• 5 مئی, 2024

ممکنہ تیسری عالمی جنگ (قسط 1)

ممکنہ تیسری عالمی جنگ
قسط 1

قارئین الفضل کے لئے ایک نئے سلسلے کا آغاز

دنیا میں جنگوں کا ظہور جس کی کچھ وجوہات ذیل میں آپ کی نظر سے گزریں گی، جو دراصل انسان کی اس ہٹ دھرمی اور کبر و غرور کے سبب سے ہے کہ انسان نے اُن تعلیمات کو جو اس کے خالق نے عطا فرمائی تھیں یکسر پسِ پشت ڈال دیا اور ہر دور میں اُس نے یہی سمجھا کہ بس یہی دنیا اور اس کا وجود ہی سب کچھ ہے۔

سب سے پہلی جنگ

نسل آدم کی پہلی جنگ اگر غور کریں تو وہ خود آدم اور شیطان کے ما بین ہوئی۔ اور اس میں حکم الہٰی سے روگردانی اور غیراللہ کی پیروی نے آدم کو خجالت سے ہم آغوش کیا۔ پھر آدم کی وہی فضیلت ’’علم‘‘ کہ اس کو اسماء سکھائے گئے تھے ایک دفعہ پھر آدم کو عطا کی گئی اور اللہ تعالیٰ اس کی پشیمانی کو قبول فرماتے ہوئے رجوع برحمت ہوا اور آدم کو کلمات سکھائے اور اس نے ان کلمات سے اپنے اوپر توبہ، استغفار اور پردہ پوشی کا دروازہ وا کیا۔ اگر غور کریں تو انسان کے پاس ماسوئے استغفار کے کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اس کی ساری عمر کی کمائی یہی ہوتی ہے:

؎بس اک داغ سجدہ میری کائنات
جبینیں تیری آستانے تیرے

سورۃ الکہف کی آیت 74 کی تفسیر میں جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ اے لوگو تم شیطان کو کیا اس لئے دوست بناتے ہو کہ اس سے ترقی حاصل کرلو گے۔ حالانکہ تمہاری پیدائش میں اس کا کوئی دخل نہ تھا اور نہ اس کا زمین و آسمان کی پیدائش میں تھا بلکہ انسان کی تمام قوتیں نیکی کی خاطر پیدا کی گئی تھیں۔ اگر کوئی قوم خدا تعالیٰ سے دور ہو کر ترقی بھی کر جائے تو مت خیال کرنا کہ اب خدا تعالیٰ دنیا کا کام اس کے ہاتھ میں دے گا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کی حکومت اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور رکھے گا ایسے لوگوں کی کامیابیاں محض عارضی ہوتی ہیں۔ پھر فرمایا اس آیت میں ایک عظیم الشان مضمون بیان کیا گیا ہے۔ گزشتہ مضمون بتا رہا ہے کہ شیطان یا اس کی ذریت کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں کوئی دخل حاصل ہونا تو الگ رہا ان کو اس سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ پس صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس زمانہ کا اس آیت میں ذکر ہے۔ اس میں بعض آدم کے مخالف یا دین سے بے بہرہ لوگ ایک نئی دنیا بسانے کے مدعی ہوں گے اور کہیں گے کہ وہ اپنے زور سے ایک نئی دنیا بسائیں گے۔ اور ایک نیا نظام قائم کریں گے اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا کبھی پہلے ایسا ہوا ہے کہ نئی دنیا اور نیا نظام بنانے میں اللہ تعالیٰ نے شیطان اور اس کی ذریت سے مدد لی ہو۔ اگر پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تو آئندہ کس طرح ممکن ہے۔ ہمیشہ نئی دنیا اور نیا نظام اللہ تعالیٰ آدم اور فرشتوں کے ذریعہ سے بنایا کرتا ہے۔ پس اب بھی اسی طرح ہو گا نئی دنیا اور نیا نظام آدم ہی کے ذریعہ سے بنائے جائیں گے۔

جنگ کی وجہ، فلاسفی اور ضرورت
مامور من اللہ کا انکار

جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو سعادت مند لوگ اسے قبول کرکے انعامات کے حق دار بنتے ہیں۔ اور جو بد نصیب اس کے مقابل پر شوخی اور استہزاء سے کام لیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے حصہ پاتے ہیں اگر اس اتمام حجت کے بعد بھی دنیا گناہوں میں ترقی کرتی جائے تو یہ بد اعمالیاں خداتعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے کا باعث بنتی ہیں۔

