• 10 دسمبر, 2024

دیوان حافظ اور حافظ شیرازی کا تعارف

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ملفوظات میں اور کتب میں فارسی زبان کے جن چوٹی کے شعراء کے کلام کو بارہا بطور مثال پیش فرمایا ہے ان میں سے حافظ محمد شیرازی بھی ایک ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے تفسیری لیکچرز میں جابجا حافظ محمد شیرازی کے اشعار کو بیان فرمایا ہے۔ فارسی شعراء میں حافظ شیرازی کا مقام بہت بلند ہے۔ اسی حافظ شیرازی کا مختصر تعارف الفضل کے قارئین کی خدمت میں پیش ہےَ

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حافظ شیرازی کے بارہ میں اپنے منظوم کلام در مکنون میں فرماتے ہیں:

؎کجا رفت حافظ که دیوان اُو
دہد یاد از رفعت شان اُو
رهِ رَاستِی آورد در مَقَال
اَزِین اعتبار است اُفتَد بِفَال

ترجمہ: حافظ کہاں گیا کہ جس کا دیوان اس کے بلند مقام کی گواہی دیتا ہے اور وہ اس قدر اپنے دیوان میں سچی بات کرتا ہے کہ اس کے کلام سے فال لی جاتی ہے۔

حافظ کا نام محمد،لقب شمس الدین اور تخلص حافظ تھا۔ حافظ نے خود اپنا نام یوں تحریر کیا ہے: محمد بن المقلب بہ شمس الحافظ الشیرازی۔ حافظ کے سال ولادت کے بارے میں محققین کا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں تحریر ہے کہ حافظ آٹھویں صدی کے آغاز میں پیدا ہوئے۔ محترم نفیسی نے حافظ کا سال پیدائش 726 ہجری سے 729 ہجری کے درمیان قرار دیا ہے۔ مختلف شہادتوں کی بنیاد پر حافظ کا سال ولادت 726 ہجری مانا جاتا ہے۔ حافظ شیرازی کا ایک بیٹا 764 ہجری میں فوت ہوا۔ اس وقت حافظ کی عمر 37 سال تھی۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حافظ کا سال ولادت 726 ہجری ہے۔ اس طرح حافظ کا سال وفات 791 ہجری تحریر کیا گیا ہے۔ اس طرح وفات کے وقت حافظ کی عمر 65 سال تھی۔ حافظ کے دادا کا لقب غیاث الدین اور باپ کا لقب بعض تذکرہ نگاروں نے بہاءالدین اور بعض نے کمال الدین تحریر کیا ہے۔

حافظ کے والد اصفہان میں رہتے تھے۔ بعد میں اپنا وطن چھوڑ کر تجارت کی غرض سے اہل و عیال کے ساتھ شیراز آن بسے۔ والد کی وفات پر حافظ کی ماں اور دو بھائی باقی رہ گئے۔ بھائیوں میں حافظ سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی خواجہ خلیل عادل 775 ھجری میں وفات پا گئے جبکہ دوسرا بھائی ماں اور بھائی کو تنہا چھوڑ گیا۔ حافظ محنت مزدوری کرکے روزی کماتے اور فرصت کے وقت قریبی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے۔ انہوں نے بعد میں شیراز کے نامور اساتذہ سے متداولہ علوم حاصل کیے اور قرآن مجید حفظ کیا اور اسی نسبت سے حافظ تخلص اپنایا۔ آپ نے الہیات، تفسیر،فقہ اور حکمت کا مطالعہ کیا۔ علم ہندسہ اور موسیقی سے بھی آپ کو بہت لگاؤ تھا۔ آپ کے معاصر اور ہم درس نے آپ کو مولانا الاعظم، استاد تحاریرالادباء اور فخرالعلماء کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ آپ کو لسان الغیب بھی کہا جاتا ہے۔ حافظ شیرازی کی زندگی کا زمانہ 726 سے 792 ہجری شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ایران میں جنگ و جدال اور ناآرامی کا زمانہ تھا۔ تیموری حملوں کے نتیجے میں ایران کی بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں۔ اس کے باوجود علما اور شعرا علمی اور عرفانی محفلیں برقرار رکھتے تھے۔ حافظ نے شیخ مجدالدین، شیخ بہاؤالدین، سید شریف جرجانی اور شمس الدین عبد اللہ شیرازی سے استفادہ کیا۔ انہیں شیراز سے بے حد محبت تھی اسی لیے انہوں نے مصلی اور رکن آباد سے دوری اختیار نہ کی۔ اپنی پوری زندگی میں یزد اور ہرمز کی جانب دو مختصر سفر کیے جو ان کے لیے خوشگوار نہ تھے۔ دیوان حافظ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کے اہل و عیال بھی تھے جن کی رفاقت میں وہ اپنے دکھ بھول جایا کرتے تھے۔ ان کا ایک بیٹا ان کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا مگر اس کے باوجود ان کے دل سے اپنے گھر اور اہل خانہ کی محبت کم نہ ہوئی۔حافظ نے 791 ہجری میں شیراز کے مقام پر وفات پائی اور مصلی کے مقام پر دفن ہوئے۔ ان کا مزار ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے۔

