مکرم نواب مودود احمد خان امیر جماعت کراچی مورخہ14جولائی 2019ء کو 78سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آپ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چشم و چراغ تھے۔ آپ حجۃ اللہ حضرت نواب محمد علی خانؓ آف مالیر کوٹلہ اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ دختر نیک اختر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ڈاکٹر میر محمداسماعیلؓ کے نواسے تھے۔ یوں آپ میں تین معزز خاندانوں کا خون شامل تھااوراُن سب کی خوبیوں اور نیک روایات کے آپ امین تھے۔آپ 12۔اپریل 1941ء کو قادیان میں مکرم نواب مسعود احمد خان اور مکرمہ سیدہ طیبہ بیگم کے ہاں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سےقانون کی تعلیم حاصل کرکےایک انٹر نیشنل لاءفرم Orr.Dignam&Co سے منسلک ہوگئے اور نصف صدی سے زائد عرصہ اسی فرم کے ساتھ وابستہ رہے۔ کارپوریٹ لاء کے ماہرین میں آپ کا شمار ہوتاتھا۔
محترم نواب مودود احمد خان ایک پُر کشش شخصیت کے مالک تھے۔آپ سے ملاقات کر کے انسان اپنی طبیعت میں فرحت اور انبساط محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔آپ کی شخصیت و خدمات کا تذکرہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ19جولائی 2019ء میں بڑی تفصیل کے ساتھ فرمایا تھا۔
آپ فدائی خادم سلسلہ،شفیق اورہردلعزیز شخصیت، چہرےپر ابتسام ، طمانیت اور بشاشت ہمہ وقت موجود ۔نرم خو، گویا ہوں تو یوں محسوس ہو کہ پھول کِھل رہے ہیں۔مشورہ لیں تو انتہائی مدّبرانہ اور صائب الرائے اور معاملہ فہمی جھلکتی نظر آئے۔آپ ان کی محفل میں گفتگو سماعت کریں تو آپ کی وسعت ِعلمی،کثرت ِ مطالعہ اور مثبت انداز ِ فکر کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ صحابہؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بزرگان ِ سلسلہ کا ذکر آجائے تو اُن کی روایات اور خدمات کی قدردانی آپ کی زبان سے روانی کے ساتھ جاری ہو جاتی تھی۔آپ کا شمار اُن معدودے چند بزرگان میں ہوتا ہے جنہوں نے صحابہؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعتی بزرگان کی نیک روایات کا تذکرہ اپنی محافل میں جاری رکھنے کا بیڑہ اُٹھا رکھا تھا۔گویا آپ کے دل میں تڑپ تھی کہ تبع تابعین اور اُن کی اگلی نسلیں صحابہؓ کی روایات اور اقدار کی امین بنیں۔ یہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب آپ روایات ِ صحابہؓ سے شناسا ہوں۔مکرم مودود احمد خان وسیع المطالعہ شخصیت کے حامل تھے۔جماعتی لٹریچر اور تاریخ و سیرت کا گہرا مطالعہ تھا اور اپنی گفتگو میں اس کا استعمال کرتے تھے۔یہ بات خاکسار اپنے تجربہ کی بنا پر لکھ رہا ہے اور خاکسار کو سالہا سال متعداد باران کی صحبت سے فیضاب ہونے کا موقع ملا اور جب بھی اُن کی محفل سے اُٹھے تو علمی وروحانی سیرابی کے ساتھ ہی واپس لوٹے۔
