اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہ مولیٰ کریم جل شا نہ نے اس عاجز کو نیز بعض ترک احمدیوں کو راہ مولیٰ کے اسیر بننے کی سعادت بخشی۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔
خاکسار کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو خاکسار، خاکسار کے اہل و عیال اور افراد خاندان کےلئے سرا سر خوش بختی اور مسرّت کا پیغام لے کر آیا۔ خاکسار کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مجھے یورپ کا پہلا اسیر راہ مولیٰ ہونے کا اعزاز ملنے والا ہے۔ جو عاجز کی نسلوں کے لئے بھی فخر کا موجب ہوگا۔ اس کے لئے میں اپنے مولیٰ کا شکر گزار ہوں۔ لیکن مجھے احساس ہے کہ شکرِ ایزدی کا حق ادا کرنا عاجز کے بس کی بات نہیں۔
بہت سے احباب نے عاجز کو تحریک کی کہ اسارت کے حالات لکھ کر شائع کرواؤں۔ لیکن میں پس و پیش سے کام لیتا رہا۔ لیکن یہ سوچ کر کہ یہ بھی احمدیہ تاریخ کا ایک ضروری باب ہے، یہ حالات لکھ رہا ہوں۔ تاکہ احمدی بھائی اور بہنیں عاجز اور عاجز کے اہل و عیال کےلئے اور بالخصوص ترکی کے ان بھائیوں اور بہنوں کےلئے دعائیں کریں جنہوں نے اخلاص اور وفا سے اسارت کے دنوں کی سختیاں برداشت کیں۔ نیز یہ دعا بھی کریں کہ مولیٰ کریم ہماری اسارت کو ترکی میں احمدیت کے نفوذ کا ایک ذریعہ بنادے۔
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ میری والدہ محترمہ نے ایک خواب دیکھا کہ شمس شیشے کے کمروں سے بنے ہوئے ایک قید خانہ میں مقیّد ہے۔ جس کے دروازہ پر سپاہی پہرہ دے رہے ہیں۔ دیکھنے والوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں البتہ وہ باہر سے دیکھ سکتے ہیں۔ خواب میں ہی خاکسار کے بڑے ماموں جان مکرم چوہدری محمد لطیف آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ شمس کو پولیس نے صرف پوچھ کچھ کی غرض سے روکا ہوا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی رہا کردیں گے۔
اس خواب کے کچھ عرصہ بعد جب یہ بات دریافت ہوئی کہ خاکسار کو ذیابیطس کی تکلیف ہے تو میری والدہ محترمہ نے سمجھا کہ خواب میں میرے قید ہونے سے اسی بیماری میں گرفتار ہونا مراد تھا۔ لیکن دراصل خواب کا اشارہ اس بیماری کی طرف نہیں تھا بلکہ عملاً قید ہوکر اسیر راہِ مولیٰ بننا مقصود تھا۔ نیز اللہ تعالیٰ کی صفت لطیف کی برکت سے رہائی نصیب ہونے کی خوشخبری بھی خواب میں دی گئی ۔خاکسار کو 2001 ء میں جمہوریہ ترکی کا سفر اختیار کرنے کا موقع ملا۔ اس موقع پر مکرم برادرم عثمان شّکر صاحب کے ساتھ ترک جمہوریہ شمالی قبرص جانے کا موقع بھی میسر آیا۔ اس موقع پر احمدی احباب کے ساتھ ملاقات کرکے تربیتی گفتگو کرنے کی سعادت بھی ملی۔ نیز بعض باقاعدہ مجالس بھی منعقد کی گئیں۔ علاوہ ازیں غیر از جماعت احباب کے ساتھ بھی گفت و شنید کی گئی۔ جس کے نتیجہ میں متعدد احباب بیعت کرکے داخل سلسلہ عالیہ احمدیہ ہوئے۔ غالباً اسی بناء پر ترکی کی احمدی جماعت نے مرکز کی وساطت سے مکرم امیر صاحب جرمنی کی خدمت میں درخواست کی کہ خاکسار کو ایک ماہ کےلئے ترکی کے دورہ پر بھجوایا جائے۔ چنانچہ خاکسار نے فون پر مکرم صدر صاحب جماعت ترکی کو مطلع کیا کہ خاکسار ماہ اپریل 2002ء کے پہلے عشرہ میں ان شاء اللہ استنبول پہنچ جائے گا۔ بعد میں بعض وجوہات کی بناء پر خاکسار نے دوبارہ رابطہ کرکے مشورتاً عرض کیا کہ کیا یہ زیادہ بہتر نہیں ہوگا کہ خاکسار ماہ مئی میں استنبول کا دورہ کرے۔ اس پر صدر صاحب جماعت ترکی نے احباب جماعت کے ساتھ مشورہ کرکے مجھے فون کیا اور کہا کہ اگر خاکسار کو کوئی مجبوری ہے تو جماعت ترکی، مکرم امیر صاحب جرمنی سےدرخواست کرسکتی ہے کہ کسی دوسرے ترکی زبان جاننے والے مبلغ کو ترکی کے دورہ پر بھجوادیا جائے۔ خاکسار نے جواباً کہا کہ مجھے کوئی مجبوری نہیں اور میں اپریل 2002ء کے شروع میں ہی استنبول پہنچے کی سعی کروں گا۔ بعد میں ظاہر ہونے والے واقعات نے ثابت کردیا کہ محض تقدیر الہٰی اس عاجز کو اِس سفر پر آمادہ کررہی تھی۔
خاکسار نے روانگی سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں خط لکھ کر حضور اقدس کو اپنے سفر کی اطلاع دی اور حضور سے دعا کی درخواست کی۔ عاجز 10 اپریل 2002ء کر بروز بدھ ہوائی جہاز کے ذریعہ استنبول پہنچا۔ مکرم عثمان شکرّ اور مکرم محمت سعید آرکون صاحب نے خاکسار کا استقبال کیا۔ اور خاکسار کو عثمان شکرّ صاحب کے گھر پہنچایا گیا۔ اگلے روز خاکسار اور عثمان شکرّ صاحب نے محلہ ایوب سلطان میں موجود حضرت ابو ایوب انصاری ؓ میزبان ِ رسول ﷺ کے مزار پر پہنچ کر دعا کی۔ اگلے دن نماز جمعہ ایک چھوٹی مسجد میں ادا کی جہاں مکرم برادرم عثمان شکرّ (ترکی معلم) نے خطبہ دیا اور نماز کی امامت کی۔ دراصل یہ مسجد ایک دفتر میں کام کرنے والے احباب کےلئے ہے۔ جس کے انچارج ایک احمدی دوست ہیں۔ اسی روز رات کا کھانا مکرم یُوکسلّ صاحب کے گھر جاکر کھایا۔ وہیں پر تبلیغی گفتگو کے نتیجہ میں مکرم یُوکسلّ صاحب کی خوش دامن صاحبہ نے بیعت فارم پُر کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔
ہماری گرفتاری
14۔اپریل 2002ء کو ہفتہ کے روز ایک بہت ہی مخلص ترک احمدی دوست مکرم محمت اوندر (Mehmet Onder) نے دوپہر کے کھانے پر خاکسار اور برادرم مکرم عثمان شکرّ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر مکرم محمتّ کے ہم زلف مکرم فاروق صاحب کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا۔ یہ صاحب عراق کے ترکمان (قبیلہ سے) ہیں اور استنبول میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے بارہ میں مجھے بتایا گیا تھا کہ بہت کٹر ہیں۔ عاجز کے ساتھ گفتگو کے بعد انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ان کے اکثر سوالات کا جواب مل گیا ہے۔ صرف چند سوالات باقی رہ گئے ہیں۔ اُسی شام عثمان شکرّ (ترکی معلم) کے برادر نسبتی مکرم عُزیر (Uzeyir) کے گھر میں کھانے کی دعوت تھی۔ مکرم عُزیر نے اپنے ساتھ ایک ہی فرم میں کام کرنے والے بعض احباب کو بھی کھانے پر بلالیا۔ علاوہ ازیں اپنے محلہ کی مسجد کے امام صاحب اور چند دیگر نمازیوں کو بھی کھانے پر مدعو کرلیا۔ جب خاکسار اور مکرم عثمان شکرّ، مکرم عزیر کے گھر پہنچے تو امام صاحب اور دیگر احباب وہاں پہلے سے موجود تھے۔ خاکسار نے امام صاحب کے ساتھ گفتگو شروع کی۔ چند عمومی باتوں کے بعد موضوع سخن ترکی کے مسلمانوں کی حالت بن گیا۔ امام صاحب نے کہا کہ ترکی میں سیکولرزم کی وجہ سے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے۔ مسلمان اپنے بچوں کو گھر میں بھی قرآن کریم کی تعلیم نہیں دے سکتے۔ عورتوں اور بچیوں کو اسکولوں، کالجوں اور دیگر سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں سر پر اسکارف باندھنے کی اجازت بھی نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ امام صاحب کی خواہش تھی کہ میں اُن کی ہاں میں ہاں ملاؤں۔ مگر میں نے کہا کہ یہ آپ لوگوں کے اندرونی مسائل ہیں اور ایک غیر ملکی ہونے کی وجہ سے مجھے ہر گز یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں آپ کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کروں۔ اس کے بعد حضرت عیسی ؑ کے آسمان پر زندہ موجود ہونے یا وفات شدہ ہونے کا سوال زیر بحث آیا۔ ترکی امام صاحب حضرت عیسی ؑ کے زندہ آسمان پر موجود ہونے کے قائل تھے۔ خاکسار نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ حضرت عیسی ٰوفات پا چکے ہیں۔ قریباً ایک گھنٹہ کی گفتگو کے بعد ترکی امام صاحب کہنے لگے کہ اُنہیں جلدی ہے اور وہ فوراً جانا چاہتے ہیں۔ صاحبِ خانہ نے کہا کہ میں نے تو آپ سب کا کھانا تیار کروا لیا ہوا ہے۔ آپ کھانا تو کھالیں۔ لیکن امام صاحب نے کہا کہ وہ ہر گز مزید ٹھہر نہیں سکتے۔ یہ کہہ کر امام صاحب گھر سے باہر نکل گئے اور اُن کے ساتھ ہی چارپانچ دوست مزید کھانا کھائے بغیر چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد صاحب خانہ نے اندر سے برتن وغیرہ لاکر میز پر رکھے اور کھانا بھی لانے لگے۔ ابھی پورا کھانا لا کر میز پر نہیں لگایا تھا کہ (ترکی امام) کے جانے کے قریباً بیس منٹ بعد اچانک پولیس اندر داخل ہوئی۔ اُن کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں مگر وہ سویلین کپڑوں میں ملبوس تھے۔ ایک پولیس آفیسر نے جس کے ہاتھ میں بندوق تھی، اندر داخل ہوتے ہی اُونچی آواز میں کہا کہ خبردار! کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ اس کے بعد ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم سب کھڑے ہوجائیں اور ہماری جیبوں میں جو کچھ بھی ہے وہ سب نکال کر میز پر رکھ دیں۔ بعد ازیں پولیس نے کمرے کی تلاشی لینی شروع کی اور وہاں ایک الماری میں موجود کتب بالخصوص چھان بین شروع کی۔ صاحب خانہ مکرم عزیز احمدی ہیں۔ ان کے گھر میں جماعت احمدیہ کی بہت سی کتب موجود تھیں۔ وہ سب کتب پولیس نے اپنے قبضہ میں لے لیں۔ دریں اثنا ایک اور پولیس آفیسر نے مکرم برادرم عثمان شکرّ اور خاکسار کو باری باری ساتھ والے کمرے میں بلا کر ڈرایا دھمکایا۔ چونکہ وہ سویلین کپڑوں میں ملبوس تھا لہٰذاہمیں اس کے رینک کا علم تو نہ ہوسکا۔ البتہ یہ یقینی بات تھی کہ وہ عام آفیسرز سے بڑے درجہ کا کوئی آفیسر ہے۔ یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ کسی بھی پولیس آفیسر نے ہمیں اپنا شناختی کارڈ نہیں دکھایا جو کہ یورپ میں بالعموم ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال اُس نے خاکسار کے کوٹ کے بٹن ہول میں انگلی ڈال کر ہلاتے ہوئے مجھے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ترکی میں ایک بہت سنجیدہ پولیس آرگنائزیشن موجود ہے اور تم سمجھتے ہو کہ میں جرمن نیشنل ہوں ۔یاد رکھو میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ تم جرمن ہو یا امریکن۔ میں تمہیں مکھی کی طرح کچل کر رکھ دوں گا۔ تمہیں اس بارہ میں ہر گز کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ وغیرہ وغیرہ خاکسار منہ سے تو کچھ نہ بولا ۔ البتہ زیر لب دعاؤں میں مصروف رہا۔
چونکہ کھانے کے برتن میز پر پڑے ہوئے تھے اور کچھ کھانا بھی صاحب خانہ نے اندر سے لاکر میز پر رکھا ہوا تھا، لہٰذا پولیس نے ہمیں کہا کہ اگر ہم کھانا کھا سکتے ہیں تو کھا لیں۔ ہم نے جلدی تھوڑا بہت کھانا کھایا۔ بعد ازیں پولیس نے ہمیں بر آمدے میں کھڑا کیا اور آگے پیچھے پولیس کی گارڈ کے پہرہ میں ہمیں باہر لے جاکر ایک وین میں بٹھا دیا۔ خاکسار یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ پولیس کی متعدد گاڑیاں وہاں موجود تھیں۔ ہمیں وین میں بٹھانے سے قبل ہی ہمارے تمام کاغذات ، نقدی اور موبائل فون وغیرہ پولیس نے قبضہ میں لے لئے تھے۔ ہمیں کہہ دیا گیا کہ ہم آپس میں کوئی بات نہ کریں۔ کچھ دیر کے بعد برادرم مکرم عثمان شکرّ سے پوچھنے لگے کہ تمہارے گھر پر پہنچنے کا راستہ کون سا ہے۔ مکرم عثمان نے سمجھانے کی کوشش کی تو پولیس والوں نے کہا کہ ہمیں راستہ خوب معلوم ہے۔ بعد میں ہمیں پتہ لگا کہ پولیس والوں نے استنبول میں موجود تمام احمدیوں کی لسٹ تیار کی ہوئی ہے۔ اُن کو علم تھا کہ کون کہاں رہتا ہے۔ دراصل وہ لمبے عرصہ سے خفیہ طور پر احمدی احباب کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے۔ احمدیوں کے فون سنے جارہے تھے۔ حتیّٰ کے موبائل فون بھی سنے اور ریکارڈ کئے جارہے تھے۔ اُن کو یہ بھی علم تھا کہ کب خاکسار استنبول پہنچ رہا ہے اور کیا پروگرام خاکسار کے لئے مقامی احباب کی طرف سے تیار کیا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
پولیس ہمیں لے کر مختلف احمدی احباب کے گھروں تک گئی۔ جن کی لسٹ ان کے پاس موجود تھی۔ سب سے پہلے مکرم عثمان شکرّ کے گھر کے اندر داخل ہوئے۔ مکرم عثمان کو ساتھ لے گئے باقی دوست وین کے اندر ہی رہے۔ پولیس نے ان کے گھر میں موجود تمام احمدیہ لٹریچر پر قبضہ کیا۔ اسی طرح عثمان شکرّ کے ذاتی کمپیوٹر کو بھی پولیس نے قبضہ میں لے لیا۔ عثمان شکرّ نے یہ کمپیوٹر ذاتی رقم سے خریدا تھا اور اسے احباب جماعت کی تربیت کی خاطر استعمال کرتے تھے۔ اسی کمپیوٹر پر اُنہوں نے تبلیغی و تربیتی سی ڈی وغیرہ تیار کی ہوئی تھی۔ نیز ہر ماہ حضور اقدس کے خطابات نیز دیگر احمدیہ لٹریچر بھی تیار کرکے احمدی احباب میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ پولیس نے کمپیوٹر کے ساتھ تمام سی ڈیز پر بھی قبضہ کرلیا۔ حتیّٰ کے خاکسار کے سامان میں سے خاکسار کا ذاتی کیمرہ بھی پولیس اٹھا کر لے گئی۔ یہ وہ سامان ہے جو عثمان شکر کے گھر میں پڑا ہوا تھا ۔ کیونکہ خاکسار کی رہائش بطور مہمان عثمان شکر ّکے گھر میں ہی تھی۔
وہاں سے نکلنے کے بعد پولیس باری باری احباب کے گھروں میں گئی اور ہر گھر سے احمدی احباب کو گرفتار کرنے کے علاوہ اُن کے گھروں میں موجود احمدیہ کتب، نیز پرسنل کمپیوٹرز پر بھی قبضہ کیا۔ یہ ساری کارروائی شہر کے ایشیائی حصہ میں کی گئی۔ بعد ازیں سب احمدی احباب کو پولیس کے مرکز میں لے جایا گیا۔ پولیس کے مرکز پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ شہر کے یورپین حصہ سے بھی احمدی احباب کو پولیس گرفتار کرکے پولیس کے مرکز میں لاچکی ہے۔ بلکہ پولیس کا مرکز شہر کے یورپین حصہ میں ہونے کی وجہ سے اُس حصہ کے احمدی، ہم سے بھی پہلے پولیس کے مرکز میں لائے جا چکے تھے۔ بعد میں پولیس نے FIR تیار کی۔
پولیس مرکز میں ہم سب کو ایک دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا گیا۔ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم اپنے مونہہ دیوار کی طرف کرلیں اور ہاتھ اُوپر کرکے دیوار کے ساتھ لگالیں۔ نیز یہ کہ آپس میں گفتگو نہ کریں۔ بعد ازاں ہم میں سے ہر ایک کے سر پر کپڑے کا تھیلا چڑھا دیا گیا۔ تاکہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اس طرح کی صورتِ حال کا عادی نہیں تھا۔ تمام احباب بھی بہت اذیت میں تھے۔ برادرم مکرم محمت سعید آرکون تو بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئے۔ اُس کے بعد ہمیں ایک ایک کرکے مختلف کمروں میں لے جاکر مختلف سوالات پوچھے گئے۔ پوچھ گچھ کا انداز اس طرح کا تھا کہ ایک پولیس آفیسر قریباً ایک گھنٹہ سوال پوچھتا رہا۔ پھر دوسرا پولیس آفیسر اندر آجاتا اور پہلا افسر کسی بہانے سے باہر چلا جاتا اور پھر تیسرا آفیسر آجاتا اور سوالات پوچھنا شروع کردیتا۔ اُس رات ہمیں صبح قریباًساڑھے چار بجے تک اِسی طرح جاگتے رہنے اور سوالات کا جواب دینے پر مجبور کیا گیا۔ ہر ایک کو الگ الگ حجرے میں بند کیا گیا اور باہر سے تالا لگا دیا گیا۔ کمروں کے اندر نیم اندھیرا سا تھا۔ ہلکی ہلکی اس بلب کی روشنی آرہی تھی جو حجروں کے باہر والے کوریڈور میں جل رہے تھے۔ قریباً دو گھنٹے ہمیں آرام کے لئے دیئے گئے۔ ساڑھے چھ بجے کے قریب ہمیں دوبارہ جگا یا اور از سر نو پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ دن کے وقت کبھی تو ہم میں سے ہر ایک کو الگ الگ کسی کمرہ میں لے جاکر سوالات شروع کردیتے اور کبھی دوبارہ حجرے میں لے جاکر بند کردیتے۔ حجروں میں دو دو کمبل (ہر حجرہ کے اندر) موجود تھے۔ سردی تھی لیکن ہیٹنگ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ناشتہ اور کھانا بس ڈبل روٹی اور اس کے اندر پنیر اور ساتھ کوکا کولا یا سادہ پانی کی بوتل وغیرہ۔ بس خشک سا اور سادہ سا انتظام تھا لیکن اس کی قیمت بھی اُس رقم میں سے کاٹ لی جاتی جو ہم میں سے ہر ایک کی جیب میں تھی اور جس پر پولیس نے پہلے ہی قبضہ کیا ہوا تھا۔ ہماری جیبوں میں کوئی چیز نہیں تھی۔ چار دن ہمیں اسی حالت میں رکھا گیا۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس آفیسر کے ہاتھ میں جماعت احمدیہ کے خلاف پروفیسر روحی کی لکھی ہوئی کتاب کی فوٹو کاپی موجود ہوتی اُس کو میز کے نیچے رکھ کر ہم پر اعتراض کرتے اور سوالات دریافت کرتے۔ جو سوال پوچھے گئے وہ بالعموم درج ذیل اُمور کے بارہ میں تھے۔
جماعت احمدیہ کے عقائد کیا ہیں؟، جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے عقائد میں کیا اختلاف ہے؟، ختم نبوت، وفات مسیح، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کے امام مہدی ہونے کا ثبوت، جماعت احمدیہ اور انگریزوں کے تعلقات، جماعت کے خلیفہ کے انگلستان میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ، احمدی غیر احمدی کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟، جماعت کے ادارہ جات کا تعارف، ذیلی تنظیمیں، چندہ جات، ایم ٹی اے نیز جماعتی اخبارات و رسائل اور جامعہ احمدیہ وغیرہ وغیرہ
