• 20 مئی, 2024

یا عزیز و یا حفیظ و یارفیق

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ جَمِیۡعًا ؕ اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ؕ وَالَّذِیۡنَ یَمۡکُرُوۡنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ؕ وَمَکۡرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوۡرُ ﴿۱۱﴾

(فاطر:11)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ جو بھی عزّت کے خواہاں ہیں، پس اللہ ہی کے تصرف میں سب عزت ہے، اسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور اسے نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے اور وہ لوگ جو بُری تدبیریں کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے، ان کا مکر ضرور اکارت جائے گا۔

عزت کا مطلب بھی قوت، طاقت اور غلبہ ہے۔ یہ لکھتے ہیں کہ وہ عزت جو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کو حاصل ہے یہی ہمیشہ باقی رہنے والی دائمی اور حقیقی عزت ہے۔

پھر لکھتے ہیں کہ آیت مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ جَمِیۡعًا اس کے معنی ہیں کہ جو شخص معزز بننا چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے عزت حاصل کرے۔ کیونکہ سب قسم کی عزت خدا ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو بھی عزّت کے خواہاں ہیں، پس اللہ ہی کے تصرف میں سب عزت ہے۔

پھر فرمایا: اِنَّ الۡعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ( یونس : 65) لہٰذا واقعی اور حقیقی عزت کی مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے بعد اللہ جس کو عزت دے، وہ بھی عزت کا مالک ہوتا ہے لیکن یہ عزت اس کی ذاتی نہیں ہے، بلکہ خدادادی ہے۔ دنیا یا آخرت یا دونوں جہان میں عزت دیتااورذلت دیتا ہے یعنی اپنی مدد، توفیق اور ثواب عطا کرکے جس کو چاہتا ہے دنیا اور آخرت میں عزت بخشتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ: کہہ دے اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

عزت و ذلت دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ دور دراز کے گاؤں، بستیوں سے، چھوٹے اور غریب خاندانوں سے اٹھا کر تختِ حکومت پر بٹھا دینا، غلاموں کو بادشاہت عطا کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔؎

میں تھا غریب و بے کس و گمنام بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر

پھر دنیا نے دیکھا کہ قادیان کی ایک دور دراز بستی میں جسے کوئی نہ جانتا تھا خدا تعالیٰ نے آپؑ کو مبعوث فرمایا اور پھر کس طرح عزت عطا کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :
’’کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیۡ(المجادلہ:22) یعنی خدا نے ابتدا سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں بغیر کسی نئی شریعت اور نئے دعوے اور نئے نام کے بلکہ اسی نبی کریم خاتم الانبیاء (ﷺ) کا نام پا کر اور اسی میں ہو کر اور اسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔ اس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانے سے لے کر آنحضرتﷺ تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے ایسا ہی اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ جس زمانے میں ان مولویوں اور ان کے چیلوں نے میرے پر تکذیب اور بدزبانی کے حملے شروع کئے اس زمانے میں میری بیعت میں ایک آدمی بھی نہیں تھا۔ گو چند دوست جو انگلیوں پر شمار ہو سکتے تھے میرے ساتھ تھے‘‘ اور فرمایا کہ’’ اِس وقت (جب آپؑ نے یہ لکھا تھا) خداتعالیٰ کے فضل سے 70ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ گیا ہے جو نہ میری کوشش سے‘‘اتنی تعداد ہوئی ہے’’ بلکہ اس ہوا کی تحریک سے جو آسمان سے چلی ہے میری طرف دوڑے ہیں۔ اب یہ لوگ خود سوچ لیں کہ اس سلسلے کے برباد کرنے کے لئے کس قدر انہوں نے زور لگائے اور کیا کچھ ہزار جانکا ہی کے ساتھ ہر ایک قسم کے مکر کئے۔ یہاں تک کہ حُکّام تک جھوٹی مخبریاں بھی کیں، خون کے جھوٹے مقدموں کے گواہ بن کر عدالتوں میں گئے اور تمام مسلمانوں کو میرے پر ایک عام جوش دلایااو رہزار ہا اشتہار اور رسالے لکھے اور کفر اور قتل کے فتوے میری نسبت دئیے اور مخالفانہ منصوبوں کے لئے کمیٹیاں کیں۔ مگر ان تمام کوششوں کا نتیجہ بجزنامرادی کے اور کیا ہوا۔ پس اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو ضرور ان کی جا ن توڑ کوششوں سے یہ تمام سلسلہ تباہ ہو جاتا۔ کیا کوئی نذیر دے سکتا ہے کہ اس قدر کوششیں کسی جھوٹے کی نسبت کی گئیں اور پھر وہ تباہ نہ ہوا بلکہ پہلے سے ہزار چند ترقی کر گیا۔ پس کیا یہ عظیم الشان نشان نہیں کہ کوششیں تو اس غرض سے کی گئیں کہ یہ تخم جو بویا گیا ہے اندر ہی اندر نابود ہو جائے اور صفحۂ ہستی پر اس کا نام و نشان نہ رہے۔ مگر وہ تخم بڑھا اور پھولا اور ایک درخت بنا اور اس کی شاخیں دور دور چلی گئیں اور اب وہ درخت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہزار ہا پرند اس پرآرام کر رہے ہیں ‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 380-384)

