• 2 مئی, 2024

میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا (جماعتی میٹنگز و اجلاسات میں شمولیت کی اہمیت و برکات) (قسط 1)

میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا
جماعتی میٹنگز و اجلاسات میں شمولیت کی اہمیت و برکات
قسط 1

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے اشرف المخلوقات بناکر انسان پر جہاں احسان عظیم کیا وہاں انسان سے اپنے نام اور توحید کو دنیا میں پھیلانے کے لئے قربانی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ ہمارے بزرگوں نے

’’ انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کی تشریح میں لکھا ہے کہ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ میں صرف اموال مراد نہیں بلکہ انسان کی صلاحیتیں اور استعدادیں، اس کا وقت، اس کی جان، اس کی عزت اور خداتعالیٰ کی دیگر عطایا وغیرہ بھی مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو استعدادیں اور صلاحیتیں دے رکھی ہیں۔ اس کو اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے خرچ کرنی چاہئے۔ انسان کو جو قیمتی وقت دیا ہے اس میں سے کچھ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ اعلائے کلمہ حق اور معاشرہ میں اصلاح احوال اور مخلوق الٰہی کی تعلیم و تربیت کے لئے خرچ کرنا چاہئے تا شکرانہ کا حق بھی ادا ہو۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی ایک مومن کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ وہ یہ کہے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

(الانعام:63)

اس دنیوی دور میں (جب دین سے دوری عام ہے) حضرت مسیح موعودؑ نے جماعتی تعلیمات کے ایک نچوڑ اور خلاصے کو بیعت کا حصہ بنا دیا کہ بیعت کے وقت ہر احمدی اس بات کا عہد کرے کہ ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘۔ یعنی میرے ہر کام، میری ہر حرکت اور ہر سکون میں دین ہی مقدم ہوگا نہ کہ دنیا۔

بیعت کے معنی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر بیعت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’بیعت کے معنی ہیں بیچ دینا۔ جیسے ایک چیز بیچ دی جاتی ہے تو اس سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ خریدار کا اختیار ہوتا ہے جو چاہے سوکرے۔ تم لوگ جب اپنا بیل(Cow) دوسرے کے پا س بیچ دیتے ہو تو کیا اسے کہہ سکتے ہو کہ اسے اس طرح استعمال کرنا؟ ہر گز نہیں۔ اس کا اختیار ہے جس طرح چاہے استعمال کرے۔ اسی طرح جس سے تم بیعت کرتے ہو۔ اگر اس کے احکام پر ٹھیک ٹھیک نہ چلو تو پھرکوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔‘‘

• حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی بیعت میں تو اقرار کرتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا مگر عمل سے وہ اس کی سچائی اور وفائے عہد ظاہر نہیں کرتا تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےاس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’شرائط بیعت کا بھی خلاصہ یہی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا جائے گا۔ اسی طرح تمام ذیلی تنظیموں کے جو عہد ہیں ان کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ اسی طرح بیعت کے الفاظ میں بھی ہم ان الفاظ کو دہراتے ہیں۔ غرض کہ یہ فقرہ ایک احمدی کا عہد ہے جس پر اس کی بیعت کا انحصار ہے۔ خلافت سے اور نظام سے جڑے رہنے کا انحصار ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بیعت کا دعویٰ غلط ہوجاتا ہے۔ نظام سے جڑے رہنے کا، خلافت سے وابستگی کا دعویٰ غلط ہو جاتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 17؍ اکتوبر2014ء)

• نیز فرمایا:
’’ یہاں میں ہر سطح کے عہدیداروں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو نبھانے کی ذمہ داری دوسروں سے بڑھ کر ان کو اپنی سمجھنی چاہئے۔ ایک مقصد کے حصول کے لئے ان کی ذمہ داری لگائی گئی ہے جس کے لئے انہیں اپنی قربانی کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہر سطح کا عہدیدار چھوٹی سے چھوٹی سطح سے لے کر، محلے سے لے کر مرکزی سطح تک اپنی حیثیت کا صحیح اندازہ کر کے اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور کرنی چاہئے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نظردلوں پر ہے اور اللہ تعالیٰ تڑپ کے ساتھ کام کرنے والوں کے اخلاص کو برکت بخشتا ہے اور انہیں قرب میں جگہ دیتا ہے اور ایک عہدیدار کو اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر سطح کے عہدیدار کو بھی اور ہر احمدی کو بھی، مجھے بھی، آپ کو بھی سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کا صحیح ادراک بھی حاصل کریں اور اس پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 17؍اکتوبر2014ء)

انصار خدمت دین میں دوسروں کے لئےنمونہ ہوں

پھر اسی خطبہ میں فرمایا:
’’ہمارے ذمہ جیسا کہ میں نے کہا بہت بڑے کام لگائے گئے ہیں اور جان،مال، وقت اور عزت قربان کرنے کے لئے ہم عہد بھی کرتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ہمیشہ سنجیدگی سے غور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ کس طریق سے ہم اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے اپنی صلاحیتیں اور استعدادیں بروئے کار لائیں۔

