• 15 مئی, 2024

مغفرت الہٰی کے نظارے

تبرکات

قسط نمبر 2 آخر

(17) عورتوں کے لئے وہاں بہت ہی نرمی تھی اور عام حکم یہ تھا کہ جو عورت نماز پڑھے ،روزہ رکھے ،اپنی عزت کی حفاظت کرے اور خاوند کی نافرمان نہ ہو، وہ بہشت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔

(18) پھر ہم اور آگے چلے وہاں ایک شخص کا مقدمہ پیش تھا جو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں فوت ہوا تھا۔ جب اس نے وفات پائی تو آنحضرت ﷺ بھی اس کے جنازه کے لئے نکلے۔
حضرت عمرؓ نے عرض کیا ’’حضور یہ ایک فاجر فاسق شخص تھا اس کے جنازہ کی نماز نہ پڑھئے۔‘‘
آنحضرت ﷺ حاضرین جنازہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا ’’کیا کسی نے اسے اسلام کی کسی بات پر عمل کرتے دیکھا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’ہاں یا رسول اللہ اس نے خدا کی راہ میں ایک رات پہرہ دیا تھا۔‘‘ یہ سن کر حضور نے اس کی نماز پڑھی، اس کی قبر پر مٹی ڈالی اور اس کی نعش کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا۔ ’’اے مرنے والے! تیرے دوستوں کا خیال ہے تو جہنمی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو یقیناً جنتی ہے اور اے عمر بن خطاب! تو لوگوں کے تفصیلی اعمال نہ کریدا کر۔ بلکہ صرف یہ دیکھ لیا کر کہ آیاوہ اسلام کا مجملاً متبع ہے یا نہیں۔‘‘

(19) اسی طرح ایک مومن مجاہد جس کے اعمال کم تھے، اس کے نیکی کے پلڑے میں اس کا گھوڑا، گھوڑے کا چارہ اور اس کے گھوڑے کی لید اور پیشاب وغیرہ تک ڈالے گئے، یہاں تک کہ وہ پلڑااس کی غفلتوں اور گناہوں کے پلڑے سے بھاری ہو گیا اور وہ اپنے اسی گھوڑے پر سوار ہو کر جنت کی طرف سر پٹ روانہ ہو گیا۔
اسی طرح لا تعداد انسانوں کی مغفرت اس طرح پر ہوئی کہ ان کو انبیاء، اولیاء، نیکوں اور اہل اللہ سے صرف دوستی اور محبت تھی اور اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ کے وعدہ کے مطابق وہ سب باوجود کمیٔ اعمال کے ان بزرگوں کے ہمسائے قرار پائے۔

(20) ایک جگہ دیکھا کہ خدا کا ذکر و تسبیح کرنے والوں کی ایک جماعت فرشتوں کے پَروں کے سایہ میں جنت کی طرف جارہی تھی۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک آدمی تھا جس کی طرف غفران نے اشارہ کر کے کہا کہ اس کا قصہ بھی عجیب ہے۔ ایک دفعہ باری تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے پوچھا کہ آج تم نے دُنیا میں کیا دیکھا؟
انہوں نے عرض کیا ’’الٰہی! تیرے کچھ بندے ایک مسجد میں تیرا ذکر بصد ذوق شوق کر رہے تھے۔‘‘
فرمایا: ’’گواہ رہو کہ میں نے ان کو بخش دیا۔‘‘
فرشتوں نے عرض کیا کہ الٰہی! اسی مجلس میں ایک شخص اور بھی موجود تھا مگر وہ ذکرِ الہی کے لئے نہیں آیا تھا کہ اپنے نج کے کسی کام کو آیا تھا۔
ارشاد ہوا کہ گواہ ر ہو۔ میں نے اسے بھی بخش دیا۔ هُمُ الَّذِي لَا يَشْقٰي جَلِیْسُھُمْ (ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں ہوا کرتا) اور یہ وہ شخص ہے جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا تھا۔

