• 20 مئی, 2024

تبرکات حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ

تبرکات حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ
خوابوں کی حقیقت

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ رب اجسام ہی نہیں رب ارواح بھی ہے اور اس نے جہاں انسان کی جسمانی نشوونما کے لئے متعدد سامان پیدا کئے ہیں وہاں اس کی روحانی نشوونما کے لئے بھی مختلف سامان پیدا فرمائے ہیں اور ان سامانوں میں سے ایک خواب بھی ہے اور اس کا مادہ ہر انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے۔ کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ انبیاء بھی خوابیں دیکھتے رہے ہیں جن میں سے بعض کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے پس خوابوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

خوابوں کی اقسام

علامہ ابن سیرین فرماتے ہیں:۔ خوابوں کی تین قسمیں ہیں۔ (1) ایک حدیث النفس۔ (2) دوسرے شیطان کی تخویف اور (3) تیسرے بشریٰ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہے اور جو مکروہ خواب دیکھے اسے چاہئے کہ وہ کسی سے بیان نہ کرے اور اسی وقت اٹھے اور نماز کے ذریعہ دعا کرے تاکہ اس کے ضرر سے محفوظ رہے۔

(تعطیر الانام)

(1) حدیث النفس

یاد رکھنا چاہئے کہ حدیث النفس سے مراد تو وہ خوابیں ہیں جو انسان اپنی طبیعت کی رو کے تحت عام طور پر دیکھتا رہتا ہے کیونکہ اس کا دماغ کسی وقت بھی بے خیال نہیں رہتا۔ بیداری کی حالت میں بھی اس کے دماغ میں خیالات آتے رہتے ہیں اور خواب کی حالت میں بھی۔ طالب علم جو دن کو پڑھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ طبیعت کی رو کے تحت رات کے وقت خواب میں بھی اسی شغل میں لگے رہتے ہیں۔ ایسا ہی پیشہ وروں کا حال ہے۔ درزی، درزی کے کام میں۔ دھوبی دھوبی کے مشغل میں مصروف رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح بیداری میں خیالات آتے اور ساتھ ساتھ بھولتے جاتے ہیں اور انسان اس بھول کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی خواب نہیں آیا۔ حالانکہ انسانی دماغ کسی وقت بھی خیالات کی آمدورفت سے خالی نہیں رہ سکتا اور خواب میں بھی یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات یہ خیالات اس کی دبی ہوئی خواہشات سے مل کر اسے مختلف مناظر بھی دکھاتے رہتے ہیں جن میں سے بعض جاگنے پر یاد بھی رہ جاتے ہیں لیکن وہ حدیث النفس کے دائرہ سے باہر نہیں ہوتے اور ایسے خوابوں کی ایک بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کا قلب پر چنداں اثر محسوس نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں ایسے خوابوں کے متعلق جو حدیث النفس کے دائرہ سے تعلق رکھتے ہیں اضغاث احلام کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔

(2) شیطانی خواب

شیطانی خوابوں کے متعلق امام ابن سیرین کا یہ قول بھی کہ ان میں تخویف کا پہلو پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم سے ہی مستنبط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے پس اگر تم سچے مومن ہو تو ان شیطانوں سے مت ڈرو اور صرف مجھ سے ہی ڈرو۔

(آل عمران: 176)

گویا محجوب طبائع جو خالق اسباب کی بجائے اسباب پر نظر رکھتی ہیں چونکہ بصورت شرک شیطان سے ایک طرح کی مناسبت پیدا کرلیتی ہیں اس لئے شیطان بھی انہیں اس مناسبت کی وجہ سے خوف زدہ کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

شیطان کا زور صرف انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے دوستی کا تعلق رکھتے ہیں اور جو اس کی وجہ سے شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔

(نحل:101)

پس شیطانی خواب اسی کو آئے گا جو شیطان سے دوستی کا تعلق رکھے گا اور شرک کا مرتکب ہوگا اور رحمانی خواب اسی کو آئے گا جو رحمٰن سے دوستی کا تعلق رکھے گا اور شرک سے مجتنب رہے گا۔

