• 11 جولائی, 2025

بچّوں میں نماز با جماعت کی عادت قائم کرنے میں ماؤں کا کردار

تمہید

شکر و احسان ہے اُس پیاری ذات واحد و یگانہ کا جس نے ہم ماؤں کو وہ بلند مقام عطا فرمایا جنکے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔ پس وہ بلند مقام حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھی خدا اور اُسکے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کے زینے طے کرتے ہوئے اُن انعامات و اکرام کی وارث ہوں۔ شُکر الہٰی ہے کہ اُس نے ہمیں ایسی پیاری جماعت میں داخل فرمایا کہ ہم پیارے آقا حضرت محمد مصطفٰے ﷺ کے جھنڈے تلے غلامانِ مسیح زماں کی فرمانبرداری اور اطاعت کے پاک نمونے قائم کرتے ہوئے مثالی مائیں ثابت ہوں۔ آمین

مفہوم

انسانی زندگی میں اجتماعیت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اکیلا انسان ہرگز وہ فوائد حاصل نہیں کر سکتا جو اجتماعیت میں حاصل ہوتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد تمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر جمع کرنا ہے اور ملتِ واحدہ بنانا ہے۔ آنحضور ﷺ کی بعثت کا یہی مقصد ہے اور اسلامی شریعت بھی اسی لئے نازل ہوئی نیز حضرت مسیح موعودؑ کا مقصد بھی اجتماعیت کا قیام ہے۔

نماز باجماعت کا قیام (معنے القیامۃ الصلوٰۃ)

نماز کے قیام کے بارہ میں قرآن کریم میں متعد د بار ذکر آیا ہے اور نماز کے ساتھ ہر جگہ قیام کا لفظ ملتا ہے جسکے معنے ہیں نماز کو اُسکی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا۔ اور ہم مائیں اسکے لئے اپنا کیا کردار پیش کر سکتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں:

ارشادِ ربانی

سورۃ ابراہیم آیت 41 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ترجمہ:۔ اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا بنا دے اور میری نسل سے بھی، اس ابراہیمی دُعا سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ اپنی نسل کو بھی نماز قائم کرنے والا بنانا کس قدر ضروری ہے۔ اور یہ پیاری دُعا ہم ہر روز ہر نماز میں کئی بار دُہراتے ہیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی پیدائش کا مقصد ہی عبادتِ الہٰی بتایا ہے فرمایا وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات: 57)

ترجمہ:۔ اور نہیں پیدا کئے میں نے جن اور انس مگر تا کہ وہ عبادت کریں (الذاریات 51) پس اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو ہمیں پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے تا کہ حقیقی عبد بن سکیں اور مقصدِ پیدائش پورا ہو سکے۔

نماز باجماعت کی اہمیت
حدیثِ نبویؐ

اذان کے الفاظ حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ میں تمام بنی نوع انسان کو دن رات اُس کامل عبودیت کی طرف بُلا رہی ہے جس میں انسانی کمالات کا راز پنہاں ہے۔ اِس میں نبی کریمؐ نے اپنی دعوت کے عملی نتائج کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا ’’آدمی کی نماز با جماعت اُسکی اُس نماز سے پچیس گنا بہتر ہے جو وہ اپنے گھر میں ادا کرتا ہے یا اپنے بازار میں پڑھے اور یہ اس لئے کہ جب وہ وضو کرتا ہے اچھی طرح کرے پھر وہ مسجد کی طرف جو قدم بھی اُٹھائے گا اُس کے ایک قدم پر اُسکا ایک درجہ بلند ہوگا اور ایک گناہ دُور کردیا جائیگا اور جب وہ نماز پڑھیگا اور نماز گاہ میں رھےگا ملائکہ اُس کے لئے مغفرت کی دُعا کرتے رہیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری جلد2 صفحہ46 حدیث نمبر647) اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا باجماعت نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجے بڑھ کر ہوتی ہے

(صحیح بخاری جلد2 صفحہ45 حدیث نمبر645)

نیز نماز باجماعت کی اسقدر اہمیت بیان فرمائی کہ حسن بصریؒ نے کہا اگر اسکی ماں ہمدردی سے عشاء کی نماز باجماعت پڑھنے سے روکے تو وہ نہ مانے۔ (صحیح بخاری جلد2 صفحہ43 حدیث نمبر643) پس ضروری ہے کہ ہم خود بھی اس بات کو اہمیت دیں اور بچوں میں یہ عادت قائم کریں اسکے لئے ضروری ہے کہ وقت پر خود بھی نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ اس سلسلہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ماؤں کا خود نیک ہونا کتنا ضروری ہے۔