خاکسار نے کوشش کی کہ جس حد تک مجھ سے ہوسکے ان تمام اُمور کے بارہ میں موقف کو بہترین رنگ میں پیش کروں اور ادارہ جات نیز ذیلی تنظیموں ایم ٹی اے وغیرہ کا تفصیلی تعارف کرادوں۔ میں دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا جس نے ہمیں یہ موقع دیا کہ ہم پولیس سنٹر کے اندر جاکر جماعت کی تبلیغ کرسکیں۔ عام حالات میں ایسا کرنا ہر گز ممکن نہیں تھا۔ بہر حال اس پوچھ گچھ کے نتیجہ میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ ترکی پولیس والوں پر بھی جماعت کا اچھا اثر ہوا ہے۔ کیونکہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا پولیس والے نرم پڑتے جارہے تھے اور ان کا سلوک ہمار ے ساتھ بہتر ہوتا جارہا تھا۔ پولیس والوں کا طریق یہ تھا کہ ایک افسر سختی سے بات کرتا تو دوسرا افسر نرمی سے بات کرتا۔ ایک دن ایک پولیس آفیسر نے ہمارے بھائی عثمان شکر معلم کو تفتیش کے لئے بلایا۔ پولیس آفیسر کے ہاتھ میں ایک آلہ تھا۔ جس میں سے بجلی کا شعلہ نکلتا تھا۔ اُسے قیدیوں کو اذیت دینے کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ آفیسر نے عثمان صاحب سے کہا کہ اس آلہ کے اندر انگلی رکھو۔ عثمان صاحب شدید خوفزدہ ہوئے تو پولیس نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ دیکھو یہ کیسے ڈر رہا ہے۔ بہرحال عثمان صاحب کو مجبور نہیں کیا گیا اور کچھ دیر دل لگی کرنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ ساتھ والے کمرے میں قیدیوں کو مار پڑنے کی آوازیں لگاتار آرہی تھیں۔ جو غیر از جماعت احباب ہمارے ساتھ ہی پکڑے گئے تھے اُن کو تو پولیس نے ایک رات رکھنے کے بعد اگلے دن صبح کے وقت چھوڑ دیا تھا۔ لیکن تمام احمدی احباب کو چار دن کے بعد صبح کے وقت عدالت لے گئے۔ یہ اسپیشل نیشنل سیکیورٹی کی عدالت تھی جس کے تین ججوں میں سے ایک جج کچھ مدت قبل فوجی افسر ہوا کرتا تھا۔ بعد ازاں یورپین یونین کے دباؤ کے تحت سول افسران کا تقرر کیا جانے لگا۔ ہم صبح سے لے کر شام چھ بجے تک عدالت میں انتظار کرتے رہے۔ عدالت میں داخلہ سے قبل پولیس نے ہمیں بتادیا تھا کہ وہاں پر اخباری نمائندے اور ٹی وی کے نمائندے وغیرہ موجود ہونگے۔ لہٰذا اپنے چہرے چھپالیں۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ پولیس والے اندر سے اخباری نمائندوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں اور بعض خبریں خود اخباری نمائندوں کو مہیاکرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے جیل جانے کے قریباً دس دن بعد ایک اخبار میں ہماری جماعت کے خلاف ایک خبر شائع کی گئی جس میں ذیلی تنظیموں کے عہد کا ذکر تھا۔ اور یہ بھی بتایاگیا تھا کہ احمدی اپنی خلیفہ کی خاطر اپنے بچوں کی قربانی کرنے کا بھی عہد کرتے ہیں۔
شام چھ بجے جب کہ عدالت کا وقت ختم ہو چکا تھا، ہمیں ایک جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ جج اس وقت اسپیشل ڈیوٹی پر تھے۔ اُنہوں نے باری باری ہم میں سے ہر ایک کوعدالت میں طلب کیا اور سرسری گفتگو کے بعد ہم تین احمدیوں کی گرفتاری کا حکم دیا۔ خاکسار ڈاکٹر محمد جلال شمس مربی سلسلہ مقیم کولون جرمنی، مکرم عثمان شکرمعلّم جماعت احمدیہ واقف زندگی مقیم استنبول ترکی اور مکرم قُو بلائی چِل صدر جماعت احمدیہ ترکی مقیم استنبول۔ جج صاحب نے اونچی آواز میں تمام احباب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی مقامی عالم موجود نہیں تھا کہ تم لوگوں نے یورپ سے ایک امام کو بلایا ہے۔ حالانکہ قانوناً یورپ سے کسی عالم یا امام کو طلب کرنا ہر گز جرم نہیں تھا۔ لیکن جج صاحب کے متعصّب ذہن کا کیا علاج ہوسکتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ترکی کی پولیس نے ترک جمہوریہ شمالی قبرص کی پولیس سے رابطہ کرکے ان کو وہاں پر موجود احمدیوں سے بھی پوچھ گچھ کرنے کےلئے کہا۔ترک قبرص پولیس نے کارروائی کرکے ایک پاکستانی احمدی مکرم خالد محمود کو (بغیر کسی جرم کے) ملک سے چلے جانے کا حکم دے دیا۔ یہ صاحب گجرات کے مرزا طاہر نامی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور خود بیعت کرکے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے تھے اور مخلص احمدی ہیں۔ یہ صاحب اسٹوڈنٹ ویزا پر آئے تھے اور ملک میں مقیم تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب ہم پولیس کسٹڈی (custody) میں تھے تو ایک دن ایک وکیل صاحب آئے۔ یہ صاحب ٹرکش بار یعنی وکلاء کی تنظیم کی طرف سے آئے تھے تاکہ ہماری وکالت کریں۔ اُنہوں نے پولیس کے بڑے آفیسر کے ساتھ بیٹھ کر چائے نوش کی اور ہمیں پوچھا کہ کیوں جی آپ کا کیا معاملہ ہے اور بغیر ہمارے بات تفصیل اور توجہ سے سنے واپس چلے گئے۔ اُس وقت مجھے درحقیقت معلوم ہوا کہ یہ وکلاء اپنی فیس تو بار ایسوسی ایشن سے لیتے ہیں لیکن قیدیوں کے کسی کام نہیں آتے۔ ایک دن پولیس آفیسر نے مجھے کہا کہ شمس تم شکر کرو کہ اب یورپین یونین کے دباؤ کی وجہ سے قانون تبدیل ہو گیا ہے۔ اور ہم چار دن سے زائد ملزم کو یہاں نہیں رکھ سکتے اگر تم کچھ عرصہ پہلے گرفتار ہوئے ہوتے تو کسی کو دو سال تک پتہ بھی نہ چلتا کہ تم کہاں ہو اور زندہ بھی ہو کہ نہیں۔
گرفتاری تو تین احمدیوں کی ہوئی لیکن کیس زیادہ افراد پر بنایا گیا جن کے اسماء یہ ہیں۔ خاکسار محمد جلال شمس، مسٹر قوبلائی چِلّ، مسٹر عثمان شکرّ، مسٹر گوکسل یلدّوم، مسٹر سرحد باشّ، مسٹر محمت سعید آرکون، مسٹر نادر اکن، مسٹر عُزیر جِوری، مسٹر انگین مینگو تیمور، مسٹر مصطفیٰ جان پولات، مسٹر قوابے نا اگیا پونگ عثمان۔
مندرجہ بالا احباب کے علاوہ دو خواتین کے خلاف بھی مقدمہ کیا گیا جن کے اسماء درج ذیل ہیں۔ محترمہ یاسمین چل صدر لجنہ اماء اللہ ترکی (جو محترم قوبلائی چل صدر جماعت ترکی کی اہلیہ ہیں) اور محترمہ مقدس باش اہلیہ مکرم سرحدباش۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ ترکی پولیس نے ترکی کے شہر اماسیا میں ہمارے احمدی بھائی مکرم محمت جِورِی کی دکان پر جاکر اُن سے بھی پوچھ گچھ کی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض ایسے احمدی احباب جو ترکی میں اچھی حیثیت کے تھے اُن کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ مثلاً محمت اوندر صاحب جو کاروں کی ایک فرم میں ڈائر یکٹر تھے، اسی طرح ایک اور صاحب جو استنبول بلدیہ کے ایک شعبہ کے انچارج تھے ان دونوں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ بعد میں ہمیں پتہ لگا کہ محمت اوندر صاحب اس بات پر غمگین تھے کہ انہیں کیوں گرفتار نہیں کیا گیا۔ کہیں اُن کے ایمان میں کوئی کمزوری تو نہیں کہ اُن کو چھوڑ دیا گیا اور باقی احمدی بھائیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس بات سے ترک احمدی احباب و خواتین کے ایمان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
گرفتاری کے بعد ہمیں استنبول میں واقع ’’بائرام پاشا جیل‘‘ میں لے جایا گیا۔ جیل کے مین گیٹ پر ہمارے تمام کاغذات کی جانچ پڑتال کی گئی اور فنگر پرنٹ لئے گئے۔ فنگر پرنٹ لینے کا طریق یہ تھا کہ ایک بڑے رجسٹر پر پہلے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے پرنٹ الگ الگ لئے گئے۔ پھر پورے دائیں ہاتھ کا پرنٹ لیا گیا۔ بعد ازاں بائیں ہاتھ کی ہر اُنگلی کا پرنٹ الگ الگ لیا گیا اور آخر میں پورے بائیں ہاتھ کا پرنٹ بنایا گیا۔ اس کے بعد ہمیں الگ الگ کرکے اندر ایک کمرے میں لے گئے اور تمام کپڑے اُترواکر تلاشی لی گئی۔ بعد ازیں اندر داخل ہوئے۔ وہاں داخل ہونے سے قبل ایک دروازہ کے اندر سے گزارا گیا جس میں الیکٹرونک آلات لگے ہوئے تھے۔ اور بوٹ وغیرہ اترواکر تلاشی لی گئی اور اندر لے جا کر ہمارے ناموں کا اندراج کیا گیا۔ جیل کے مین گیٹ سے اندر والے یونٹ تک پہنچنے میں کئی گھنٹے صرف ہوئے۔
بائرام پاشا جیل
خاکسار کو بائرام پاشا جیل کے غیر ملکیوں والے یونٹ میں داخل کیا گیا۔ جس میں بالعموم ایران، آذر بائیجان، چیچنیا، ہنگری، دیگر مشرقی یورپ ممالک، عراق، شام، دیگر عرب قیدی، افریقن قیدی بھی وہاں تھے۔ ایک جرمن، ایک ڈچ اور جنوبی امریکہ کے کسی ملک کا ایک نوجوان قیدی بھی اسی حصہ میں موجود تھا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زندگی میں پہلی دفعہ میری نمازیں اسی دن قضا ہو ئیں جس دن ہمیں جیل میں بند کیا گیا۔ جب مجھے جیل کے اس حصہ میں داخل کیا جانا تھا تو رات کے قریباً ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔ ایک بڑا سا لوہے کا دروازہ تھا۔ جب اُس کو کھولا گیا تو دس بارہ قیدی وہاں پر نئے آنے والے قیدی کے انتظار میں کھڑے تھے۔ جونہی میں اندر داخل ہوا تو سب نے مجھ سے سوال کیا کہ تم کونسے ملک کے رہنے والے ہو؟ بعد ازاں مجھے ایک کمرہ میں لے جایا گیا۔ جس میں آٹھ دس قیدی موجود تھے۔ کمرہ سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔ اُن قیدیوں نے میرا استقبال کیا بعد ازاں مجھے کھانا کھلایا گیا۔ یہ وہ کھانا تھا جو قیدیوں کو جیل انتظامیہ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ قیدیوں نے اتفاق سے کچھ فالتو کھانا لیکر رکھ چھوڑا تھا وہ کھانا خاکسار کو پیش کردیا گیا۔ اُس کے بعد شدید تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے سونے کی اجازت دے دی گئی اور میں ایک دوسرے کمرہ میں لوہے کے ایک بیڈ پر سو گیا۔ یہ ایک بنک بیڈ تھا۔ میں نیچے والے بیڈ پر سو گیا۔ سردی اتنی زیادہ تھی کہ میں اوورکوٹ بھی اتار نہیں سکا بلکہ سوٹ اور اوور کوٹ سمیت ہی سو گیا۔ قریباً ایک گھنٹہ کے بعد دوسرے قیدی نے مجھے جگایا اور کہا کہ تم اُوپر والے بیڈ پر سوؤ گے۔ چنانچہ میں نے بیڈ تبدیل کرلیا۔
