سورۃ الحاقہ، المعارج اور نوح کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
سورۃ الحاقہ
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ترپّن آیات ہیں۔
سورۃ القلم میں یہ مضمون بیان ہوا تھا کہ ہم جب انبیاء کے دشمنوں کو مہلت دیتے ہیں تو اس لئے دیتے ہیں کہ ان کے گناہ کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ان کو کوئی بچا نہیں سکتا۔ اس سورت میں بھی ان قوموں کا ذکر ہے جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار مہلت دی گئی لیکن جب ان کے گناہوں کا پیمانہ بھر گیا تو اُن کی پکڑ کی گھڑی آگئی۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جس بہت بڑے عذاب سے بنی نوع انسان کو ڈرانے کا ارشاد فرمایا ہے اس کا تعلق دنیا کی کسی خاص مذہبی جماعت سے نہیں بلکہ بحیثیت انسان ہر ایک کو متنبہ کیا گیا ہے۔ جب وہ واقعہ ہو گا تو دنیا کے لحاظ سے بھی انسان سمجھے گا کہ گویا زمین و آسمان اس پر پھٹ پڑے ہیں۔ انسان کی بعثتِ ثانیہ میں بھی یہ انتباہ ایک دفعہ پھر پورا ہو گا کہ نہ اس کا کوئی زمینی تعلق اسے بچا سکے گا، نہ آسمانی تعلق اور جہنم اس کا انجام ہو گا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک عظیم گواہی پیش فرما رہا ہے اُن امور کے پورا ہونے کے متعلق بھی جو انسان کو کسی حد تک دکھائی دے رہے ہیں یا دکھائی دینے لگتے ہیں اور ان امور کے پورا ہونے کے متعلق بھی جن پر اس کی نظر نہیں جاتی۔ یعنی یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ایک معزز اَمین رسول کی باتیں ہیں نہ وہ کسی شاعر کا بہکا ہوا کلام ہے نہ کسی کاہن کی اٹکل پچو۔ یہ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ایک تنزیل ہے۔
اس سورت کی آخری آیات میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ایک ایسا پیمانہ پیش فرما دیا گیا جس کا کوئی ردّ دشمن کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔ دشمن کو متنبہ کیا کہ تمہارے نزدیک تو اس معزز کتاب کو اس رسول نے اپنے نفس سے ہی گھڑ لیا ہے حالانکہ اگر اس نے اللہ تعالیٰ پر چھوٹے سے چھوٹا افتراء بھی کیا ہوتا تو وہ یقیناً اس کو اور اس کے سلسلہ کو ہلاک کر دیتا۔ اور اگر اللہ یہ فیصلہ کرتا تو تم لوگ کسی طرح بھی اس کو بچا نہ سکتے۔ گویا تمہاری تمام قوتوں کے مقابل پر اللہ تعالیٰ اس کی نصرت فرما رہا ہے اور اس کو بچا رہا ہے جو یقینی طور پر اس کے اللہ کا رسول ہونے پر گواہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ کلام پھر بڑی صفائی سے اس کے حق میں پورا ہوا ہے: کَتَبَ اللّٰہُ لَاَ غْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی (المجادلہ: 22)
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1066)
سورۃ المعارج
یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی پینتالیس آیات ہیں۔