مکرم نواب مودوداحمدخان سے پہلی بار باقاعدہ ملاقات کراچی میں نوّے کی دہائی کے آخر میں ہوئی اس وقت آپ امارت کراچی کے منصب ِ جلیلہ پر فائز ہو چکے تھے۔ خاکسار پریس سیکشن کی طرف سے پریس روابط کے حوالہ سے جماعتی دورہ پر کراچی گیا۔ آپ سے ملاقات ہوئی آپ نے بہت پذیرائی کی اور فوراً فرمایا کہ عاملہ اور صدران جماعت جس میں مربیان بھی شامل ہوتے ہیں ان کی ہفتہ وار میٹنگ ہوگی اس میں آجائیں اور جماعتی مؤقف کو بیان کریں ۔اگرچہ میں اپنا مدعا آپ کے سامنے بیان کر چکا تھا لیکن آپ نے میٹنگ میں تعارف کروایا اور فرمایا کہ سب کے سامنے دورے کی جماعتی غرض کو تفصیل سے بیان کردیں۔ اس دورے میں آپ کی طرف سے کی جانے والی پذیرائی اور آپ کی قدردانی ، جماعتی عہدیدار کا احترام ، آپ کی مہمان نوازی، شفقت ومحبت سبھی اخلاق میرے دل پر مرتسم ہوگئے۔پھر یہ سلسلہ اگلے 20، 22سال تادم واپسیں چلتا رہا۔
طاہر فاؤنڈیشن کے قیام پرآپ اس کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔ میراتقررروزنامہ الفضل سے طاہر فاؤنڈیشن میں ہوگیا۔تقریباً چھ سال اس حوالہ سے آپ سے یہ رابطہ رہا۔ہر میٹنگ پر آپ سو حرج کر کے بھی مرکز تشریف لاتے اور اپنی قیمتی آراء سےنوازتے۔غیررسمی ملاقات کے دوران جو میٹنگ سے پہلے یا کھانے کی میز پر آپ سے ہوتی ،آپ کی جاذب شخصیت اور تبحّرِ علمی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتی۔ اس عرصہ کے دوران میرے بھائی کمانڈر ناصر احمدآپ کے ساتھ بطور جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ کراچی خدمت سرانجام دے رہے تھے تو آپ اس حوالہ سے ان کا ذکر بھی ضرور میرے ساتھ کیا کرتے تھے۔جماعتی عہدیداران سے شفقت و محبت اور ان کا یکساں احترام آپ کی شخصیت کا نمایاں وصف تھا۔ مرکزی نمائندہ وہ خواہ چھوٹے عہدہ پر ہے یا بڑے سب کو واجب الاحترام جان کر ان کی عزت و توقیر اور مہمان نوازی کرتے آپ کی اس خوبی کے آج بھی سینکڑوں عہدیداران گواہ ہوں گے۔میں نے اپنی پہلی ملاقات کا احوال ابھی بیان کیا ہے۔ خاکسار کے پاس اس وقت کوئی باقاعدہ عہدہ نہ تھا لیکن ایک جماعتی نمائندہ بن کر گیا۔ آپ نے جو عزت و احترام دیا میں وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
مجھے سب سے زیادہ آپ کو قریب سے دیکھنے اور آپ کی شخصیت سے فیضیاب ہونے کا موقع طاہر فاؤنڈیشن میں عرصہ خدمت کے دوران ملا ۔ اس دوران کا ایک واقعہ ہدیۂ قارئین کرتا ہوں۔ طاہر فاؤنڈیشن کی عموماً سہ ماہی میٹنگز ہوتی تھیں۔ آپ ان میں کراچی سے تشریف لاتے۔ کبھی آپ فیصل آباد یا کبھی لاہور ائیر پورٹ سے ربوہ تشریف لایا کرتے تھے۔ آپ نے کبھی دفتر طاہر فاؤنڈیشن کو خدمت کا موقع نہیں دیا کہ وہ آپ کو ائیر پورٹ سے ربوہ لانے کے لئے انتظام کرے۔آپ معمور الاوقات شخصیت تھے اور اللہ تعالیٰ نے رزق کی فراوانی بھی عطا کر رکھی۔ آپ میٹنگز کے مواقع پر ہوائی سفر ہی کیا کرتے تھے۔سفر کے اخراجات ہمیشہ اپنی گرہ سے کرتے تھے۔ایک بار مکرم چیئرمین صاحب نے اظہار فرمایا کہ جو ممبران دور کا سفر کر کے میٹنگز کیلئے آتے ہیں دفتر ان کے اخراجات ادا کردیا کرے۔مکرم چیئرمین صاحب کا پیغام آپ تک پہنچایا گیا توآپ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہوئی ہے میں جماعتی میٹنگز پر آنے کے لئے اپنے اخراجات بڑی خوشی سے برداشت کر سکتا ہوں۔ تاکید مزید کے باوجود آپ نے فرمایا کہ یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا۔یہ عمل آپ کی وسعت ِ قلبی ، جماعتی قربانی، مالی قربانی اور سفر خرچ کر کے بھی جماعتی میٹنگز میں شامل ہونے پر دلالت کرتاہے۔