(21) پھر ہم اور آگے بڑھے تو غفران نے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جو معرفت کی چادر اوڑھے چلا جاتا تھا۔ کہنے لگا کہ اس شخص کا قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔
اس شخص نے ایک بزرگ صحابی کی معیّت میں اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ کی طرف اس وقت ہجرت کی جب حضور ﷺ نے ہجرت فرمائی تھی۔ مدینہ جا کر یہ شخص بیمار ہو گیا اور ایسا ہے صبر ہوا کہ تیر کے پیکان سے اپنے ہاتھ کی رگیں خود کاٹ ڈالیں جن سے اتنا خون جاری ہوا کہ یہ مر گیا۔ اس کے دوست صحابی نے اُسے خواب میں دیکھا کہ اس کی حالت بہت اچھی ہے مگر اپنے دونوں ہاتھ ڈھانکے پھرتا ہے۔
پوچھا ’’تیرے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟‘‘
کہنے لگا کہ میرے ربّ نے مجھے بخش دیا، اس لئے کہ میں نے اس کے نبی کی طرف ہجرت کی تھی۔ مگر یہ بھی فرما دیا کہ ہم تیرے ہاتھوں کو درست نہ کریں گے جن کو تونے خراب کیا ہے۔ یہ قصہ سُن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔
اَللّٰھُمَّ وَلِيَدَیْہِ فَاغْفِرْ (یا اللہ ! ان کے ہاتھوں کی بھی مغفرت فرما)
سو یہ شخص آج تک اسی حالت میں رہا۔ آج اس دُعا کی وجہ سے اس کے ہاتھوں کی مصیبت دُور ہو گئی اور یہ جنت کو جارہا ہے۔

(22) پھر اور آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ ایک شخص کی بابت حکم ہوا ہے کہ اس کا حساب ہم خود ذاتی طور پر لیں گے۔ چنانچہ وہ شخص عرش کے سامنے حضوری میں پیش کیا گیا۔
ارشاد ہوا تجھے معلوم ہے کہ تونے ایسے ایسے بھاری گناه دُنیا میں کئے تھے۔ اس نے عرض کیا۔ ”ہاں اے میرے رب کئے تھے۔“
اس کی بوٹی بوٹی خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہی تھی کہ بس اب جہنم کے سوا میرے لئے کوئی جگہ نہیں کہ اتنے میں ارشاد ہوا۔ دیکھ میں نے تیرے ان سب گناہوں کی دُنیا میں پردہ پوشی کی تھی۔ اب اسی طرح میں یہاں بھی ان کی پردہ پوشی کروں گا۔ جا اپنی نیکیوں کا اعمال نامہ لے جا اور اپنے گناہوں کارجسٹر یہیں ہمارے پاس چھوڑ جا۔ آگے ہم جا نیں ہمارا کام۔

(23) اس کے بعد ایک اور مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ ایک مجرم لایا گیا اور اس کے ساتھ ننانوے بڑے بڑے طومار رجسٹروں اور اعمال ناموں کے تھے۔ مجھے ارشاد ہوا۔ ’’دیکھو یہ تیرے اعمال نامے ہیں۔ اگر تجھے ان سے انکار ہے تو کہہ دے۔‘‘ اس نے عرض کیا ’’میرے مولا! جو کچھ ان میں لکھا ہے وہ سب سچ ہے‘‘ ارشاد ہوا۔ ’’کوئی عذر ہے‘‘ کہنے لگا ’’کوئی نہیں۔‘‘
حکم ہوا کہ ہمارے ہاں تو تیرا ایک عذر اور ایک بڑی نیکی موجود ہے۔ تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔ اس کے بعد ایک چٹھی پیش کی گئی جس پر لکھا تھا۔
أَشْهَدُ أَنْ لَّاإِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ حکم ہوا کہ اس چٹھی کو اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھو۔
رکھتے ہی وہ پلڑ اتنا جُھک گیا کہ وہ سب طومار گناہوں کے اس کے مقابلہ میں بالکل ہلکے ہو گئے اور وہ شخص اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہتا ہوا بہشت بریں کی طرف بھاگتا چلا گیا۔

(24) اس کے بعد ہم ایک اور طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ خداوند عالم رب العالمین کی طرف سے ایک منادی کننده یہ اعلان کر رہا تھا کہ اَیْنَ الَّذِیْ کَانَتْ تَتَجَافٰی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ

(السجدہ:17)

(کہاں ہیں وہ لوگ جن کے پہلو میر ی خاطر رات کے وقت بستروں سے الگ رہتے تھے) یہ سنتے ہی ایسے سب لوگ کھڑے ہو کر ایک جگہ جمع ہو گئے اور ان کو حکم ہوا جاؤ تمہیں بغیر حساب بخش دیا۔