اس کی پہلی آیت ہی میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے عذاب سے متنبہ فرمایا ہے جسے کافر روک نہیں سکتے۔ پھر اللہ تعالیٰ کو ’’ذی المعارج‘‘ قرار دیا ہے یعنی اس کی بلندی طبقہ بہ طبقہ آسمان پر غور کرنے سے کسی حد تک سمجھ آسکتی ہے ورنہ اس کی رفعتوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ یہاں جس بلندی کا ذکر فرمایا گیا ہے اس پر ایک ایسی سائنسی شہادت ملتی ہے جس کا اس سورت میں خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ والی آیت میں ذکر ہے کہ فرشتے اس کی طرف پچاس ہزار سال میں عروج کرتے ہیں۔ اب پچاس ہزار سال میں عروج کرنے کے دو معنے ہو سکتے ہیں۔ اوّل: ظاہراً پچاس ہزار سال۔ اگر یہ معنی لئے جائیں تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ہر پچاس ہزار سال بعد ایسی موسمی تبدیلی واقع ہوتی ہے کہ ساری زمین برفانی تودوں سے ڈھک جاتی ہے اور پھر از سرِ نو تخلیق کا آغاز ہوتا ہے۔ دوسرے یہ قابلِ توجہ بات ہے کہ یہاں مِمَّا تَعُدُّوْن نہیں فرمایا۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت جس میں ایک ہزار سال کا ذکر ہے، وہ اس کے ساتھ ملا کر پڑھی جائے تو مطلب یہ بنے گا کہ جو تم لوگوں کی گنتی ہے اس کے اگر ایک ہزار سال شمار کئے جائیں تو اللہ تعالیٰ کا ہر دن اُس ایک ہزار سال کے برابر ہو گا۔ اور اگر ہر دن کو ایک سال کے دنوں سے ضرب دی جائے اور پھر اس کو پچاس ہزار سال کے دنوں سے ضرب دی جائے تو جو اعداد بنتے ہیں وہ اللہ کے دنوں کی مدت کی تعین کرتے ہیں۔ پس اس حساب سے اگر پچاس ہزار سال سے جو اللہ تعالیٰ کے دن ہیں اُسے ضرب دی جائے تو اٹھارہ سے بیس بلین سال بن جائیں گے جو سائنسدانوں کے نزدیک کائنات کی عمر ہے۔
(18,250,000,000=365x50000x1000)
یعنی ہر کائنات اس عمر کو پہنچ کر پھر عدم میں ڈوب جاتی ہے اور اس کے بعد پھر عدم سے وجود پیدا کیا جاتا ہے۔
یہ اتنی بڑی مدت ہے کہ اسے انسان بہت دور کی بات سمجھتا ہے لیکن جب عذاب واقع ہو گا تو وہ گھڑی بالکل قریب دکھائی دے گی۔ وہ ایسا عذاب ہو گا کہ انسان اپنے قریب ترین عزیزوں کو اور اپنی جان، مال و دولت اور ہر چیز کو اس کے بدلہ فدیہ دے کر اس سے بچنا چاہے گا مگر ایسا نہیں ہو سکے گا۔ ہاں عذاب سے پہلے اگر مومنوں میں یہ صفات ہوں کہ وہ اپنی نماز پر قائم رہتے ہیں اور ہمیشہ فکر سے ادا کرتے ہیں اور علاوہ ازیں اپنی پاکیزگی کی حفاظت کے لئے ان تمام شرطوں کو پورا کرتے ہیں جو اُن پر عائد کی گئی ہیں تو یہ وہ خوش نصیب ہیں جو اس عذاب سے مستثنیٰ کئے جائیں گے۔
آیت نمبر42 میں پھر اس بات کی تنبیہ فرمائی گئی کہ اللہ تم سے مستغنی ہے۔ پس اگر تم فسق و فجور سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمہاری جگہ نئی مخلوق لے آئے۔ پس جس عذاب کے واقعہ ہونے کی خبر دی گئی ہے اسی کے ذکر پر یہ سورت اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1072)
سورۃ نوح
یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی انتیس آیات ہیں۔
گزشتہ سورت کے آخر میں فرمایا تھا کہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ تم سے بہتر لوگ پیدا کردیں۔ اب اس سورت میں فرمایا کہ قوم نوح کے عذاب میں چھوٹے پیمانے پر یہی صورت تھی کہ پوری کی پوری قوم غرق کر دی گئی سوائے چند ایک کے جنہوں نے نوح علیہ السلام کی کشتی میں پناہ لی تھی اور پھر ان لوگوں سے جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ تھے ایک نئی بہتر نسل کا آغاز کیا گیا۔