(سلسلہ عالیہ احمدیہ، صفحہ34)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک تقریر زیر عنوان، ’’امنِ عالم کے ذرائع‘‘، فرمائی تھی، آپ نے اپنی اس تقریر میں جنگوں کے وقوع پذیر ہونے کو بھی بہت تفصیل کے ساتھ بیان فرماتے ہوئے جنگ کی آٹھ وجوہات پر روشنی ڈالی تھی۔آپ ہی کے الفاظ میں وہ وجوہات درج ذیل ہیں:

لالچ

جنگ کی تحریک کی ایک بنیاد لالچ ہوتی ہے۔ اس لئے اسلام نے حکم دیا لاَ تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ (طہٰ: 132) کہ جو تمہارے ارد گرد قومیں ہوں ان کی طرف لالچی نظر سے مت دیکھو۔ چونکہ لالچ سے نفرت اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک بعث بعد الموت پر یقین نہ ہو۔ اسلام نے حیات بعد وفات پر بار باریہ فرمایا قرآن کریم میں ہے کہ کافر کہتے ہیں کہ وہ دوبارہ اُٹھائے نہیں جائیں گے مگر یہ بالکل غلط ہے۔ (تو کہہ دے)مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ تم ضرور اُٹھائے جاؤ گے۔

اپنے کلچر کو اعلیٰ سمجھنا

جنگ کا دوسرا محرک یہ ہوتا ہے کہ کوئی قوم اپنا کلچر اعلیٰ سمجھ کر دوسری قوموں میں جاری کرنا چاہتی ہے۔ اسلام نے اس سے بھی روکا ہے۔ سورۃ الحجرات میں فرمایا: ’’اے مومنو، کوئی قوم دوسری قوم کو اپنے تصرف اور دبدبہ کے نیچے اس خیال کے ماتحت نہ لائے کہ میں اس سے اعلیٰ ہوں کیونکہ ممکن ہے اس کی تہذیب کی خامیاں کل ظاہر ہو جائیں۔‘‘

مذہبی برتری قائم کرنا

جنگ کا تیسرا سبب مذہبی برتری قائم کرنا ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اسے لَآ إِكْرَاهَ فِى الدِّينِ ۖ (البقرہ: 257) کہہ کر رد کیا اور بتایا کہ اگر ایک مذہب خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں تو اسے لوگوں سے زبردستی منوانا بیوقوفی ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو جب خدا تعالیٰ زبردستی نہیں منواتا تو کسی اور کے لئے کیونکر جائز ہے۔

حمیت جاہلیت

جب کوئی فرد یا قوم کسی بادشاہ کی یا وزیر کی ہتک کر دیتا ہے تو لڑائی چھڑ جاتی ہے اور لاکھوں جانیں جاتی ہیں۔ یہ حمیت اور جاہلیت اسی وقت پید اہوتی ہے جب طبیعت میں حسد اور غصہ کے جذبات ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں فرمایا ہے وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُوا۟ ۚ اعْدِلُوا۟ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰۖ (المائدہ: 9) عداوت، بغض یا طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ایسا نہ ہو کہ تم دوسروں سے لڑو بلکہ چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔

ایک ملک کا دوسرے ملک کے لئے اپنے دروازے بند کردینا

جنگ کا پانچواں سبب یہ ہوتا ہے کہ ایک حکومت دوسری حکومت کے لئے اپنے ملک کے دروازے بند کر دیتی ہے۔ یہ مذہبی اغراض کے لئے ایک محدود علاقہ کے لئے جائز ہو سکتا ہے جیسا کہ مکہ مکرمہ کی حدود میں مشرکین کے داخلہ کو منع فرمادیا گیا ہے۔ مگر عام طور پر اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ فرمایا گیا تِلْكَ الدَّارُ الْـَٔاخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّۭا فِى الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًۭا (القصص: 84)

ناجائز فوائد حاصل کرنے کی کوشش

جنگ کا چھٹا موجب یہ ہوتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو کمزور کر کے اپنے لئے ناجائز فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے یہ بھی منع ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا (القصص: 8) فرعون نے اپنی قوم کے ٹکڑے کر دیئے ایک کو اعلیٰ عہدہ دیتا اور دوسرے کو گراتا۔ چونکہ اس طرح باہمی تنافر پیدا ہو کر لڑائی ہو جاتی ہے اس لئے اسلام اس سے منع کرتا ہے۔

