• 19 مئی, 2024

سورۃالرحمٰن اور الواقعہ کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورۃالرحمٰن اور الواقعہ کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ الرّحمٰن

یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔ بسم اللہ سمیت اس کی اناسی آیات ہیں۔

اس سورت میں انسان اور قرآن کریم کے متعلق دو الگ الگ محاورے استعمال فرمائے گئے ہیں۔ قرآن کے متعلق خَلْق کا کہیں کوئی ذکر نہیں لیکن انسان کے لئے خَلْق کا ذکر ہے۔ پس اس سورت پر غور نہ کرنے کے نتیجہ میں ازمنۂ وسطی میں بعض مسلمان، قرآن کو مخلوق مانتے رہے اور بعض غیر مخلوق۔ اور اس وجہ سے ان مسلمانوں میں بہت ہی قتل و غارت ہوئی۔

اس سورتِ کریمہ میں ایک میزان کا بھی ذکر ہے اور بیان فرمایا گیا ہے کہ تمام آسمان میں ایک توازن دکھائی دے گا اور دراصل ہر رفعت اسی توازن کی محتاج ہوتی ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے مومن بندے بھی ہمیشہ اس توازن کی حفاظت کریں گے اور عدل کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی عظیم رفعتیں عطا فرمائے گا۔

اس کے بعد جنّ و انس کو مخاطب کر کے اس بات کی بکثرت تکرار ہے کہ تم دونوں آخر خدا کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔ اور اسی تعلق میں جنّ و انس کی پیدائش کا فرق بھی بیان فرما دیا کہ جِن ّکو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا گیا۔ فی زمانہ جنّ کے لفظ کی مختلف تشریحات کی جاتی ہیں لیکن یہاں جِنّ کی ایک تشریح یہ ہے کہ وائرس (Virus) اور بیکٹیریا (Bacteria) بھی جِنّات ہیں جو ابتدائے آفرینش میں آسمان سے گرنے والی آتشیں ریڈیائی لہروں کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔ فی زمانہ اس بات پر تمام سائنسدان متفق ہو چکے ہیں کہ بیکٹیریا اور وائر سز (Viruses) براہ راست آگ سے توانائی پا کر وجود پکڑتے ہیں۔

پھر انسان کے متعلق ایک ایسی پیشگوئی فرمائی گئی جو عظیم الشان حکمت اور تخلیق کے گہرے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ گیلی مٹی سے انسان کے پیدا کرنے کا تصورتو پچھلی سب کتابوں میں موجود ہے لیکن کھنکتی ہوئی ٹھیکریوں سے انسان کا پیدا کیا جانا ایک ایسا تصور ہے جو قرآن مجید سے پہلے کسی کتاب نے بیان نہیں کیا۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں لیکن سائنسدان جانتے ہیں کہ تخلیق کے دوران ایک ایسی منزل بھی آئی جب ضروری تھا کہ تخلیقی مادوں کو بجنے والی ٹھیکریوں کی صورت میں خشک کر دیا جائے۔ اور پھر سمندر نے واپس اس خشک مادے کو اپنی لہروں میں لپیٹ لیا اور انسان کی کیمیائی ترقی کا ایسا سفر شروع ہوا جس میں انسان کی تخلیق کے لئے یہ ضروری کیمیا بار بار اپنے ابتدائی دور کی طرف نہ لوٹیں۔ پھر یہ پیشگوئی فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ دو سمندروں کے درمیان حائل حد فاصل کو ختم کر دے گا اور وہ ایک دوسرے سے مل جائیں گے۔

پھر ایک اور آیت کریمہ ایسی ہے جو قرآن کی وحی کے زمانہ میں کسی انسان کے تصور میں نہیں آسکتی تھی۔ انسان میں تو گز دوگز اونچی چھلانگ کی بھی طاقت نہیں تھی۔ کون سوچ سکتا تھا کہ بڑے لوگ بھی اور چھوٹے لوگ بھی اَقْطَارُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کو پھلانگنے کی کوشش کریں گے۔ اس کوشش کا آغاز انسان کے چاند تک پہنچنے سے ہو چکا ہے اور اس سے بلند تر سیاروں تک پہنچنے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن قرآن کریم کی پیشگوئی ہے کہ انسان سُلْطَان یعنی عظیم الشان استدلال کے سوا کائنات کی سرحدوں کو نہیں پھلانگ سکتا اور جب بھی جسمانی طور پر پھلانگنے کی کوشش کرے گا اس پر آگ اور پگھلا ہوا تانبا برسایا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک سائنس دان اجرامِ فلکی کی سنگ باری سے بچنے کے لئے تمام امکانی دفاعی تدابیر اختیار نہ کریں وہ راکٹس میں بیٹھ کر فضائی سفر نہیں کر سکتے۔

