• 19 مئی, 2024

حضرت میر مہدی حسینؓ

تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت میر مہدی حسین رضی اللہ عنہ۔ پٹیالہ

حضرت میر مہدی حسین صاحب رضی اللہ عنہ سیدکھیڑی (Saidkari) نزد راجپورہ ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے۔ اندازًا 1864ء میں پیدا ہوئے اور 1894ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے جس کے کچھ عرصہ بعد ہجرت کر کے قادیان آگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاص خدمت کا موقع پایا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ابتدائی تعارف کے متعلق آپ بیان فرماتے ہیں:
’’میں نے 1885ء میں عبد الکریم خان ساکن چمارو (یکے از 313 کبار صحابہ۔ ناقل) کے پاس کتاب سرمہ چشم آریہ دیکھی، اس کے اشعار کو بڑے وجد سے پڑھا اور حضور کے حالات معلوم ہوئے، میں نے نتیجہ نکالا پنجاب میں کوئی مولوی ہے جو اسلام کو غلبہ دینا چاہتا ہے۔ مَیں ان دنوں شیعہ تھا بیعت وغیرہ سے اپنے تئیں مستثنیٰ سمجھتا تھا اس کے بعد 1890ء یا 1891ء میں جب حضور کا دعویٰ شائع ہوا میں نے عبد الکریم خاں ساکن چمارو کو ایک خط لکھا کہ جس شخص کو تم پیشوا سمجھتے ہو وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں آسمان سے نازل ہوا کیا تم اس پر یقین رکھتے ہو مجھے سمجھاؤ۔ اس کا کوئی جواب نہ ملا اس لیے میں رخصت حاصل کرکے اس کے مکان پر گیا اور یہی مطالبہ کیا کہ مجھے سمجھاؤ، عبد الکریم خان نے قرآن مجید ثبوت میں پیش کیا کہ قرآن مجید آسمان پر جانے کا انکار کرتاہے اور یہ عقیدہ سرے سے غلط ہے اور جس نے آنا ہے وہ اسی دنیا سے ہوگا میں نے کہا قرآن شریف کی کوئی آیت پڑھو مان لوں گا۔ اس نے کہا تیس آیتیں موجود ہیں میں نے کہا صرف تین ہی کافی ہیں اگر اکیلی آیت ثابت کرے تو وہ کافی ہے۔ اس نے ازالہ اوہام میں سے آیت لے کر پڑھی وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۶۹﴾ مَیں نے اس آیت کو سن کر کہا کہ بے شک آسمان پر جانا غلط ثابت ہوتا ہے اور میرا عقیدہ اب کسی کے آسمان پر جانے کا نہیں رہا۔

مَیں نے عبد الکریم خان سے کتاب مانگی اس نے کہا کتاب نہیں دے سکتا ہاں کتاب لیکر تمہارے گھر آکر لوگوں کو سناؤں گا تیسرے روز میرے مکان پر کتاب لے کر آگئے مَیں نے اُن سے کہا کوئی مقام ہمارے دوستوں اور مخالفوں کو سناؤ۔ چنانچہ کچھ حصہ کتاب کا سنایا ……میں نے ایک خواندہ بزرگ سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کی تصدیق کرتے ہو۔ انھوں نے کہا مولویوں کے بر خلاف ہے جب مولوی نہیں مانتے ہم کیوں مانیں؟ میں نے کہا ایسے مولویوں پر ہزار نفریں جوقرآن کریم کی بات سے انکار کریں اور اپنے مولویوں کی بات کو مقدم کریں ……‘‘

(سیرت احمد ؑ صفحہ107,108 از حضرت قدرت اللہ سنوری صاحبؓ۔ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ، دسمبر 1962ء)

اس کے بعد آپ حضرت اقدس علیہ السلام کے دعویٰ کے متعلق تحقیق میں لگے رہے، اس سلسلے میں حضرت چودھری فتح محمد سیال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’’میر مہدی حسین صاحب ایک گاؤں حسین خان والہ (ضلع قصور۔ ناقل) میں 1894ء میں مقیم تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دعویٰ کے متعلق فکر و غور کر رہا تھا کہ میں نے حسین خان والہ کے لوگوں سے دریافت کیاکہ اس علاقہ میں کوئی مرزائی ہے۔ لوگوں نے آپ کے والد صاحب چودھری نظام الدین صاحب سیال کا نام لیا کہ وہ مرزائی ہے۔ یہ معلوم ہونے پر میں اُن سے ملنے اور بعض امور احمدیت کے متعلق دریافت کرنے کے لیے گیا۔ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے متعلق دریافت کیا اور گفتگو ہوتی رہی۔ میر مہدی حسین صاحب نے فرمایا گفتگو سے مجھے تسلی نہ ہوئی۔ چودھری صاحب کو میرے ایمان نہ لانے پر حیرت تھی اور مجھے ان کے ایمان لانے پر گھبراہٹ تھی۔ میں واپس حسین خان والہ چلا گیا اور چند ماہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے متعلق میرا سینہ صاف کر دیا اور میرا دل یقین سے بھر دیا۔‘‘