سود

جنگوں کا ساتواں سبب سود ہے۔

قومی نااہلی اور کمزوری

آٹھواں سبب قوم خود پیدا کرتی ہے اور وہ ا س کی اپنی کمزوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (الانفال: 61) یعنی اپنے اندر جس قدر قوت پیدا کر سکتے ہو پیدا کرو۔

(انوارالعلوم جلد14، صفحہ162۔164)

جنگوں کے اسبا ب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عوام اپنی حکومت کے ساتھ مخلص نہیں ہیں اور دشمن کے ساتھ ساز باز تک نوبت آ گئی ہو۔ اس ضمن میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نےفرمایا جس کا مفہوم یہ ہے:
بعض اسلامی حکومتوں پر عیسائی حکومتوں نے اس لئے جنگ مسلط کر دی تھی کہ ان کو معلوم ہوا کہ وہا ں کے عیسائی باشندے اپنی حکومت کے خلاف ان کی مدد کریں گے۔ لہذا جب بیرونی حملہ ہوا تو اسی وقت اندرونی سازشیں بھی شروع ہو گئیں ایسے میں دشمن کو تقویت ملتی ہے اور وہ زیادہ وثوق کے ساتھ اپنی فتح کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو بہت سی جنگیں رک جائیں اور اگر شروع بھی ہو جائیں تو ایسی سلطنت جس کے گھر میں اتفاق و اتحاد ہو، دشمن کا عمدگی سے مقابلہ کر سکتی ہے اور اسے بھگا سکتی ہے۔ کیونکہ اسے گھر کا فکر نہیں ہوتا کہ اس میں فساد پید ا ہو جائے گا۔ اس لئے ساری توجہ او ر قوت دشمن کے دفاع میں لگ جاتی ہے اور اسے شکست دے دیتی ہے۔

(انوارالعلوم جلد4 صفحہ5۔6)

ماہ جون 2022ء میں ترکی کے صدر طیب اردوان نے اپنے ایک عوام سے خطاب میں قوموں کی تباہی کے ذیل میں ایک واقعہ بیان کیا کہ جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو ایک موقع پراُس نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اُس کی کسی عالم سے ملاقات کروائی جائے۔ کوئی عالم اس سے ملنے کو رضا مند نہ ہو رہا تھا آخر کار ایک نوجوان عالم دین نے رضامندی کا اظہار کیا اور اپنے ساتھ ایک اونٹ، ایک بکرا اور ایک مرغا لیکر ہلاکو خان کو ملنے کے لئے حاضر ہوا۔ اس کو دیکھ کر ہلاکو خان نے کہا کہ تمہارے علاوہ اور کوئی نہیں تھا؟ اس نے جواب دیا اگر آپ کسی بہت بڑے سے بات کرنا چاہتے ہیں تو خیمے سے باہر ایک اونٹ موجود ہے، اگر آپ کسی بڑی سی داڑھی والے سے بات کرنا چاہتے ہیں تو باہر ایک بکرا موجود ہے اور اگر آپ کسی بلند آواز والے سے بات کرنا چاہتے ہیں تو باہر ایک مرغا موجود ہے، ہلاکو خان نے لاجواب ہو کر کہا کہ یہ بتاؤ تمہاری اس شکست اور رسوائی کا سبب کیا ہے؟ اس عالم نے جواب دیا کہ یہ ہمارے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات کے کفران کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے دوسرا سوال کیا کہ اب تم لوگ کیسے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کروگے؟ عالم نے جواب دیا کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرنے لگیں گے اور خالص اس کے بندے بن جائیں گے تو وہ ہمیں دوبارہ معزز کر دے گا۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جو خط یو ایس اے، کے صدر باراک اوبامہ کو تحریر فرمایا تھا اس میں آپ نے جنگ کی وجوہات کی بابت فرمایا:

As we are all aware, the main causes that led to the Second World War were the failure of League of Nations and the economic crisis, which began in 1932. Today, leading economists state that there are numerous parallels between the current economic crisis and that of 1932. We observe that political and economic problems have once again led to wars between smaller nations, and to internal discord and discontentment becoming rife within these countries. This will ultimately result in certain powers emerging to the helm of Government who will lead us to world war.