بہترین مشورہ اور آپ کی عمدہ راہنمائی سے بہت سے لوگ فیضاب ہوئے ہوں گے۔میرے بڑے بیٹے عزیزم کاشف محمود طاہر نے جب ارادہ کر لیا کہ اسے قانون کی تعلیم حاصل کرنی ہے تو اس حوالہ سے مکرم نواب مودود احمد خان سے میں نے ذکر کیا۔ آپ نے اس پر بہت خوشی کا اظہار بھی فرمایا کہ اس میدان میں احمدی نوجوانوں کو اُترنے کی ضرورت ہے اور پھر کون سی تعلیم اور کہاں سے حاصل کرنی ہے اس کے بارہ میں نہایت صائب رائے دی۔ آپ نے فرمایا کہ تعلیمی تنزل کی وجہ سے عام کالجز سے صرف ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر لینا آج کل زیادہ مفید نہیں ہوگا۔ اگر استطاعت ہے تو بیٹے کو لنڈن یونیورسٹی کی ڈگری کروائیں جو پاکستان میں ہی کئی کالجز میں ہو جاتی ہے۔ چنانچہ آپ نے ناصرف مجھے مشورہ دیا بلکہ بیٹےکو ملنے کا وقت بھی دیا اور اس کی بھی تفصیلی رہنمائی کی۔چنانچہ آپ کے مشورہ کے مطابق بیٹے نے لندن یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کی اور آج کل ایک معروف لاءفرم میںپریکٹس کررہا ہے۔آپ دوران تعلیم بھی عزیزم کا شف کی حوصلہ افزائی کرتے رہے اورملاقات کے دوران بھی پوچھتے رہے اور بذریعہ فون بھی عزیزم کے ساتھ رابطہ رکھا۔میرابیٹا بھی آپ کی حوصلہ افزائی ، پیشہ وارانہ مہارت اور شفقت سے بہت متاثر ہے۔بیماری کے دوران بھی آپ سے بذریعہ فون رابطہ ہو جاتا تھا آپ ازراہ ِ شفقت بڑی محبت کے ساتھ پیش آتے رہے۔
آپ کے سینہ میں ایک درد مند دل تھا جو احباب ِ جماعت کی روحانی، اخلاقی،معاشی اور معاشرتی ترقی کیلئے ہمیشہ دھڑکتا تھا۔احمدی نوجوانوں کی بالخصوص اور باقی احباب جماعت کی بالعموم روحانی ترقی کی آپ کو فکر دامنگیر رہتی تھی۔آپ محض اعدادو شمار سے تسلی نہیں پاتے تھے بلکہ ٹھوس کارکردگی دکھانے کے قائل تھے۔ آپ جماعت کراچی کے لئے ایک شفیق باپ کی طرح تھے۔ آپ چونکہ خود نرم خُواور وسعت ِ حوصلہ کے مالک تھے اس لئے آپ اپنے ارد گرد بھی یہی اخلاق اور اقدار دیکھنا چاہتے تھے۔تقریباً 23سالہ دورامارت میں آپ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ امارت ضلع کراچی کے ساتھ ساتھ آپ مرکز میں صدر انجمن،مجلس تحریکِ جدید،فضل عمر فاؤنڈیشن، طاہر فاؤنڈیشن اور دیگر کمیٹیز کے ممبر تھے۔ محترم نواب مودود احمد خان کی شادی محترم ملک عمر علی کھوکھر رئیس ملتان کی صاحبزادی سے ہوئی جو حضرت میر محمد اسحاق کی نواسی ہیں۔ نواب مودود احمد خان کے بیٹے مامون احمد خان بھی اپنے والد کے پیشہ سے وابستہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنے قابل فخر والد کا علمی اور روحانی وارث بنائے۔آمین۔
خاکسار کے بڑے بھائی کمانڈر ناصر احمد(وقف)دفتر پرائیویٹ سیکرٹری اسلام آباد برطانیہ سابق جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ کراچی مکرم نواب مودود احمد خان کی شخصیت کا احاطہ ان الفاظ میں تحریر کرتے ہیں۔ (خاکسار کی تحریک پر انہوں نے یہ تحریر کیا ہے فجزاہ اللہ احسن الجزاء)کمانڈر بیان کرتے ہیں کہ
