول کریمؐ کی باری میرے ہاں تھی آپؐ باہر تشریف لے گئے تو میں نے دروازہ بندکر دیا۔ آپ نے واپس آکر کھٹکھٹایا تو میں نے کھولنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے فرمایا تمہیں قسم ہے کہ تم ضرور دروازہ کھولو گی۔ میں نے کہا کہ آپ میری باری پر کسی اور بیوی کے گھر چلے گئے تھے تو آپؐ نے فرمایا ہرگز نہیں مجھے پیشاب کی شدید حاجت تھی اس لئے باہر نکلا تھا۔

(طبقات ابن سعد جلد 1ص 365)

وہ دشمن جو رسول اللہ ؐپر زبان طعن دراز کرتے ہیں ان کا منہ بند کرنے کے لئے خدا کی تقدیر نے یہ نظارہ بھی دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج نے آپ سے کچھ مطالبے کئے جس پر سورۃ احزاب کی آیات 30،29 نازل ہوئیں جن میں کہا گیا کہ اگر تم دنیاوی اموال چاہتی ہو تو میں تمہیں دے کر رخصت کر دیتا ہوں مگر تمام ازواج مطہرات نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور کسی نے بھی آپ کا دامن نہیں چھوڑا۔

(صحیح بخاری کتاب التفسیر۔ سورۃ احزاب حدیث نمبر4412)

اور درحقیقت محمد مصطفی ؐکے قدموں کی جنت چھوڑ کر جا بھی کون سکتا تھا۔مگر خدا کا رسول چاہتا ہے کہ دنیا کا گھر گھر اسی جنت کاپرتو بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(عبدالسمیع خان۔غانا)

پچھلا پڑھیں

نیکی کی جزا

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