اردو مفہوم: جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے، دوسری جنگ عظیم دوم کا باعث بننے والی بڑی وجوہات میں، لیگ آف نیشنز کی ناکامی اور وہ معاشی مسائل تھے جن کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ آج دنیا کے بڑے بڑے ماہرِ معاشیات اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت جو معاشی مسائل درپیش ہیں ان میں بڑی واضح مشابہات موجود ہیں جو1932 ء میں موجود تھیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی اختلافات اور معاشی مسائل کی وجہ سے دنیا میں اس وقت کئی چھوٹے ممالک بر سرِ پیکار ہیں، اور اندرونی رنجشیں اور بے چینی کی وجہ سے یہ ممالک افراتفری کا شکار ہیں۔ یہ آخرِ کار،ان حکومتوں کی وجہ سے جو ان ممالک کو شے دے رہی ہیں ایک عالمی جنگ کی شکل اختیا ر کر سکتا ہے۔

(The World Crisis and Path Way to Peace, page 15)

بعض دفعہ جنگ قیام امن کی ضامن ہوتی ہے

؎صلح کیتیاں فتح جے ہتھ آوے
کمر جنگ تے مول نہ کسیئے نی
جے کر یار دے ناں دی ملے سولی
چوھٹا لے لئے پشاں نہ ھیٹئے نی
خون دے کے لکھاں شہیداں دا
تاں بتی اک موم دی بلدی اے

جنگ کی بابت اگر کوئی یہ سمجھتا ہے یہ ہر حال میں ایک ممنوعہ فعل ہے، ایسا ہرگز نہیں خدا تعالیٰ نے مومنین کو سرحدوں پر ہر آن چوکس رہنے کا ارشاد فرمایاہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ بات بتا دی ہے کہ اگر دو مسلمان قومیں آپس میں لڑپڑیں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا کرو اور پھر ان کے درمیان جو صلح کا معاہدہ ہوا ہے کوئی ایک قوم اگر اس کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس کے خلاف جنگ کرو اور معاہدہ کی پابندی کراؤ۔

(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ57)

ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ:
بے شک محمد رسول اللہ ﷺ مدرس امن ہیں اور اسلام نے وہ تعلیم دی ہے جو فطرت انسانی کے مطابق ہے اور فطرت انسانی اس کا اقرار بھی کرتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا لڑائی بالکل ہی بری چیز ہے؟ قرآن کریم اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ امن کے قیام کے لئے بعض دفعہ جنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جیسے انسان کے جسم کا کوئی حصہ گل جائے تو فیس دے کر اس کو ڈاکٹر سے کٹوایا جاتا ہے اسی طرح سرطان کے مریض کے بعض اعضاء کو اس لئے کاٹ دیتے یا نکال دیتے ہیں تا باقی جسم صحت مند رہ سکے۔ اسی طرح ایک چھوٹے فائدہ کو قربان کرکے ایک بڑے فائدہ کو حاصل کیا جاتا ہے۔

ایک اور موقع پر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے فرمایا:
ہماری جماعت ہر موقع پر با امن جماعت رہی ہے۔ اب بھی با امن ہے اور با امن رہے گی۔ مگر اس کے معانی یہ نہیں کہ ہم کسی جبر سے اپنے حقوق چھوڑ دیں اور ان کی حفاظت نہ کریں۔ دنیا میں سب سے بڑھ کر باامن رسول کریم ﷺ تھے مگر آپ کی آخری عمر لڑائیوں میں ہی گزری۔ دراصل امن اور جنگ متضاد نہیں بعض دفعہ امن اور جنگ ایک ہی ہوتا ہے۔ بعض دفعہ جنگ امن کے خلاف ہوتی ہے اور بعض دفعہ جنگ ایک حد تک امن کے خلاف ہوتی ہے اور ایک حد تک اس کے موافق بعض دفعہ امن کے قیام کے لئے جنگ کرنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ امن کی بربادی کے لئے جنگ کی جاتی ہے اور بعض دفعہ بین بین حالت ہوتی ہے یعنی نیت تو امن قائم کرنے کی ہوتی لیکن فعل امن برباد کرنے والا ہوتا ہے۔ یا نیت تو امن برباد کرنے والی ہوتی ہے لیکن فعل امن قائم کر دیتا ہے۔ پس جبکہ قیام امن کے لئے جنگ بھی ضروری ہوتی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری اولادیں بہادر اور مضبوط دل کی ہوں۔ ہمارے ملک میں بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ جب مردوں کے لئے کوئی خاص کام کرنے کا وقت آتا ہے تو عورتوں میں شور پڑ جاتا ہے کہ ہمارے بچے، ہمارے بھائی، ہمارے خاوند، ہمارے دوسرے رشتہ دار تکلیف میں مبتلا ہو جائیں گے۔ رسول کریم ﷺ کو جہاں مرد جری اور بہادر ملے تھے وہاں عورتیں بھی نہایت قوی دلاور اور مضبوط حوصلہ والی ملی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریمﷺ اور آپ کے غلاموں نے بڑے بڑے کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ ورنہ اگر میدان جنگ میں جانے کے لئے گھر سے نکلنے والا مرد گھر میں روتی ہوئی ماں، چلاتی ہوئی بیوی، اور بے ہوش بہن کو چھوڑ کر جائے گا تو کوئی بہادرانہ کا م نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کے دل پر غم کا بادل چھایا ہوگا۔۔۔۔۔لیکن اگر وہ گھر والوں کو ہشاش بشاش چھوڑ کر جاتا ہے تو پوری طرح جان بازی دکھا سکے گا۔