حافظ شیرازی کی زندگی کے ابتدائی دور میں حملہ منگول کے بعد امیر مبارز الدین محمد بن شرف الدین مظفر مبیدی، یزد اور کچھ ارد گرد کے حصہ پر حکمران تھا اور نہایت ظالم بادشاہ تھا اس نے شیخ ابو اسحاق کو شکست دی اور اپنی حکومت جو کہ سلسلہ آل مظفر کہلائی اسکی بنیاد رکھی۔ اس سلسلہ کی حکومت ایران کے اکثر جنوبی حصہ پر قائم ہوئی اور پھر پورے ایران پر رہی سوائے اصفہان کے اور بالآخر 795 ہجری میں امیر تیمور کے حملہ سے اس سلسلہ کی حکومت ختم ہوئی اور گورکانی خاندان ’’فارسی تواریخ میں مغل سلسلہ بادشاہت کو گورکانی خاندان کی حکومت کہا جاتا ہے‘‘ کی حکومت شروع ہوئی۔

آل مظفر کے زیر تسلط علاقہ کا نقشہ
کلام حافظ میں سے چند اشعار بطور نمونہ کے پیش ہیں

دیوان حافظ جو شائع شدہ ہے اسکا پہلا شعر ہے:

اَلَا یَاَ اَیها السَاقِی اَدِر کَاساً وَ نَاوِل هَا
کہ عِشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکل ها

کہ اے ساقی شراب کا جام اٹھا اور اسکا دور چلا کیونکہ عشق شروع میں آسان معلوم ہوتا ہے لیکن بہت مشکل ہے

اور غزلیات حافظ کا آخری شعرہ:

مکن ای صبا مُشَوَش سَرِ زُلفِ دلبَرَان رَا
کِه هَزَار جَانِ حافظ بِه فدای تار مُوییِ

کہ اے باد صبا تو میرے محبوب کی زلفوں کو پراگندہ مت کر کیونکہ اس کی ایک ایک زلف پر میری هزار جانیں قربان ہیں.

ایک اور شعر میں اپنی شاعری کی نسبت حافظ کہتے ہیں:

؎حسن مهرویان مجلس گرچه دل می‌برد و دین
بحث ما در لطف طبع و خوبی اخلاق بود

کہ بیشک خوبصورت لوگوں کا حسن دل اور دین دونوں ہی کو لے اڑتا ہے۔ لیکن ہم تو صرف طبیعت کی نرم خوئی اور اخلاق کی خوبی کی ہی بات کرتے ہیں۔

دیوان حافظ میں حافظ شیرازی کی 23 رباعیات بھی موجود ہیں جس میں سے بطور نمونہ چند یہ ہیں:

؎عشق رخ یار بر من زار مگیر
بر خسته دلان خرده به یکبار مگیر
صوفی چو تو رسم رهروان می‌دانی
بر مردم رند نکته بسیار مگیر

کہ میرے محبوب کے حسین چہره کے عشق میں گرفتار ہونے کا الزام مجھ کمزور کو مت دو اور ٹوٹے ہوئے دل والوں پر ایک دم ہی نکتہ چینی مت کرو۔ اے صوفی! تو چونکہ سلوک کی راه پر چلنے والے کے طریقہ کو اچھی طرح سےجانتا ہے اس لیے تو شراب نوشوں پر زیاده نکتہ چینی نہ کر۔

؎مردی ز کننده در خیبر پرس
اسرار کرم ز خواجه قنمبر پرس
گر تشنه فیض حق به صدقی حافظ
سر چشمه آن ز ساقی کوثر پرس

کہ دلیری اور بہادری کے باره میں خیبر کے دروازه کو توڑنے والے سے پوچھو اور کرم کس طرح حاصل ہوتا ہے اس کے باره میں خواجہ قمبر سے پوچھو (قمبر حضرت علی رضی الله کے دربان کا نام تھا اور اسی طرح اسے حضرت امام حسن کی خدمت کا موقع بھی ملا) اور اگر اے حافظ تو الله تعالیٰ کے فیض پانے کا واقعی مشتاق ہے تو اس کا سرچشمہ کیا ہے وه آنحضرت صلی الله علیه وآلہ وسلم سے پوچھو۔

ز روئ دوست دلِ دشمنان چه دریابد
چراغ مرده کجا شمع آفتاب کجا

کہ محبوب کے چہرہ سے دشمنوں کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا، بجھا ہوا چراغ کہاں اور ایک روشن سورج کہاں جب دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں تو وہ کیا فائدہ حاصل کرے گا۔