آیت نمبر 5 میں پھر اللہ کی مقرر کردہ اجل کا ذکر ہے کہ جب وہ آئے گی تو پھر تم اسے ٹال نہیں سکو گے۔ یہ گزشتہ سورت کے مضمون کا اعادہ ہے۔
اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی اُس گریہ و زاری اور ابلاغ کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ محض پیغام پہنچا دینا کافی نہیں ہوا کرتا بلکہ اس پیغام کو سمجھانے کے لئے ایک نبی کو اپنی جان گویا ہلاک کرنی پڑتی ہے۔ کوئی ذریعہ وہ ایسا نہیں چھوڑتا جس سے قوم کے بڑوں اور چھوٹوں کو سمجھایا جا سکتا ہو۔ کبھی گریہ و زاری کے ساتھ اور کبھی چھپ چھپ کر تاکہ قوم کے متکبر لوگ، عوام الناس کے سامنے صداقت کو تسلیم کر کے شرمندگی محسوس نہ کریں۔ کبھی اعلانِ عام کے ساتھ تاکہ عوام الناس کو بھی براہ راست نبی سے پیغام پہنچے ورنہ ان کے سردار تو پیغام کو محرف کر کے پیش کریں گے۔ پھر کبھی انہیں طمع دلاتا ہے کہ دیکھو! اگر تم ایمان لے آؤ گے تو آسمان تم پر بکثرت رحمتوں کی بارش فرمائے گا اور کبھی خوف دلاتا ہے کہ اگر ایمان نہیں لاؤ گے تو آسمان سے رحمت کی بارش کی بجائے انتہائی ہلاکت خیز بارش ہو گی اور زمین بھی تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکے گی بلکہ زمین سے بھی ہلاکت کے سوتے پھوٹ پڑیں گے۔ تب اس اتمام حجت کے بعد، اور اسی کا نام اتمامِ حجت ہے، آخر ان کی صف لپیٹ دی گئی اور ایک نئی قوم کی بنا ڈالی گئی۔
پس حضرت نوح علیہ السلام نے جو یہ دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کفار میں سے کوئی باقی نہ چھوڑے اور ہلاک کر دے، اس بنا پر کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو یہ علم دیا تھا کہ اب اگر یہ زندہ رکھے گئے تو صرف فاسق و فاجر پیدا کریں گے۔ ان کی نسلوں سے مومن پیدا ہونے کی امید منقطع ہو چکی ہے۔ پس جب الہٰی جماعتیں اس طرح حجت تمام کر دیا کرتی ہیں تب ان کا یہ حق بنتا ہے کہ مخالفین کی تباہی کی دعا کریں۔ علاوہ ازیں اس سورت میں یہ بھی ذکر ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو متوجہ فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ایک باوقار ہستی کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ اُسی نے تمہیں بھی تو طبقہ در طبقہ آگے بڑھاتے ہوئے تکمیل کی منزل تک پہنچایا ہے اور یہی چیز آسمان کے طبقہ در طبقہ بلندیوں سے ثابت ہوتی ہے۔ یہ مضمون ایک حد تک اس قوم کی سمجھ سے بالاتھا۔ نہ اسے اپنے ماضی کا پتہ تھا کہ کیسے طبقہ در طبقہ پیدا ہوئے، نہ اپنے مستقبل کا علم تھا۔ نہ وہ آسمان کی طبقہ در طبقہ بلندیوں کا علم رکھتے تھے۔ غالباً یہ ایک پیشگوئی ہے کہ آئندہ زمانہ میں جب ایک نئی ’’کشتی نوح‘‘ بنائی جائے گی تو اس زمانہ کے لوگوں کو ان سب چیزوں کا علم ہو چکا ہو گا۔ پھر بھی اگر وہ شرک پھیلانے سے باز نہ آئے اور ان پر ہر قسم کی حجّت پوری کر دی گئی تو آخر اُن کے حق میں فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقاً اور وَلَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَا فِرِیْنَ شَرِ یْراً کی دعا ضرور پوری ہو کر رہے گی۔
(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ1077-1078)
(عائشہ چودہری۔ جرمنی)