(انوارالعلوم جلد11 صفحہ46۔47)

امن کے لئے جنگ کی ضرورت بیان کرتے ہوئے تاریخ سے ایک واقعہ بیان فرمایا: کہتے ہیں مہاراجہ کشمیر نے کشمیریوں کی ایک فوج تیار کی اور اسے دشمن کے مقابلہ کے لئے بھیجا۔ ان کے افسر مہاراجہ کے پاس واپس آئے اور کہا کہ ہم لڑائی پر جانے کے لئے تیار ہیں مگر ایک بات عرض کرنا چاہتے ہیں مہاراجہ سمجھا کہ شائد کہیں گے تنخواہ میں اضافہ ہونا چاہئے یا کوئی اورحق طلب کریں گے اس نے پوچھا کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ پٹھانوں سے مقابلہ ہے سنا ہے وہ بڑے سخت لوگ ہوتےہیں ہمارے ساتھ پہرے کا انتظام ضروری ہے۔ اسی دن سے اس قوم کو فوج میں بھرتی کرنا بند کر دیا گیا۔۔۔۔

حالانکہ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ محمود غزنوی نے جتنے حملے ہندوستان پر کئے ان میں سے صرف دو میں اسے شکست ہوئی اور یہ دو حملے وہی تھے جو اس نے کشمیر پر کئے۔

گویا کسی زمانے میں اس قوم نے وہ کام کیا جو ہندوستان بھر میں کوئی اور قوم نہ کر سکی تھی لیکن آہستہ آہستہ جب اسے جنگی کاموں سے الگ کر دیا گیا تو اس میں فوجی ملکہ نہ رہا تو یہی قوم بزدل بن گئی۔

(ماخوذاز ا نوارالعلوم جلد16، صفحہ270۔275)

آپ نے مزید اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود ؑ ایک بادشاہ کا واقعہ سنایا کرتے تھے جس نے حکم دیاکہ فوج پر خواہ مخواہ اتنا خرچ کرنا پڑتا ہے اور یہ کام بھی کچھ نہیں دیتی اس لئے اسے موقوف کر دیا جائے۔ چنانچہ فوج برخواست کر دی گئی۔ کسی نے کہا کہ فوج موقوف کر دی گئی تو دشمن کا مقابلہ کون کرے گا؟ بادشاہ نے کہا کہ اگر ایسا و قت آیا تو ہم ملک کے قصابوں کو جمع کر کے بھیج دیں گے۔ جب پاس کے کسی بادشاہ کو یہ اطلاع ہوئی تو اس نے اس ملک پر حملہ کر دیا۔ اس لئے ملک کے قصابوں کو کہا گیا کہ اپنی چھریاں اور چھرے لے کر جاؤ اور دشمن کا مقابلہ کرو قصاب چلے تو گئے لیکن تھوڑی دیر بعد بھاگتے ہوئے آئے فریاد، فریاد بادشاہ سلامت ان لوگوں کو روکا جائے اس طرح جنگ نہ کریں ہم تو ان میں سے کسی ایک کو پکڑ کر زمین پر لٹا کر بسم اللّٰہ اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر کہہ کر ذبح کرتے ہیں لیکن وہ تو بے تحاشہ قتل کرتے چلے جاتے ہیں کچھ دیکھتے ہی نہیں۔ اتنے میں حملہ آوروں نے بادشاہ کو بھی مار دیا اور ملک پر قبضہ کر لیا۔