(الفضل 23؍اپریل 1942ء صفحہ 4)

آپ کی تفصیلی روایات رجسٹر روایات صحابہ میں محفوظ ہیں۔ آپ ایک نیک، مخلص اور متوکل علی اللہ بزرگ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا نام اپنے 313 کبار صحابہ مندرجہ کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں 167ویں نمبر پر درج فرمایا ہے۔ 1901ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئے اور خادم المسیح کی حیثیت سے مختلف خدمتوں کی توفیق پائی۔ آپ بیان کرتے ہیں:
’’….. سات سال کے عرصہ سے اس جگہ مقیم ہوں …. میرے ساتھ کوئی بجز منکوحہ بیوی کے نہ آیا۔ مجھے کوئی نہ جانتا تھا کہ یہ کون شخص ہے۔ نہ زر پاس، نہ کوئی ہنر نہ بخت یا در۔ جنگلوں میں اکیلا بیٹھ کر دعائیں کرتا رہا کہ اے ارحم الراحمین میں صرف تیرے لیے اس مقام باکرام پر بود وباش کرنا چاہتا ہوں، کوئی ہو یا نہ ہو ….. ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک دریائے بیاس پر جو اِس جگہ سے بیس کوس کے فاصلہ پر ہے، مقیم رہا اور دعا میں لگا رہا۔ آخر قادیان آنے پر دوپہر کے وقت میں نے چارپائی پر پڑے ہوئے دیکھا کہ ایک آہنی ہاتھ نے جس کی کلائی نہایت نازک تھی، مجھے پشت کی جانب سے آکر بازو سے پکڑ لیا۔ میں نے پھر کر دیکھا تو ہاتھ غائب ہوگیا۔ مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ غم بھول گیا …. میں چاہتا تھا کہ حضرت امام علیہ السلام کے زیر تربیت کام کروں سو وہ مجھے فضل خدا سے میسر ہے….. امام علیہ السلام کی صداقت کے نشانات جس قدر میں نے اس جگہ رہ کر دیکھے وہ لا تعداد ہیں اور ذرہ ذرہ میرا اُن کا گواہ ہے ….‘‘

(الحکم 18؍مارچ 1908ء صفحہ5)

آپ کو بحیثیت مہتمم کتب خانہ حضرت اقدسؑ بھی خدمت کی توفیق ملی، کتاب نزول المسیح کے آخر پر اسی حوالے سے آپ کا لکھا ہوا ایک نوٹ شامل ہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ کاپی میں یا پروف میں بعض دفعہ کوئی غلطی رہ جاتی ہے جو میرے خیال میں نہیں آتی اور میر مہدی حسین کی نظر پڑجاتی ہے تو وہ میرے پاس لے آتے ہیں اور دکھاتے ہیں اور ساتھ ہی بطریق ادب یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید مجھے ہی غلطی لگ گئی ہے مگر حضورؑ ملاحظہ فرمالیں، اگر مناسب ہو تو اسے درست کر دیں۔‘‘

(ذکر حبیبؑ صفحہ 136۔ خلافت جوبلی ایڈیشن)

حضرت میاں عبدالعزیز مغل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’قادیان کا واقعہ ہے کہ ایک دن حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام مسجد مبارک کی چھت پر تشریف فرما تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم بھی موجود تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے مہمانوں کے لئے پرچ پیالیاں منگوائی ہوئی تھیں۔ میر مہدی حسین صاحب مرحوم سے وہ گر گئیں اور چکنا چور ہوگئیں۔ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے عرض کیا کہ حضور آواز آئی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ میر مہدی حسین صاحب سے پرچیں ٹوٹ گئی ہیں۔ فرمایا: میر صاحب کو بلاؤ۔ میرمہدی حسین صاحب ڈرتے ہوئے سامنے آئے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا میر صاحب کیا ہوا ہے؟ انھوں نے عرض کیا حضور! ٹھوکر لگنے سے پیالیاں گر کر ٹوٹ گئی ہیں۔ اس پر فرمایا کہ دیکھو جب یہ گری تھیں تو ان کا آواز کیسا اچھا تھا۔‘‘

(الفضل 12؍دسمبر 1942ء صفحہ 3)

آپ ایک اچھے شاعر تھے، آپ کی متعدد نظمیں سلسلہ کے پرانے لٹریچر میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

اخبار الحکم 13،20 اپریل 1898ء صفحہ 4 پر آپ کی دو فارسی نظمیں شائع شدہ ہیں۔

خدایا شکر ہے تیرا کہ مجھ کو قادیان لایا
مسیحائے زماں مہدی دوراں تو نے دکھلایا

(الحکم 31؍جولائی 1901ء صفحہ12)