(25) اس کے بعد ایک تیسر امقدمہ عدالت خاص میں پیش ہو ا۔ ایک شخص کو آگے لایا گیا اور حکم ہوا کہ اس کے صغیرہ گناہ اور چھوٹی چھوٹی خطائیں اسے پڑھ کر سناؤ، پھر پوچھو کہ تو نے یہ گناہ کئے تھے۔ مگر کبائر اس کے سامنے نہ پیش کرنا۔
صغائر کو سن کر وہ شخص کہنے لگا، ہاں مولا! یہ سب میری غلطیاں مجھ سے ہی سر زد ہو ئی ہیں مَیں کیونکہ سچی باتوں کا انکار کر سکتا ہوں، اور ساتھ ہی وہ شخص دل میں ڈر رہا تھا کہ اب اس کے بعد میرے کبائر بھی ظاہر کئے جائیں گے کہ اتنے میں حکم ہوا ’’جا تجھے ہم نے بخشا ’’اور تیرے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی تجھے دی۔‘‘
یہ دیکھ کر وہ بے چارا خوشی کے مارے بالکل دیوانوں کی طرح ہو گیا اور کہنے لگا ’’یا الٰہٰی یہ تو میرے چھوٹے چھوٹے گناہ تھے ابھی بڑے بڑے گناہوں اور کبائر کو تو پڑھاہی نہیں گیا، ان کو بھی پیش کیا جائے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ حاضرین کے بےاختیار ہنس پڑے اور وہ شخص بھی شرمندہ سا ہو کر جنت کی طرف روانہ ہوا اور پیچھے سے ایک فرشتہ نے مغفرت کی چادر اسے اوڑھادی۔

(26) جن اشخاص کو دُنیا میں اپنے قصوروں اور حدود کی سزا مل چکی تھی ان کے ساتھ تو خصوصاً وہاں نرمی اور شفقت کا سلوک ہو رہا تھا۔ چنانچہ ایک شخص سے دُنیامیں ایک بُراکام سرزد ہو گیا تھا وہ خو د گیا اور حاکم وقت سے عرض کیا: حضور! مجھ سے یہ گناہ سرزد ہو گیا ہے، میں نے توبہ کی ہے، تم مجھے دُنیا میں سزا دے لو، میں اپنے رب کے آگے رو سیاہ ہونے سے دُنیاکی تکلیف برداشت کر لینا بہتر سمجھتا ہوں ۔ چنانچہ اُسے سنگسار کر دیا گیا اور جو حشر میں لا یا گیا تو اس کو ان خوش کن الفاظ سے مخاطب کیا گیا اے میرے بندے ! ہمیں تیری اس توبہ کی اس قدر قدر و منزلت ہے کہ اگر وہ ایک پورے شہر کے گناہگاروں پر تقسیم کی جاتی تو ہم ان سب کو بخش دیتے۔

(27) ایک اور شخص کو دیکھا جس نے اپنے زمانہ حکومت میں رعایا پر بہت ظلم کئے تھے وہ سب مظلوم اس سے بدلہ لینے کے لئے وہاں حاضر تھے مگر جب یہ سنایا گیا کہ اس شخص نے آخری عمر میں اپنے سب مظالم سے توبۃالنصوح کر لی تھی اور مدینہ طیبہ ہجرت کر کے چلا گیا تھا اور وہیں مرا تھا تو اس اعلان سے یکدم ان تمام لوگوں پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ سب ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے ہم نے اس شخص کے سب قصور معاف کئے، خدا بھی اسے بخشے۔ چنانچہ وہ خوش خوش ہنستا ہوا وہاں سے جنت کی طرف رخصت ہوا۔

(28) اس سے بڑھ کر یہ کہ کروڑوں انسانوں کے حقوق العباد کا بدلہ خدا تعالی نے مستحقین کو اپنے پاس سے بڑھ چڑھ کر ادا کر دیا اور ان مظلوموں نے نہایت خوشی سے اپنے دعوؤں اور حقوق سے دستبرداری داخل کر دی اور ان کے گناہ بخش دیئے گئے۔
نالائق اولاد جن پر ان کے ماں باپ بہت راضی اور خوش تھےوہاں محض اس لئے بخشی جارہی تھی کہ وہ رِضَي الرَّبِّ فِي رِضَي الْوَالِدِ کےقانون کے ماتحت خدا کافضل جذب کر رہی تھی۔

