• 20 مئی, 2024

موج در موج لہریں

کھلتے ہوئے پھول، چہچاتے پرندے، چٹختی کھلی، کھلا ہوا سورج کا روشن چہرہ، مسکراتا ہوا بادلوں سے اٹکیلیاں کرتا چاند۔چمکتے ستارے، پیام زندگی لاتی نسیم صبح، برستا بادل۔ کیا خوب سماں ہے۔ قدرت نے ہمارے لئے کتنے سامان عیش پیدا کر رکھے ہیں۔ اگر ذرا سی نگاہ کر یں تو ہمارے ارد گرد سبھی مظاہر فطرت ہمیں زندگی کا پیغام دیتے ہیں۔ خوش رہنے اور مسکراتے ہوئے زندگی سے لطف اندوز ہونے کی ترغیب دلاتےہیں۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ (فداہ ابی و امی) نے کتنی خوبصورت بات بیان فرمائی:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ ‏‏‏‏‏‏وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ۔۔۔

‏‏‏‏حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔

(ترمذی کتاب البر و الصلۃ۔ باب ماجاء فی ضائع المعروف۔حدیث نمبر1907)

سیرت مطہرہ کا سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو بے شمار ایسے مواقع باآسانی مل جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ ہلکے پھلکے موڈ میں مزاح فرماتے اور بچوں کی شرارتوں سے محظوظ ہوتے تھے۔ آپؐ کی بڑوں کے ساتھ خوش دلی کی باتیں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ دل لگی کی گفتگو ریکارڈپر ہے اور ہمیں زندگی کا سبق دینے کے لئے کافی و شافی ہے۔

ہماری زندگی صرف ہماری ذات کا سفرتو نہیں ہے بلکہ پورے معاشرے کا مجموعہ ہے۔ جیسے آئینہ خانہ ہو۔ ہر آئینہ کا عکس دوسرے میں پڑتا چلا جاتا ہے۔ایک خوش مزاج شخص چند لمحوں میں ماحول اور مجلس کو کشت زعفران بنا دیتا ہے تو افسردہ دل شخص ساری مجلس بلکہ پورے ماحول کو افسردہ بنا دیتا ہے۔ مشہور فارسی ضرب المثل ہے:
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را

افسردگی کی حالت وبا جیسی ہے۔ یہ متعدی بیماری کی طرح ہےجوایک سے دوسرے کو لگتی چلی جاتی ہے اور آنا ً فاناً ماحول کو افسردہ بنا دیتی ہے۔

بد قسمتی سے بعض لوگوں نے خاک آلودہ رہنے، گندے کپڑے پہننے، منہ بسورے رکھنے، ہنسی مذاق سے دور رہنے کو مذہبی ہونے کی علامت کے طور پر اپنا لیا۔ وہ سب خاک آلودہ، ڈھونگ رچائے سادھو، پیر، فقیر، ملنگ جو ظاہر و باہر و آشکار مظاہر فطرت سے سبق نہ لے سکے وہ زندگی کے راز کیا جان پائیں گے۔

اسی طرح مسکراہٹ اورخوش دلی بھی ایک فرد سے دوسرے کو منتقل ہوتی ہوئی۔ انجمن کو خوشگوار اور ماحول کو جینے کے قابل کر دیتی ہے۔ سمند ر کی سطح پر تنہا اٹھنے والی ایک لہر کب اکیلی رہتی ہے۔ وہ ہل چل پیدا کر دیتی ہے۔ موج در موج لہریں بنتی چلی جاتی ہیں۔ کسی ایک محفل میں سنا ایک اچھا لطیفہ یا خوشگوار واقعہ جہاں جہاں جا کر سنایا جائے وہاں وہاں مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے۔ اگر ہم کوئی بہت خوشی کی خبر پائیں لیکن ہمارے ارد گرد منہ بسورے افراد بیٹھے ہوں تو نہ ہم اپنی خوشی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں نہ ہی ان کے ساتھ اسی جذبے اور چاہت کے ساتھ اپنی خوشی میں ایسے لوگوں کو شریک کر سکتے ہیں۔ ہماری ذات کا سفر کوئی الگ تھلگ حادثہ نہیں ہے۔ انسانی معاشرے میں ہم ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔جینے کی وجوہات ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔مسکراہٹیں بکھیریئے کہ یہی زندگی ہے۔

(چوہدری نعیم احمد باجوہ۔ برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 مارچ 2023

اگلا پڑھیں

احمدیت کا فضائی دور (ایم ٹی اے- تقدیر الٰہی کا زندہ و تابندہ نشان) (قسط 3)