اگلے دن میری ملاقات ایک شامی عرب قیدی سے ہوئی۔ خاکسار نے اُن کے ساتھ عربی زبان میں گفتگو کی تو وہ بے حد متاثر ہوئے اور مجھے زور دے کر اپنے کمرے میں لے گئے اور کہا کہ آپ نے یہاں میرے ساتھ رہنا ہے۔ میں آپ کی ہر طرح مدد کروں گا اور ضروری اشیاء بھی مہیا کروں گا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جیل انتظامیہ کی طرف سے ہر قیدی کو کچھ کمبل دیئے جاتے ہیں لیکن پرانے قیدی زیادہ سے زیادہ کمبلوں کو اپنے قبضہ میں کر لیتے ہیں۔ اور ان کو اپنے نیچے بچھا لیتے ہیں۔ جب کوئی نیا قیدی آتا ہے تو پُرانے قیدی اُس سے کچھ رقم وصول کرکے اس کو کمبل دیتے ہیں۔ لیکن مجھے اُس شامی عرب قیدی نے بغیر رقم وصول کئے کمبل دے دیئے۔ خیر میں نے دوسری رات بھی گزاری۔ اگلے دن اس شامی عرب قیدی نے جب میرے ساتھ گفتگو کی تو اُس کا لہجہ بدلا ہوا تھا ۔ اُنہوں نے بڑے غصے سے مجھے کہا کہ تمہارے قید ہونے کی وجہ کیا ہے؟ میں نے اُن کو اپنی گرفتاری کی تفصیلات بتائیں تو وہ کہنے لگے کہ مجھے تو کچھ اور معلومات ملی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ تم نے کچھ اور لوگوں کے ساتھ مل کر قرآن کریم میں تحریف کی ہے۔ میں نے کہا کہ قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اب جو چیز خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو اس کو کون تبدیل کر سکتا ہے۔ میری یہ بات سن کر ان کی تسّلی ہوگئی۔ بعد میں مجھے پتہ لگا کہ ٹی وی پر یہ خبر نشر ہوئی تھی کہ ایک طائفہ پکڑا گیا ہے جنہوں نے نعوذ با للہ قرآن کریم میں تحریف ہے۔ جب بھی کسی بڑے جرم کی کوئی خبر ٹی وی پر نشر ہوتی تو اس کے دو تین دن بعد وہی مجرم اُسی جیل میں پہنچ جاتے اور قیدیوں کو پتہ لگ جاتا کہ یہ نو آمدہ قیدی وہی ہے جس نے فلاں جرم کیا ہے جو کہ ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ترکی حکومت بڑے عرصہ سے یورپین یونین کا حصہ بننے کی کوشش کررہی ہے۔لیکن یورپین یونین کا مطالبہ ہے کہ پہلے ترکی اپنی اصلاح کرے اور یورپین یونین کے قوانین کے معیار کو حاصل کرے تو پھر ان کو یورپین یونین کا حصہ بنایا جائے گا۔ چنانچہ اس دباؤ کی وجہ سے بہت سی اصلاحات کی گئی ہیں اور معیار کو بہتر کیا گیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ قیدیوں کو ٹی وی کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔
صبح کے وقت قیدیوں کو اپنے حجروں سے باہر نکالا جاتا اور ان کی حاضری لی جاتی۔ پھر شام تک ان کو باہر رہنے کی اجازت تھی۔ وہ جگہ قریباً پندرہ فٹ چوڑی اور 80فٹ کے قریب لمبی تھی اور چاروں طرف قریباً بیس پچیس فٹ اُونچی دیواریں تھیں اور اُوپر سے لوہے کا جنگلہ لگا ہوا تھا۔ دوسرے دن میں وہاں پھر رہا تھا کہ ایک قیدی نے مجھے بازو سے پکڑا اور مجھے اندر چلنے کو کہا۔ جب میں اُس کے ساتھ کمرہ میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آٹھ دس قیدی وہاں حلقہ بنا کر بیٹھے ہیں۔ مجھے درمیان میں بٹھایا گیا اور یہ ظاہر کیا گیا کہ مجھے اُنہوں نے چائے پینے کےلئے بلایا ہے۔ وہ سب گہری نظروں سے گھور گھور کر مجھے دیکھ رہے تھے۔ جب ہم کمرہ سے باہر نکلے تو جو صاحب مجھے اُس کمرہ میں لے کر گئے تھے خاکسار اُن کو ایک طرف لے گیا اور اُن سے پوچھا کہ مجھے سچ سچ بتائیں کہ آپ لوگوں نے مجھے کیوں بلایا تھا؟وہ کہنے لگے کہ بس یوں ہی صرف چائے پینے کے لئے بلایا تھا میں نے کہا کہ نہیں۔ مجھے اصلی بات بتائیں۔ کیا آپ لوگوں نے مجھے اس لئے نہیں بلایا کہ آپ لوگوں نے یہ خبر سنی ہے کہ ایک گروہ پکڑا گیا ہے جنہوں نے قرآن کریم میں تحریف کی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ میں بھی اُسی گروہ میں سے ہوں؟ پھر میں نے اُنہیں قرآن کریم کی آیت کریمہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُونَ۔(الحجر:10)پڑھ کر وضاحت کی کہ جو چیز خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو اس میں تحریف کیسے کی جاسکتی ہے؟ میری باتیں سن کر وہ صاحب کہنے لگے کہ اب مجھے سمجھ آگئی ہے اب آپ بالکل مطمئن رہیں۔ کوئی شخص آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ مجھے کسی قیدی ساتھی نے بتایا تھا کہ جیل میں محتاط رہوں کیونکہ جیل میں کسی دوسرے قیدی کو قتل کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اسی جیل میں دو روسی قیدی تھے جن کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ ترکی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں کو روس بھجوادیا جائے تاکہ وہ اپنے وطن جاکر سزا کاٹ لیں۔ یہ اُن کےلئے بہتر ہوگا۔ لیکن وہ دونوں واپس جانا نہیں چاہتے تھے۔ کیونکہ وہاں اُنہوں نے کوئی ایسا جرم کیا ہوا تھا کہ اگر اُن کو واپس بھیج دیا گیا تو وہاں ان کو پھانسی کی سزا دی جانی یقینی تھی۔ چنانچہ اپنی deportation رکوانے کےلئے اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ کوئی نیا جرم کردیا جائے جس کی وجہ سے نئے جرم کی وجہ سے ان کو روس نہیں بھیجا جائے گا۔ چنانچہ اُنہوں نے رات کو ایک کمزور سے قیدی کے منہ پر تکیہ رکھ کر اُسے قتل کردیا اور اس طرح اُن کی deportation رک گئی۔ چونکہ ہم پر بھی یہ الزام تھا کہ نعوذ باللہ ہم نے قرآن کریم میں تحریف کی ہے۔ اس وجہ سے میری حالت سخت خطرہ میں تھی۔ کیونکہ جرائم پیشہ مسلمان دین کے معاملہ میں بالعموم بہت زیادہ متشدّد ہوتے ہیں۔
جیل کے قوانین کے مطابق ہر قیدی کا ایک شناختی کارڈ بنایا جاتا ہے جس میں اس کی تصویر ہوتی ہے۔ چنانچہ میرا کارڈ بھی بنایا گیا اور اس طرح میں بھی باقاعدہ قیدی کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ بائرام پاشا جیل میں ایک جرمن اور دوسرا ہالینڈ کا یعنی دو یورپین قیدی بھی تھے۔ میری بھی اُن کے ساتھ شناسائی ہوگئی۔ میں اکثر ان کے کمرہ میں چلا جاتا تھا۔ اس جیل میں مجھے مختلف باتوں کا تجربہ ہوا۔ جن کا ذکر قارئین کے لئے دلچسپی کا موجب ہوگا۔ مثلاً جرمنی قیدی کے پاس ایک چھوٹا سا ریڈیو تھا جس کے ذریعہ وہ خبریں اور دوسرے پروگرام سنتا رہتا تھا۔ اِسی طرح ہنگری کے ایک قیدی کے پاس چھوٹے چھوٹے موتی، ڈیڑھ دو کلِو کے قریب تھے۔ وہ اُن کو پرو کر مختلف چیزیں بناتا رہتا تھا اور اس طریق پر آمد کی ایک صورت بنائی ہوئی تھی۔قیدیوں کو دن کے وقت باہر نکلنے کی اجازت تھی۔ قیدی مختلف ٹولیوں میں بیٹھ کر وقت گزارتے۔ کچھ قیدی شطرنج کھیلتے رہتے۔ مجھے ایک شامی عرب قیدی نے قرآن کریم تحفہ کو طور پر دے دیا جو اُس کو کہیں سے ملا تھا لیکن وہ خود تلاوت نہیں کرتا تھا۔ میں اس تحفہ سے بے حد خوش ہوا اور سارا دن قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہتا۔ ایک نائیجرین قیدی بالعموم بائبل پڑھتا رہتا تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ یہ تو اختلافات سے بھری پڑی ہے۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں ایک بھی اختلاف نہیں ہے۔ وہ کہنے لگا کہ بائبل کے مطالعہ سے مجھے سکون ملتا ہے۔ میں نے کہا کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے تمہیں اور بھی زیادہ سکون نصیب ہوگا۔
کاندھرا جیل
قریباً تین ہفتہ ہمیں بائرام پاشا جیل میں رکھنے کے بعد اچانک حکم دیا گیا کہ استنبول سے باہر ایک اور جیل میں جانے کےلئے فوراً تیار ہوجائیں۔ خاکسار جب باہر دفتر میں پہنچا تو دیکھا کہ میرے دونوں ترک احمدی بھائی بھی وہاں موجود ہیں۔ وہاں پر ہر چیز کی تلاشی از سر نو لی گئی اور پھر ہمیں ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ پھر ہمیں ایک بکتر بند گاڑی میں بٹھایا گیا جس میں ہوا کا تو کوئی قطعاً انتظام نہیں تھا۔ البتہ چھوٹے چھوٹے شیشے لگے ہوئےتھے جس میں سے باہر دیکھا جا سکتا تھا۔ گرمی شدیدتھی ۔جس نئے جیل خانہ میں جانا تھا وہ کاندھرا نامی گاؤں میں واقع تھا اور استنبول سے 135کلو میٹر کے فاصلہ پر تھا ۔ ہمارا خیال تھا کہ قریباً ڈیڑھ گھنٹہ میں ہم وہاں پہنچ جائیں گے۔ لیکن وہاں پہنچنے میں قریباً گیارہ گھنٹے صرف ہوئے۔ اس طرح مکرم عثمان شکر کا ایک خواب بھی پورا ہو گیا۔ اُنہوں نے جیل میں یہ خواب دیکھا تھا ہم ایک بحری جہاز پر سوار ہیں اور وہ جہاز کبھی یہاں رُکتا ہے اور کبھی وہاں رُکتا ہے۔ بالآخر کافی دیر کے بعد وہ جہاز ایک جگہ پہنچ کر رک گیا۔ اس جیل میں بھی پہنچتے ہی وہی تمام چیزیں دُہرائیں گئیں جو کہ بائرام پاشا جیل میں کی گئیں تھیں ۔ جن میں تلاشی لینا، سوالات پوچھنا ، سر اور داڑھی کے بال مونڈھ دینا شامل ہیں۔