انصار اللہ کا اجتماع بھی آج سے ہورہا ہے۔۔۔۔ ان کو بھی۔۔۔۔ ان دنوں میں اپنے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ کس حد تک ہم اپنے معیار دین کودنیاپر مقدم کرنے کے لئے بڑھا سکتے ہیں اور بڑھانے چاہئیں بلکہ حاصل کرنے چاہئیں۔ انصار اللہ کی عمر تو ایسی ہے جس میں ان کو نمونہ بننا چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 17؍ اکتوبر2014ء)

ان ارشادات کی روشنی میں خدمت دین کے جو بھی پہلو ہیں ان تمام کا احاطہ کر کے دین کی خدمت کرنی چاہئے۔ جس کے لئے منصوبہ بندی کرنی ہوتی ہے۔ جس کا بہترین ذریعہ میٹنگز و اجلاسات ہیں۔ عہدیداران پر لازم ہے کہ ان کا حق کریں اور اعلیٰ عہدیداران کی طرف سے جب اور جہاں میٹنگ بلائی جائے ان کی آواز پر سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کہتے ہوئے حاضر ہونا اور مشوروں میں شامل ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ عہدہ ایک امانت ہے اور امانت کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسے کارکنان بھی ہیں جو اپنا سب کچھ بھول جاتے ہیں، بیوی بچوں کو بھی بھول جاتے ہیں، اپنے نفس کے حق بھی ادا نہیں کرتے۔ صبح اپنے کام پر جاتے ہیں اور وہاں سے شام کو سیدھے جماعتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ انہیں کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارا اور تمہارے بیوی بچوں کا بھی تم پر حق رکھا ہے۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں۔ ‘‘

حضور انور نے خطبہ جمعہ 2؍ مئی 2008ء میں فرمایا:
’’ہر عہدیدار کے پاس کوئی بھی جماعتی کام ایک امانت ہے اسے ایمانداری سے ادا کرنا ضروری ہے۔ ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جو اللہ تعالیٰ کی پسند سے باہر نکل جائے نہ اس کا دین رہتا ہے اور نہ اس کی دنیا رہتی ہے۔ ‘‘

جماعتی میٹنگز میں شمولیت

آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ’’ذکر کی مجالس جنت کے باغ ہیں۔ان باغوں میں چرنے کی کوشش کیاکرو‘‘اس ارشاد نبویؐ سے اجلاسات کی اہمیت ظاہر وباہرہے۔ہمارے اجلاسات اورجماعتی میٹنگز میں ذکر الٰہی ہوتاہے اورانہی مجالس کے متعلق آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ایسی مجالس میں فرشتوں کانزول ہوتاہے اورفرشتے رحمت کے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔یہ رحمت کا سایہ مجلس کے اختتام تک رہتاہے۔بلکہ ایسی مجالس جس میں اللہ تعالیٰ کاذکر ہوتاہے ان کے متعلق خود اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ ’’ان سب کے لئے میری طرف سے مغفرت لکھ دو‘‘

تواریخ میں ایک واقعہ یوں درج ہے کہ ایک آدمی کا سفرمیں ذکرکی ایک مجلس کے پاس سے گزرہوا۔وہ شخص وہاں بیٹھ گیا۔ذکر الٰہی اورحمدوثناءمیں حصہ لیاتواللہ تعالیٰ نے چند لمحے ذکر کی مجلس میں بیٹھنے کی بدولت اس شخص کے سارے گناہ معاف کردیئے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صادقوں کی معیت یعنی صحبت اختیارکرنے کی تلقین کرتاہے اورہماری یہ میٹنگز،اجلاسات محض رضائے الٰہی اوراعلائے کلمۃ الحق کی تجاویز پر غورکرنے کے لئےہوتے ہیں اس لئے اس میں شامل افرادنیک،صالح اورصادق ہیں۔جن کی ان میٹنگز واجلاسات میں صحبت حاصل ہوتی ہے۔

• حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جماعتی میٹنگز میں شمولیت کی عظمت و اہمیت اور ان میں شامل ہونے والوں کے بلند مقام اور ان کو ترغیب دلاتے ہوئے نیز جماعتی کاموں کی پرواہ نہ کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’وہ دن آنے والا ہے جب احمدیت کے کاموں میں حصہ لینے والے بڑی بڑی عزتیں پائیں گے۔ لیکن ان لوگوں کی اولادوں کو جو اس وقت جماعتی کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے دھتکار دیا جائے گا۔ جب انگلستان اور امریکہ ایسی بڑی بڑی حکومتیں مشورہ کے لئے اپنے نمائندے بھیجیں گی اور وہ اسے اپنے لئے موجب عزت خیال کریں گے اس وقت ان لوگوں کی اولاد کہے گی ہمیں بھی مشورہ میں شریک کرو لیکن کہنے والا انہیں کہے گا۔ جاؤ! تمہارے باپ دادوں نے اس مشورہ کو اپنے وقت میں رد کر دیا تھااور جماعتی کاموں کی انہوں نے پرواہ نہیں کی تھی اس لئے تمہیں بھی اب اس مشورہ میں شریک نہیں کیا جاسکتا۔ پس اس غفلت کو دور کرو اور اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ جو شخص سلسلہ کی کسی میٹنگ میں شامل ہوتا ہے اس پر اس قدر انعام ہوتا ہے کہ امریکہ کی کونسل کی ممبری بھی اس کے سامنے ہیچ ہے اور اسے سو حرج کر کے بھی اس میٹنگ میں شامل ہونا چاہئے۔ اگر وہ اس میٹنگ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کی غیر حاضری کی وجہ سے سلسلہ کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن وہ خود الٰہی انعامات سے محروم ہوجائے گا۔ ‘‘

کلاسز اوراجلاسات کرنے کی تاکید

ایک دفعہ چند خدام مرکز تربیتی کلاس کے لئے تشریف لائے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نےان سے واپس جاکراجلاسات وکلاسز منعقدکرکے سیکھی ہوئی تعلیم کوآگے دوسرے خدام تک پہنچانے اورانہیں سکھانے کے حوالہ سے فرمایا:
’’آپ نوجوانوں کافرض ہے کہ یہاں آئیں اوردین سیکھیں اورپھر جو کچھ سیکھیں اسے اپنی ذات تک ہی محدودنہ رکھیں بلکہ اپنی مجلس میں واپس جاکردوسرے دوستوں کوبھی بتائیں کہ آپ نے یہاں آکر کیاکچھ سیکھاہے۔اپنی مجالس میں واپس جاکروہاں ایک کلاس جاری کرکےگھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک روزانہ ایک ماہ یادوماہ تک روزانہ دوسرے خدام کوپڑھائیں ورنہ اس بات کا کوئی فائدہ نہیں کہ اتنی بڑی جماعت میں سے 80یا150 طالب علم یہاں آئیں اورتعلیم حاصل کریں اوردوسرے سب نوجوانوں کواس سے محروم رکھاجائے۔یہ دوسروں پر بہت بڑاظلم ہے اوراس ظلم میں آپ بھی شریک ہیں کیونکہ آپ یہاں آتے ہیں۔کلاس میں شامل ہوتے ہیں لیکن آپ نوٹ نہیں لیتے اوراپنے آپ کو اس قابل نہیں بناتے کہ اپنے دوسرے بھائیوں کے سامنے ان دلائل کورکھیں اوران کوآیات قرآنیہ سکھائیں اوراس طرح اپنے آپ کوبھی اوردوسرے نوجوان بھائیوں کوبھی احمدیت کے عالم بنانے کی کوشش کریں۔‘‘

(مشعل راہ جلد 2صفحہ 40)

؎خدمت دین کو ایک فضل الہی جانو
اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اجلاسوں میں،اجتماعوں میں جلسوں میں آکر جوسیکھاجاتاہے۔وہیں چھوڑ کر نہ چلے جایاکریں۔یہ توبالکل جہالت کی بات ہوگی کہ جوکچھ سیکھا ہے وہ وہیں چھوڑدیاجائے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد2صفحہ423)

پھر 7؍ جنوری 2006ء کواراکین مجلس عاملہ انصاراللہ بھارت کے ساتھ میٹنگ میں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
’’ اب یہ جائزہ لیں کہ کتنے ہیں جو نظام میں سموئے گئے ہیں۔اگر نہیں سموئے گئے توان کی ٹریننگ اور تربیت کاعلیحدہ پروگرام بنائیں۔نئی مجالس کے زعماء، ان کے منتظمین ان کی ٹریننگ کریں۔ ریفریشر کورسز کاانعقاد ہو۔ تربیتی پروگرام ہوں۔ اتنا عرصہ ہوگیاہے یہ لوگ فعال ممبر نہیں بن رہے۔اب ان سب کوفعال ہوناچاہئے۔

حضور نے فرمایا:کچھ کو یہاں مرکز میں بلائیں۔ان کا دس پندرہ روزکا ریفریشرکورس ہو۔ پھرقائدین کو ان کے علاقوں میں بھی بھجوائیں۔ وہاں جا کرٹریننگ دیں۔ اسی طرح ہر صوبے کے سینٹر میں، مرکز میں ریفریشر کورس ہوں۔دس پندرہ دن کے لئے لوگ اکٹھے ہوں، ان کی تربیتی کورسز میں اس علاقہ کے مربی صاحب سے مدد لی جاسکتی ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل لندن3-9؍ مارچ 2006ءصفحہ10)
(ابوسعید)
(بقیہ ان شاءاللّٰہ کل)

پچھلا پڑھیں

نائب صدرگیمبیا کی وفات پر جماعت کی طرف سے تعزیتی وفد و پیغام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مارچ 2023