ولادت 1864ء ۔بیعت 4۔اگست 1889ء۔وفات2دسمبر 1915ء
حضرت میاں نجم الدینؓ بھیروی ولد میاں احمد یار صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے۔ آپ ابتدا ہی میں سلسلہ احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہوگئے تھے چنانچہ آپ کی بیعت رجسٹر بیعت اولیٰ میں محفوظ ہے جہاں آپ کا اندراج اس طرح ہے۔
4۔اگست 1889ء روز یکشنبہ نجم الدین ولد احمد یار ساکن بھیرہ برادری جدی مولوی حکیم نور دین صاحب (پیشہ) نوکری ۔
(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 349 نیو ایڈیشن)
جلسہ سالانہ 1892ء میں شمولیت
آپ کو جماعت احمدیہ کے دوسرے تاریخی جلسہ سالانہ منعقدہ 27 دسمبر 1892ء بمقام قادیان میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ حضرت مسیح موعود نے شرکاء جلسہ کی فہرست کتاب آئینہ کمالات اسلام کے آخرمیں درج فرمائی ہے پانچویں نمبر پر آپ کا نام درج ہے:
(5) میاں نجم الدین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور
(روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 616)
313 صحابہؓ میں شمار
آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ حضورؑ نے آپ کا نام اپنے کبار 313 صحابہ میں شامل فرمایا ہے، آپ کا نمبر 252 ہے:
252۔ میاں نجم الدین صاحب بھیرہ
(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 328)
پیشگوئی کے گواہ
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب نزول المسیح میں الہام الہٰی کے مطابق پوری ہونے والی پیشگوئیوں اور نشانات کا ذکر کیا ہے جس کے ذیل میں پیشگوئیوں کے گواہوں کے اسماء بھی درج فرمائے ہیں، پیشگوئی نمبر 43 پر آپ نے لیکھرام کے متعلق ظاہر ہونے والے نشان کا ذکر فرمایا ہے جس کے زندہ گواہ رؤیت میں حضرت میاں نجم الدین صاحب بھیروی کا نام بھی شامل فرمایا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعودؑنے اپنے ایک اشتہار بعنوان ’’کیا محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کو عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور میں کرسی ملی ؟‘‘ مطبوعہ 7 مارچ 1898ء میں معزز گواہوں کے اسماء میں آپ کا نام میاں نجم الدین صاحب بھیرہ بھی درج فرمایا ہے۔
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم 37)
مہتمم لنگر خانہ
آپ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی ہی میں ہجرت کرکے قادیان آگئے تھے آپ کا سن ہجرت معلوم نہیں۔
قادیان میں آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے مکان کی شرقی جانب اپنا مکان بنوایا، قادیان میں آپ لنگر خانہ کے مہتمم مقرر ہوئے آپ نے نہایت دیانت اور امانت سے اس خدمت کو سر انجام دیا۔ آپ نے مجتہدانہ طبیعت پائی تھی سلسلہ کی خدمت اور مہمانوں کے آرام کا اپنی طاقت اور سمجھ کے موافق بہت خیال رکھتے تھے، حضور بھی وقتًا فوقتًا آپ کو مہمانوں کے آرام کے متعلق تاکید فرماتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ 25 دسمبر 1903ء کو جبکہ بہت سے مہمان بیرون جات سے آگئے تھے حضورؑنے آپ کو بلا کر فرمایا:
دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں اس لیے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو، سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو ان سب کی خوب خدمت کرو اگر کسی گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو۔
(البدر 8 جنوری 1903ء)
اور یہ ایک مرتبہ نہیں ہمیشہ ایسی تاکید کرتے رہتے بعض وقت یہ بھی فرماتے کہ میں نے تم پر حجت پوری کردی ہے اگر تم نے غفلت کی تو اب خدا کے حضور تم جواب دہ ہوگے، حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب آپ کے متعلق فرماتے ہیں:
ایک عرصہ دراز تک میاں نجم الدینؓ مرحوم بھیروی داروغہ لنگر تھے۔ میاں نجم الدینؓ بہت بڑے مخلص، جفاکش اور مجتہدانہ طبیعت کے آدمی تھے بہت بڑے تعلیم یافتہ نہ تھے مگر طبیعت رسا تھی اور اپنی سمجھ کے موافق بعض اوقات قرآن کریم کے نکات بھی بیان کر دیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے بے تکلف دوست ان کو مجتہد کہہ دیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ان کو مہمانوں کی خدمت اور لنگر خانہ کے انتظام کے لیے مقرر کیا۔ … وہ بہت نیک دل اور خیرسگال واقع ہوئے تھے حضرت مسیح موعودؑ کی محبت میں مگن اور سرشار تھے اور اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے مفوّضہ کام کو سر انجام دینے کی کوشش کرتے رہتے۔
مگر حضرت مسیح موعودؑ ان کے اخلاص اور محبت کو جانتے تھے اور اس کی قدر فرماتے تھے اور ان غلطیوں کو اعتراض کا رنگ نہ دیتے تھے بڑی سے بڑی بات جو آپ کبھی ان کو کہتے تو یہ ہوتی کہ
میاں نجم الدین میں نے تم کو سمجھا دیا ہے اور تم پر حجت پوری کر دی ہے اگر تم نے غفلت کی تو اب خدا کے حضور جوابدہ ہوگے۔
حضور خود کوئی حساب نہ رکھتے بلکہ لنگر خانہ کا تمام حساب کتاب ان کے ہی سپرد تھا حضرت مسیح موعود … ہمیشہ ان کی محنت اور اخلاص سے کام کرنے کی قدر فرماتے رہے۔
(سیرت حضرت مسیح موعودصفحہ356,355 از حضرت یعقوب علی عرفانیؓ)
قادیان میں آنے والے مہمان جب لنگر خانہ میں قیام کرتے تو آپ کے اخلاق سے متاثر ہوتے، حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری قادیان میں اپنی پہلی آمد بغرض تحقیق احمدیت کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مجھے خیال پیدا ہوا کہ میں نے یہاں کے علماء میں سے ایک بڑے عالم کو دیکھا اور خود مدعی مسیحیت اور مہدویت کی بھی زیارت کی اب یہاں کے عام لوگوں کی بھی اخلاقی حالت دیکھنی چاہیے چنانچہ اس امتحان کے لیے لنگرخانہ چلا گیا جو اس وقت حضرت خلیفہ اولؓ کے مکان کے جنوبی طرف اور بڑے کنویں کے مشرقی طرف تھا، لنگرخانہ میں ایک چھوٹا سا دیگچہ تھا جس میں دال تھی اور ایک چھوٹی سی دیگچی میں شوربہ تھا میاں نجم الدین صاحب بھیروی مرحوم اس کے منتظم تھے میں نے میاں نجم الدین صاحب سے کھانا مانگا انھوں نے مجھے روٹی اور دال دی میں نے کہا کہ میں دال نہیں لیتا گوشت دو، میاں نجم الدین صاحب مرحوم نے دال الٹ کر گوشت دے دیا لیکن میں نے پھر کہا کہ نہیں نہیں دال ہی رہنے دو تب انھوں نے گوشت الٹ کر دال ڈال دی، دال اور گوشت کے اس ہیر پھیر سے میری غرض یہ تھی کہ تا میں کارکنوں کے اخلاق دیکھوں۔ الغرض میں نے بیٹھ کر کھانا کھایا اور وہاں کے مختلف لوگوں سے باتیں کیں منتظمین لنگر کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلانے والی تھی اس سے بھی میرے دل میں گہرا اثر ہوا۔
(رجسٹر روایات رفقاء نمبر 8 صفحہ11,10)
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خانؓ قادیان کے اس دور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مہمان خانہ میں ان دنوں حافظ حامد علی صاحب مرحوم مہمانوں کے خدمت گزار تھے بڑے اخلاص سے ہمارے لیے کھانا لایا کرتے تھے ….ان دنوں میاں نجم الدین صاحب لنگرخانہ کا کھانا پکوایا یا برتایا کرتے تھے اور بہت مشقت برداشت کرکے مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام فرمایا کرتے تھے۔ حافظ حامد علی صاحب مرحوم کھانا کھلاتے حضرت مسیح موعودؑ کی کچھ باتیں بھی سناتے رہتے ایسا ہی میاں نجم الدین صاحب بھی کبھی باتیں سناتے…
(رجسٹر روایات رفقاء نمبر 8 صفحہ 189)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ آپ کی سیرت کے متعلق فرماتے ہیں:
حضرت میاں نجم الدین صاحب بھیرہ ضلع شاہ پور (حال ضلع سرگودھا۔ ناقل) کے رہنے والے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے اپنی عمر کا آخری حصہ حضرت مسیح موعود کے لنگر خانہ کی خدمت میں نہایت دیانت اور امانت سے گزارا، خدمت خلق کا خاص جذبہ ان میں تھا۔ شحنہ حق کا پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا تو دوبارہ اپنے صرفہ سے طبع کروا کر حضرت کی خدمت میں پیش کردیا، نہایت محنتی اور جفاکش تھے مہمانوں کو کھانا کھلا چکنے کے بعد بھی دیر تک لنگرخانہ میں رہتے کہ کوئی سائل آجاوے یا مسافر ہو اور پھر کچھ ٹکڑے لے کر شکستہ مکانوں اور گلیوں میں جاتے تا کہ بعض کتوں وغیرہ کو بھی جو کسی وجہ سے حرکت نہ کرسکتے ہوں دے دیں۔
…جب طاعون کا اثر ہوا اور بعض اموات ہوئیں تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ بعض جنازوں کو صرف میں نے اور حضرت میاں نجم الدین صاحب نے اٹھایا اور جاکر دفن کردیا …
(حیات احمد جلد اول حصہ سوم (1889-1892) صفحہ 39 از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ اسلامی پریس حیدرآباد دکن 1952ء)
حضرت شیخ محمد اسماعیلؓ سرساوی بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت میاں نجم الدینؓ کے متعلق فرمایا :
…ان کی یہ بات بہت ہی پسند ہے روٹی لے کر گلیوں اور مسجد میں ہو آتے ہیں کہ اگر کوئی بھوکا ہو تو اسے دے آئیں۔
پھر فرمایا:
کہ امانت دار بھی ہیں ۔
(الحکم 28 نومبر 1936ء)
آپ نے 2 دسمبر 1915ء بعمر تقریباً 80 سال وفات پائی، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا :
میاں نجم الدینؓ داروغہ لنگرخانہ جو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے پرانے خدام میں سے تھے مہینے ڈیڑھ مہینے بعارضہ ضیق النفس بیمار رہ کر شب درمیان یکم و دوم دسمبر کو انتقال کر گئے…۔ خدا مغفرت کرے اور پسماندوں کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔ جمعرات کی دوپہر کو مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں جماعت کثیرہ کے ساتھ جس میں شہر سے باہر رہنے والے طلباء ہائی سکول بھی مع ماسٹر صاحبان آن کر شامل ہوگئے تھے حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور میت مقبرہ بہشتی میں دفن کی گئی۔
(الفضل 5 دسمبر 1915ء)
(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)