جو غیر از جماعت قیدی کسی مسلمان تنظیم سے تعلق رکھنے والے ہمارے ساتھ رکھے گئے تھے خاکسار نے اُن کو ہلکے پھلکے انداز میں تبلیغ کی جس کا کچھ اثر انہوں نے ضرور لیا۔ لیکن اُن کا طرز عمل ہم سے بالکل مختلف تھا جس کے نتیجہ میں اُن کا اور مکرم قوبلائی کے درمیان اختلافات بڑھ گئے اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی۔ ایک دن تو لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اسسٹنٹ ڈائر یکٹر جیل تک بات پہنچی اُنہوں نے ہمارے حجرے میں آکر ہم دونوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ آپ دونوں نئے ہیں۔ یہ تیسرا آدمی پُرانا ہے اس کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ دونوں سیدھے ہوجائیں ورنہ ہم تمہیں ایک نہایت ہی تنگ حجرے میں بند کردیں گےاور ساتھ ہی ساتھ تمہیں سخت ماریں گے بھی۔ اِس پر وہ تیسرا قیدی بولا کہ جناب آپ فکر نہ کریں میں اِن کو اچھی طرح سمجھا دوں گا۔ گویا یہ تاثر دیا کہ ہم دونوں نے آپس میں جھگڑا کیا ہے اور اُس کا جھگڑے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ اس پر میں بول پڑا اور کہا کہ جناب میرا تو اس جھگڑے سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ میں تو قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا جب یہ شور ہوا۔ قریباً نصف گھنٹے بعد دوبارہ ہمارے حجرے کے دروازے پر آکر اُس تیسرے قیدی کو کہا گیا کہ تیار ہوجاؤ تمہاری تبدیلی دوسرے حجرے میں کردی گئی ہے۔ یہ صاحب کسی اسلامی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے۔ جب اس قیدی کو لے کر چلے گئے تو اب ہماری خواہش اور دُعا تھی کہ خُدا کرے ہمارے بھائی عثمان شکر صاحب کو یہاں بھیج دیا جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دروازہ کھلنے کی آوازیں آئیں اور ہم نے دیکھا کہ ہمارے بھائی عثمان شکر صاحب ہمارے حجرہ میں آرہے تھے۔ ہم نے الحمد للہ پڑھا اور خوشی کا اظہار کیا اُن کے آنے کے بعد ہماری مصروفیات میں نمایاں تبدیلی آگئی۔ اُن کے آنے کے بعد ہم نے ایک پروگرام تیار کیا۔ خدا تعالیٰ کی توفیق سے ہم سب پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرتے تھے اور جمعہ کی نماز بھی ادا کرتے۔ نیز خاکسار روزانہ قرآن کریم کے مختلف حصوں کی تفسیر بیان کرتا۔ مکرم قوبلائی یا مکرم عثمان باقاعدہ نوٹس تیار کرتے۔علاوہ ازیں خاکسار نے دونوں بھائیوں کو اُردو پڑھانی شروع کردی اور بنیادی اسباق پیش کئے جو ان دونوں بھائیوں نے یاد بھی کئے اور اُن کے نوٹس بھی تیار کر لئے۔ دیگر قیدیوں کی طرح میرے دونوں ترک بھائیوں کے اہل و عیال وقتاً فوقتاً ملاقات کےلئے آتے تھے۔ لیکن میری فیملی چونکہ جرمنی میں تھی لہٰذا خاکسار کے ساتھ ملاقات کے لئے میرے خاندان کا کوئی فرد نہیں آیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کاندھرا جیل یورپین یونین کے مطالبہ پر بنائی گئی ہے اور نہایت ہی ماڈرن جیل ہے لیکن اونچی دکان اور پھیکا پکوان والا حساب یہاں موجود ہے۔ اس جیل کو F-Type جیل کہا جاتا ہے۔ اس میں تین تین قیدیوں کے حجرے ہیں۔ دیگر قیدیوں کو اس پر شدید اعتراض تھا جبکہ ہم تینوں کےلئے یہ جگہ بہت ہی آئیڈیل تھی۔ ہم تینوں اس حجرہ میں باجماعت نمازیں پڑھتے اور جمعہ کی ادائیگی بھی کرتے۔ ہم نے فقہ میں پڑھا تھا کہ بعض فقہاء کے نزدیک جیل میں قیدیوں کےلئے نماز جمعہ کی ادائیگی ضروری نہیں۔ اس کی اصل حقیقت جیل جاکر معلوم ہوئی۔ دراصل کسی بھی وقت جیل انتظامیہ کی طرف سے دروازہ کھٹکھٹا کر قیدیوں کو دروازہ پر طلب کر لیا جاتا ہے۔ ہم نے ایک بھائی کی ڈیوٹی لگا دی ہوئی تھی کہ اگر نماز کے دوران ایسی صورت پیش آجائے تو وہ نماز چھوڑ کر دروازہ پر پہنچ جایا کریں اور باقی دو نماز میں مصروف رہیں۔
جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں دیگر قیدی اس جیل سے بے حد نالاں تھے اور دن میں دو بار اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے تھے۔ وہ اِس طرح کہ صبح اور شام سات بجے کے قریب تمام جیل کے لوہے کے دروازے زور سے کھٹکھٹائے جاتے اور نعرے بھی بلند کئے جاتے۔ رائٹ ونگ کے قیدی اپنے نعرے بلند کرتے اور لیفٹ ونگ کے قیدی اپنے نعرے بلند کرتے۔ چونکہ ہم اسطرح کے نعروں میں ملوث نہیں ہوتے تھے چنانچہ اس بات کا جیل انتظامیہ پر اچھا اثر پڑا اور حجروں کی چیکنگ کے دوران خصوصاً ہمارے حجرے کو کچھ زیادہ توجہ نہ دی جاتی اور ہلکی پھلکی سی چیکنگ کرکے انتظامیہ واپس چلی جاتی ۔ ایک گارڈین نے ایک دن مجھے کہا کہ آپ تو بڑے صاحب علم لگتے ہیں۔ کاش میری آپ سے ملاقات جیل سے باہر کسی مختلف ماحول میں ہوتی تو میں آپ سے علمی طور پر استفادہ کرتا۔ کاندھرا جیل میں شروع میں ہمارے ساتھ جو تیسرا قیدی ہمارے حجرہ میں داخل کیا گیا وہ سارا دن ٹیلیفون کرتا رہتا۔ اُس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ واقعی اُس کے پاس ٹیلیفون تھا۔بلکہ اس کا طریق یہ تھا کہ ہر حجرہ سے باہر تھوڑی سی کھلی جگہ ہوتی تھی جس کے گرد بہت اونچی اونچی دیواریں ہوتیں اور اوپر جنگلہ ہوتا لیکن چھت نہ ہوتی۔ اس کھلی جگہ کے درمیان میں بارش کے پانی کے نِکاس کےلئے ایک سوراخ ہوتا اس کے اوپر بھی لوہے کی تاریں لگی ہوتی تھیں۔ جب ہمیں حجرے سے باہر نکالا جاتا تو وہ قیدی اُس سوراخ کے پاس بیٹھ جاتا اور اس پر پاؤں مارتا۔ اسی طرح کے سوراخ ہر حجرہ کے باہر موجود تھے۔ وہاں بھی اسی طرح کے قیدی آکر بیٹھ جاتے اور سارا سارا دن آپس میں باتیں کرتے رہتے۔ ان کی باتوں کی آواز ایک دوسرے کو آسانی سے سنائی دیتیں۔ لیکن یہ پتہ نہ لگتا کہ کس جانب سے آواز آرہی ہے۔ ایک دوسرے حجرے کے قیدی نے ہمیں بتایا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ۔ ہمارے ساتھی نے کہا کہ ہم نے کئی دن سے چائے نہیں پی۔ اُس قیدی نے کہا کہ میں چائے کا انتظام کرتا ہوں۔ میں سمجھ رہا تھا کہ یہ شاید جیل انتظامیہ کو کہہ کر چائے کا انتظام کروائے گا۔ قریبا ً آدھا پونا گھنٹہ بعد اُس نے آواز دی کہ چائے آرہی ہے۔ ہم آسمان کی طرف نظریں اٹھائے دائیں جانب دیکھ رہے تھے کہ اچانک بائیں جانب سے ایک بوتل آکر ہمارے حجرے کے سامنے والی جگہ پر گری۔ ہم نے دوڑ کر بوتل اٹھائی کچھ تو زمین پر گر گئی لیکن جو بچ گئی وہ ہم نے مزے سے پی۔
اسی طرح سے دیگر بعض اشیاء بھی قیدی ایک دوسرے کو بھیجتے تھے۔ وہ اتنے ماہر ہوگئے تھے کہ چالیس پچاس فٹ کے فاصلہ سے اور قریباً بیس پچیس فٹ کی اونچائی سے کوئی چیز پھینکتے اور وہ دوسرے حجرے کے سامنے والی خالی جگہ پر گرتی۔ جب قیدیوں کو واپس حجروں میں بند کردیا جاتا تو قیدی حجرے کی سلاخوں کے پاس بیٹھ جاتے اور اُونچی آواز میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ۔ وہ ایک عجیب نظارہ تھا۔ تنہائی سے بچنے کا اِس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ بعض حجروں میں صرف ایک قیدی ہوتا تو اس کی زندگی اور بھی اجیرن ہو جاتی۔
کاندھرا جیل میں قیدیوں کے لئے مختلف ورکشاپس تھیں۔ وہاں پر کام کرکے خوش ہوتے اور وہاں ان کا وقت بھی اچھے طریق سے کٹ جاتاوہ صبح سے شام تک ان ورکشاپس میں کام بھی کرتے اور آپس میں گفتگو کرکے خوش بھی ہوجاتے۔ ورکشاپس مختلف اقسام کی تھیں۔ مثلاً چینی کے برتن بنانے، برتنوں پر نقش و نگار بنا کر اُنہیں بھٹی میں پکانے، مختلف چھوٹے چھوٹے سامان آرائش بنانے اور قالین تیار کرنے کی ورکشاپ وغیرہ۔ قیدی جو چیزیں تیار کرتے وہ مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لئے بھجوادی جاتیں لیکن قیدیوں کو اُس میں سے کوئی حصہ نہ ملتا۔ حتّٰی کہ اگر کسی قیدی نے کوئی چیز لینی ہوتی تو اُسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی خواہ وہ خود اسکی اپنی تیار کردہ ہی کیوں نہ ہو۔ میں ایک دن تو ورکشاپ میں گیا لیکن اگلے دن جانے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن عادی مجرموں کا گفتگو کا انداز غیر مہذّبانہ تھا۔ بات بات میں گالی نکالنے کے عادی تھی گو کہ اُن کا تکیہ کلام ہو۔
