• 12 جولائی, 2025

قرآنی انبیاء (قسط 12)

قرآنی انبیاء
عجیب قبریں
قسط 12

چاروں طرف پھیلی ہوئی وہ عجیب وغریب قبریں در اصل مکانات تھے جن میں ’’قوم مدین‘‘ رہا کرتی تھی۔ بے ایمانی اور بد دیانتی نے اس قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ مسلسل نصیحت کے باوجود یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ایک روز سزا کے طور پر ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آگیا۔ وہ بادل بظاہر عام سے تھے لیکن عام سے یہ بادل اس بے ایمان قوم کی بربادی کی داستان رقم کر گئے۔ ایک ایسا واقعہ جس میں آج کی دنیا کیلئے بھی نصیحت ہے۔

گھنے درختوں کا ایک وسیع سلسلہ دور دور تک نظر آ رہا تھا بڑے بڑے درخت جو انسانی قد سے بہت اوپر نکلے ہوئے تھے۔ مل کر ایک جنگل بنا رہے تھے۔ ایک گھنا اور وسیع جنگل جو خلیج عقبہ کے پاس کے علاقے میں واقع تھا۔ مختلف قسم کے پھل دار درخت بھی یہاں موجود تھے جن کے بچل جنگلی جانوروں اور انسانوں کے لئے خوراک کا کام دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس جنگل میں کثرت کے ساتھ ہرن جنگی اونٹ اور بارہ سنگھے پائے جاتے تھے۔ اس جنگل کے ارد گرد کافی دور تک ایک قوم آباد تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے ’’مدین‘‘ کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے قوم مدین کہلاتی تھی۔ یہ ایک بڑی قوم تھی جو عرب کے بہت بڑے علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ ان کے مرکزی شہر کا نام بھی ’’مدین‘‘ ہی تھا جو اس وسیع جنگل کے قریب ہی خلیج عقبہ کے پاس آباد تھا۔ مدین کے چرواہے اپنے جانور چرانے کی غرض سے اس جنگل میں آتے جاتے رہتے تھے اس وجہ سے لوگ انہیں مدیانی کے علاوہ اصحاب الایکہ یعنی جنگل والے لوگ بھی کہہ دیا کرتے تھے۔

یہ علاقہ اس زمانے میں تجارتی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں یمن سے شام جانے کے لئے اور خلیج فارس سے مصر جانے کے لئے جو دو بڑے راستے استعمال ہوتے تھے وہ مدیانی قوم کے علاقے میں سے گزرتے تھے۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ بات بہت اہمیت رکھتی تھی کیونکہ عرب کی تمام تجارت کا انحصار ان راستوں پر تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ اس قوم کی اکثریت تجارت کے پیشے کو اپنائے ہوئے تھی۔

خدا تعالیٰ نے مدیانی قوم کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا تھا۔ لیکن اس فضل کے نتیجے میں شکر گزار بننے کے بجائے وہ لالچی اور حریص ہو گئے تھے طرح طرح کی بےایمانیاں اور بد دیانتیاں انہوں نے شروع کر دیں اور دن بدن بے ایمانی میں بڑھتے چلے گئے۔ تجارت میں دھوکہ بازی ان کی فطرت بن گئی۔ ناپ تول میں کمی کرنا اور گاہکوں کو دھوکہ دے کر لوٹنا ان کے لئے عام سی بات تھی۔