(3) بشریٰ خوابیں

یعنی مبشر خواب، علامہ ابن سیرین کا یہ ارشاد بھی کہ مبشر خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائے جاتے ہیں دراصل قرآنی تعلیم سے ہی ماخوذ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
یاد رکھو جو اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں ان پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ان کے لئے اس ورلی زندگی میں بھی بشارات کا انعام مقدر ہے اور اخروی زندگی میں بھی۔

(یونس:163-165)

مذکورہ بالا آیات سے ظاہر ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے دوستی کا تعلق استوار کرتے ہیں وہ نہ صرف شیطان کی تخویف سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ اپنے ایمان اور تقویٰ کے طفیل ایک طرح کی عالم قدس کے ساتھ مناسبت پیدا کرلیتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو اکثر ایسے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ جو بشارات پر مشتمل ہوتے ہیں اور دل میں آہنی میخ کی طرح گڑ جاتے ہیں۔

اور امام ابن سیرین کایہ فرمانا کہ مکروہ خواب دیکھنے والا نماز کے ذریعہ دعا کرے اس بناء پر ہے کہ محافظ حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی مکروہ خواب کے بداثرات سے بچا سکتا ہے اس لئے انسان کے لئے یہی لازم ہے کہ وہ نماز کے ذریعہ اسی سے دعا مانگے سورۃ نمل میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بیکسوں کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی تکالیف کو رفع کرتا ہے۔ پس رد بلا کے لئے اسی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

رویا کے بعض پہلوؤں پر حدیث میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مثلاً بخاری اور مسلم میں آتا ہے۔ پس رویائے صالحہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں اور حلم شیطان کی طرف سے پس جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو وہ صرف اس شخص کو بتائے جو اس کا دوست ہو اور جب کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اس کے شر اور شیطان کے شر سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اور تین دفعہ تھوک دے اور یہ خواب کسی کو نہ بتائے تو اس صورت میں اس کا برا اثر ظاہر نہیں ہوگا۔

(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

اسی طرح صحیح مسلم میں آتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو تین دفعہ اپنے بائیں طرف تھوک دے اور تین مرتبہ اعوذ پڑھ کر شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اور جس پہلو پر لیٹا ہوا ہے بدل دے۔

(صحیح مسلم)

حُلم کیا ہے؟

یاد رکھنا چاہئے کہ مذکورہ بالا حدیث میں جو شیطانی خواب کے لئے حلم کالفظ آیا ہے یہ بطور شرعی اصطلاح کے ہے ورنہ حلم جس کی جمع احلام ہے لغت کی رو سے رویا کے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے ہاں جو رویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہے اس کے لئے صالحہ کا لفظ بطور صفت کے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ شیطانی خوابوں اور رحمانی خوابوں میں خط امتیاز قائم رہے اور آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد کہ اچھا خواب صرف دوستوں سے بیان کیا جائے اس بنا پر ہے کہ دشمن بعض اوقات حسد کی وجہ سے مصیبت کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو ہدایت فرمائی تھی کہ اپنے بدخواہ بھائیوں کو اپنا خواب نہ سنانا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حسد کی وجہ سے تیرے لئے کوئی ابتلاء کی صورت پیدا کردیں۔ ہاں خیراندیش اہل قرابت سے اچھا خواب بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ان کے لئے ایسا خواب باعث مسرت ہوگا اور ان کی دلی خواہش ہوگی کہ یہ خواب جلدازجلد پورا ہو۔