(29) سب سے حیران کرنے والی بخشش میں نے دو شخصوں کے معاملہ میں دیکھی۔ دو جہنمی ایک طرف دوزخ میں جانے کے لئے کھڑے تھے کہ ایک مغفور شخص وہاں سے گزرا ایک جہنمی نے اس جنتی سے کہا۔
’’بھائی صاحب! کیا آپ مجھے نہیں پہچانتے؟ میں وہ ہوں جس نے آپ کو فلاں جگہ ایک دفعہ پانی پلایا تھا۔‘‘ اس پر دوسرا جہنمی بولا ’’مجھے بھی تو آپ نہ بھولے ہوں گے۔ میں نے آپ کو فلاں جگہ ایک دن وضو کے لئے لوٹا بھر کر دیا تھا اب ہم تو جہنم کو جائیں گے اور آپ جنت کو۔‘‘ یہ سن کر جنتی کا دل پسیج گیا اور اس نے وہیں بار گاہِ غفور رحیم سے ان کے لئے دعا کی۔ حکم ہوا ان کو بھی اپنے ساتھ جنت میں لے جاؤ۔

(30) ابھی ہم ان انظاروں سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ جہنم کی طرف سے سخت چیخوں کی آواز آنے لگی۔ رپورٹ ہوئی کہ دو شخص بے حد غُل مَچا رہے ہیں۔ ارشاد ہوا۔ ’’ان کو ہمارے رُوبرو پیش کرو۔ غرض وہ حضوری میں لائے گئے۔‘‘
پوچھا گیا۔اتنا غُل کیوں مچاتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا ’’الٰہی جل گئے ہیں۔ ہمیں اس عذاب کی برداشت نہیں۔ ہم پر رحم ہو۔
ارشاد ہوا۔ جاؤ فی الحال اپنی جگہ چلے جاؤ۔ تمہارے معاملہ پر غور ہو گا۔ یہ سن کر ایک تو واپس جہنّم میں چلا گیا مگر دو سر اوہیں کھڑا رہا۔ حکم ہوا تُو کیوں نہیں جاتا؟وہ عرض کرنے لگا۔ ’’مولا ! کیا تو نے مجھے اسی لئے جہنّم سے نکالا تھا کہ پھر دوبارہ اسی میں ڈالا جائے۔‘‘ اس پر حاضرین ہنس پڑے۔ ارشاد ہوا ’’اے بےصبر! اچھا جا۔ ہم نے تجھے بخشا اور ترے ساتھی کو بھی۔‘‘

(31) غرض اسی طرح کے حالات دیکھتے ہوئے ہم ایک گروہ صحابہؓ کی طرف گئے وہاں بھی کچھ جھگڑے اور حساب کتاب شروع تھا۔ ایک صحابیؓ حاطب کے متعلق ان کے گواہوں نے بیان دیا کہ اس شخص نے اسلام اور آنحضرت ﷺ سے وہ خیانت کی ہے کہ اس کی سزا دنیا میں سوائے قتل اور عاقبت میں سوائے جہنّم کے اور کچھ نہیں۔ اس نے کفار مکہ کو خط لکھا کہ آنحضرت ﷺ تم پر یکدم مخفی حملہ کرنے والے ہیں، تم ہوشیار ہو جاؤ۔ اس نے حضور کا راز فاش کیا، کفار کو مدد دی، اور مسلمانوں کو تباہ کرنے کا پورا سامان مہیا کر دیا۔ اگر خداوند تعالیٰ کی طرف سے حضرت ختمی ماب کو بر وقت اطلاع نہ مل جاتی تو فتح مکہ کی ساری تجاویز درہم برہم ہو کر رہ جاتیں۔ اس سے بڑھ کر غدّار ہم کو تو کوئی نظر نہیں آتا۔
بارگاہِ الٰہی سے ارشاد ہوا کہ تمہاری بات بالکل سچی ہے لیکن 2ھ میں ہمارا جو فرمان اہل بدر کے لئے جاری ہوا تھا اس کا ریکارڈ نکالو۔ ارشاد کی دیر تھی کہ فرمان کے متعلق اہل بدر حضوری میں پڑھا گیا اور وہ یہ تھا۔

إِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَاِنِّی غَفَرْتُ لَکُمْ

(اب جو چاہو کرو۔ میں نے تمہاری مغفرت بہر حال کر دی)

نیز ارشاد ہوا کہ بندوں کی بعض اہم خدمات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے بعد ہم ان کو ایسا ہی انعام دیا کرتے ہیں۔ جانے دو حاطب کو اہل بدر کے ساتھ وہ مغفور ہے۔

