مہندی ایک مبارک لفظ ہے جس کا ذکر احادیث میں بھی ملتا ہے۔ مہندی کا استعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض صحابہ بھی کیا کرتے تھے اور آج کے دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپؑ وسمہ کیا کرتے تھے۔
مہندی یا حنا کا استعمال زیادہ تر تو سر پر ہوتا تھا۔ ایشیائی معاشرے میں گرمی سے بچاؤ کے لئے لوگ سر اور پاؤں پر بھی لگاتے رہے اور مستورات خوبصورتی کی خاطر اپنے ہاتھوں پر لگایا کرتی ہیں۔ سر پر مہندی لگانے کے درج ذیل فوائد ہیں۔
- بال رنگ دار ہو جاتے ہیں۔
- بالوں میں خوبصورتی آجاتی ہے۔
- بالوں میں چمک پیدا ہو تی ہے۔
- ہلکی بھینی بھینی خوشبو ماحول کو معطر کرتی رہتی ہے۔
- گرم موسم میں ٹھنڈک کا احساس ہو تا ہے۔
اس لئے ایشیائی معاشرے میں لوگ پاؤں پر مہندی لگاتے ہیں تاکہ گرمی کا احساس کم ہو۔ پاکستان میں بھیرہ کی مہندی مشہور ہے۔ بہت دُور دُور سے لوگ اس کو منگوا کر استعمال کرتے ہیں۔
عورتوں میں شادی بیاہ اور خوشی کے فنکشنز پر ہاتھوں کو مہندی سے رنگنے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ اب تو نت نئے ڈیزائن کے ساتھ اسے استعمال میں لایا جاتا ہے اور اس کا خوب رنگ چڑھتا ہے۔ شاعر نے انہی امور کو مد نظر رکھ کر کہا ہے کہ ’’جیڑی مہندی رنگ نہ دیوے کی فیر اودا لانا‘‘ گویا مہندی کا کام ہی رنگنا ہے۔
اگر ہم وسمہ کو دینی اور روحانی معنوں میں استعمال کریں تو اپنے آپ کو خدائی اوصاف اور اسلامی تعلیمات سے رنگنے کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تَخَلَّقُوْ بِاَ خْلَا قِ اللّٰہِ کے الفاظ میں فرمایا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تمام امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے اخلاق و اطوار سے رنگین کرو۔ نیز قرآن کریم اور احادیث میں صحبت صالحین اختیار کرنے کا جو حکم ہے وہ دراصل صوفیاء اور ولیوں کے اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرنے اور ان کی نیکیوں کے رنگ کو اپنے اوپر چڑھانا ہی مطلب ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ فضا اپنے ارد گرد کے ماحول میں بسنے والی خوشبو ؤں سے اپنے آپ کو معطر کر لیتی ہے۔ ان خوشبوؤں کے رنگ کی آمیزش فضا میں ہو جاتی ہے۔ جہاں گلاب کے پھول ہوں گے وہاں فضا گلاب کی خوشبو سے مہک رہی ہو گی اور جہاں رات کی رانی یا دن کے راجا اور موتیا کے پودے ہوں گے وہاں ان جیسی خوشبوؤں سے ہی ہوا اپنے آپ کو رنگ کر اور معطر کر کے اس جیسی خوشبو کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ گلاب کے پھول کی پتیاں جب پودے سے الگ ہو کر نیچے گرتی ہیں تو زمین کو بھی اپنے رنگ میں خوشبو لینے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’ہمسایہ کی اصلاح میں ہی انسان کی اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ہمسایہ کا اثر اس پر پڑتا ہے۔ نہ صرف انسان بلکہ دنیا کی ہرایک چیز اپنے پاس کی چیز سے متاثر ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاس پاس چیزیں ایک دوسرے کے اثر کو قبول کرتی ہیں، بلکہ سائنس کی موجودہ تحقیق سے تو یہاں تک پتہ چلتا ہے کہ جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے رنگ ان پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں، مچھلیاں پانی میں رہتی ہیں اس لئے ان کا رنگ پانی کی وجہ سے اور سورج کی شعاعوں کی وجہ سے جو پانی پر پڑتی ہیں سفید اور چمکیلا ہو گیا۔ مینڈک کناروں پر رہتے ہیں اس لئے ان کا رنگ کناروں کی سر سبز گھاس کی وجہ سے سبزی مائل ہو گیا۔ ریتلے علاقہ میں رہنے والے جانور مٹیالے رنگ کے ہوتے ہیں۔ سر سبز درختوں پر بسیرا رکھنے والے طوطے سبز رنگ کے ہو گئے۔ جنگلوں اور سوکھی جھاڑیوں میں رہنے والے تیتروں وغیرہ کا رنگ سوکھی ہوئی جھاڑیوں کی طرح ہو گیا، غرض پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے اور ان کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے پرندوں کے رنگ بھی اسی قسم کے ہو جاتے ہیں، پس اگر جانوروں اور پرندوں کے رنگ پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے بدل جاتے ہیں تو انسان کے رنگ جن میں دماغی قابلیت بھی ہوتی ہے پاس کے لوگوں کو کیوں نہیں بدل سکتے، خدا تعالیٰ نے اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ وَکُو نُو مَعَ الصَّا دِ قِینَ یعنی اگر تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کا گر یہی ہے کہ صادقوں کی مجلس اختیار کرو تاکہ تمہارے اندر بھی تقویٰ کا وہی رنگ تمہارے نیک ہمسایہ کے اثر کےماتحت پیدا ہو جائے جو اس میں پایا جاتا ہے۔
پس جماعت کی تنظیم اور جماعت کے اندر دینی روح کے قیام اور اس روح کے زندہ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کی کوشش کرے کیونکہ ہمسایہ کی اصلاح میں اس کی اپنی اصلاح ہے۔ ہر شخص جو اپنے آپ کو اس سے مستثنیٰ سمجھتا ہے وہ اپنی روحانی ترقی کے راستہ میں خود روک بنتا ہے۔ بڑے سے بڑا انسان بھی مزید روحانی ترقی کا محتاج ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری دم تک اھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کی دعا کرتے رہے۔ پس خدا کا وہ نبی جو پہلوں اور پچھلوں کا سردار ہے جس کی روحانیت کے معیار کے مطابق نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا اور جس نے خدا تعالیٰ کا ایسا قرب حاصل کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے اگر وہ بھی مدارج پر مدارج حاصل کرنے کے بعد پھر روحانی ترقی کا محتاج ہے اور روزانہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر اھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کہتا ہے اکیلا نہیں ہے بلکہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر کہتا ہے تو آج کون سا انسان ہو سکتا ہے جو خداتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر اھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کہنے سے اور جماعت میں کھڑے ہو کر کہنے سے اپنے آپ کو مستغنی قرار دے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے مستغنی قرار دیتا ہے تو وہ اپنے لئے ایسا مقام تجویز کرتا ہے جو مقام خدا تعالیٰ نے کسی انسان کے لئے تجویز نہیں کیا۔ کیونکہ اس قسم کا استغنا عزت نہیں بلکہ ذلت ہے ایمان کی علامت نہیں بلکہ وہ شخص کفر کے دروازہ کی طرف بھاگا چلا جا رہا ہے۔
پس تنظیم کے لئے ضروری ہے کہ اپنے متعلقات اور اپنے گردو پیش کی اصلاح کی کوشش کی جائے اس سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے۔ اس سے قوم میں زندگی پیدا ہوتی ہے اور کامیابی کا یہی واحد ذریعہ ہے۔‘‘
(الفضل 6؍اگست 1965ء)
اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپنانے اور قرآن کریم میں دی گئی دینی، اخلاقی اور اسلامی تعلیم کو پانے اور جسموں میں سمونے کے ذکر کے بعد سب سے پہلے اس پیارے، خوبصورت رنگ کا ذکر ضروری ہے جس نے دنیا میں موجود تمام مخلوق سے سب سے زیادہ یہ رنگ اپنے اندر جذب کیا اور وہ ہیں ہمارے نبی محترم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپؐ اپنے وجود میں اپنے معبود حقیقی کو اُتار کر قرآن کریم کی تعلیمات کی عملی تصویر بن گئے۔ آپؐ کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا غرض زندگی کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ اور اس پیاری کتاب قرآن کریم کو اپنے اوپر لاگو کرنا اور اپنے آپ کو ان رنگوں سے رنگین کرنا تھا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قوس قزح تھے۔ جس میں مختلف رنگوں کی آمیزش سارے آسمان میں اپنے رنگ بکھیر کر اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔ یہی کیفیت ہمارے آقا و مولیٰ سیدنا و امامنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی جن کے دینی اسلامی رنگا رنگ وجود نے اپنے جلو میں لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا۔ ان کو اپنے ساتھ یا اپنے اندر جذب کیا اور وہ بھی انہی رنگوں میں رنگ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