لے چل وہاں جہاں ہے مسیحا خدا مجھے
اُس کے سوا کہیں نہیں ملتی دَوا مجھے

(الحکم 17؍جنوری 1901ء صفحہ1)

آپ کی نظم بعنوان ’’بلاغ لقوم عابدین‘‘

اک شور جو دنیا میں مذاہب کا پڑا ہے
ظاہر ہے ظہور احمد مرسل کا ہوا ہے

(الحکم 17؍ستمبر 1904ء صفحہ9)

حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ؓ کی وفات پر نظم (الحکم 17؍اکتوبر 1905ء صفحہ 10)

آپ کی فارسی نظم ’’المنارۃ البیضاء‘‘ (فاروق 26؍اپریل 1917ء صفحہ 8)

خادم ہوں میں مسیح علیہ السلام کا
روح القدس غلام ہے جس کے کلام کا

(فاروق 9؍مئی 1918ء صفحہ 2)

حضرت مصلح موعودؓ کے سفر لندن سے مراجعت پر آپ کی ایک نظم شائع ہوئی۔

(الحکم 14؍دسمبر 1924ء صفحہ 4)

نظموں کے علاوہ بعض مضامین بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایک مرتبہ آپ کے ایک استاد نے جو کہ شیعہ تھے، کربلائے معلےٰ سے آپ کو خط لکھا کہ اس جگہ ضرور آنا چاہیے جس کے جواب میں آپ نے نہایت ایمان افروز خط لکھا جو اخبار الحکم 18؍مارچ 1908ء صفحہ 4-5 پر شائع شدہ ہے۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے لیے بطور مصحح بھی کام کیا تھا، ایک مرتبہ آپ نے اخبار الفضل میں صحت آیات کے متعلق ایک مختصر مضمون ارسال فرمایا۔ (الفضل 25؍فروری 1914ء صفحہ 13) پھر زمین کابل کی حالت زار کے متعلق آپ کا ایک مضمون اخبار الحکم 7،14 اپریل 1925ء صفحہ 8-9 پر شائع شدہ ہے۔

اکتوبر 1934ء میں آپ آنریری مبلغ کی حیثیت سے ایران تشریف لے گئے، اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے قلم سے چند ہدایات تحریر فرماکر دیں جو تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 226 پر شائع شدہ ہیں۔ آپ نے 31؍اگست 1941ء کو وفات پائی، اخبار الفضل نے اعلان وفات دیتے ہوئے لکھا: ’’یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ حضرت میر مہدی حسین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 313 صحابہ میں سے تھے، آج دوپہر بعمر 75 سال وفات پاگئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بذریعہ تار اطلاع دی گئی، حضور نے مقبرہ بہشتی میں دفن کرنے کی اجازت بذریعہ فون فرمائی۔ بعد نماز عشاء حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے باغ میں قریبًا چار سو کے مجمع سمیت نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم کو مقبرہ بہشتی کے قطعہ خاص صحابہ میں دفن کیا گیا۔ احباب بلندی درجات کے لیے دعا کریں۔‘‘

(الفضل 2؍ستمبر 1941ء صفحہ 2)

پ کی وفات پر محترم شیخ محمد احمد مظہر صاحب نے لکھا:

مہدی حسین سیّد از خادمانِ مہدی
آں ماہر کتابت، آں مصحّح ہنَرْوَر
ہر گہ قرار گاہش دار القرار آمد
اجر عظیم مومن 13تاریخ گفت مظہر

(الفضل 28؍اکتوبر 1941ء صفحہ 2)

آپ کی اہلیہ اولیٰ کا نام حضرت امۃ الرحیم صاحبہ تھا جن کی صحتیابی کے متعلق الہام اور اس کی تفصیل کا ذکر حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب حقیقۃالوحی میں نشان نمبر 169 پر فرمایا ہے۔ اس اہلیہ نے 12؍نومبر 1908ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپ کی اہلیہ ثانی کی وفات کی خبر اخبار الفضل 20؍جنوری 1945ء صفحہ 1 پر ’’افسوس جناب میر مہدی حسین صاحب مرحوم و مغفور کی بیوہ صاحبہ کا آج پانچ بجے شام انتقال ہوگیا، انا للہ۔‘‘ کے الفاظ میں درج ہے۔

آپ کے بیٹوں میں سید عبدالباسط صاحب، سید باقر شاہ صاحب اور سید عبدالغفور عطاء صاحب کا علم ہوا ہے۔ سید عبدالباسط صاحب (وفات: 23؍اپریل 1967ء) کو نائب معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ خدمت کی توفیق ملی۔

(غلام مصباح بلوچ۔استادجامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

لائبیریا کے شہر گانٹا میں احمدیہ کلینک کا افتتاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2022