(32) اس کے بعد سید الشہداء حمزہ بن عبد المطلب شیر خدا کا مقدمہ پیش ہوا۔ گواہوں نے کہا کہ یہ ایک دن شراب کے نشے میں بیٹھے اپنی ایک لونڈی کا گانا سن رہے تھے کہ خوش ہو کر فرمانے لگے۔ مانگ کیا مانگتی ہے۔ اس لونڈی کو حضرت علی ابن ابی طالب سے کچھ عناد تھا۔ کہنے لگی ’’جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے علیؓ کو دو اونٹنیاں اپنے حصے کی ملی ہیں اور وہ فلاں احاطہ میں بندھی ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ان کی تازہ کلیجی بھون کر کھاؤں۔‘‘
اس پر یہ صاحب اٹھے اپنا خنجر سنبھالا اور اس حاطہ میں پہنچ کر ان زنده اونٹنیوں کے پیٹ چاک کر ڈالے اور پیٹ کے اندر سخت بیدردی سے ہاتھ ڈال کر ان کی کلیجیاں کھینچ کر نکال لیں اور اس لونڈی کو لا کر دے دیں کہ کھالو۔ بعد میں وہ زخمی جانور وہیں تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ لوگوں نے حضرت علی ؓ کو خبر کی وہ روتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچے کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔
حضور ﷺ ان کو ساتھ لے کر ان صاحب کے ہاں تشریف لے گئے وہ نشہ میں کیا فرماتے ہیں۔
’’کیا تم دونوں میرے باپ کے غلام نہیں ہو۔‘‘ یہ سن کر آنحضرت ﷺ واپس تشریف لے آئے اور سمجھ لیا کہ وہ شراب کے نشّے کی وجہ سے ہوش میں نہیں ہے۔ ان سے بات کرنا فضول ہے اس کے کچھ مدت بعد یہ صاحب احد کی جنگ میں مارے گئے ہم ان سے اس ظلم کا قصاص چاہتے ہیں جو ان سے سرزد ہوا تھا اور جو مذہب کے متعلق نہ تھا بلکہ انسانیت کے خلاف تھا اور گو اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی۔ پھر بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ یہ سخت قساوت ِقلبی اور ظلم ناحق کا مظاہرہ تھا جسے انسان کی فطرت دھکے دیتی ہے خواہ وہ کسی مذہب و ملّت کا ہو اس لئے ہم جو سائق ہیں اس کا قصاص طلب کرتے ہیں۔
بارگاہِ خداوندی سے ارشاد ہوا کہ ہم تو اس قصور کا قصاص پہلے ہی لے چکے ہیں۔ حمزه ہمارا شیر ہے لیکن ہم نے جو قصاص لیا ہے وہ بھی ظاہر ہے اور جو مقام قرب کا ہم نے اسے بخشا ہے وہ بھی ظاہر ہے کیا یہ صحیح نہیں کہ ایک لونڈی نے ان اونٹنیوں کو حمزه سے کہہ کر مروایا۔ اسی طرح وحشی جو ایک غلام تھا اسے بھی انعام دے کر احد میں لایا گیا تھا اور اس کے حربہ نے حمزہ کا پیٹ اسی طرح چاک کیا جس طرح ان جانوروں کا پیٹ پھاڑا گیا تھا۔ پھر ہندہ زوجہ ابو سفیان نے حمزہ کا کلیجہ اس زخم میں سے اسی طرح نکالا جس طرح حمزہ نے ان جانوروں کے کلیجے نکالے تھے اور جس طرح اونٹنیوں کے جگر کباب بنا کر کھائے گئے تھے اسی طرح حمزہ کا جگر بھی ہندہ نے میدان احد میں سب کے سامنے کھڑے ہو کر چبایا اور دوسری اونٹنی کے بدلہ میں اس عورت نے ان کو مثلہ بھی کیا یعنی ان کے ناک، کان اور ہونٹ کاٹ کر، ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالے اور میدانِ جنگ میں فخریہ لوگوں کو دکھاتی پھری اور انہوں نے جو آنحضرت ﷺ کو اپنے باپ کا غلام کہا تھا تو ایک حبشی غلام ہی نے ان کا کام تمام کیا اور یہ نصیب نہ ہوا کہ کسی معزّز سردار قریش کے ہاتھ سے مارے جاتے اب بتاؤ کہ کون سی چیز ہے جس کا قصاص حمزہ سے نہ لیا گیا ہو اونٹنیوں کا جگر کھانے والی بھی ایک مغنّیہ تھی اور حمزہ کا جگر کھانے والی بھی ایک گانے والی تھی جو میدانِ اُحد میں وہ مشہور گیت گاتی پھرتی تھی جس کا پہلا شعر یہ ہے۔