آنحضرؐت کا یہ ارشاد کہ مکروہ خواب دیکھنے پر اس کے شر سے بچنے کے لئے اعوذ پڑھ کر خدا کی پناہ طلب کی جائے اور تین دفعہ بائیں طرف تھوکا جائے اس بناء پر ہے کہ اگر وہ مکروہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی بطور ابتلاء کے ہے تو اس ابتلاء سے اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے اور اگر شیطان کی طرف سے ہے تو وہ کسی شیطانی مناسبت کی وجہ سے ہوگا اس لئے ایسا خواب دیکھنے پر تین دفعہ تھوکنے کے ذریعہ اظہار نفرت ہی کافی ہے۔ کیا بلحاظ خواب کے مکروہ ہونے کے اور کیا بلحاظ اس شیطانی مناسبت کے جس کی وجہ سے شیطان نے اس کو ایسا خواب دکھایا کیونکہ شیطان انہیں لوگوں پر اترا کرتے ہیں جو دروغگو ہوتے ہیں۔ وجہ یہ کہ دروغگوئی کی عادت شیطان سے ایک طرح کی مناسبت کے توازن کو بگاڑ دیتی ہے جس کی وجہ سے شیطان اس پر مسلط ہو جاتا ہے اور مکروہ خوابوں کے ذریعہ اس کے لئے باعث ابتلاء بن جاتا ہے۔ لیکن صالح اور صادق انسان چونکہ اپنی نیکی اور راستبازی سے شیطان کی راہیں اپنے اوپر بند کرلیتا ہے اس لئے اس پر ملائکہ کے نزول کا دروازہ کھل جاتا ہے اور اس کے اکثر خواب سچے نکلتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس کاذب اور فاسق انسان پر چونکہ شیطان مسلط ہوتا ہے اس لئے اس کے اکثر خواب جھوٹے نکلتے ہیں۔ الغرض شیطانی خوابوں کی ایک وجہ دروغگوئی کی عادت بھی ہے اور اگر دروغگوئی کی عادت نہ بھی ہو تو دوسرے معاصی ہی شیطانی خوابیں دکھانے کا موجب ہو جاتے ہیں جیسا ارشاد ربانی میں اثیم کے لفظ سے ظاہر ہے اور آنحضرت ﷺ نے جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ مکروہ خواب دیکھنے پر پہلو بدل لیا جائے۔ تو یہ پہلو بدلنا بھی دراصل ایک طرح کا اظہار نفرت ہی ہے جیسا کہ تھوکنے کے فعل میں ایک طرح کا اظہار نفرت پایا جاتا ہے اور یہ ارشاد اس لئے بھی ہوسکتا ہے کہ پہلو بدلنے سے خیالات کی رو بدل جائے اور اس لئے بھی کہ بعض اوقات سیدھا لیٹنے سے سینے پر ہاتھ آجاتا ہے جس کے نتیجہ میں قلب پر بوجھ پڑتا ہے اور متوحش خوابوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اگر اس وقت پہلو بدل لیا جائے تو وہ سلسلہ رک جاتا ہے۔ اسی طرح بائیں پہلو پر سونے سے بھی قلب پر بوجھ پڑتا ہے اور یہ بوجھ بعض اوقات مکروہ خواب کا بھی باعث بن جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ ہمیشہ دائیں پہلو پر خواب استراحت فرمایا کرتے تھے کیا عجب کہ یہ طریق رحمانی خوابوں کے قریب کرنے والا ہو اور شیطانی خوابوں سے دور رکھنے والا ہو۔ کیونکہ دائیں بائیں کا تعلق بعض حالات میں خیر اور شر سے بھی ہوتا ہے۔ جیسا قرآن کریم میں نیکی والوں کو اصحاب الیمین اور بدی والوں کو اصحاب الشمال قرار دیا گیا ہے۔

رویا صالحہ کی اہمیت

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی منذر خواب دکھایا جاتا ہے لیکن جیسا کہ ڈاکٹر کے چیرنے پھاڑنے کا پُرحکمت فعل اپنے اندر شفقت کا پہلو رکھتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھایا ہوا منذر خواب بھی صالحہ ہونے کی وجہ سے اپنے اندر رحمت کا پہلو رکھتا ہے اور اس سےمقصود انسان کی اصلاح اور تادیب ہوتی ہے نہ کہ تخویف اور ترہیب۔ رویا صالحہ کی اہمیت اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ نے اسے نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا ہے اور یہ ارشاد بھی فرمایا ہے کہیعنی انواع نبوت میں سے صرف مبشرات والی نوع باقی ہے اور یہ مبشرات والی نوع رویا، کشف اور الہام سب پر حاوی ہے اور ان سب کا تعلق قلب سے ہے۔

(فیضان نبوت صفحہ 163 – 173)

(مرسلہ: أبو سدید)

پچھلا پڑھیں

بینن (Benin) میں ایک خوبصورت مسجد کا افتتاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2022