• 2 مئی, 2024

نصف شعبان کی اہمیت

حضرت عائشہؓ۔۔۔ بیان فرماتی ہیں: ایک رات حضورؐ میرے پاس تشریف لائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سونے کے لئے لیٹے مگر سوئے نہیں۔ اٹھ بیٹھے اور کپڑا اوڑھ لیا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میرے دل میں سخت غیرت پیدا ہوئی۔ میں نے خیال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاید میری کسی سوکن کے ہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔ تو کہتی ہیں کہ میں آپ کے تعاقب میں گئی تو میں نے آپؐ کو بقیع قبرستان میں دیکھا۔ آپؐ مومن مردوں، عورتوں اور شہداء کے لئے مغفرت طلب کر رہے تھے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے اپنے دل میں کہا میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ اپنے رب کی طلب میں لگے ہوئے ہیں اور میں دنیا کے خیالات میں ہوں۔ کہتی ہیں میں جلدی جلدی وہاں سے واپس آ گئی۔ کچھ دیر کے بعد حضور بھی میرے پاس تشریف لے آئے جبکہ ابھی تیز چلنے کی وجہ سے میرا سانس پھولا ہوا تھا۔ تو حضورؐ نے دریافت کیا کہ اے عائشہ! تیرا سانس کیوں پھولا ہوا ہے؟ تو میں نے حضور کو ساری بات بتائی۔ اس پر آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا تجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیری حق تلفی کریں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ جبریل میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے اس رات میں اللہ تعالیٰ ایک بھیڑ کے بالوں کی تعداد کے برابر لوگوں کو آگ سے نجات بخشتا ہے۔ یعنی کثرت سے نجات بخشتا ہے۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ نہ کسی مشرک پر نظر کرتا ہے اور نہ کسی کینہ پرور پر۔ نہ قطع رحمی کرنے والے پر اور نہ تکبر سے کپڑے لٹکانے والے پر اور نہ والدین کی نافرمانی کرنے والے پر اور نہ کسی شراب خور پر۔ تو حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ حضورؐ نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی وہ اتاری اور مجھے فرمایا کہ اے عائشہ! کیا تو مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں آج کی باقی رات بھی عبادت میں گزاروں۔ میں نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ ضرور۔ تب حضور نے نماز شروع کی اور اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے وہم ہوا کہ شاید آپؐ کا دم نکل گیا ہے۔ کہتی ہیں: میں نے ٹٹول کر آپ کے پاؤں کو چھوا تو آپ کے پاؤں میں حرکت پیدا ہوئی۔ میں نے آپ کو سجدے میں دعائیں کرتے سنا۔ صبح حضورؐ نے فرمایا کہ جو دعائیں میں رات سجدے میں کر رہا تھا وہ جبریل نے مجھے سکھائی تھیں اور مجھے حکم دیا تھا کہ میں سجدوں میں ان کو بار بار دہراؤں۔

(تفسیر الدر المنثور۔ تفسیر سورۃ دخان۔ آیت نمبر4)

(خطبہ جمعہ 18؍فروری 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

فقہی کارنر

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی