• 14 مئی, 2025

اپنے اللہ سے تعلق اور تربیت اولاد

اپنے اللہ سے تعلق اور تربیت اولاد
سورۃ الفاتحہ میں بیان صفات کی روشنی میں

(نوٹ: گزشتہ دنوں اپنی ایک بھتیجی عزیزہ سدرۃ المنتہیٰ کی درخواست پر ایک تقریر خاکسار کےنوک قلم سے تیار ہوئی۔ اسی کو آج میں تانیث کے صیغوں کو تبدیل کر کے اداریہ کے طور پر اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہا ہوں۔)

سب سے پہلے میں انتظامیہ کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس مادیت کی دنیا میں جب دہریت کی طرف لوگوں کا میلان بڑھ رہا ہے اس اہم ٹاپک کو چنا جو یہ ہے کہ ’’اللہ سے تعلق اور تربیت اولاد‘‘

عنوان میں بیان دو حصوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے گویا یہ دونوں حصے لازم و ملزوم ہیں۔ اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے خالق حقیقی سے قریبی تعلق والدین کے لئے بھی ضروری ہے تا جن بچوں کی تعلیم و تربیت ہو رہی ہے وہ بھی اللہ سے اپنے تعلق کو نمایاں کرتے چلے جائیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم کے آغاز پر سورۃ فاتحہ میں بیان فرمایا جو قرآن کریم کا خلاصہ کہلاتی ہے۔ ہم جب دنیا میں چھپنے والی کتب کا احاطہ کرتے ہیں تو کم و بیش ہر کتاب کے آغاز پر مصنف دیباچہ لکھتا ہے۔جو Preface کہلاتا ہے۔ اور اس میں مصنف، کتاب لکھنے کا مقصد، اس کی اہمیت و افادیت کا ذکر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آفاقی کتاب قرآن کریم کے آغاز پر سورت فاتحہ بیان کر کے اپنے وجود، کائنات کے رب کی اہمیت، اس کی عبادت کا حق ادا کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اور اپنی 101 صفات میں سے بنیادی صفات الرحمٰن، الرحیم، مالک یوم الدین اور رب العالمین کا ذکر الحمد للّٰہ کے اظہار سے باندھ دیا ہے۔

*الرحمٰن اور الرحیم اللہ تعالیٰ کی دو ایسی دو صفات ہیں۔ جو باقی تمام صفات پر حاوی ہیں۔ دونوں صفات کا منبع ’’رحم‘‘ ہے۔ الرحمٰن صفت میں اللہ تعالیٰ کی وہ عنایات آتی ہیں جو اس خدائے عزوجل نے انسان کو بغیر مانگے دی ہیں۔ جیسے ہوا، پانی، زمین و آسمان۔ جن کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور الرحیم صفت کے تحت وہ عنایات ہیں جو اللہ تعالیٰ انسان کو دعا کی قبولیت کے نتیجے میں ادا کرتا ہے۔ گویا یہ دو جلوے ہیں۔ اور یہی دو جلوے والدین بالخصوص ماں میں نظر آتے ہیں۔ جس کی بچہ دانی کے لئے جہاں بچہ 9 ماہ تک پرورش پاتا ہے رحم کا لفظ بولا جاتا ہے اور ماں کی طرف سے خاندان میں جو رشتے جنم لیتے ہیں ان کو بھی رحمی رشتے کہتے ہیں۔