نبی کریمؐ نے با اخلاق بیوی کو ترجیع دیتے ہوئے فرمایا فَا ظْفَر بِذاتِ الدِّ یْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ (بخاری) (چالیس جواہر پارے صفحہ47 حدیث نمبر16)

اے مرد مسلم تو دین دار اور با اخلاق رفیقۂ حیات چُن کر اپنی زندگی کو کامیاب بناؤ ورنہ تیرے ہاتھ خاک آلودہ رھیں گے۔

پس نیک اور خوش اخلاق بیوی کا اچھا اور گہرا اثر اولاد پر بھی پڑتا ہے کیونکہ بچپن میں اولاد کی تربیت ماں کے ذمہ ہوتی ہے اور وہ طبعاً ماں سے زیادہ بے تکلّف ہوتا ہے اور باپ کی نسبت ماں کی توجہ اور پیار زیادہ ملتا ہے پس بچوں کے سامنے ماں کا اپنا نمونہ بہت اچھا اثر چھوڑتا ہے پس اسکے لئے ضروری ہے بچوں کے دلوں میں شروع سے ہی خدا اور اُسکے رسولؐ سے محبت کا عملی نمونہ نماز اور ذکرِ الہٰی کر کے ہی پیش کیا جا سکتا ہے نماز باجماعت سے وقت کی پابندی کی بھی عادت پڑتی ہے وقت پر نماز کی ادائیگی کے لئے خود بھی کھڑی ہوں اور اُنکے ساتھ ملکر بچپن سے باجماعت نماز ادا کریں گی تو عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ ان شاءاللہ وہ خود بخود نماز با جماعت پر قائم ہو جائیں گے۔ اسکے ساتھ دُعا سے زیادہ سے زیادہ کام لینا ہو گا۔ وہ اس سلسلہ میں ممد ثابت ہوگی۔

برکات نماز باجماعت
ارشاد حضرت مسیح موعودؑ

اس سلسلہ میں نماز با جماعت کا زیادہ ثواب رکھنے کی غرض میں حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس سے وحدت پیدا ہوتی ہے پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانےکی یہاں تک ہدایت ہے کہ پاؤں باہم مساوی ہوں صف سیدھی ہو اور کندھے ایک دوسرے سے ملے ہوں اسکا مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہو نہ رہے‘‘

(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ281-282)

پس چونکہ نماز باجماعت عملی رنگ میں اطاعت کا نہایت شاندار درس دیتی ہے اس طرح بچوں کو اطاعت کی بھی عادت ہوگی وہ ماں کی اطاعت کرتے ہوئے خدا اور اُسکے رسولؐ کی اطاعت کے جذبے سے سرشار ہو کر نظام جماعت کی بھی اطاعت کرنے والے ہونگے۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم مائیں اپنے خاوندوں کی بھی ہر طرح اطاعت بجا لائیں نماز کے وقت پر خاوند بھی جب نماز کے لئے کہے تو ہم روک نہ بنیں بلکہ خود بھی باقاعدگی سے نماز کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس کی مثال قائم کریں۔ اور بچوں کے سامنے عمدہ نمونہ پیش کر کے اوّل وقت میں فرض نمازوں کو باجماعت ادا کرنیکی کوشش کریں اس سلسلے میں حضرت خلیفہ اوّل کا ایک ارشاد ملاحظہ ہو:۔

ارشاد خلیفہ اوّلؓ

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کے بارہ میں ہے کہ اُنہوں نے قرآن ماں کی گود میں سُنا آپؓ فرماتے ہیں کہ عورتیں نماز میں بے حد سُست ہوتی ہیں خاص کر عصر اور مغرب کی نماز کو تو ضرور بہانہ ہوتا ہے کہ روٹی پکانا ہے۔ اسی طرح اپنی امی کے بارہ میں فرمایا کہ میری ماں نے تو کھونٹی پر با ورچی خانہ میں جائے نماز لٹکائی ہوتی تھی نماز کا وقت ہوتا تو بلا تامل وہیں نماز پڑھ لیتیں۔

(ارشادات نور جلد3 صفحہ67-68)

وہ زبان لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ شکر ادا
وہ انعام پاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ حق ادا

(ذاتی شعر)

نماز کا بروقت اور باجماعت نماز پڑھنا ہمیں اللہ کی محبت اور رحمت عطا کرتا ہے اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ارشاد ہے:

ارشاد خلیفہ ثانیؓ

آپؓ خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں تم شجرہ طیّبہ بنو! تم وہ درخت بنو جو نا صرف خوش شکل ہو بلکہ خوشبودار بھی ہو… پس چاہیئے کہ تمہاری نمازیں ایسی خوشبودار ہوں کہ دوسرے لوگ متاثر ہوتے چلے جائیں جب تمہارے اندر یہ خوشبو پیدا ہو جائے گی تو نتیجتاً لوگ تمہاری طرف بھاگ بھاگ کر آئیں گے اور تم لوگوں کو احمدیت کی طرف کھینچنے کا ذریعہ بن جاؤ گی۔

(اوڑھنی والیوں کیلئے پھول حصہ اوّل صفحہ359)

پس جس ماں نے ان ارشادات کی روشنی میں اپنے بچوں کو نماز باجماعت کا پابند بنا دیا اس نے اس کے دین کو ایک مضبوط کڑے کے ساتھ باندھ دیا جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔ اس کے لئے ماں کا اپنا نمونہ مثالی کردار بنے گا۔ اس ضمن میں ہم خلیفہ الثالثؒ کا ارشاد دیکھتے ہیں:

ارشاد خلیفہ ثالثؒ
دعا کا گُر

آپؒ نے بچوں کے لئے دعاؤں کی نصیحت فرمائی ’’بچے کو کپڑے پہناتے ہوئے بعض مائیں کوستی ہیں۔ اس وقت کو بھی دعاؤں میں صرف کریں کہ اللہ تعالیٰ بچے کو نیک اور خادم دین بنائے اللہ تعالیٰ آپکے جذبے کو دیکھ کر آپکی دعاؤں کو قبول بھی کرے گا۔ اور آپکی اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بھی بنائے گا۔ اسی طرح کھانا پکاتے ہوئے بھی سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ کے ورد کے ساتھ جو کھانا تیار ہو گا وہ انکی مادی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی مہیّا کرے گا۔‘‘

(جلسہ سالانہ مستورات 1965ء از مصباح ستمبر 1996ء)

الغرض یہ دعائیں بچوں کے لئے نماز باجماعت کی عادت ڈالنے میں بھی ممد ثابت ہونگی بچہ ان شاءاللہ آپکا فرمانبردار اور اطاعت گذار ہوگا۔ اس کے لئے ارشاد ملاحظہ ہو:

ارشاد خلیفہ رابعؒ
عمدہ نمونہ پاک تبدیلی

آپؒ فرماتے ہیں اپنے گردو پیش اپنے ماحول میں خدا کی محبت کے رنگ بھرنے کی کوشش کریں۔ ابتدائی دور میں انکو خدا کے پیار کی لوریاں دیں خدا کی محبت کی ان سے باتیں کریں۔

پھر بعد کی ساری منازل آسان ہو جائیں گی… جب بچہ آپکی گود میں اُترتا ہے اُس وقت سے آگے پھر مسلسل یہ کام اُسوقت تک جاری رہتا ہے جب تک بچہ اپنے شعور کو پہنچ کر آزاد حیثیت اختیار نہیں کر لیتا۔ اُس دَور میں آپ اُسمیں عظیم تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہیں۔

(خطاب مستورات جلسہ سالانہ برطانیہ 27جولائی 1991ء)

اس سلسلہ میں ہم عظیم ماؤں کے نمونے دیکھتے ہیں جن میں حضرت اماں جان ؓ اور والدہ چوہدری ظفراللہ خانؓ جیسی عمدہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ حضرت اماں جان ؓ جو 4 خلفاء کی والدہ، دادی اور پڑدادی تھیں نمازوں کی پابند اور نہایت عمدہ اخلاق کی مالک تھیں اسی طرح چوہدری طفراللہ خان صاحب جو نماز باجماعت کے عادی ہونے کے باعث وقت کی پابندی کے بہت قائل تھے اور جب بھی نماز کا وقت ہو جاتا تو پہلے نماز ادا کرتے پھر کوئی اور کام۔ خلیفہ الرابعؒ فرماتے ہیں کہ ’’مساجد یا عبادت گاہوں میں جانے کا مقصد رسمی عبادت ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے محبت ہے جسکے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی انسان سے محبت کرنے لگتا ہے۔‘‘

(مغربی معاشرہ اور احمدی مسلم خواتین کا کردار صفحہ12)