جب ہم جیل میں تھے تو ان دنوں فٹ بال ورلڈ کپ منعقد ہو رہا تھا۔ میرے ساتھ والے ترک احمدی دوستوں کی خواہش تھی کہ ایک چھوٹا ٹی وی خرید لیا جائے اور اس پر میچ دیکھے جایا کریں اور اس کی قیمت آپس میں بانٹ لی جائے۔ مجھے تو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن میں نے بھی احباب کی خوشی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ہاں کردی۔ اس پر جیل انتظامیہ کے نام ایک درخواست لکھی گئی۔ عام حالات میں قریباً پندرہ دن کے بعد ٹی وی ملنا چاہئے تھا لیکن ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نصف گھنٹہ بعد ٹی وی لاکر ہمارے حوالے کردیا گیا۔ اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جیل انتظامیہ ہم سے کس قدر خوش تھی۔
جب ہم کاندھرا جیل لائے گئے تو گیٹ پر لمبی چوڑی کارروائی کے بعد ہمیں حجرہ کے اندر لےجایا گیا اور ہمیں کہا گیا کہ گردنیں نیچے رکھیں۔ میں نے راستہ میں دیکھا کہ تمام کمرے نئے اور سیمنٹ سے بنے ہوئے ہیں اور ایک جگہ حجام کی ماڈرن دکان بھی نظر آئی جس کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ ایسے لگتا تھا جیسا کہ ہم شہر کے اندر پھر رہے ہیں پر صرف کارروائی ڈالنے کےلئے جو گارڈین کسی قیدی کو لے کر آتا ہے وہی اُس کے بال مشین سے صاف کر دیتا ہے اور اِسی کا نام حجامت ہے۔
شروع میں ہمیں بتایا گیا کہ ہفتہ میں ایک دن ایک گھنٹہ کےلئے گرم پانی آیا کرے گا لیکن جس دن پانی آنا تھا ہم نے ٹوٹی کھول دی لیکن اُس میں سے گرم پانی تو نہیں آیا البتہ دور سے شاں شاں کی آوازیں آتی رہیں اور بس ہمارا طریق یہ تھا کہ دن کے وقت ٹھنڈے پانی کی بالٹی بھر کر باہر والی کھلی جگہ پر دھوپ میں رکھ دیتے اور عصر کے قریب اُسی پانی سے نہالیتے۔ ایک دن میں ہم میں سے صرف ایک کی نہانے کی باری ہوتی ہم اِسی طرح ہی گزارا کرتے تھے۔ جیل کے حجرے اس طرح کے تھے کہ ایک حجر ے میں تین قیدیوں کے سونے کا انتظام تھا۔ لیکن رات کو آسمان کے ستارے کم ہی نظر آتے تھے۔ چھوٹی سی کھڑکی میں سے صرف دو ستارے ہی نظر آیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ بڑی کوشش کے بعد ایک چھوٹا سا تیسرا ستارہ بھی نظر آیا۔ بس یہی ہمارا بیرونی دنیا سے رابطہ تھا۔
برادرم قوبلائی صاحب روزانہ ورکشاپ پر جایا کرتے تھے جبکہ خاکسار اور مکرم عثمان شکر ہم دونوں حجرے میں ہی رہتے تھے۔ ایک روز شام کو قوبلائی صاحب جب واپس آئے تو بہت غمگین تھے اور چہرہ اُترا ہوا تھا۔ ہمارے پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ وہ قیدی جس نے شروع میں ہماری مدد کی تھی اور ہمیں ایک ہفتہ تک چائے بھیجتا رہا تھا اُس نے خود کشی کرلی ہے۔ دراصل اس کی وجہ یہ تھی کہ حکومت نے اعلان کیا ہوا تھا کہ عمر قید والے سیاسی قیدی اگر ہمیں یقین دلا دیں کہ آئندہ وہ اپنے گروہ سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے تو ان کی سزا آدھی کردی جائے گی۔ ایسے قیدی بالعموم نوجوان ہی ہوتے تھے۔ اور جیل سے باہر ان کو جیل کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا تھا اور وہ بآسانی اپنے گروہ کے ساتھ مل کر کارروائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ لیکن عدالت کی طرف سے عمر قید کی سزا کا اعلان ہونے اور جیل جانے کے بعد ان کی مشکلات کا دور شروع ہوتا۔ اِس قیدی نے بھی حکومت کے اعلان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لکھ کر دے دیا کہ میں آزاد ہونے کے بعد اپنے گروہ سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا۔جب اُس کی پارٹی کو اس بات کا علم ہوا تو اُنہوں نے اس کے ساتھ تعلق رکھنا اور مدد کرنا چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہواکہ ہر طرف سے مایوس ہو کر اور تنہائی سے تنگ آکر اس نے خود کشی کرلی۔ وہ نوجوان جو بعض نام نہاد لیڈروں کے بہکاوے میں آکر غیر قانونی حرکتوں میں ملوث ہوجاتے ہیں اُن کو اِس سے سبق لینا چاہئے۔
میں نے کاندھرا جیل میں میں ایک خواب دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ ایک کار میں سوار ہو کر تشریف لائے ہیں۔ وہ جگہ کوئی بڑا شہر نہیں ہے بلکہ ایک چھوٹا سا قصبہ لگتا ہے۔جب حضور ؒ کی کار قصبہ کے چوک میں پہنچتی ہے تو وہاں کھڑی ہوجاتی ہے۔ میں بھی وہاں ہوں اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے چاروں طرف احمدی ہی ہیں۔ حضور مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ لوگ یہاں ہی عید منائیں گے۔ جب میں نے اپنا یہ خواب اپنے ساتھیوں کو سنایا تو برادرم عثما ن شکر صاحب کہنے لگے کہ جمعہ کا دن بھی عید کا دن ہی ہوتا ہے۔ اور جمعہ کا دن یقیناً ہماری رہائی کا دن ہوگا۔ جب جمعہ کا دن آیا تو عثمان صاحب اچھی طرح تیار ہوکر انتظار کرنے لگے کہ آج یقیناً ہماری رہائی کا دن ہے۔ دوپہر کے وقت اچانک ہمارا دروازہ کھولا گیا اور ہمیں تیاری کا حکم دیا گیا۔ میرے دونوں ساتھی سمجھے کہ واقعی ہماری رہائی کا حکم آ گیا ہے۔ چنانچہ جلدی جلدی تیاری کرکے اپنی چیزیں ایک ٹرالی میں رکھیں جو ہمیں گارڈینز نے مہیّا کی تھی اور باہر نکلے۔ گارڈینز نے ہمیں ہمارے حجرہ سے نکالا اور کئی کوریڈورز میں سے ہوتے ہوئے ہمیں ایک اور دوسرے حجرے میں لے جا کر بند کردیا۔ اُس حجرے میں ہر طرف گندگی تھی۔ میرے دونوں ساتھیوں نے مجھے کہا کہ آپ آرام سے بیٹھیں۔ پھر دونوں نے مل کر صفائی کی اور فرش کو بھی دھو کر صاف کیا۔ مجھے اُنہوں نے کسی چیز کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ جب ساری صفائی ہوگئی تو دونوں بیٹھ کر خوب ہنسے۔ قوبلائی صاحب نے کہا کہ میں نے آئندہ یہ دُعا کرنی ہے کہ ‘‘مولیٰ کریم جیل کے اندر ہی اندر نہیں بلکہ جیل سے باہر۔’’
دراصل عید کے لئے ترکی زبان میں بائرام کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور یہی لفظ یوم آزادی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چونکہ بنیادی طور پر میرا تعلق پاکستان سے ہے اور پاکستان کا یوم آزادی چودہ اگست ہے اور یہی وہ دن ہے جب ہمیں بعد میں جیل سے آزادی نصیب ہوئی اور اس طرح وہ خواب بھی پورا ہوگیا۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں ہمارے حجرے کے ساتھ ہی تھوڑی سی کھلی جگہ تھی جہاں دن کے وقت ہمیں نکلنے کی اجازت تھی۔ میں وہاں تیزی سے چلتا رہتا اور ساتھ ہی درود شریف پڑھتا رہتا۔ اس کا جسمانی فائدہ یہ ہوا کہ جب میں کاندھرا جیل میں گیا تو شروع میں میری شوگر بہت زیادہ تھی۔ لیکن بعد میں نصف ہوگئی۔ بائرام پاشا قید میں ہمارا طریق یہ تھا کہ ہم روزانہ صبح تہجد کی نماز ادا کرتے علاوہ ازیں پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرتے۔اس کے علاوہ روزانہ کم از کم ایک دفعہ اور بعض اوقات دو دفعہ قرآن کریم کی کلاس منعقد کرتے۔ اس کا طریق یہ تھا کہ تلاوت کے وقت میں بعض آیات نوٹ کرلیتا۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس ترکی ترجمہ والے قرآن کریم موجود تھے۔ جس کے متر جمین بھی مختلف تھے۔ میں اُن کو باری باری دریافت کرتا کہ فلاں آیت کا ترجمہ پڑھیں اور اگر تشریح نوٹ ہو تو وہ بھی پڑھ کر سنائیں۔ اس کے بعد میں احمدیہ نکتہ نظر پیش کرتا اور درمیانی فرق کی نشاندہی کرتا۔ ساتھ ہی ساتھ برادرم قوبلائی صاحب خاکسار کی تشریح کو لکھتے جاتے۔ ایک دن قوبلائی صاحب کہنے لگے کہ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں جیل میں کیوں لے کر آیا ہے۔ اگر ہم آزاد ہوتے تو ہر گز آپ سے اِس طرح قرآن کریم کے مطالب نہیں سیکھ پاتے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ کیا تم ہمیں ہمیشہ جیل میں ہی رکھنا چاہتے ہو؟ایک دن معلم عثمان شکر صاحب کہنے لگے کہ مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ ترکی میں قرآن کریم کا علم رکھنے والے صرف ہم دونوں ہیں جنہوں نےآپ سے قرآن کریم سیکھا ہے۔ (اِن نوٹس کی اشاعت کی منظوری حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مرحمت فرمادی ہے)۔
علاوہ ازیں خاکسار نے دونوں بھائیوں کو ابتدائی اُردو بھی سکھائی جو کہ روزمرہ استعمال ہونے والے الفاظ اور جملوں پر مشتمل تھی۔جیل کے قوانین کے مطابق ہر ماہ ایک کھلی ملاقات ہوتی اس کا طریق یہ تھا کہ قیدی اور اُس کے خاندان کے افراد کو ایک کمرہ میں اکٹھا کیا جاتا جہاں دوسری قیدی اور اُن کے خاندان والے بھی اسی طرح ٹولیوں کی شکل میں موجود ہوتے اور اُن پر جیل کے گارڈئینز کا پہرہ ہوتا۔ قانون کے مطابق قیدی کا وکیل تو قیدی سے مل سکتا تھا لیکن کوئی بھی شخص جس کا خاندانی نام قیدی کے خاندانی نام سے مشابہت نہ ہو وہ ملاقات نہیں کر سکتا تھا۔ پاکستان میں تو خاندانی نام کا کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے اور سگے بھائیوں کے فیملی نام بھی ایک دوسرے سے مشابہت نہیں ہوتے اس لئے میرے بھائیوں میں سے کوئی بھی مجھ سے نہیں مل سکتا تھا۔ البتہ میری اہلیہ اور بچے مجھ سے مل سکتے تھے۔لیکن غیر ملکیوں کے لئے اُس کا طریق شدید تکلیف دہ تھا۔ یعنی پہلے وزارت داخلہ سے اجازت لی جائے اور اس کے بعد اور مختلف مراحل سے گزرنا بھی لازم تھا۔ اس لئے میں نے اپنے وکیل کے ذریعہ پیغام بھجوادیا کہ میری فیملی ملاقات کےلئے کوئی نہ آئے۔ لیکن جس دن میرے ساتھیوں کی ملاقات ہوتی اُس دن مجھے خوشی تو ہوتی لیکن ساتھ ہی اپنے بچوں کی یاد آتی اور طبیعت اُداس ہوجاتی۔ بالخصوص امّی جان کو یاد کرکے میں بہت غمگین ہوجاتا لیکن دُعا کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ بائرام پاشا جیل میں تو ہمیں ٹیلیفون کرنے کی اجازت نہیں دی گئی البتہ کاندھرا جیل میں مجھے ایک بار ٹیلیفون کرنے کی اجازت دی گئی اُس کا طریق یہ تھا کہ جیل کی طرف سے قیمتاً ایک کارڈ دیا گیا اُس کارڈ کے ذریعہ بات کرنے کی اجازت تھی اور ایک گارڈین ساتھ کھڑا رہتا۔