یمن سے شام جانے والے قافلے اس قوم کے ہاتھوں سخت تنگ تھے کیونکہ جب وہ مدین کے علاقے سے گزرتے تھے تو انہیں بھاری ٹیکس ادا کرنے پڑتے تھے۔ اور بات اگر صرف ٹیکس تک ہی محدود ہوتی تو شاید کچھ زیادہ مشکل نہ ہوتی لیکن مصیبت یہ تھی کہ یہ علاقہ مدیانی ڈاکوؤں اور لٹیروں کی وجہ سے محفوظ بھی نہ تھا۔ آئے دن قافلے لوٹ لئے جاتے تھے اور سوداگروں کو قتل کر دیا جا تا تھا۔ جب قوم مدین سے اس بارے میں شکایت کی جاتی تو اس شکایت پر بالکل کان نہ دھرے جاتے اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا۔
یوں مدیانی قوم کا ظلم بڑھتا چلا گیا وہ بے ایمانی، بد دیانتی، رہزنی اور اخلاقی برائیوں میں ترقی کرتے چلے گئے۔ خدا تعالیٰ سے بالکل غافل ہو گئے اور اچھے اخلاق کو خیر باد کہہ دیا۔ یہ وقت تھا جب خدا تعالیٰ کو اس قوم کی حالت پر رحم آیا اور اس نے اس قوم کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے ایک نبی کو اس قوم میں مبعوث کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ نبی کون تھے؟ آیئے ہم آپ کو بتاتے ہیں اس بے راہ رو مدیانی قوم کی راہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں سے ایک نیک اور بزرگ شخص کا انتخاب کیا جن کا نام شعیب تھا۔ جی ہاں! ’’حضرت شعیب علیہ السلام‘‘

حضرت شعیبؑ بڑے دکھ کے ساتھ اپنی قوم کی حالت دیکھا کرتے تھے۔ آپ کو علم تھا کہ یہ قوم بے انتہا بے ایمان ہو چکی ہے ہر معاملے میں دھوکہ اور فریب دینا اس کی عادت میں داخل ہے اور بظاہر اس کا سدھرنا ناممکن ہے لیکن پھر بھی آپ اپنی قوم کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے اپنے دل میں بے انتہا در داور تڑپ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی نیکی اور اخلاص کو ضائع نہ ہونے دیا اور آپ کو نبی کی حیثیت سے اس قوم کی اصلاح کرنے کا حکم دیا۔

مدیانی قوم کی اصلاح! ایک بہت بڑا کام تھا۔ ایک ایسی قوم کی اصلاح جو گناہوں کی دلدل میں اتری ہوئی تھی بہت مشکل تھا لیکن حضرت شعیب نے اللہ کا نام لے کر انہیں سیدھے راستے کی طرف بلانا شروع کر دیا۔ بستی بستی گاؤں گاؤں ایک ہی صدا حضرت شعیب نے بلند کی کہ اے لوگو! باز آجاؤ۔ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور میری بات مان لو۔ دیکھو! یہ جو ناپ تول میں کمی کرنا بد دیانتی کرنا اور ڈاکے مارنا ہے یہ چھوڑ دو۔ خدا تعالیٰ نے تمہیں اس قدر نعمتوں سے مالامال کیا ہے کہ اگر تم یہ سب کچھ نہ بھی کرو تب بھی ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہو۔ پھر کیوں باز نہیں آ جاتے۔ کیوں یہ سب چھوڑ نہیں دیتے۔

قوم کے لوگ آپ کی باتوں پر ہنستے۔ طنز کے ساتھ ایک دو سرے سے کہتے یہ دیکھو شعیب کیسے اچھے کاروباری راز بتا رہا ہے۔ کہتا ہے ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ ملاوٹ نہ کرو۔ بد دیانتی نہ کرو۔ ارے یہ سب تو کاروبار کا حصہ ہے۔ اگر ہم نے وزن کے باٹ لینے کے لئے الگ اور دینے کے لئے الگ بنا رکھے ہیں تو یہ ہماری ذہانت ہے۔ ہم نے کتنی محنت سے تجارت میں ترقی کیلئے نئے نئے طریق بنائے ہیں۔ اسے کیا معلوم کہ تجارت ہوتی کیا ہے؟ اسے تو بس ہماری برائیاں ہی نظر آتی ہیں۔ ہماری ترقی کو نہیں دیکھتا۔ ایک بولا مجھے تو یہ کوئی بڑی سازش لگتی ہے کسی قوم نے ہماری تجارت کو خراب کرنے کے لئے ہمارے ہی ایک ہم وطن کو خرید لیا ہے۔ ورنہ شعیب کو کیا ضرورت ہے کہ ہماری تجارت پر نکتہ چینی کرنے کی۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ قوم کی اکثریت اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھی کہ شعیب اللہ کے نبی ہیں اور ہماری راہنمائی کیلئے مبعوث کئے گئے ہیں وہ مسلسل آپ کو جھوٹا کہتے۔ آپ کی باتوں کو غلط کہتے۔ اور کوئی بات ماننے کیلئے تیار نہ ہوتے۔ حضرت شعیب نے انہیں بہت سمجھایا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

یہ سلسلہ چلتا رہا اور قوم اپنی بد دیانتی اور ظلم میں بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قوم کو سزا دینے کا فیصلہ کر دیا گیا اور اس سزا کے متعلق حضرت شعیب نے اپنی قوم کو بھی آگاہ کر دیا۔ قوم مدین نے سزا کی پیشگوئی کو بھی جھوٹا سمجھا اور بجائے اس کے کہ باز آتی اس نے پہلے سے بڑھ کر حضرت شعیب کا انکار کرنا شروع کر دیا۔ وہ کہتے کہ اے شعیب ! بہت باتیں ہو چکی ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ تیری حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ تو ایک عام آدمی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جا اور ہم پر جو عذاب لانا چاہے لے آ۔ اب تو ہم تب ہی تمہیں سچا سمجھیں گے جب تو ہم پر کوئی عذاب لے آؤگے۔

اب بات بہت بڑھ چکی تھی۔ قوم نے انکار میں حد کر دی تھی جس کے بعد اب ان کے ایمان لانے کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ انہوں نے حضرت شعیب کی سچائی کا معیار ہی عذاب کو ٹھہرایا تھا اس لئے اب لازم تھا کہ عذاب ان پر آ کر رہتا تاکہ اللہ کے اس بزرگ نبی کی سچائی ثابت ہو سکتی۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ اور ایک دن بہت گہرے بادل آ گئے۔ مدین کے لوگ بڑے سکون کے ساتھ اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے بعض لوگ بادلوں کی آمد کو خوشگوار موسم کی طرف ایک قدم قرار دے رہے تھے لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر کچھ اور ہی رنگ دکھانے لگی تھی۔

بادل گہرے ہوتے چلے گئے۔ قوم مدین کی تباہی کا پیغام لاتے ہوئے بارش کے پہلے قطرے نے جب زمین کو چھوا تو اہل مدین تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ وہی عذاب ہے جو ہم شعیب سے مانگا کرتے تھے۔ تیز آندھی کے ساتھ ہی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ اور ایسی شروع ہوئی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ وقت گزر تاگیا اور بارش تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔ قوم مدین کی تمام ترقیات بارش کے اس شدید طوفان میں بہتی چلی جا رہی تھیں۔ گھر عمارتیں دکانیں سب کچھ منہدم ہوتا جا رہا تھا۔ لوگ مر رہے تھے۔ چیخ و پکار ہو رہی تھی لیکن اس عذاب سے بچنا ممکن نہ تھا۔ جو گھر گر تا تھا وہ اس گھر میں رہنے والوں کی قبر بن جا تا۔ سب کے سب مکانات کے ملبے تلے دب جاتے اور بارش اور طوفان دیگر مکانوں کو گرانے لگ جاتا۔ اور پھر.. جب بارش تھمی تو بہت ہی درد ناک منظر تھا۔ قوم مدین کے خوبصورت گھر جو انہوں نے بے ایمانی کی کمائی سے تعمیر کئے تھے ان کی قبروں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ بغیر کسی استثناء کے ہر طرف یہی عالم تھا۔ تباہی اور بربادی کا عالم، جو قوم مدین نے خود اپنا مقدر بنا لی تھی۔

ہر طرف بالکل خاموشی تھی۔ گھنے درختوں کا وسیع سلسلہ اب بھی وہیں موجود تھا۔ لیکن کوئی مدیانی چرواہا اپنے جانور لے کر اس طرف نہیں جا رہا تھا۔ یمن سے شام جانے والے قافلے اب بھی وہاں سے گزرتے تھے لیکن بددیانت مدیانی قوم کو وہاں نہ پاتے تھے۔ ایک بہت بڑی قوم مدین کی رہنے والی مدیانی قوم کی داستان کل کا فسانہ بن چکی تھی۔ آج تو وہاں صرف چند کھنڈر چند ٹیلے تھے جو مدیانیوں کی قبریں تھیں۔ دھوکہ باز اور بد دیانت قوم کی عجیب و غریب قبریں۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کی سالانہ کھیلیں 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مئی 2022