• 4 مئی, 2024

ابراہیمؑ وہ ابراہیمؑ ہے جس نے وفا داری دکھائی

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ، اس حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اُس کے لئے صدق دکھایا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اُس کی وجہ یہی تھی۔ چنانچہ فرمایاہے۔ وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی (النجم: 38)۔ ابراہیمؑ وہ ابراہیمؑ ہے جس نے وفا داری دکھائی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے۔ جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذّتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہوجاوے اور ہر ذلّت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی۔ …‘‘ فرمایا ’’جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اُس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں ہوتا۔ صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے۔‘‘ فرمایا ’’… اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے۔ اور عمل دُکھ سے آتا ہے۔ لیکن جب انسان خدا کے لئے دُکھ اُٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اُس کو دُکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ703 ایڈیشن 2003ء)

فرمایا ’’اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبتِ الٰہی سے بھرنا، خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظلّ اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہوناکہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو، کوئی فرق نہ ہو۔ یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ457 ایڈیشن 2003ء)

اور یہی خصوصیات تھیں، ابراہیم کی۔

پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اُس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اُس کی راہ میں وقف ہو جاوے۔ اور جو امانتیں اُس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی مُعطی حقیقی کو واپس دی جائیں۔ اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اُس کی حقیقتِ کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے۔ یعنی شخص مدعی اسلام‘‘ جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہے ’’یہ بات ثابت کر دیوے کہ اُس کے ہاتھ اور پیر اور دل اور دماغ اور اُس کی عقل اور اُس کا فہم اور اُس کا غضب اور اُس کا رحم اور اُس کا حلم اور اُس کا علم اور اُس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں، اور اُس کی عزت اور اُس کا مال، اور اُس کا آرام اور سرور، اور جو کچھ اُس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے، یہاں تک کہ اُس کی نیّات اور اُس کے دل کے خطرات‘‘ دل کے خطرات بہت ہوتے ہیں۔ فرمایا ’’نیّات اور اُس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اُس شخص کے تابع ہوتے ہیں۔ غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے۔ اور تمام اعضاء اور قُویٰ الٰہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ59-60)

یعنی اب اعضاء بھی اللہ تعالیٰ کے ہو گئے ہیں۔ پس یہ ہے وہ مقام جو ہر احمدی کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب یہ مقام ہم حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی حقیقی مسلمان ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں، تبھی ہم خدا تعالیٰ کی پناہ میں آنے والے بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ بحیثیت جماعت، جماعت کی کثرت اس مقام کو حاصل کرنے والی ہو۔ دعاؤں کی طرف توجہ دینے والی ہو۔ ہم حقیقت میں اسلامی رنگ میں رنگین ہونے والے ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اُن لوگوں میں شمار ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ (النحل: 90) کہ فرمانبرداری کے لئے خالص ہو کر اسلام کے احکامات پر عمل کرنے والوں کے لئے بشارت ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملتی ہے تو دشمن کی بیخ کنی اور خاتمہ کے نظارے بھی نظر آتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم میں سے اکثریت کی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو جائے، بلکہ ہر ایک احمدی کی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا ہو اور جلد ہم مخالفین کے انجام کو بھی دیکھنے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ 14؍جون 2013ء)

پچھلا پڑھیں

وطن سے محبت، ایمان کا حصّہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 جون 2022