• 29 اپریل, 2024

اھدنا الصراط المستقیم کی دعا امت کو سکھلانے کا مقصد

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا امت کو سکھلانے کا مقصد

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپؑ نے حضرت موسیٰ ؑکی بھی مثال دی کہ اُن کی قوم میں بھی نظر نہیں آتا۔ پھر فرمایا:
’’حضرت مسیح کے صحابہ کا حال سنو … جس قدر حواری تھے، وہ مصیبت کا وقت دیکھ کر بھاگ گئے اور ایک نے بھی استقامت نہ دکھلائی اور ثابت قدم نہ رہے اور بزدلی اُن پر غالب آگئی۔ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے تلواروں کے سایہ کے نیچے وہ استقامتیں دکھلائیں اور اس طرح مرنے پر راضی ہوئے جن کی سوانح پڑھنے سے رونا آتا ہے۔ پس وہ کیا چیز تھی جس نے ایسی عاشقانہ روح اُن میں پھونک دی اور وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اُن میں اس قدر تبدیلی کر دی۔ یا تو جاہلیت کے زمانہ میں وہ حالت اُن کی تھی کہ وہ دنیا کے کیڑے تھے اور کوئی معصیت اور ظلم کی قسم نہیں تھی جو اُن سے ظہور میں نہیں آئی تھی اور یا اس نبی کی پیروی کے بعد ایسے خدا کی طرف کھینچے گئے کہ گویا خدا اُن کے اندر سکونت پذیر ہو گیا۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وہی توجہ اُس پاک نبی کی تھی جو اُن لوگوں کو سفلی زندگی سے ایک پاک زندگی کی طرف کھینچ کر لے آئی۔ اور جو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اُس کا سبب تلوار نہیں تھی بلکہ وہ اُس تیرہ سال کی آہ و زاری اور دعا اور تضرع کا اثر تھا جو مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرتے رہے۔ اور مکہ کی زمین بول اُٹھی کہ مَیں اس مبارک قدم کے نیچے ہوں جس کے دل نے اس قدر توحید کا شور ڈالا جو آسمان اُس کی آہ و زاری سے بھر گیا۔ خدا بے نیاز ہے۔ اُس کو کسی ہدایت یا ضلالت کی پرواہ نہیں‘‘۔ (کوئی ہدایت پاتا ہے یا گمراہ ہوتا ہے اُس کو پرواہ نہیں )۔ ’’پس یہ نورِ ہدایت جو خارق عادت طور پر عرب کے جزیرہ میں ظہور میں آیا اور پھر دنیا میں پھیل گیا، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلی سوزش کی تاثیر تھی‘‘۔ (یہ آپ کی دعائیں تھیں جو سینے سے اُبل رہی تھیں کہ دنیا ہدایت پا جائے۔) فرمایا ’’ہر ایک قوم توحید سے دور اور مہجور ہو گئی مگر اسلام میں چشمہٴ توحید جاری رہا۔ یہ تمام برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ (الشعراء: 4)۔ یعنی کیا تو اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دے گا جو یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ پس پہلے نبیوں کی اُمّت میں جو اس درجہ کی صلاح و تقویٰ پیدا نہ ہوئی اُس کی یہی وجہ تھی کہ اس درجہ کی توجہ اور دلسوزی اُمّت کے لئے اُن نبیوں میں نہیں تھی۔ افسوس کہ حال نے نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی مکرم کا کچھ قدر نہیں کیا اور ہر ایک بات میں ٹھوکر کھائی۔ وہ ختمِ نبوت کے ایسے معنی کرتے ہیں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو نکلتی ہے، نہ تعریف۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفسِ پاک میں افاضہ اور تکمیلِ نفوس کے لئے کوئی قوت نہ تھی۔ اور وہ صرف خشک شریعت کو سکھلانے آئے تھے‘‘۔ (یعنی کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں، یعنی اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتے ہیں) ’’حالانکہ اللہ تعالیٰ اس اُمّت کو یہ دعا سکھلاتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ: 6)۔ پس اگر یہ اُمّت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے ان کو کچھ حصہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی؟‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ101-104 حاشیہ)

یہ حوالہ بھی حقیقۃ الوحی کا ہے۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقتداری معجزات کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اس درجۂ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں‘‘۔ (اور ایسا مقام پہنچ جاتا ہے جو ایسے معجزات بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ بظاہر ممکن نہیں بلکہ بشری طاقتوں سے بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور انسانی طاقتوں سے باہر ہوتے ہیں) فرمایا کہ ’’جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفّار پر چلائی۔ اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی۔ مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو‘‘۔ (بیشک قانونِ قدرت کے تحت اُس مٹھی کے پیچھے ایک آندھی آئی لیکن وہ مٹھی ہی تھی جس نے وہ آندھی کا سبب پیدا کر دیا) فرمایا ’’اور وہ سب اندھوں کی طرح ہوگئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا۔ اسی معجزہ کی طرف اللہ جلّ شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال: 18) یعنی جب تونے اس مٹھی کو پھینکا وہ تونے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا۔ (کیونکہ اُس مٹھی کے پیچھے خدا تعالیٰ کی طاقت کارفرما تھی) ’’یعنی درپردہ الٰہی طاقت کام کر گئی۔ انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا‘‘

پھر فرمایا: ’’اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو شق القمر ہے‘‘ (یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا جو واقعہ آتا ہے) ’’اسی الٰہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الٰہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا۔ اور اس قسم کے اَور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعانہ تھی۔ کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کردیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا‘‘۔ (یہ معجزات دکھائے) ’’اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کردیا‘‘۔ (یعنی پیٹ بھر دیا) ’’اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا۔ اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں‘‘ (یعنی نمکین پانی والے کنوئیں میں) ’’اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کردیا۔ اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا۔ اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے‘‘ (آنکھیں باہر آ گئی تھیں، ڈیلا) ’’اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کردیا‘‘۔ (واپس رکھ دیا اور آنکھ اُسی طرح سالم ہو گئی) ’’ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقتِ الٰہی مخلوط تھی‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ65-66)

(خطبہ جمعہ یکم فروری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

بینن (Benin) میں ایک خوبصورت مسجد کا افتتاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2022