’’خاکسار کو دوران عرصہ 2004-07ء مکرم نواب مودود احمد خان مرحوم کے ساتھ بحیثیت جنرل سیکرٹری جماعت کراچی کام کرنے کی سعاد ت ملی۔اس دوران آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔آپ بے انتہا خوبیوں کے مالک شخصیت تھے۔ جماعتی ذمہ داریاں انتہائی خاکساری کے ساتھ ادا کرتے ۔ گیسٹ ہاؤس کراچی میں اپنے لئے کوئی باقاعدہ دفتر یا میز نہ رکھی تھی۔جب دفتر آتے تو جنرل سیکرٹری کے میز کے سامنے بیٹھ جاتے اوروہیں ڈاک ملاحظہ کرتے۔ کئی بار ان سے علیحدہ کمرے میں اپنا دفتر لگانے کی تجویز دی گئی مگر ہمیشہ مسکر اکر ٹال دیتے۔

جمعہ کے روز اپنے دفتر سے جب گیسٹ ہاؤس آتے تو پہلے MTA لگوا کر Repeat خطبہ سنتے اس کے بعد کام شروع کرتے۔ انہیں کبھی غصہ میں نہ دیکھا اور نہ غلطی پر ڈانٹتے ۔ صرف چہرے کے تاثرات سے پتا چلتا کہ وہ خوش نہیں ہیں۔
میں نے محسوس کیا کہ انہیں اس وقت بہت ناگوارگزرتا جب کوئی عہدیدار کسی دوسرے کی شکایت لگاتا۔ اکثر یہی دیکھا کہ وہ شکایت سن تو لیتے مگر بات کو آگے نہ بڑھاتے۔ اسی طرح انہیں بہت گراں گزرتا جب وہ یہ دیکھتے کہ دو عہدیدار آپس میں الجھ پڑے ہیں یا کوئی تلخ کلامی ہوئی ہے۔ وہ خود نفیس طبیعت کے مالک تھے اور دوسروں سے بھی یہی توقع کرتے۔ آپ سے جو ملنے آتا اس کو ضرور وقت دیتے۔ اکثر بات سننے علیحدہ چلے جاتے اور جب تک سائل بات کرتا رہتا آپ سنتے رہتے۔
خاکسارسے ہمیشہ شفقت سے پیش آتے اور کمانڈرصاحب کہہ کر پکارتے۔میری نیوی کی ملازمت تھی مجھے صبح جلدی کام پر جانا ہوتا تھا۔ گیسٹ ہاؤس میں رات گئے جماعتی کام جاری رہتے اور مجھے رکنا پڑتا۔ کئی بار مجھ سے معذرت کرتے اور کبھی خود ہی مجھے جانے کا کہہ دیتے۔
کمانڈرصاحب نےمختصرالفاظ میںمحترم نواب مودوداحمدخان کی شخصیت کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے۔ کمانڈر صاحب کو کراچی سے لاہور منتقل ہونا پڑا جس کی وجہ سے نواب صاحب کے ساتھ کام جاری نہ رکھ سکے۔محترم نواب مودود احمد خان جب بھی ربوہ میں مجھے ملتے تو بڑے بھائی کے بارہ میں انتہائی محبت کے ساتھ پوچھا کرتے تھے کہ ‘‘ہمارے کمانڈر صاحب کا کیا حال ہے۔’’ سلام دُعا کے بعد یہ نواب صاحب کا مستقل سوال مجھ سے رہا۔اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا کس قدر خیال رہتا اور بعد میں بھی ان کو یاد رکھا کرتے تھے۔ بھائی جب لندن چلے گئے تو جلسہ سالانہ کے مواقع پر نواب صاحب سے ملاقات ہوجاتی تھی اور پھر میرے ساتھ ربوہ میں بھی اس ملاقات کا ذکر فرماتے تھے۔
محترم نواب مودود احمد خان کی دلنواز اور پُر وقار شخصیت ہمہ وقت ایک فلم کی صورت میں آنکھوں کے سامنے گھومتی ہے۔ آپ کی تمام عمر محنت، اخلاص ووفا اور شفقت و محبت سے عبارت ہے۔ آپ خلافت ِ احمدیہ کے سلطان ِنصیر تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آپ کی اولاد کو آپ کی نیک روایات اوراقدار کی حفاظت کی توفیق دے اور جماعت کو ایسے باوفا ، باعمل اور باکمال شخصیات سے نوازتا رہے۔ آمین
(محمد محمود طاہر)