پس یہ تعداد جو بڑھ رہی ہے اور آج دنیا کے 212 کے قریب ملکوں میں جماعت احمدیہ پھیل گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسی وعدے کے مطابق ہے جو طاقتور ہے اور جن پر اپنی رحمت کا انعام نازل فرماتا ہے انہیں پھر غلبہ بھی عطا فرماتا ہے۔ پس بجائے اس کے کہ یہ اعتراض ہو کہ ایک عام آدمی کو کس طرح مقام مل گیا مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر غور کرنا چاہئے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ انہیں بھی یہ پیغام پہنچائیں اور یہ پیغام پہنچانے کا فریضہ احسن رنگ میں سرانجام دینا چاہئے۔

المعز یعنی عزت دینے والا

اَلْمعز کا مطلب ہے کہ وہ جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو۔ یعنی جو دوسروں کو دبا لے اور اُسے کوئی دبا نہ سکے، اس پر غلبہ نہ پا سکے۔

عزت اس حالت کو کہتے ہیں، جس تک پہنچنا آسان نہ ہو۔ اس لیے نادر چیز کو عزیز الوجود کہتے ہیں اور جس پر غالب آنا مشکل ہو اس کو بھی عزیز کہتے ہیں۔ ناقابل تسخیر کو عزیز کہتے ہیں۔ عزت کا بذات خود مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت عزیز ہے۔ جس کا قرآن کریم میں تقریباً سو دفعہ ذکر آیا ہے۔ عزیز خداتعالیٰ کا نام ہے جو کاملیت اور جامعیت کے لحاظ سے صرف خداتعالیٰ پر ہی صادق آتا ہے اور وہی ہے جس کی طرف تمام عزتیں منسوب ہیں۔ وہی ہے جو اپنے پر ایمان لانے والوں اور اپنے رسول کو طاقت و قوت عطا فرماتا ہے جو ان کے غلبہ کا موجب بنتی ہے۔ پس اس غالب اور سب طاقتوں کے مالک خدا سے تعلق جوڑنا ہی ایک انسان کو قوت و طاقت عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں تقریباً سَوجگہ مختلف مضامین اور حوالوں کے تحت اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ذکر ہے۔

حضرت خلیفة ا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ اس بارے میں بعض مفسرین نے بعض آیات کی جو تفسیریں کی ہیں ان میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں تاکہ اس کے مزید معنی کھل سکیں۔ علامہ فخرالدین رازی اَمْ عِنْدَ ھُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ الْعَزِیْزِ الْوَھَّاب کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ’’ عزیز کی صفت بیان کرکے یہ واضح کیا گیا ہے کہ نبوت کا منصب ایک عظیم منصب اور ایک بلند مقام ہے اور اس کو عطا کرنے پر قادر ہستی کے لئے ضروری ہے کہ عزیز ہو یعنی کامل قدرت رکھنے والی ہستی ہو اور وھاب ہو یعنی بہت زیادہ سخاوت کرنے والی ہو اور اس مقام پر فائز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی کامل قدرتوں والا اور کامل الجود ہے۔یعنی سخاوت اور بخشش کرنے والا ہے۔‘‘