جہنم کے تمثیلی بیان کے ذکر کے بعد پھر جنت کا تمثیلی بیان شروع ہوتا ہے۔ قارئین کو متنبہ رہنا چاہئے کہ ہر گز اس بیان کا ظاہری مطلب لینے کی کوشش نہ کریں۔ یہ تمام تر ایک تمثیلی زبان ہے۔ اس پر غور کرنے سے اہل ِفکر کو عرفان کے نئے نئے موتی عطا ہو سکتے ہیں۔ ورنہ ان کا دماغ بہکتا پھرے گا اور کچھ بھی حاصل نہ ہو گا سوائے جنت کے ایک مادی تصور کے جس میں بہت سی باتوں کا کوئی حل انہیں معلوم نہ ہو سکے گا۔

پس اللہ تعالیٰ کا نام بے حد برکتوں والا ہے۔ اس کی برکات کا شمار ممکن نہیں۔ وہ ذُو الْجَلالِ وَ الْاِ کْرَام ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صف973-974)

سورۃ الواقعہ

یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی ستانوے آیات ہیں۔

اس سورت کے آغاز میں بیان فرمایا گیا ہے کہ گزشتہ سورت جو عظیم الشان پیشگوئیاں کر رہی ہے وہ لازماً پوری ہو کر رہنے والی ہیں۔ بالخصوص مرنے کے بعد جی اٹھنے کی خبریں اس سورت میں بیان فرمائی گئی ہیں جو لازماً وقوع پذیر ہوں گی۔

اس کے بعد اسلام کے دَورِ اوّل میں قربانی کرنے والوں اور دَورِ آخر میں قربانی کرنے والوں کا موازنہ فرمایا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اوّل دَور میں دین کے لئے قربانیاں پیش کریں گے اور آخری دَور میں قربانیاں پیش کریں گے ان میں سے بکثرت آپس میں قربانیوں میں مشابہ ہوں گے اور انہیں ایک جیسے درجات عطا کئے جائیں گے۔ لیکن اوّل دَور کے بہت سے قربانیاں کرنے والوں کو قربانیوں میں اور ایثار میں بعد میں آنے والوں پر عدد اور رتبہ کے لحاظ سے فوقیت حاصل ہو گی۔ لیکن بعد کے دَور میں بھی کچھ ضرور ہوں گے جنہیں رتبہ کی وہ فضیلتیں عطا ہوں گی جو پہلے دَور والوں کو عطا کی گئیں۔

پھر دونوں اَدوار کے بد نصیبوں کا بھی ذکرہے جن کو بائیں طرف والے قرار دیا گیا ہے اور بائیں طرف والوں سے مراد بد لوگ ہیں اور ان کی وہ صفات بیان کی گئی ہیں جو ان کو جہنمی بنائیں گی۔

پھر اس سورت میں تمثیلی طور پر اہلِ جہنم کا ذکر بھی ہے اور اہلِ جنت کا بھی اور یہ بات خوب واضح فرما دی گئی ہے کہ تم ہر گز اس مادی جسم کے ساتھ دوبارہ نہیں اٹھائے جاؤ گے بلکہ ایسی تبدیل شدہ خِلقت کی صورت میں اٹھائے جاؤ گے جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

آیت61-62 میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری نشأۃ اُخریٰ کے وقت جس صورت میں تمہیں از سرِ نو زندہ کرے گا اس کا تمہیں کوئی بھی علم نہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بظاہر تو اس کا علم دیا جا رہا ہے؟! در اصل یہ تنبیہ ہے کہ ظاہری الفاظ کو مِن وعَن نہ سمجھ لینا۔ یہ محض تمثیلات ہیں اور حقیقت کا تم کوئی علم نہیں رکھتے۔

