• 24 اپریل, 2024

حمد کا حقیقی مطلب

حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی صاحب اقتدار شریف ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم وتکریم کے ارادہ سے زبان سے کی جائے اور کامل ترین حمد ربّ جلیل سے مخصوص ہے اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ ربّ ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والااور ذلیل لوگوں کو عزت بخشنے والاہے اور وہ محمودوں کا محمود ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک لفظ شکر، حمد سے اس پہلومیں فرق رکھتا ہے کہ وہ ایسی صفات سے مختص ہے کہ جو دوسروں کو فائدہ پہنچانے والی ہوں اور لفظ مدح لفظ حمد سے اس بات میں مختلف ہے کہ مدح کا اطلاق غیر اختیاری خوبیوں پر بھی ہوتا ہے اور یہ امر فصیح و بلیغ علماء اور ماہر ادباء سے مخفی نہیں۔

اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو حمد سے شروع کیا ہے نہ کہ شکر اور مدح سے۔ کیونکہ لفظ حمد ان دونوں الفاظ کے مفہوم پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ ان کا قائمقام ہوتا ہے مگر اس میں اصلاح، آرائش اور زیبائش کا مفہوم ان سے زائد ہے۔ چونکہ کفار بلاوجہ اپنے بتوں کی حمد کیا کرتے تھے اور وہ ان کی مدح کے لئے حمد کا لفظ اختیار کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معبود تمام عطایا اور انعامات کے سر چشمہ ہیں اور سخیوں میں سے ہیں۔ اسی طرح ان کے مُردوں کی ماتم کرنے والیوں کی طرف سے مفاخر شماری کے وقت بلکہ میدانوں میں بھی اور ضیافتوں کے مواقع پر بھی اسی طرح حمد کی جاتی تھی جس طرح اس رزاق متولی اور ضامن اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے۔

(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 107-108 بحوالہ اردو ترجمہ از الاسلام ویب سائٹ خطبہ جمعہ یکم اگست 2003ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

احمدیت کا فضائی دور (ایم ٹی اے- تقدیر الٰہی کا زندہ و تابندہ نشان) (قسط 3)