( تفسیر سورۃصٓ زیر آیت نمبر10)

عزت کا مطلب بھی قوت، طاقت اور غلبہ ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں کہ وہ عزت جو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کو حاصل ہے یہی ہمیشہ باقی رہنے والی دائمی اور حقیقی عزت ہے۔

عزیز خداتعالیٰ کا نام ہے جو کاملیت اور جامعیت کے لحاظ سے صرف خداتعالیٰ پر ہی صادق آتا ہے اور وہی ہے جس کی طرف تمام عزتیں منسوب ہیں۔ وہی ہے جو اپنے پر ایمان لانے والوں اور اپنے رسول کو طاقت و قوت عطا فرماتا ہے جو ان کے غلبہ کا موجب بنتی ہے۔ پس اس غالب اور سب طاقتوں کے مالک خدا سے تعلق جوڑنا ہی ایک انسان کو قوت و طاقت عطا فرماتا ہے۔

ہمیں اپنا مضبوط تعلق خدا تعالیٰ سے جوڑنا ہے تا پیارا اللہ ہمیں قوت اور طاقت عطا فرماتا رہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت کے خزانے تمہارے پاس نہیں ہیں بلکہ مَیں جو غالب اور تمام قدرتوں والا ہوں، مَیں ہی جسے چاہے خزانے دیتا ہوں۔ تم تو میری مخلوق ہو۔

پھر یہ کہ تکبر کس بات کا ہے؟ پس اللہ جسے مناسب سمجھتا ہے، اپنی رحمت کے خزانوں میں سے دیتا ہے اور نبوت کا انعام اسے ہی دیتا ہے جس کے لئے سمجھتا ہے کہ یہ بہترین طور پر اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس پیغام کو پہنچائے گا۔تو سب سے بڑھ کر نبوت کا انعام ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا۔

ہمیں ہمیشہ اپنے پیارے رب سے جو کہ المعز ہے عزت حاصل کرنے کے لئے دعا مانگنی چاہئے اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیئے۔

میں اپنے مضمون کو حضرت مسیح موعود ؑ کے ا س شعر پہ ختم کرتی ہوں۔؎

ہے شکر رب عزوجل خارج از بیاں
جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں

پیارے آقا حضرت خلیفة المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتے ہیں کہ پس ہمارا کام یہ ہے کہ جہاں اپنے ایمان کی مضبوطی اور ثبات قدم کے لئے اس خدا کے حضور جھکیں وہاں ان ظلموں سے بچنے اور فتح کے نظارے دیکھنے کے لئے بھی اُس قوی اور عزیز خدا کو ہی پکاریں جو اپنے انبیاء سے کئے گئے وعدے ہمیشہ سچے کرتا آیا ہے اور سچے مومنوں سے بھی اس کا یہی وعدہ ہے کہ ان کو بھی غلبہ عطا فرمائے گا۔ وہ آج بھی ان شاء اللّٰہ تعالیٰ اسی غلبہ کو سچ کرکے دکھائے گا، بلکہ دکھا رہا ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری کامیابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑے رہنے سے ہی مقدر ہے۔ تمام عزتیں اب زمانے کے امام کے ساتھ رہنے سے ہی ملنی ہیں۔ کیونکہ یہی ہے جو آنحضرتﷺ کا غلامِ صادق ہے اور اس کے ساتھ جڑنا آنحضرتﷺ کے ساتھ تعلق جوڑنا ہی ہے۔ پس اس مسیح و مہدی کے ساتھ حقیقی تعلق ہی اعمال کی بلندیوں پر بھی لے جانے والا ہو گا۔

(مدثرہ عباسی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

احمدیت کا فضائی دور (ایم ٹی اے- تقدیر الٰہی کا زندہ و تابندہ نشان) (قسط 3)