پھر چار ایسے امور بیان ہوئے ہیں جن پر اگر غور کیا جائے تو ہر غیر متعصب کا دل یہ ضرور پکار اٹھے گا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی یہ چیزیں بنانے پر قادر نہیں۔ اوّل وہ مادہ جس سے انسان کی پیدائش کا آغاز ہوا ہے اور اس میں بے انتہا پیچدار ایسی باریک در باریک صفات کو جمع کر دیا گیا ہے جنہوں نے بعد میں ظہور پذیر ہونا تھا۔ مثلا ً آنکھ، کان، ناک،منہ، گلا، آلۂ صوت وغیرہ کو یہاں تک ہدایتیں دی گئی ہیں کہ کس حد تک ایک عضو نشوونما پائے گا اور پھر کس وقت وہ نشوونما بند ہونی ضروری ہے۔ دانتوں ہی کو لیجئے۔ دودھ کے دانت ایک وقت کے بعد ظاہر ہوتے ہیں پھر وہ ایک مدت تک رہ کر گر جاتے ہیں اور بچپن کے دَور میں جو بچے دانتوں کی صحت کا خیال نہیں رکھ سکتے اس کے بد اثر سے ان کو محفوظ کر دیا جاتا ہے، پھر بلوغت کے دانت ہیں جس کے بعد انسان ذمہ دار ہے کہ ان کی حفاظت کرے۔ وہ ایک حد تک بڑھ کر رک کیوں جاتے ہیں؟ کیا چیز ہے جو ان کو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے؟ یہ انسان کے DNA میں ایک کمپیو ٹرائزڈ (Computerized) پروگرام ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تابع وہ دانت عمل کرتے ہیں۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ جس رفتار سے وہ گھس رہے ہوتے ہیں کم و بیش اسی رفتار سے وہ بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر بڑھتے چلے جاتے اور روکنے کا نظام نہ ہوتا تو انسان کے نیچے کے دانت دماغ پھاڑ کر سر سے بہت اوپر تک نکل سکتے تھے اور اوپر کے دانت جبڑے پھاڑ کر چھاتی کو ناکارہ بنا سکتے تھے۔ تو فرمایا کہ کیا تم نے یہ جِینیاتی صلاحیتیں خود بنائی ہیں؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہے۔

اسی طرح بظاہر انسان سمجھتا ہے کہ ہم نے زمین میں بیج بوئے ہیں۔ لیکن زمین سے ان بیجوں کے درختوں اور سبزیوں اور پھلوں کی صورت میں نکلنے کا نظام بھی ایک بے حد پیچیدہ نظام ہے جو از خود پیدا نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح اس ساری زندگی کو سہارا دینے کے لئے جو آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے اس کے نظام پر بھی انسان کا کوئی دخل نہیں۔ اور وہ شعلہ جس پر سوار ہو کر انسان آسمان پر جانے کی سعی کرتے ہیں یہ بھی اللہ کی تقدیر کے تابع کام کرتا ہے ورنہ وہی آگ ان کو بلندیوں تک پہنچانے کی بجائے بھسم کر سکتی تھی۔ اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمان پر اڑنے والے جہازوں کے متعلق یہ پیشگوئی موجود ہے کہ وہ آگ سے چلنے والی سواریاں ہو ں گی مگر وہ آگ ان مسافروں کو جو اُن میں بیٹھیں گے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔

پھر ’’مواقع النجوم‘‘ کو گواہ ٹھہرایا گیا۔ اُس زمانہ کا انسان تو سمجھتا تھا کہ نجوم چھوٹے چھوٹے چمکنے والے موتی یا پتھر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہیں علم ہو کہ وہ چھوٹے چھوٹے سے نظر آنے والے نجوم ہیں کیا چیز تو تم دنگ رہ جاؤ کہ یہ نجوم تو اتنے بڑے بڑے ہیں کہ چاند اور سورج اور زمین اور سیارے بھی ان نجوم کے ایک کنارے میں سما سکتے ہیں۔ پس فرمایا یہ بہت بڑی گواہی ہے جو ہم دے رہے ہیں۔

ان گواہیوں کے بعد یہ فرمایا گیا کہ قرآن کریم بھی ایک چُھپی ہوئی کتاب ہے۔ جیسے ستارے دُور ہونے کی وجہ سے تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اسی طرح قرآن کریم کی رفعتوں کو بھی تمہاری نظر نہیں پا سکتی اور تم اسے چھوٹی سی کتاب دیکھتے ہو۔ اور پھر یہ بھی فرمایا گیا کہ بظاہر تو تم اسے چُھو بھی سکتے ہو یعنی تم اس کے اتنے قریب ہو کہ اسے ہاتھ بھی لگا سکتے ہو لیکن سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے دل کو پاک کرے وہ اس کے مضامین کو نہیں چُھو سکتا۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ983-984)

(عائشہ چودھری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

لائبیریا کے شہر گانٹا میں احمدیہ کلینک کا افتتاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2022