نَحْنُ بَنَاتُ الطَّارِقِ نَمْشِیْ عَلٰی النَّمَارِقِ

ہاں چونکہ وہ ہمارا محبوب بندہ تھا ہم نے اس قصاص کو بھی ایک عزت کی شکل دے دی۔ اس کا احد میں مارا جانا اس کے سید الشہداء ہونے کا باعث ہوا اور باقی باتیں جو مرنے کے بعد اس سے کی گئیں ان سے بھی اسے کوئی تکلیف اور اذیّت نہ ہوئی، نہ مُثلہ ہونے کی، نہ کلیجہ نکالنے کی اور نہ کلیجہ چبانے کی۔ پس ہم نے ایک ایسی عزت والی مغفرت کی چادر اس پر اوڑھا دی جس کی وجہ سے اس کے مدارج بھی بلند ہو گئے اور تمہارا دعویٰ قصاص بھی پورا ہو گیا۔ اب اسے لے جاؤ اور جنت میں اس کے بھتیجے کے پاس ہی اس کا مقام بھی بنا دو۔ ہم اس سے راضی ہیں اور وہ ہم سے۔

(33) یہ فیصلہ سننے کے بعد ہم آگے بڑھے ۔ ایک مسلمان کو دیکھا کہ اس کا ہر عمل عیب دار تھا اور سوائے اس کے اس نے شرک نہیں کیا تھا۔ باقی ہر طرح اس کی زندگی گناہگارانہ تھی۔ قریب تھا کہ جہنم کے فرشتے اسے کھینچ کر لے جائیں یہ پُر رعب و پُر شوکت آواز فضا میں بلند ہوئی۔

مَنْ عَلِمَ اَنِّی ذُوْ قُدْرَۃٍ عَلَی مَغْفِرَۃِ الذُّنُوْبِ
غَفَرْتُ لَہٗ وَلَا اُبَالِیْ مَا لَمْ یُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا

اور یہ شخص گو بڑا گناہگار ہے مگر اسے ہمیشہ یہ یقین تھا کہ میرا خد اغفور الرحیم ہے پس اس یقین کی وجہ سے میں اسے بخشتا اور جنت میں داخل کرتا ہوں۔
اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا آدمی کھڑا تھا جس کے نامۂ اعمال میں پہلے ورق سے آخر ورق تک نافرمانیاں اور غفلتیں ہی غفلتیں لکھی تھیں، لیکن ہر صفحہ پر اس کے ایک دواستغفار بھی ضرور لکھے ہوتے تھے جو گاہے بگاہے خدا سے مانگ لیا کرتا تھا۔ حکم ہوا کہ میں نے اپنے اس بندے کے سب گناہ اس کے استغفاروں کی وجہ سے محو کر دیئے۔

(34) پھر ایک اندھے کی بابت جھگڑا شروع ہوا۔ بارگاہِ الٰہی کی طرف سے حکم آیا کہ ہم نے اس کی دو نہایت پیاری عزیز آنکھیں لے لیں۔ اب یہ مستحق ہے کہ ہم اس کی مغفرت کریں۔

(35) آگے چل کر لاانتہا بیماروں اور مصیبت زدہ مفلسوں کا ایک جم غفیر تھا جن کے لئے یہ حکم ہوا کہ جن لوگوں کی مغفرت کا مجھے خیال ہوتا ہے ان کو میں دُنیا سے رخصت نہیں کرتا۔ جب تک ان کے ایک ایک گناہ کے بدلے ان کو جسمانی امراض اور رزق کی تنگی دے کر انہیں جنت میں جانے کے قابل نہیں بنا لیتا۔

لَ ا اُخْرِجُ اَحَدًا مِنَ الدُّنْيَا اُرِيْدُ اغْفِرْ لَہٗ حَتَّی اسْتَوْ فَي
كُلَّ خَطِيْئَةٍ فِيْ عُنُقِهٖ بِسُقْمٍ فِیْ بَدَنِهٖ وَاقتَارٍ فِيْ رِزْقِهٖ

خاکسار بھی چونکہ اپنے بچپن کے زمانہ سے ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہا ہے اس لئے یہ ارشاد سن کر بے حد خوش ہوا اور اپنی سب تکالیف مجھے راحت نظر آنے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد میں نے غفران سے کہا۔
’’بھائی! بہت کچھ نمونہ جناب الٰہی کی مغفرت کا میں نے دیکھ لیا۔ یہاں کا معاملہ تو ایک بحر ناپیدا کنار ہے اور میں اب تھک بھی گیا ہوں اب تُو مجھے واپس لے چل۔ چنانچہ ہم واپس ہوئے۔ مگر راستہ میں میری تکان کو دیکھ اس نے مجھے باتوں میں مصروف رکھا اور بتایا گیا کہ مغفرت کی بعض وجوہ اور اسباب کیا ہیں چنانچہ مختصراً عرض کرتا ہوں۔‘‘