جس طرح اللہ تعالیٰ، اپنی مخلوق جو اس کی اولاد کی طرح ہے کے ساتھ نرمی، شفقت اور پیار بھرا سلوک کرتا ہے تا وہ ھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ میں سے وہ راستہ چنے جو اللہ تعالیٰ کو ملاتا ہے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بسا اوقات سختی بھی کرتا ہے۔ اسے امتحان میں، آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔ تا وہ سیدھے راستے سے نہ بھٹکے۔ بعینہٖ ماں باپ بالخصوص ماں اپنے بچوں سے نرمی و محبت سے پیش آتے ہیں اور مادی غذا کے ساتھ ساتھ روحانی غذا بھی اس لئے دے رہے ہوتے ہیں کہ اپنے پیدا کرنے والے خدا سے تعلق قائم رہے۔ ہم بالعموم مشاہدہ کرتے ہیں کہ خدا کے ساتھ لگاؤ کا تعلق یا رشتہ اس وقت سے آغاز پا جاتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ جب ماؤں کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہوتی ہے کہ آنے والے مہمان کا تعلق خدا سے مضبوطی سے قائم ہونے والا ہو۔ اور رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۵﴾ کی دعائیں اس مضمون کی عکاسی کر رہی ہیں۔

پیدائش کے معاً بعد کسی نیک بزرگ اور اللہ والے لوگ سے بچہ کو پہلی غذا یعنی گڑتی دلوانا اور اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر دینا اس بات کی علامت ہے کہ اس نومولود کا اس بزرگ کی طرح اپنے اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق ہو۔ جس طرح وہ راتوں کو اٹھ کر تہجد ادا کرتا ہے یا عبادات بجا لاتا ہے، صدقے خیرات کرتا اور حقوق اللہ، حقوق العباد ادا کرتا ہے تا اللہ سے تعلق مربوط ہو ایسے ہی یہ نوزائیدہ اور اس کی ماں کا تعلق بھی اپنے رب سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔

ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ بچہ نقل بہت جلد اتارتا ہے۔ اگر ماں نماز پڑھے گی تو وہ بھی ڈوپٹہ لے کر جائے نماز بچھا کر اللہ کی عبادت کے لئے معصوم شکلیں بنائے گا۔ یہی وہ بنیادی اینٹیں ہیں جو بچوں کے رحجان کو اللہ تعالیٰ کی طرف مائل کرتی ہیں۔

*رب کے معنی بھی پالنے کے ہیں۔ اللہ مربی ہے اور ہم سب مربّٰی۔ اس صفت کی اقتداء میں ہم والدین کو بھی مربی بن کر اولاد میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنی چاہیے۔ ہم اپنی اولاد کے پالنے میں روحانی غذا کی آمیزش کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی باتیں کریں تو لازماً یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی گڑتی ساتھ کے ساتھ بچوں کی روحانی نشوونما میں ویسے ہی اثر کرے گی اور خدا سے تعلق کو مضبوط کرے گی۔ جیسی بچپن میں ماں کا پلوایا دودھ جوانی میں ہڈیوں کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے۔

*اس تعلق میں مالک یوم الدین کی صفت کو نہیں بھولنا چاہیے جس کی بچوں کو یاد دہانی انسان کو وفات تک اپنے اللہ کی طرف مائل رکھتی ہے۔ جس طرح والدین کا خوف بچوں کو راہ راست پر رکھتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تنبیہ انسان کو قدم قدم پر اپنی طرف ملاپ، اس کی طرف جھکاؤ اور تعلق کی طرف جھکاتی ہے۔ اور انسان ایاک نعبد و ایاک نستعین کا نعرہ بلند کرتے ہوئے عاجزی سے اھدناالصراط المستقیم کی آواز جب بلند کرتا ہے تو یہود و نصارٰی کے راستے پر نہ چلنے کی نوید سنائی دیتی ہے۔ جس پر ہر مسلمان مرد اور خاتون کو الحمد للّٰہ رب العالمین بار بار کہنے کا حکم ہے۔ تب نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جس قدر انسان کا تعلق اللہ سے مضبوط ہوگا اس کی تحمید و تسبیح کی جائے گی۔ اس کی صفات کا پر تو بننے کی کوشش کی جائے گی۔ تو پھر ہماری گودوں میں ایسے بچے پلیں گے جو خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ اللہ ہم سب کو اپنے سے تعلق کو مضبوط و مربوط کرنے کی توفیق سے نوازتا رہے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

لائبیریا کے شہر گانٹا میں احمدیہ کلینک کا افتتاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2022