خلاصہ یہی ہے کہ اگر آپ امن پسند اور صلح جُوبھی ہیں تو وہ جو آپ کے ملک پر حملہ آور ہو رہا ہے اس کو روکنے کا چارہ اب آپ کے پاس ہونا ضروری ہے۔ بصورت دیگر آپ کی سلامتی اور آپ کا وجود دونوں کسی اور کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اور اس کی مثالیں آج کی دنیا میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

بعض جنگیں جو بہت معمولی وجوہات پر لڑی گئیں
انگلینڈ اور فرانس کی جنگ

ایسی جنگوں میں ایک جنگ وہ ہے جو انگلینڈ اور فرانس کے مابین 115 سال تک جاری رہی۔ جنگ اس بات پر ہوئی کہ یہ دونوں ہی تاج فرانس کا خود کو حق دار گردانتے تھے۔ یہ جنگ 24؍مئی 1337ء سے لے کر 19؍اکتوبر 1453ء تک جاری رہی اور آخر کار فرانس ہی تاج ِ فرانس کا حقدار ٹھہرا۔

رومن کی سب سے بڑی لڑائی

یہ لڑائی جنگ کونائے کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ جنگ 218قبل مسیح سےلیکر 201قبل مسیح تک جاری رہی یہ جنگ رومن اور ہنی بال کے درمیان ہوئی۔

جنگ یسوس

زمانہ جاہلیت میں عرب بڑے فخر سے خانہ کعبہ میں اپنے مظالم کے قصے لٹکاتے تھے اور اپنے ظالم ہونے پر فخر کرتے تھے عرب میں ایک جنگ قبیلہ بنو تغلب او ر قبیلہ بنو بکر کے درمیان چالیس سال تک لڑی گئی تھی، اس کا باعث یہ تھا کہ بنو تغلب کا سردارجس کا نام کلیب تھا ایک دن ایک درخت کے نیچے کھڑا تھا کہ اس کو ایک پرندے کے بولنے کی آواز آئی اس نے جب اوپر نظر کی تو ایک پرندے کا گھونسلا اس نے دیکھا اور لہر میں آکر کہا، میں تمہیں پناہ دیتا ہوں۔ اتفاق کی بات اگلے دن جب وہ وہاں گیا تو دیکھا کہ گھونسلہ گرا ہوا ہے اور پاس ہی ایک اونٹنی چر رہی ہے۔ اس نے اندازہ لگایا کہ ضرور اس اونٹنی نے درخت کی شاخیں کھاتے کھاتے گھونسلہ گرا دیا ہے۔ یہ اونٹنی اس کی بیوی کے بھائی جساس کے ایک مہمان کی تھی، جساس کا تعلق قبیلہ بنو بکر سے تھا اور وہ اپنی خالہ جس کا نام بسوس تھا کے پاس رہتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں بسوس، کلیب کی خالہ ساس تھی۔ چونکہ جس پرندے کا گھونسلہ گرایا گیا تھا وہ سردار کلیب کی پناہ میں تھا اس لئے کلیب نے اس اونٹنی کو ہلاک کردیا۔ بسوس نے جب دیکھا کہ اونٹنی کو ماردیا گیا ہے تو اس نے عربوں کے رواج کے مطابق دہائی دینی شروع کردی کہ ظلم ہوگیا ہمارے مہمان کی اونٹنی کو کلیب نے ہلاک کر دیا کوئی ہے جو قبیلہ کی اس ہتک کا بدلہ لے، لہذا جساس اسی وقت اپنے بہنوئی کلیب کو جو کہ اپنے قبیلہ کا سردار تھا قتل کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں قبیلوں میں جنگ کا آغاز ہو گیا اور چالیس سال تک یہ جنگ جاری رہی اور اس جنگ میں بہت سی جانیں ضائع ہوئیں، بچے یتیم ہوئے اور عورتیں بیوہ ہوئیں انسانیت نے وسیع پیمانے پر اس سے دکھ اٹھائے مگر عرب اس بات پر ہی مصر رہے کہ ہم معاف نہیں کرتے بدلہ لیتے ہیں۔