اَحْیَیْتَ اَمْوَاتَ الْقُرُوْنِ بِجَلْوَۃِ
مَا ذَا یُمَا ثِلُکَ بِھٰذَا الشَّانِ
تونے صدیوں کے مُردوں کو ایک ہی جلوہ سے زندہ کر دیا۔ کون ہے جو اس شان میں تیرا مثیل ہو سکے؟
تَرَکُو ا الْغَبُوْ قَ وَ بَدَّ لُوْ ا مِنْ ذَوْقِہٖ
ذَوْقَ الدُّعَا ءِ بِلَیْلَۃِ الْاَ حْزَانٖ
انہوں نے شام کی شراب چھوڑ دی اور اس کی لذت کو غم کی راتوں میں دعا کی لذت سے بدل دیا۔
آج کے دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی فرزند حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مہعود علیہ السلام نے فضاؤں اور زمینی حدود میں بکھرے اس پیارے وجود کے لازوال رنگوں کو اکٹھا کر کے اپنے اوپر چڑھایا اور ایک ایسی جماعت پیدا کی جو آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر خلفاء کرام کے توسط سے ان لا ثانی رنگوں کو اپنے اوپر چڑھا رہی ہے اور ساری دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں یہ اسلامی رنگ کا لبادہ اوڑھ کر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں اپنے آپ کو نچھاور کرنے کے لئے ہر دم تیار ہے۔
ان میں ایک سیدنا حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّلؓ تھے۔ جن کا تعلق اس شہر سے تھا۔ جس کی مہندی اور حنا ساری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ زمین مہندی اور حنا کی خوشبو سے معطر ہو چکی ہے۔ اس کے اندر جذب کی کیفیت ہے۔ یہی جذب کی کیفیت لئے یہ سادھو، قادیان جا پہنچا اور وہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو لے کر ایسا امر ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کے متعلق کہنا پڑا۔
چہ خوش بُو دے اگر ہر یک ز امّت نورِ دیں بو دے
ہمیں بُو دے اگر ہر دل پُر از نورِ یقین بُو دے
کیا ہی اچھا ہوتا اگر اُمّت میں سے ہر ایک نور الدین ہوتا یہ تبھی ہوتا اگر ہر دل یقین سے بھرا ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج کروڑ وں دیوانے سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی سرکردگی میں اسلام احمدیت، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ اپنائے تبلیغ و تربیت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اور اگر ہم میں سے کسی پر اس مہندی کا رنگ چوکھا نہیں چڑھا تو اسے ہر وقت سعی کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے پیار، قرآن سے محبت، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاءراشدین، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء احمدیت سے عقیدت اور اسلامی تعلیم کے ہر چھوٹے سے چھوٹے امر کو بھی اپنا کر دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہئے اور ہمیں اسلام کے لئے گفتار اور کردار کا غازی بننا چاہئے جیسا کہ مجلس انصار اللہ برطانیہ 2019ء کے اجتماع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں قول و فعل میں یکسانیت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اگر ہمارے فعل ہمارے قول سے مطابقت نہیں رکھتے تو پھر اس رنگ بارے غور کرنا چاہئے جس کے ہم دعویدار ہیں۔ کیونکہ شاعر نے کہا
؎ جیڑی مہندی رنگ نہ دیوے کی فیر اودا لانا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی معنوں میں اسلامی رنگ اپنے اوپر چڑھائے رکھنے کی توفیق دیتا رہے۔
(یہ اداریہ روزنامہ گلدستہ علم و ادب آن لائن لندن میں شائع ہوا تھا۔ اسے معمولی ردوبدل کے ساتھ قارئین الفضل کے استفادہ کے لئے الفضل آن لائن لندن کا حصہ بنایا جا رہا ہے)
(ابو سعید)