تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت بابو عزیز الدین زرگرؓ
حضرت بابو عزیز الدین صاحب رضی اللہ عنہ ولد مکرم گلاب دین صاحب زرگر سیالکوٹ کے رہنے والے تھے، آپ اندازاً 1886ء میں پیدا ہوئے اور 1902ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ اخبار الحکم میں درج نو مبائعین کی فہرست میں سیالکوٹ سے زرگر فیملی کے چند نام بھی شامل ہیں جس میں آپ کا نام ’’میاں عزیز الدین صاحب‘‘ بھی شامل ہے۔ (الحکم 24؍نومبر 1902ء صفحہ16 کالم3) آپ محکمہ انہار میں ملازم تھے۔ آپ کی شادی لاہور کے ایک ابتدائی صحابی حضرت میاں قمر الدین مرحوم رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے خلافت اولیٰ کے زمانے میں ہوئی۔ آپ تبلیغ اسلام کی خاطر بیرون ملک جانے کی خواہش رکھتے تھے جس کی تکمیل کے لیے 1918ء میں ملازمت سے لمبی رخصت لے کر بیوی بچوں کو قادیان شفٹ کیا اور کچھ ماہ بعد ولایت روانہ ہوگئے۔ آپ مورخہ 3؍مارچ 1920ء کو نواب زادہ عبدالرحیم خان صاحب ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ کی معیت میں لندن پہنچے۔
(الفضل 15؍اپریل 1920ء صفحہ 7 کالم 1)
اخبار الفضل لکھتا ہے:
’’بابو عزیزالدین صاحب احمدی جو اپنے خرچ پر تبلیغ اسلام و احمدیت کے لیے حسب منشاء حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ لنڈن گئے ہیں، اپنے تازہ خط میں لکھتے ہیں کہ میں ایک ہندوستانی مسلمان کے مکان پر رہتا ہوں جو بیس سال سے یہاں اقامت پذیر ہیں، حضرت اقدس مسیح موعود سے محبت رکھتے ہیں، میں نے انھیں براہین احمدیہ سنانا شروع کی ہے اور کوشش میں ہوں کہ ان کے بال بچے نماز کے پابند ہو جائیں …. ‘‘
(الفضل 12؍اپریل 1920ء صفحہ2)
’’بھائی عزیزالدین صاحب علاوہ اپنے معمولی فرائض کے تبلیغ کے کام میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں، لٹریچر تقسیم کرنے، لوگوں سے ملاقاتیں کرنے اور لیکچروں کے انتظام میں آپ کی مدد نہایت مفید ثابت ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور دوسرے دوستوں کو ان کی مثال کی تقلید کرنے کی توفیق۔‘‘ (الفضل 9؍ستمبر 1920ء صفحہ2) ایک اور رپورٹ کہتی ہے: ’’پبلک اور پرائیویٹ لیکچر بدستور جاری ہیں جس میں بھائی عزیز الدین احمد اور مولوی مبارک علی صاحب زیادہ تر حصہ لے رہے ہیں۔‘‘
(الفضل 10؍فروری 1921ء صفحہ2 کالم2)
مکرم و محترم مولوی مبارک علی صاحب بی اے بی ٹی (وفات یکم نومبر 1969ء) جو اُس وقت لنڈن میں احمدیہ مسجد کے امام تھے، اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’….. میرے رفیق شیخ عزیزالدین صاحب نے اثناء سال میں باوجود اپنے متعلقہ کاروبار کی مصروفیتوں کے حاضرین کی خاصی تعداد کے سامنے متعدد مقامات ڈبلن، برمنگھم، گلاسگو، لیڈس، لور پول، ناٹنگھم، نائٹن، شف فیلڈ، ڈاربی وغیرہ دیگر شہروں میں لیکچر دیے ہیں…..‘‘ (الفضل 9؍نومبر 1922ء صفحہ 4) 1921ء میں لنڈن مشن کے اخراجات برداشت کرنے کی غرض سے لنڈن میں ایک ’’اورینٹل ہاؤس‘‘ (Oriental House) جاری کیا گیا جو انگلستان اور دیگر یورپین ممالک میں تجارت کی غرض سے ہندوستانی ساخت کی اشیاء مہیا کرتا تھا۔ (الفضل 9؍نومبر 1922ء صفحہ3 کالم3) حضرت بابو عزیز الدین صاحبؓ اس تجارتی شاخ کے انچارج تھے۔ 