حضرت اماں جانؓ کا نمونہ ہم دیکھتے ہیں ایک دفعہ فرمایا ’’بچوں کے بہانے نماز ضائع نہ کیا کرو اسطرح بچے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتے ہیں بچہ تو خدا کا انعام ہے‘‘ خود بھی نمازوں کی پابندی کرتیں اور دوسروں کو بھی تاکید کرتی تھیں۔

(سیرت حضرت اماں جان صفحہ22، مولفہ صاحبزادی امتہ الشکور)

ارشاد حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الفتوح کے موقعہ پر جو ساری جماعت کو پیغام دیا اُس میں بیان فرمایا ’’صرف مسجد بنانے پر ہی خوش نہ ہو جائیں بلکہ مسجدوں کو آباد بھی کریں ورنہ ہمارے اور غیروں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد اوّل صفحہ364)

آپ نے زیادہ سے زیادہ مساجد بنانے کی تحریک فرمائی ہے اور ہر مسجد کے افتتاح کے موقعہ پر یہی نصیحت فرماتے ہیں کہ اُنکی آبادی لازمی ہے کیونکہ مساجد کی زینت اُنکے نمازیوں سے ہے اور خدائی وعدہ کے مطابق مومن کامیاب وہی ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ سیّد میر داؤد احمد صاحب

جامعہ کے ایک طالبعلم جو آخری کلاس میں تھے بارش کے باعث نماز باجماعت ادا نہ کر سکے اُسکے بارہ میں حضرت میر صاحب لکھتے ہیں ’’ایسے موقعوں پر ہی سچے عاشقوں کا پتہ چلتا ہے اگر باجماعت نماز کے لئے چلے جاتے تو نہ پگھل جاتے نہ کھُر جاتے اور نہ ہی اُڑ جاتے۔ ہمیشہ نماز باجماعت کا التزام کیا کریں۔‘‘

(سیرت داؤد صفحہ76)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کا بیان
’’نظارہ قادیان‘‘

فرمایا ’’حضرت صاحب کے زمانہ میں اس عاجز نے نمازوں میں اور خصوصاً مسجدوں میں لوگوں کو آجکل کی نسبت بہت زیادہ روتے سُنا ہے رونے کی آوازیں مسجد کے ہر گوشہ سے سُنائی دیتی تھیں ایک جگہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ دن میں کم از کم ایک دفعہ تو انسان خدا کے حضور رو لیا کرے۔‘‘

(سیرت المہدی حصّہ سوم جلد اول صفحہ620)

شہادت کا مقام

آج ہم دیکھتے ہیں کہ نماز باجماعت کا التزام کرنے والوں نے کس قدر عمدہ انعام شہادت کا پایا۔ گھٹیا لیاں اور لاہور کی مساجد میں کتنے نمازیوں کو نماز کے دوران شہادت کا عظیم رُتبہ حاصل ہو۔ جن میں بچے اور بڑے سبھی شامل تھے۔ 16 سالہ شہزاد جس نے اپنے 3 چھوٹے بھائیوں کو اُٹھایا اور پہلے تہجّد کی نماز ادا کی پھر نماز فجر میں شامل ہوئے۔ اسی طرح 70 سالہ نصیر احمد صاحب جو شدید زخمی ہوئے نماز کے پابند تھے جنہوں نے کبھی فجر کی نماز باجماعت نہیں چھوڑی۔ ان سب خوش نصیبوں کو نماز کے بعد دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔

(الفضل 13 نومبر 2000ء)

گھٹا لہو کی جو گھٹیالیاں سے آئی ہے
وہ ساتھ قصّے بھی حبلِ متین کے لائی ہے

الغرض ہم دیکھتے ہیں ایسے ایسے پیارے وجود ماؤں کی گودوں سے نکلے ہیں اور وہ مقام پا گئے جن کا خدا نے وعدہ دیا ہے۔ چنانچہ ہم آج کے دَور میں دیکھتے ہیں کس قدر سہولیات ہیں اور ہم وہ مقام کیسے حاصل کر سکتی ہیں۔

موازنۂ ادوار

گزشتہ زمانہ اور موجودہ زمانہ کا یہ موازنہ ہمیں اپنے اندر تبدیلی لانے میں بہترین ثابت ہو گا۔