1۔ یہ کہ کوئی شخص خواہ اس کا کتنا ہی ایمان ہو یا کتنے ہی اعلیٰ عمل ہوں ابدی جنت اور دائمی مغفرت کا وارث صرف اپنی کوشش کی وجہ سے نہیں ہو سکتا بلکہ یہ سب چیزیں جاذبِ فضلِ خدا ہیں۔ پس اصل چیز فضل الٰہی ہے اور کسی انسان کی نجات عمل پر نہیں بلکہ فضل پر موقوف ہے۔

2۔ دوسرا اصل یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ بڑا ہی نکتہ نواز ہے۔

3۔ تیسرا یہ کہ وہ بالا رادہ غفور الرحیم ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے کسی کوبے حساب بخشتا ہے اور کسی کو ہلکا سا حساب لے کر اور کسی سے پورا حساب مانگتا ہے۔

4۔ اس کار حم ہمیشہ اس کے غضب پر غالب ہے۔

5۔ اس کی سب سزائیں بھی کسی حکمت ،مصلحت اور اصلاح پر مبنی ہیں نہ کہ خفگی اورغصہ پر ۔ یہاں تک کہ جہنم بھی ایک شفاخانہ ہے اور عارضی ہے نہ کہ دائمی۔

6۔ تمام مخلوقات میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو کسی کا کوئی گناہ بخش سکے۔ گناہوں کی بخشش صرف اور صرف الله تعالیٰ سے ہی مخصوص ہے۔ اِنّهٗ لَاْ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ۔

7۔ اس کی درگاہ ظلم کے عیب سے بالکل پاک ہے۔ وہاں تور حم ہے یا انصاف ہے یامناسب سزا۔
8۔ نیکی کا بدلہ نیک ہے بلکہ بہت بڑھ کر ملتا ہے۔ بدی کی سزا بڑھا کر نہیں بلکہ اتنی ہی دی جاتی ہے اگر کوئی نیکی کی صرف نیت کرے تو اس نیت کا اجر بھی ملتا ہے لیکن بدی کی نیت کرے اور کر نہ سکے تو کوئی سزا نہیں اور اگر بدی کا ارادہ کر کے پھربدی کرنے سے پہلے ہی اس سے باز آجائے تو پھر نیکی محسوب ہوتی ہے نہ کہ بدی۔

9۔ استغفار کی دُعا بارگاہِ الٰہی میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے۔

10۔ کوئی دوسرا شخص کسی کے لئے مغفرت کی دُعا کرے تو وہ نہ صرف اسی شخص کےلئے مقبول ہوتی ہے بلکہ دُعا کرنے والا بھی برابر کی مغفرت کا حصہ پاتا ہے اورزندوں کا بہترین ہدیہ مُردوں کے لئے استغفار کیا ہے۔

11۔ غفور الرحیم خدانے بے انتہا فرشتے عالمین کے ہر گوشہ اور کونہ کونہ میں بٹھا رکھےہیں اور ایک نہایت معزّز اور مقرب طبقہ ملائکہ کا اپنے عرش کے گر د مقرر کیا ہے تا کہ وہ ہر وقت انسانوں کے لئے مغفرت کی دُعا اور سفارش کرتے رہیں۔ خدا تعالیٰ مغفرت کرنے سے نہیں ہچکچا تا خواہ کسی مومن کے گناہ پہاڑ جتنے ہوں یا آسمان تک ہوں اور ہر روز لا انتہا گناہ انسانوں کے اس غفور الرحیم کے فضل و کرم سے یونہی معاف ہوتے رہتے ہیں۔

12۔ آخرت میں تمام انبیاء خصوصاً سر تاج انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بلکہ دیگر جملہ مقربین بھی شفاعت کا اِذن پائیں گےاور لا تعداد مخلوق ان کی شفاعت سے بخشی جائے گی اور نہ صرف بزرگوں اور نیکوں بلکہ قرآن مجید اور اس کی سورتوں کی سفارش اور شفاعت بھی گنہگاروں کی مغفرت کرائے گی۔