1923ء میں لندن میں مصنوعات کی ایک نمائش ہوئی جس میں آپ نے جماعت کی طرف سے سٹال لگایا، اس نمائش کو دیکھنے کے لیے اُس وقت کے شاہ برطانیہ و قیصر ہند عزت مآب جارج پنجم بھی تشریف لائے، اخبار الفضل اس کے متعلق رپورٹ میں لکھتا ہے: ’’حضور ملک معظم شاہ برطانیہ و قیصر ہند ….. نمائشی مصنوعات سلطنت برطانیہ کے میلہ میں ….. معہ وزراء تشریف لائے اور احمدیہ وفد تبلیغ کی شاخ تجارت نے جو دکان نمائش میں کھولی تھی اُس پر آگئے اور مولوی عزیزالدین صاحب مینجر صیغہ تجارت سے قریبًا 5 منٹ تک گفتگو فرمائی۔ مولوی صاحب نے موقعہ سے فائدہ اٹھاکر حضور قیصر ہند میں تحفہ شہزادہ ویلز دکھا کر سلسلہ عالیہ احمدیہ کا اسی قدر ذکر کر دیا جس کو وقت و حالات نے اجازت دی، الحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔‘‘
(الفضل 23؍اپریل 1923ء صفحہ11 کالم2)
حضرت مولوی عبدالرحیم درد صاحب رضی اللہ عنہ اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’اس ہفتہ ہائڈ پارک میں عیسائیوں کے ساتھ ہمارا ایک مباحثہ ہوا، ہماری طرف سے مکرمی بابو عزیز الدین صاحب مناظر تھے اور ان کی طرف سے ایک مناظر پروٹسٹنٹ سوسائٹی کا تھا.‘‘
(الفضل 22؍اگست 1925ء صفحہ2 کالم1-2)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے سفر انگلستان 1924ء کے موقع پر آپ لندن میں ہی تھے، اس موقع پر لیے گئے ایک گروپ فوٹو میں آپ بھی موجود ہیں۔ لندن کی ڈائری میں ایک جگہ حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں: ’’حضرت اقدس کے ساتھ میاں عزیزالدین صاحب کل بعض دکانات پر گئے ہوئے تھے ….. بھائی عزیزالدین بتاتے ہیں کہ کل ایک بڑی دکان پر گئے اِدھر اُدھر کا سامان دیکھا بھالا۔ دکان کا مالک انگریز میاں عزیزالدین صاحب سے الگ ہوکر کہنے لگا کہ یہ شخص اپنے چہرے سے کوئی عظیم الشان شخصیت کا انسان معلوم ہوتا ہے۔ میاں عزیز الدین صاحب نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو یہ انسان واقع میں ایسا ہی ہے جیسا تم نے قیاس کیا۔‘‘
(سفر یورپ 1924ء از قلم حضرت بھائی عبدالرحمٰن قادیانیؓ۔ صفحہ372)
مسجد فضل لندن کے افتتاح کے لیے جب مہمان خصوصی جناب سر عبدالقادر صاحب تشریف لائے تو اس موقع پر بنائی گئی ایک مختصر مگر تاریخی وڈیو میں آپ اُن کے ساتھ آتے دیکھے جا سکتے ہیں جس کے بعد پھر حضرت مولانا عبدالرحیم درؔد رضی اللہ عنہ امام مسجد فضل لندن اُن کا استقبال کر کے آگے لے جاتے ہیں۔
آپ 1927ء میں واپس ہندوستان آگئے، اخبار الفضل لکھتا ہے: ’’میاں عزیزالدین صاحب جو لنڈن میں احمدیہ مشن کے ماتحت تجارتی شاخ کے انچارج تھے، سات سال کام کرنے کے بعد واپس آگئے ہیں۔‘‘ (الفضل 12؍اپریل 1927ء) لیکن کچھ عرصہ بعد پھر انگلستان چلے گئےاور اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل واپس ہندوستان آگئے تھے۔ آپ نے 9؍مئی 1934ء کو بعمر 47 سال وفات پائی اور آپ بوجہ موصی (وصیت نمبر 1705) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے، آپ کے بیٹے مکرم عبدالعزیز دین صاحب لنڈن نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’خاکسار کے والد بزرگوار بابو عزیزالدین صاحب مرحوم بہت عرصہ بیمار رہنے کے بعد 9؍مئی کو وفات پاگئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت کے مخلص احمدی تھے، تبلیغ کا جوش اس قدر تھا کہ باوجود سخت بیماری کے انگلستان کے اکثر حصوں میں باقاعدہ لیکچر دیتے رہے۔ بیماری کے دوران میں آپ کی یہی دعا اور خواہش تھی قادیان پہنچ کر فوت ہوں۔ گو ظاہری حالات کے لحاظ سے ان کا قادیان پہنچنا مشکل تھا لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی اس خواہش کو محض غیبی سامانوں سے پورا کردیا….. حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جنازہ خود پڑھا اور مرحوم مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے …..‘‘
(الفضل 12؍جون 1934ء صفحہ 2 کالم1)
حضرت بابو عزیزالدین صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ اپنے بیٹے مکرم عبدالعزیز دین صاحب کے پاس لنڈن چلی گئی تھیں جہاں پہنچنے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی مورخہ 6؍ستمبر 1946ء کو وفات پاگئیں۔ آپ بہت نیک خاتون تھیں اورصحابیہ و موصیہ تھیں۔ لندن کے مشہور Brookwood قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
(الفضل 10؍اکتوبر 1946ء صفحہ5، 6) (الفضل 19؍اکتوبر 1946ء صفحہ5 کالم1)
آپ کی اولاد میں تین بیٹے مکرم عبدالعزیز دین صاحب، عبدالرحمٰن صاحب، عبدالمنان صاحب اور ایک بیٹی تھیں۔
(الفضل 10؍اکتوبر 1946ء صفحہ5)
آپ کے بیٹے مکرم عبدالعزیز دین صاحب جماعت احمدیہ انگلستان کے دیرینہ ممبر تھے، 1928ء میں انگلستان آئے اور اپنے کاروبار کے علاوہ جماعتی خدمات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، انگلستان کی پرانی رپورٹوں میں آپ کا ذکر بھی موجود ہے۔ محترم بشیر احمد رفیق صاحب سابق امام مسجد فضل لندن نے اپنی کتاب ’’چند خوشگوار یادیں‘‘ میں آپ کا محبت بھرا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’مسٹر عبدالعزیز دین صاحب ….. ہمارے لندن مشن کے ایک نہایت فعال، مخلص اور دیندار بزرگ تھے۔ ان کا ملنا یقینًا ملاقات مسیحا و خضر سے کم نہ تھا، ان کی صحبت صالحین کی صحبت سے کم نہ تھی۔ مکرم عزیز صاحب لندن مشن کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔‘‘ آپ کے ربوہ آنے کی خبر اخبار الفضل 17؍مارچ 1960ء صفحہ 4 پر درج ہے۔ حضرت نواب سیدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ جب 1962ء میں انگلستان تشریف لے گئیں تو اُن کا قیام مکرم عبدالعزیز صاحب کے گھر ہی رہا اور آپ نے تین ماہ تک ’’دخت کرام‘‘ کی مہمان نوازی کا شرف پایا۔ آپ کی ایک بیٹی محترمہ نصرت صاحبہ کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑ نواسے مکرم سلمان احمد خان صاحب ابن محترم نواب عباس احمد خان صاحب کے ساتھ ہوئی۔
(نوٹ: اسی نام کے ایک اور صحابی حضرت عزیز دین احمد زرگر رضی اللہ عنہ ولد میاں امام دین صاحب قوم راجپوت سندھو پیدائشی احمدی ساکن چوک نواب صاحب لاہور کا ذکر بھی جماعتی لٹریچر میں ملتا ہے، انہوں نے 31؍دسمبر 1981ء کو 84 سال کی عمر میں وفات پائی اور لاہور میں مدفون ہوئے، بفضلہ تعالیٰ موصی (وصیت نمبر 8808) تھے، یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں لگا ہوا ہے۔)
(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)