عدالت میں
جرمن قونصل جنرل صاحب نے پہلی ملاقات میں ہی مجھ سے یہ ذکر کیا کہ چونکہ میں جرمن نیشنل ہوں لہٰذا میرے لئے ایک الگ وکیل کی ضرورت ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ میں اس بارہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ آپ ہمارے امیر صاحب سے بات کرلیں۔ چنانچہ اُنہوں نے فون پر مکرم عبد اللہ واگِس ہاؤزر سے بات کرکے ایک وکیل مقرر کروادیالیکن بعد کے حالات سے ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ وکیل کو یہ اچھا وکیل ثابت نہیں ہوا۔ بلکہ اُن کی باتیں زیادہ تر جھوٹے وعدوں پر مبنی نکلیں۔اس کے علاوہ یہ صاحب نہایت ہی لالچی انسان ثابت ہوئے۔ البتہ اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اُن کی اپیل کے نتیجہ میں تین ججز میں سے ایک جج نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا اور اگلی پیشی پر جب ہم تینوں اور دیگر احمدی احباب و مستورات جب عدالت میں پیش ہوئے تو ہمیں جیل سے رہا کردیا گیا۔ عدالت کا فیصلہ تھا کہ ان کو جیل میں رکھنے کی ضرورت نہیں البتہ کیس جاری رہے گا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عدالت نے نومبر کی پیشی پر ایک ہفتہ کی تاریخ ڈال دی اور ایک ہفتہ بعد بھی فیصلہ نہیں سنایا بلکہ مارچ 2003 ء کی تاریخ دے دی۔ دریں اثناء عدالت نے سرکاری وکیل کو حکم دیا کہ ترکی پولیس ہیڈ کوارٹر سے یہ رپورٹ کی جائے کہ یہ جماعت ٹیررزم(terrorism) میں تو ملوث نہیں لیکن دیگر کئی قسم کی کارروائیوں میں ملوث ہے؟ وغیرہ
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ عدالت نے حکومتی وکیل کے ذریعہ مختلف اداروں سے رپورٹ طلب کی تھی۔ جن میں جنرل ہیڈ کوارٹرز ترکی، محکمہ اوقاف و امور دینیہ ترکی، محکمہ اشاعت قرآن کریم ترکی، محکمہ مطبوعات ترکی وغیرہ شامل ہیں۔ نیز ہومیو پیتھی ادویہ کے بارہ میں میڈیکل کونسل ترکی سے رپورٹ طلب کی گئی تھی۔ کسی بھی محکمہ کی طرف سے قابل اعتراض ایک لفظ بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ جماعت کے شائع کردہ قرآن مجید میں بھی کوئی غلطی نظر نہیں آئی۔ کتب اور تراجم میں بھی کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس پر قدغن لگائی جا سکے۔
افسوس ہے کہ محکمہ امور دینیہ نے جو رپورٹ پیش کی اس میں جج صاحبان کے ذہن میں زہر بھرنے کی مکمل کوشش کی گئی تھی۔ مثلاً اس میں یہ کہا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے عثمانی سفیر حسین کامی کی بے عزتی کی تھی۔ اسی طرح یہ کہا گیا کہ جب انگریزوں کی فوج استنبول میں داخل ہو ئی تو قادیان میں مٹھائی تقسیم کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے وکیل نے مجھے بتایا کہ ان اُمور کا ہمارے کیس کے ساتھ ہر گز کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جس دن ہمیں عدالت میں پیش ہونے کےلئے تیار رہنے کا حکم ملا۔ ہم تینوں جلدی تیار ہوگئے لیکن جیل انتظامیہ کی طرف سے تاخیر ہوئی۔ ہمیں صبح دس بجے کے قریب عدالت جانے کی اطلاع دی گئی تھی لیکن جیل سے روانگی ہی کئی گھنٹے تاخیر سے ہوئی۔ ہمیں ایک بکتر بند گاڑی میں استنبول لے جایا گیا۔ جب ہم عدالت پہنچے تو کھانے کا وقفہ ہوگیا اور ہمیں قریباً دو گھنٹے بکتر بند گاڑی میں ہی بیٹھنا پڑا۔ اگست کا مہینہ تھا اور شدید گرمی تھی اسی حالت میں ہم ایک بند گاڑی میں بیٹھے رہے۔ گرمی کی وجہ سے ہم سر سے پاؤں تک پسینہ میں شرابور تھے۔ یہاں میں عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ جب ہم گرفتار ہو کر بائرام پاشا جیل گئے تو شدید سردی تھی اور میں اوور کوٹ سمیت ہی سو گیا تھا۔ لیکن اب اتنی شدید گرمی تھی کہ ہم پسینہ سے لت پت ہو رہے تھے۔ قریباً چار بجے کے قریب ہمیں عدالت کے اندر لے جایا گیا۔ ہمیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں جن کے بارہ میں میرے آقا سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے فرمایا ہے کہ اگر تقدیر الہیٰ سے کوئی عاشق اسیر ہوجائے تو وہ اپنے ہاتھوں کی زنجیر کو چوم لیتا ہے کہ یہ میرے محبوب کی طرف سے ہے۔ پس یہی ہماری کیفیت تھی۔ حسب وقواعد عدالت کے اندر جانے سے قبل ہماری ہتھکڑیاں اُتار دی گئیں لیکن عدالت کے اندر بھی سپاہی ہمارے سروں پر کھڑے رہے۔ عدالت کا کمرا کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ چیف جج صاحب بہترین الفاظ میں بلا کم وکاست ملزم کے بیان کا خلاصہ معین الفاظ میں سٹینو گرافر کو درج کرا رہے ہیں۔ تمام ملزمان کے بیانات مکمل ہونے پر قریباً نصف گھنٹہ کا وقفہ کیا گیا اور پھر دوبارہ ہمیں عدالت میں طلب کیا گیا۔ بیانات کے اندراج کے بعد باہر نکلتے ہوئے ہمیں دوبارہ ہتھکڑیاں لگا دی گئیں ۔ جب ہمیں دوبارہ پیش کیا گیا تو حسب قواعد دوبارہ ہتھکڑیاں اُتار دی گئیں اور اس طرح عدالت لے جایا گیا۔ چیف جج نے ہماری رہائی کا حکم دیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کیس جاری رہے گا اور آئندہ سماعت کی تاریخ دے دی۔
برادرم مکرم عثمان شکر معّلم نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ہم تینوں جیل سے بند گاڑی میں عدالت گئے ہیں لیکن عدالت پہنچ کر وہ گاڑی گھوڑوں میں تبدیل ہو گئی اور ہم تینوں آزادی سے پھر رہے ہیں۔ یہ خواب من و عن پوری ہوئی۔ الحمد للہ۔
عاجز نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں ایک پانی کے نالے کے اندر کھڑا ہوں جس کا پانی انتہائی شفاف ہے۔ ایک مچھلی تیرتی ہوئی آتی ہے جس کا قد قریباً چھ فٹ ہے۔ میں بڑی آسانی سے اُس مچھلی کو پکڑ کر باہر نکال دیتا ہوں۔ پھر ایک اور مچھلی تیرتی ہوئی آتی ہے جس کی لمبائی قریباً نو فٹ ہے۔ میں اُسے بھی بڑی آسانی سے پکڑ کر باہر نکال دیتا ہوں۔ پھر ایک اور مچھلی تیرتی ہوئی آتی ہے جس کا قد قریباً چھ فٹ کے قریب ہے۔ میں اُسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ تڑپتی ہے اور قابو نہیں آئی۔ بعض احباب اُس پانی کے نالے کے کنارے پر کھڑے ہیں وہ مجھے کہتے ہیں کہ مربی صاحب! اس مچھلی کو رہنے دیں ہمارے پاس دو مچھلیاں ہیں وہی کافی ہیں۔ پھر میں خواب میں ہی ان مچھلیوں کو گوشت احباب کے ساتھ مل کر کھایا۔ یہ خواب اس طرح پورا ہوا کہ عدالت کے تین جج تھے۔ ایک چیف جج صاحب اور اُن کے ساتھ دو اور جج صاحبان تھے۔ چیف جج صاحب اور باقی دو جج صاحبان میں سے ایک جج صاحب نے تو ہمارے حق میں فیصلہ دیا جبکہ تیسرے جج صاحب نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا۔ بہرحال چونکہ دو جج صاحبان نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا تھا لہٰذا ہمیں جیل سے رہا کردیا گیا۔
عدالت سے رہائی کا حکم ملنے کے بعد ہم نے جیل جانا تھا اور وہاں جاکر ہماری رہائی ہونی تھی۔ ہمیں دوبارہ بکتر بند گاڑی میں بٹھادیا گیا۔ ہمارا خیال تھا کہ اب سیدھے جیل جائیں گے لیکن وہ بکتر بند گاڑی یا فوجی ٹرک مختلف گلیوں میں سے ہوتا ہوا بالآخر ایک جگہ جا کر رُک گیا۔ ہم تو اسی ٹرک کے اندر ہی مقید رہے۔ جبکہ ہمارے کیپٹن صاحب جو ہمیں عدالت لے کر جانے والی گارڈ کے انچارج تھے وہ اُتر کر ایک باغیچہ میں بیٹھ کر کسی دوست کے ساتھ مل کر چائے پیتے ہوئے نظر آئے۔ جیل پہنچتے ہی جیل کے منتظمین نے فوراً ہماری رہائی کی کارروائی شروع کردی اور ہماری اشیاء اُٹھانے میں ہماری مدد بھی کی۔ ہمارے وکیل صاحب اپنی کار پر ہمیں لینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے اپنا فون نمبر ہمیں دیا اور بار بار تلقین کی کہ اگر کوئی ایمر جنسی پیش آجائے تو اُنہیں فوراً مطلع کردیا جائے۔ بہرحال میں نے وہ رات بطور مہمان مکرم عثمان شکر معلم کے گھر میں گزاری اگلے روز مکرم وکیل صاحب مجھے ائیر پورٹ چھوڑنے کے لئے بھی تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ ترکی پولیس کا طرز عمل یہ ہے کہ جب کوئی غیر ملکی کسی عدالت سے رہا ہو کر آتا ہے تو پولیس اُسے اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے اور دو تین دن حوالات میں رکھنے کے بعد اُس کو ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن آپ غالباً پہلے غیر ملکی ہیں جنہیں حوالات میں رکھ کر ڈی پورٹ نہیں کیا جا رہا۔