(ماخوذاز خطبات طاہر جلد دوم صفحہ9۔10)

عربوں کی ایک جنگ

حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ نے عربوں کی ایک جنگ کے بارے تفسیر کبیر جلد10 صفحہ179 پر ذکر فرمایا جو سو سال تک لڑی گئی تھی واقعہ یوں ہے کہ ایک عرب کے کھیت میں ایک کتیا نے بچے دے دیئے کسی عرب کا اونٹ کھل کر اس کھیت میں چلا گیا اور اس کے پاؤں تلے ایک بچہ کتیا کا مر گیا، کھیت والے نے سمجھا کہ کتیا نے میرے کھیت میں پناہ لی تھی اس کا بچہ ماراگیا ہے اس لئے مجھے اس کا بدلہ لینا چاہئے لہذا اس نے اس اونٹ کو مار دیا۔ جس کا اونٹ تھا وہ کسی اور عرب کا مہمان تھا۔ اس عرب نے کہا چونکہ میرے مہمان کا اونٹ مارا گیا ہے اس لئے اس کا بدلہ لینا میرا فرض ہے اس لئے اس اونٹ کو مارنے والے عرب کو مار دیا۔ اس مقتول کی قوم نے اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لئے اجتماع کیاجس پر قاتل کی قوم نے اپنے بھائی کی مدد کا فیصلہ کیا اور باہم جنگ شروع ہو گئی جس میں آہستہ آہستہ دوسری اقوام بھی شامل ہوتی گئیں اور سارے عرب میں سو سال تک جنگ ہوتی رہی۔ جب رسولِ کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عرب پر حکومت عطا فرمائی تو اس وقت تک ہزاروں انسانوں کا خون اسی قسم کے بدلوں میں لیا جا چکا تھا اور سینکڑوں انسان ایسے تھے جن کے خون کا بدلہ لیا جانا ابھی لیا جانے والا تھا ا س لئے اس فتنہ کوختم کرنے کے لئے آپ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ایک واعظ فرمایا۔۔۔ آئندہ ہر خون کا بدلہ لینے کی حکومت ذمہ دار ہو گی۔۔۔ باقی رہے پچھلے خون سو آج میں ان سارے خونوں کو معاف کرتا ہوں اب کسی کا کوئی حق نہیں کہ وہ ان میں سے کسی خون کا بدلہ لے اس پر سب لوگ تسلی پا گئے اور امن قائم ہو گیا۔

دنیا میں برپا ہونے والی ہولناک جنگوں کا ذکر

اگر گوگل پر ہولناک جنگوں کے لئے تلاش کریں تو مندرجہ ذیل بارہ جنگوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس میں سے چھ جنگیں ہیں جو مختلف متحارب گروہوں/ ملکوں کے درمیان ہوئیں اور چھ باقی جنگیں کہہ لیں یاخونی انقلابات ہیں جن میں سے ایک روس میں اور باقی پانچ چین میں مختلف وقتوں میں کئی کئی سال جاری رہے ہیں اور ان میں ہر بار لاکھوں کی تعداد میں انسانی جانیں ہلاکت کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ ذیل میں ان جنگوں کا ذکر وقوع پذیر ہونے کی ترتیب سے کیا گیا ہے اور اس کے بعد ان خونی انقلابات کا ذکر ہے۔

اول۔ تیس سالہ جنگ

یہ جنگ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مملکتوں کے درمیان یورپ میں 1618ء سے لیکر 1648ء تک جاری رہی۔ چونکہ اس جنگ کی مدت تیس سال تھی اس لئے اس کو اسی لحاظ سے تیس سالہ جنگ کا نام دیا گیا۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق اس جنگ میں لگ بھگ آٹھ ملین شہری اور فوجی ہلاک ہوئے۔

نیپولین کی جنگیں

یہ جنگیں 1803ء سے لے کر 1815ء تک لڑی جاتی رہیں یہ فرانس کی بادشاہت اور اس کے خلاف اٹھنے والے مختلف اتحادوں کے درمیان ہوتی رہی تھیں۔ ان جنگوں کو تیسری کولیشن، چوتھی کولیشن، پانچویں، چھٹی، ساتویں اور فائنل کولیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان جنگوں میں براہ راست اور بلواسطہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ساڑھے تین سے لے کر چھ ملین شمار کی گئی تھی۔