دیوان حافظ کی قدر ایرانی معاشرہ کی نظر میں

حافظ شیرازی کے کلام کو ایرانی معاشرہ میں بہت اہمیت حاصل ہے یہاں تک کہ اس بارہ میں مشہور ہے کہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو ہر ایرانی گھر میں دو کتابیں ضرور ملیں گی، ایک قرآن اور دوسرا دیوان حافظ۔۔ان میں سے ایک کتاب لوگ پڑھتے ہیں اور دوسری نہیں۔

ایران میں 12؍اکتوبر کو ہر سال یوم حافظ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ایرانی معاشرہ کا سب سے بڑا تہوار، جشن نوروز ہے اس میں ایک خاص دسترخوان، سفرہ ہفت سین تیار کیا جاتا ہے اس میں سین سے شروع ہونیوالی 7 چیزیں رکھی جاتی ہیں۔ سات اشیاء سیب، سبزگھاس، سرکہ، سمنو (ایک معروف ایرانی غذا ہے جس کو تیار کرنے میں گندم استعمال کیا جاتا ہے)، سنجدRussian Olive، سکہ اور سماق (ایک پودے کا پھل،ترش ہوتا ہے) اس پر موجود چیزوں میں سے ایک دیوان حافظ بھی ہوتا ہے۔

ایران میں دیوان حافظ سے فال لی جاتی ہے۔

فال لینے کی وجہ: حافظ شیرازی کا حافظ قرآن ہونا ہے۔خدا تعالیٰ سے اس کا پختہ تعلق ہونا، ایرانیوں کا اعتقاد کہ حافظ اپنے اشعار میں غیب کی باتیں کرتا ہے۔

دیوان حافظ میں موجود موضوعات

حافظ کا کلام چونکہ غزل پر مشتمل ہے اسلئے اس نے عشق و شراب کی شان میں اشعار کہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے مذہبی طبقہ کی منافقت کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔چھ سو برس پہلے حافظ نے کہہ دیا تھا کہ

؎واعظان کاین جلوه در محراب و منبر می‌ کنند
چون به خلوت می‌روند آن کار دیگر می‌ کنند
مشکلی دارم ز دانشمند مجلس بازپرس
توبه فرمایان چرا خود توبه کمتر می‌ کنند

ممبر و مسجد میں کھڑے جو مبلغ اپنی پارسائی کی نمائش کرتے نہیں تھکتے، تنہائی میں اس وعظ کے علاوہ کچھ اور ہی اعمال بجالاتے ہیں۔ میرا ایک سوال ہے جو تم مجلس کے دانا شخص سے پوچھو۔ وہ جو ہمیں ہر وقت توبہ کا سبق دیتے ہیں، خود اس پر عمل کیوں نہیں کرتے۔

اس کے علاوہ دو مثنوی بھی حافظ نے اپنے دیوان میں کہی ہیں اور 4 قصائد بھی موجود ہیں۔ حافظ کی مشہور مثنوی کے چند اشعار کچھ یوں ہیں:

؎بیا ساقی آن می که حال آوَرَد
کرامت فزاید کمال آوَرَد
به من ده که بس بیدل افتاده ام
وزین هر دو بی حاصل افتاده ام

کہ اے ساقی مجھے ایسی شراب دے کہ جو مجھ پر حال طاری کر دے اور میری کرامت کو بڑھا دے اور کمال عطا کردے مجھے یہ شراب جلد عطا کردے کیونکہ میں یہ دونوں یعنی کمال اور کرامت مجھے حاصل نہیں ہوا ابھی تک۔

دیوان حافظ حافظ شیرازی کا فارسی مجموعہ کلام ہے دیوان حافظ میں پانچ سو غزلیں اور بہت سی رباعیاں، قصیدے اور قطعات موجود ہیں اس میں کل 4797 اشعار موجود ہیں حافظ شیرازی کے دیوان کے خطی نسخے ایران، ہندوستان، افغانستان، پاکستان اور ترکی کے کتب خانوں میں بھی موجود ہیں۔ حافظ شیرازی کو غزل گوئی میں مہارت حاصل تھی اور انہیں فارسی غزل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ دیوان حافظ کے ترجمے پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ حافظ شیرازی کو حافظ قرآن ہونے کی بنا پر حافظ کا لقب دیا گیا تھا۔ حافظ شیرازی نے اپنے اشعار میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیوان حافظ میں موجود اشعار 23بحروں میں کہے گئے ہیں:

؎گر نور عشق حق به دل و جانت اوفتد
بالله کز آفتابِ فلک خوب ‌تر شوی
فاش می‌ گویم و از گفت خود دلشادم
بند عشقم و از هر دو جهان آزادم

اگر خدا تعالی کا عشق تیرے دل و جان میں گھر کر جائے تو خدا کی قسم تو آسمان میں موجود سورج سے بھی زیادہ بہتر ہوجائے گا میں ببانگ دہل یہ کہتا ہوں اور اپنی اس بات پر مجھے فخر ہے کہ میں عشق کا بندہ ہوں اور دونوں جہانوں کی فکروں سے آزاد ہوں۔

(ملک حماد احمد طاہر)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جنوری 2023