13۔ بالآخر وہ غفور الرحیم یہ کہہ کر اپنا ہاتھ جہنم میں ڈالے گا کہ سب شفاعت کرنے والے اپنی اپنی شفاعت کر چکے، اب مجھ رحمان، حنّان، منّان کی شفاعت کی باری ہے یہ کہہ کر وہ باقی مانده سب سزا یافتوں کو نکال لے گا جہنم اپنے سکان سے خالی ہو جائے گا اور رحمتِ الٰہی کی نسیم اس کے دروازوں کو کھڑ کھٹر ائے گی اور فرعون اور ابو جہل تک بھی ایک محدود زمانہ کے بعد بخشے جائیں گے اور اس غفور الرحیم کی مغفرت کی چادر میں لپٹے ہوئے نظر آئیں گے جہنم تبھی تک مجرم کو اپنے اندر رکھے گی جب تک کہ اس کی اصلاح نہ ہو جائے۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ حَتّٰی اِذَا هَذَّبُوْا وَاتَّقُوْا یعنی جو نہی تہذیب، اخلاق اور پاکیزگیٔ قلب و ہاں مجرم کو حاصل ہوگئی اور وہ اس قابل ہو گیا کہ جنتیوں کے ساتھ مل کر بکمال اخلاق و نیکی اپنی زندگی وہاں پُر امن طور پر بسر کر سکے اسی وقت وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

14۔ بعض لوگ اس وسوسہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ماں باپ سے بھی زیادہ شفیق ہے تو پھر وہ کیوں اُن کو دوزخ میں ڈالے گا۔ سو اس کی حقیقت یہ ہے کہ جہنم تو دراصل معاند مشر کین، سخت ترین مفسدین اور خدا و رسول ﷺ کا مقابلہ کرنے والوں کے لئے ہی ہے۔ ماں باپ بھی جب اُن کی اولاد متمرد اور سرکش ہو جائے تو ان سے بیزار اور ان کے دشمن ہو جاتے ہیں۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُعَذِّبُ مِنْ عِبَادِهٖ اِلَّا الْمَارِدِ الْمُتَمَرِّدَ الَّذِي يَتَمَرَّدُ عَلَى اللّٰهِ وَاَبَی اَنْ يَّقُوْلَ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ۔
ایسے لوگوں کے سوا گنہگاروں کے ساتھ جو سلوک یہاں ہو رہا ہے وہ تُو نے آج خود یکھ ہی لیا ہے۔

سُبْحَانَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوْنَ

(المؤمنون: 92)

اعمال صالحہ

ان باتوں کے سوا جو تیری نظر سے گزریں اور ہزاروں طریقے مغفرت الٰہی کے اجراء کے ہیں اور لاکھوں اعمال ایسے ہیں جن کو حضرت غفور الرحیم پسند کر کے اس شخص پر اپنی مغفرت کا نور چڑھا دیتے ہیں۔کہیں نماز روزه، اخلاق پسندیده ، بزرگوں کو خوش رکھنا، والدین کی اطاعت، خاوند کی فرمانبرداری، یتیموں کی پرورش، صدق و خیرات، توبہ استغفار، تبلیغ ، ذکر الٰہی، خشيتِ الله اور تقویٰ، خدا تعالیٰ پر امید رکھنا، کبائر سے بچتے رہنا۔ بزرگوں کا اَدب کرنا، دوسروں کے قصور معاف کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنا، احسان بکثرت اور محبت کے ساتھ دُرود پڑھنا، اخلاص، جہاد، قربانیاں، تلاوت قرآن مجید وغیرہ۔

غرض تمام اچھے طریقے بلکہ اور جملہ نیک اعمال مومنوں کے لئے مغفرت کو جذب کرتے ہیں اور بعض دفعہ اس درگاہ کی نکتہ نوازی ہی انسان کی بخشش کا موجب ہو جاتی ہے۔ تیرا پھر بھی ادھر آنا ہوگا تو باقی مضمون تجھے سناؤں گا۔

غفران کی باتیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں کہ وہی بڑا دروازہ جس سے ہم میدان حشر میں داخل ہوئے تھے نظر آنے لگا۔ اسے دیکھتے ہیں جو ربودگی مغفرت الٰہی کے نشہ کی مجھ پر مستولی تھی وہ جاتی رہی اور میں بیدار ہو گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گھر میں اپنے پلنگ پر کاغذ قلم لئے یہی مضمون لکھ رہا ہوں۔ مگر میں نےاپنے پورے ہوش میں صرف یہ آخری فقرہ لکھا کہ

آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ


(حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ)

قسط اول

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2020