سوم۔ پہلی عالمگیر جنگ

یہ جنگ 28؍جولائی 1914ء کو شروع ہوئی اس کے آغاز کاسبب آسٹریا کے آرچ ڈیوک کا قتل بنا۔ اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا ہنگری، بلغاریہ، اور سلطنت عثمانیہ شامل تھے جبکہ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، کینیڈا، جاپان اور امریکہ شامل تھے۔ یہ جنگ چار سال جاری رہی اور 11؍نومبر 1918ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ اس جنگ میں لگ بھگ گیارہ ملین فوجی اور سات ملین شہری آبادی موت سے ہمکنار ہوئی اس طرح اندازہ ہے کہ اٹھارہ ملین افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ جنگ عظیم اول کا آغاز اتنی اچانک ہوا کہ لوگ حیران رہ گئے اور بڑے بڑے مدبروں نے اقرار کیا کہ گو وہ ایک جنگ کے منتظر توتھے مگر اس قدر جلد پھوٹ پڑنے کی ان کو امید نہ تھی اور وجہ اس کی آسٹریا کے شہزادے اور اس کی بیوی کا قتل بنا اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا جنگ کی آگ میں کود پڑی۔

چہارم: دوسری چین جاپان جنگ

یہ جنگ مارکو پولو برج کے واقعہ کے ساتھ شروع ہوئی بعد میں ایک بھرپور جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ یہ جنگ 1937ء سے لے کر 1945ء تک جاری ر ہی اس جنگ میں دونوں اطراف سے شہری آبادی میں ہونے والی ہلاکتیں لگ بھگ بیس ملین او ر فوجیوں کے اس جنگ میں کام آنے کی تعداد پانچ ملین شمار کی گئی تھی۔ اس طرح کل ہلاکتوں کی تعداد پچیس ملین بنتی ہے۔

پنجم۔ دوسری عالمگیر جنگ

یکم ستمبر 1939ء کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس کے جواب میں برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ یہ جنگ چھ سال جاری رہی اور 8؍مئی 1945ء کو اس کا اختتام ہوا۔ اس جنگ میں لگ بھگ پینتالیس سے ساٹھ ملین لوگوں نے جانیں گنوائیں جس میں ایک اندازے کے مطابق چھ ملین یہودیوں کو جرمن کی نازی پارٹی نے قتل کیا۔ بعض ویب سائٹس پر جانی نقصان کا اندازہ ساٹھ ملین بھی بتایا ہے۔ عالمگیر جنگ عظیم اول اور دوم کا تفصیلی ذکر الگ سے بھی اگلے صفحات میں آئے گا۔

ششم۔ دوسری کانگو جنگ

اس جنگ کو دنیائے افریقہ کی جنگ بھی کہا جاتا ہے اس جنگ میں کانگو، زمباوے، نمبیا، انگولا، چاڈ، سوڈان، راوانڈا، یوگنڈا اور زائرے یعنی 9 ممالک نے حصہ لیا۔ یہ جنگ 1998ء سے شروع ہو کر 2003ء تک جاری رہی تھی۔ اس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کے علاوہ جنگ کے باعث آنے والے قحط، بیماریوں اور نسل کشُی کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تعداد پانچ ملین اور چارلاکھ کے لگ بھگ شمار کی گئی تھی۔

ہفتم

امریکہ کی جنونی نفسیاتی کیفیت اور اس کی شمالی ویتنام، عراق، کویت اور افغانستان پر مسلط کردہ جنگیں۔

الف۔ امریکن ویتنام جنگ

ویتنا م کی جنگ کا آغاز اگست 1946ء کو ہوا۔ اس وقت ویتنام کے قریب سمندر میں دو امریکن جنگی جہاز موجود تھے۔ جنگ کا آغاز کرنے کےلئے امریکہ کوئی بہانہ تلاش کر رہا تھا تا وہ جنوبی ویتنام کی حمایت میں شمالی ویتنام کو شکست دے کیونکہ جنوبی ویتنام غیر اشتراکی اور شمالی ویتنام اشتراکی ملک تھا اور دونوں ایک دوسرے سے جنگ لڑ رہے تھے۔ اس جنگ میں جو بمباری وہاں پر کی گئی اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس جنگ میں ساڑھے آٹھ سال کے عرصے میں دن رات بمباری کی جاتی رہی اور اس کا وزن پچیس لاکھ ٹن بنتا ہے۔

(سید انور احمد شاہ۔بُرکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جنوری 2023