گزشتہ زمانہموجودہ زمانہ
سہولیات کی کمی۔ ٹی وی۔ فریج۔ MTA۔ سفر اور خوراک وغیرہ کی۔وافر سہولیات۔ میڈیا۔ MTA۔ گاڑی۔ اچھی خوراک۔ گھر بیٹھے یہ خطبات وغیرہ سُن اور پڑھ سکتے ہیں MTA کے علاوہ دیگر ذرائع۔
بزرگوں کا ادب خوفزمانہ کی چکا چوند
اللہ کی محبتدُنیا کی محبت
بلند حوصلےمنفی سوچ اور جلد غصّہ میں آنا
ہمدردئ وقتوقت کی کمی
عمدہ عائلی زندگیآئے دن کے جھگڑے
پُر سکون گھرانہبے سکونی
مہمانوں کی ضیافت، خود کھانا بناناسہولیات کے باوجود کھانا باہر سے منگوانا
بڑے بڑے جلسوں میں صبرو تحمل سے شمولیتمیٹنگ کے ختم ہوتے ہی نماز پڑھے بغیر گھروں میں چلے جانا
سادگیدکھاوا
کلاسز میں عمدہ حاضریکلاسز کا اجراء کثرت سے لیکن حاضری کی کمی
تقویٰ شعار زندگیکمپیوٹر دَور، تفریحات کو ترجیح
زیادہ تر وقت گھر گزارنازیادہ تر باہر وقت گزارنا

حرف آخر
’’دعا اور کوشش‘‘

دونو ں ادوار کے جائزہ کے بعد ضروری ہے کہ ہم تقویٰ کی راہیں اختیار کرتے ہوئے اپنی نسل کو اس پر گامزن کریں اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم خود بھی MTA سے وابستہ ہو جائیں خطبات Live غور سے بچوں کے ساتھ سُنیں۔ نیز مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کتاب ’’اچھی مائیں‘‘ اور خلیفہ رابعؒ کی کتاب ’’حوا کی بیٹیاں‘‘ بار بار پڑھیں اور جنت نظیر معاشرہ کا قیام کریں۔ مثبت سوچ کو رواج دیں جس میں بچوں کو باقاعدگی سے نماز باجماعت کے لئے بھجوا سکیں۔ خود گاڑی چلانے والی خواتین اپنے ساتھ اپنے ارد گرد کے بچوں کو بھی ساتھ لے جا سکتی ہیں اور دُھرا ثواب حاصل کر سکتی ہیں کیونکہ اگر ایک دفعہ نماز باجماعت کی عادت پڑ جائے تو کبھی بھی پیچھے رُک نہیں سکتے اور یہ عادت ہم مائیں ہی پیارو محبت اور اپنے عملی نمونہ سے راسخ کر سکتی ہیں۔ تجربہ:۔ ربوہ میں خاکسار نے ایک 70 سالہ بزرگ خاتون کو دیکھا جو نماز مغرب سے چند منٹ قبل گھر سے باہر نکل جاتیں اور گلی میں کھیلتے تمام بچوں کو مسجد بھجواتی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد بچوں کو ایسی عادت ہو گئی کہ جیسا ہی اُنکو وہ خاتون نظر آئیں کھیل چھوڑ کر مسجد کی طرف لپکتے کیونکہ نماز باجماعت سے احترام، اطاعت اور بڑوں کی عزت کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔

بچے کے کان میں اذان دینے کا مقصد بھی بچے کو بچپن سے نیکی پر قائم کرنا ہے۔

دعا

آخر میں دُعا کے ساتھ اپنے مضمون کو ختم کرتی ہوں۔ ہم ماؤں کو اپنی اولاد کے لیے شدّت سے دُعائیں کرنا ہونگی۔ دُعائیں کریں دُعائیں کریں اور خلیفۂ وقت کی بتائی ہوئی دُعائیں بچوں کو باقاعدگی سے یاد کروائیں اور انتہائی توجہ، لگن اور کوشش سے اپنی اس ذمہ داری کو احسن رنگ میں نبھانے کی بھر پور کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو اور ہماری دُعاؤں کو قبول فرمائے آمین۔

توجہ ہو، تضرع ہو، تذلل ہو، تبتُّل ہو
نمازِ عشق اِن اَرکان سے ہوتی مکمل ہے

(بخارِ دل صفحہ187)

اے خدا ہم کو عطا کر اور ہماری نسل کو
نعمتیں اور بخششیں جو جو بھی لاتی ہے نماز

(بخار دل صفحہ187)

نماز باجماعت تو دل کا سکون ہے
وحدت کی ہے مثال تو وقت کا پابند ہے

(منزہ ولی سنوری۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کی سالانہ کھیلیں 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 مئی 2022