میں نے اپنے بھائی عزیزم منیر احمد جاوید پرائیویٹ سیکرٹری کو فون کیا تو میرے بھائی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں سیدھا لندن پہنچوں اور حضور انور سے ملاقات کرکے پھر جرمنی جاؤں۔ جب میں لندن Heathrow Airport پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے استقبال کے لئے جماعت کے متعدد معزز اور مرکزی نمائندگان جمع ہوئے ہوئے تھے۔ اسی طرح انگلستان کی جماعت اور ذیلی تنظیموں کے ممبران بھی وہاں موجود تھے۔ اس عزت افزائی پر میرا دل شکر اور اطمینان کے جذبات سے بھر گیا۔ علاوہ ازیں خدا تعالیٰ نے خلافت احمدیہ کے زیر سایہ افراد جماعت میں جو پیار، محبت، اخلاص اور برادرانہ تعلقات قائم کئے ہیں اُن کو صرف افرادجماعت ہی سمجھ سکتے ہیں۔
جب سیدّنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو میرے لندن پہنچے کا علم ہوا تو آپ نے برادرم مکرم بشیر احمد کو فرمایا کہ کب ملاقات کروارہے ہو؟مجھے عزیزم منیر احمد جاوید صاحب نے تنبیہ کردی تھی کہ حضور اقدس کی صحت خراب ہے اور کمزوری زیادہ ہے اس لئے حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوکر زیادہ جذباتی ہونے سے اجتناب کروں۔ بہرحال میں حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوا اور دست بوسی کی سعادت حاصل کی۔ برادرم مکرم قوبلائی صاحب نے جیل کی ورکشاپ میں چینی کی ایک خوبصورت پلیٹ اپنے ہاتھوں سے تیار کی تھی جس کے اندر ایک گھڑی لگائی گئی تھی۔ وہ انہوں نے جیل سے خرید کر مجھے دی تاکہ میں حضور کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کروں۔ چنانچہ خاکسار نے وہ تحفہ حضور کی خدمت میں پیش کردیا۔
جماعت انگلستان کی طرف سے میرے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا انتظام کیا گیا۔ جس میں جماعت کے عہدیداران، نیز امیر صاحب انگلستان اور جلسہ سالانہ انگلستان کی خاطر آئے ہوئے متعدد مہمانا ن شریک ہوئے۔ عاجز نے مختصر خطاب کیا اور اپنے دو ترک ساتھیوں کا خصوصی اور باقی ترک احباب و خواتین کا عمومی طور پر ذکر کیا اور ان کے لئے دُعا کی درخواست کی۔ انگلستان میں دو دن قیام کے بعد خاکسار برادرم صدیق احمد ڈوگر آف آخن جرمنی کی گاڑی میں بیٹھ کر جرمنی پہنچا۔ جرمنی اور بیلجئم کے بارڈر پر امیر صاحب جرمنی کی طرف سے مکرم ڈاکٹر محمود احمد طاہر نیز بعض دیگر احباب نے اسی طرح ذیلی تنظیموں کے نمائندہ احباب نے میرا استقبال کیا۔ لجنہ اماء اللہ جرمنی سے بعض بہنیں بھی عاجز کے استقبال کےلئے موجود تھیں۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ترکی میں اِس کیس کا فیصلہ جماعت کے حق میں ہوگیا۔ لیکن حکومت نے اس فیصلہ کے خلاف اُوپر والی عدالت میں اپیل دائر کردی۔ یہ اپیل سراسر خلاف توقع تھی کیونکہ حکومت کے پاس قطعاً کوئی ثبوت بھی نہیں تھا جس سے ثابت کیا جاسکے کہ جماعت احمدیہ ایک دہشت گرد جماعت ہے۔ بہرحال یہ کیس قریباً چا ر سال تک چلتا رہا اور بالآخر جماعت کے حق میں فائنل فیصلہ کردیا گیا۔
مکرم مولانا دوست محمد شاہد نے فرمایا تھا کہ یورپ کا پہلا اسیر راہ مولیٰ ڈاکٹر محمد جلال شمس ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ احباب اور خواتین سے عاجزانہ درخواست دعا ہے کہ مولاٰ کریم اس اسیری کو میرے لئے مغفرت اور میرے خاندان کےلئے سعادت اور جماعت کےلئے ترقیات کا موجب بنادے۔ نیز اُن مخلص ترک احمدی بھائیوں اور بہنوں کےلئے بھی خیر و برکت کا موجب بنائے جنہوں نے اسیری کے یہ دن صبر و رضا سے برداشت کئے۔
چند خوابیں
مکرم ڈاکٹر شمیم احمد نے خواب میں دیکھا کہ وہ جیل میں خاکسار سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں۔ جب وہ جیل پہنچتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ جیل کا کمرہ جس میں خاکسار کو رکھا گیا ہے اُس میں شیشہ لگا ہوا ہے اور کمرے کا اندر والا حصہ نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کیا دیکھتے ہیں کہ سیدّنا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کمرہ کے اندر تشریف فرما ہیں اور خاکسار اپنے غُلام سے گفتگو فر ما رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب باہر ہی کھڑے ہو کر انتظار کر رہے ہیں۔ جب حضرت مسیح موعود ؑ کی نظر پڑتی ہے تو وہ ڈاکٹر صاحب سے فرماتے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں ۔ یہ لوگ بخیر و عافیت ہیں اور ان شاء اللہ جلد ہی باہر آجا ئیں گے۔ یہ خواب دیکھنے کے بعد مکرم ڈاکٹر صاحب بیدار ہو گئے اور آپ نے اسی وقت عزیزم منیر احمد جاوید پرائیوٹ سیکرٹری کو رات قریباً اڑھائی بجے فون کرکے جگایا اور اپنا خواب بیان کرتے ہوئے تسّلی دی۔ خواب میں ہی کیوں نہ ہو حضرت مسیح موعود ؑ کا عاجز کے پاس تشریف لانا عاجز گنہگار کے لئے ہر لحاظ سے خیر و عافیت کا موجب ہے۔
ہماری گرفتاری سے قبل مسٹر عثمان کی اہلیہ نے خواب میں دیکھا کہ پولیس آئی ہے اور عثمان کو گرفتار کرکے لے گئی ہے۔ اس پر مسٹر محمت کہتے ہیں کہ گھبرائیں نہیں ان شاء اللہ ہم انہیں چھڑا کے لئے آئیں گے۔
مکرم عثمان شکر کی اہلیہ نے دیکھا کہ میں اپنے گھر سے باہر نکلتی ہوں۔ اچانک پولیس آکر مجھے گرفتار کرلیتی ہے اور ہتھکڑی لگادیتی ہے۔ میں رو رو کر اللہ سے دُعا کرتی ہوں کہ مولیٰ کریم مجھے چھڑا۔ اچانک پولیس والے کہتے ہیں کہ دیکھو اس عورت کے پیچھے کتنی تیز روشنی ہے یہاں سے بھاگو۔ اس پر ہتھکڑی غائب ہو جاتی ہے اور پولیس وہاں سے بھاگ کر غائب ہوجاتی ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ میرے ہاتھوں میں کوئی ہتھکڑی نہیں۔
نماز فجر کے بعد سویا تو خواب میں دیکھا کہ گویا کوئی جلسہ ہے جیسے جلسہ سالانہ ہوتا ہے۔ بہت سے احباب وہاں پھر رہے ہیں۔ اتنے میں مکرم عبد اللہ واگس ہاؤزر آتے ہیں اور مجھ سے ملتے ہیں۔ میں ان کے گلے لگ کر زار و قطار روتا ہوں۔ پھر ہم بھی جیسے جلسہ میں اد ھر اُدھر پھرنے لگتے ہیں۔ احباب مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ہمارا کیس ابھی جاری ہے۔ گویا کہ میں تو آزاد ہو کر آ گیا ہوں لیکن کیس کا ابھی آخری فیصلہ ہونا باقی ہے۔
ایک دن دوپہر کی نماز کے بعد قوبلائی نے خواب میں دیکھا کہ کہ ہم عدالت میں حاضر ہوئے ہیں۔ عدالت نے مجھے (شمس کو) چھوڑ دیا ہے لیکن دوسرے دونوں بھائیوں (قوبلائی اور شکر) کو ایک ماہ مزید جیل میں رہنے دیا ہے۔ عدالت ختم ہونے کے بعد قوبلائی جج سے باتیں کرتے ہیں اور وہ بہت دوستانہ رنگ میں کہتا ہے کوئی اچھا وکیل کریں اور ایک وکیل کا نام بھی لیتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ موجود وکیل نے کیس اچھی طرح تیار نہیں کیا۔ غالباً مراد یہ ہے کہ ہم تینوں کو عدالت چھوڑ دے گی۔ میں جرمنی واپس چلا جاؤں گا اور یہ دونوں بھائی یہیں ترکی میں رہیں گے۔ اور ایک ماہ کے بعد دوسری پیشی ہوگی اور اس میں ہمارے کیس کا آخری فیصلہ سنایا جائے گا۔
صبح کے وقت عدالت میں حاضری سے ایک روز قبل آٹھ بجے جیل حکام کی طرف سے حاضری لی گئی۔ حاضری کے بعد میں سو گیا۔ خواب میں دیکھا کہ میں ایک جگہ ہوں۔ بعض مرد و خواتین بھی وہاں موجود ہیں ۔ ایسے لگتا ہے جیسے حضور کے دفتر کی عمارت ہوتی ہے۔ حضور ایک طرف سے مصافحہ کرنا شروع کرتے ہیں اور آگے چلتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد میں سوچتا ہوں کہ میں نے مصافحہ کرنا تھا میں مصافحہ نہیں کر سکا۔ یہ سوچ کر میں دوسری طرف چلا جاتا ہوں اور دل میں کہتا ہوں کہ حضور واپس تشریف لائیں گے تو مصافحہ کروں گا۔ اتنی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں حضور کے دفتر کے اندر ہوں۔ حضور تشریف لاتے ہیں اور آتے ہی مجھے گلے لگا لیتے ہیں۔ میں حضور سے لپٹ کر روتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ حضور ہم نے جیل میں بہت دعائیں کی تھیں۔ نیز عرض کرتا ہوں کہ میرے ساتھ یعنی قوبلائی اور عثمان وہ دونوں بھی حضور کو سلام عرض کرتے ہیں۔ اس کے بعد نظارہ بدل گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم رہا ہوں گے اور میں حضور سے ملوں گا اور ملاقات کرکے حضور کو حالات سے آگاہ کروں گا اور اپنے ترک بھائیوں کا سلام بھی پہنچاؤں گا۔
(ڈاکٹر محمد جلال شمس۔لندن)