• 15 جولائی, 2025

مالی نظام (ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

(قسط دوم)

مالی قربانی مالی کشائش کے مطابق کریں

…حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی استعداد یں زیادہ تھیں انہوں نے اس کے مطابق قربانی دی، دوسرے ان کو اللہ تعالیٰ کے اپنے ساتھ اس سلوک کا بھی علم تھا ،ان کو پتہ تھا کہ مَیں آج اپنے گھر کا سارا سامان بھی اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنی دماغی صلاحیت دی ہے اور تجارت میں اتنا تجربہ ہے کہ اس سے زیادہ مال دوبارہ پیدا کر لوں گا اور توکل بھی تھا ، یقین بھی تھا اور یقینا اس میں اعلیٰ ایمانی حالت کا دخل بھی تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا جائزہ لیتے ہوئے گھر کا نصف مال پیش کر دیا اور اسی طرح باقی صحابہ ؓ نے اپنی استعدادوں کے مطابق قربانیاں کیں اور کرتے چلے گئے تو ہمیں اس ارشاد کہ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ:287) کو اپنے بہانوں کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے، خود اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے کہ مالی قربانی کی میرے اندر کس حد تک صلاحیت ہے ،کتنی گنجائش ہے۔ کم آمدنی والے لوگ عموماً زیادہ قربانی کرکے چندے دے رہے ہوتے ہیں بہ نسبت زیادہ آمدنی والے لوگوں کے۔ زیادہ پیسے کو دیکھ کر بعض دفعہ بعض کا دل کھلنے کی بجائے تنگ ہو جاتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ موصی بھی بہت کم آمدنی پر چندے دیتے ہیں اور ایسے راستے تلاش کر رہے ہوتے ہیں جن سے ان کی آمدنی کم سے کم ظاہر ہو۔ حالانکہ چندہ تو خداتعالیٰ کی خاطر دینا ہے۔ ایسے لوگوں کا پھر پتہ تو چل جاتا ہے، پھر وصیت پر زد بھی آتی ہے۔ پھر معذرتیں کرتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں۔ تو چاہے موصی ہو یا غیر موصی جب بھی مالی کشائش پیدا ہو اس مالی کشائش کو انہیں قربانی میں بڑھانا چاہئے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری استعدادوں کو ،کشائش کو اس لئے بڑھایا ہے کہ آزمائے جائیں۔ یہ دیکھا جائے کہ بیعت کے دعویٰ میں کس حد تک سچے ہیں۔ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ:287) کے ارشادکے بعد اس ارشاد کو بھی مدّنظر رکھنا چاہئے کہ لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ (البقرہ:287) یعنی نیک کام کاثواب بھی ملے گا اور اگر ٹال مٹول کر رہے ہو گے تو نقصان بھی ہو گا۔ بہرحال اگر دل میں ذرا سا بھی ایمان ہو تو ایسے لوگ جن کی غلطیوں کی وجہ سے ان سے چند ہ نہیں لیا جاتا جب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ان کی وصیت پہ زد پڑتی ہے یا دوسرے لوگوں کے چندوں پہ۔ تو کیونکہ احمدی ہیں، دل میں نیکی ہوتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے، پھر ان کے دل بے چین ہو جاتے ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا پھر معافیاں مانگتے ہیں اور ان کے لئے بات بڑی سخت تکلیف دہ بن رہی ہوتی ہے۔ تو جب نظام جماعت نے یہ اجازت دی ہو ئی ہے کہ بعض آدمی مجبوریوں کی وجہ سے شرح کے مطابق چندہ نہیں دے سکتے تو رعایت لے لیں تو سچائی کا تقاضا یہ ہے کہ رعایتی شر ح کی منظوری حاصل کر لی جائے، بجائے اس کے کہ غلط بیانی سے کام لیا جائے۔ اور مَیں اس بارے میں کئی دفعہ کہہ بھی چکا ہوں کہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی سوال جواب کے رعایت شرح مل جائے گی۔ تو ایک تو جو لوگ اپنی آمد غلط بتاتے ہیں وہ غلط بیانی کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے اس غلط بیانی کی وجہ سے اپنے پیسے میں بھی بے برکتی پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس خدا نے اپنے فضل سے حالات بہتر کئے ہیں وہ ہر وقت یہ طاقت رکھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی مشکل میں گرفتار کر دے۔ پس خداتعالیٰ سے ہمیشہ معاملہ صاف رکھنا چاہئے۔

مالی قربانیوں کا جہاد

…یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے اس میں ایک جہاد مالی قربانیوں کا جہاد بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ اسلام کے دفاع میں لٹریچر شائع ہو سکتا ہے، نہ قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہو سکتے ہیں، نہ یہ ترجمے دنیا کے کونے کونے میں پہنچ سکتے ہیں۔ نہ مشن کھولے جا سکتے ہیں، نہ مربیان، (…) تیار ہو سکتے ہیں اور نہ مربیان، (…) جماعتوں میں بھجوائے جا سکتے ہیں۔ نہ ہی (بیوت الذکر) تعمیر ہو سکتی ہیں۔ نہ ہی سکولوں، کالجوں کے ذریعہ سے غریب لوگوں تک تعلیم کی سہولتیں پہنچائی جا سکتی ہیں۔ نہ ہی ہسپتالوں کے ذریعہ سے دکھی انسانیت کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ پس جب تک دنیا کے تمام کناروں تک اور ہر کنارے کے ہر شخص تک (دین حق) کا پیغام نہیں پہنچ جاتا اور جب تک غریب کی ضرورتوں کو مکمل طور پر پورانہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ مالی جہاد جاری رہنا ہے۔ اور اپنی اپنی گنجائش اور کشائش کے لحاظ سے ہر احمدی کا اس میں شامل ہونا فرض ہے۔…

پس جو چندے کے معاملے میں سستیاں دکھانے والے ہیں وہ اپنے جائزے لیں اور جوجماعتی عہدیدار نئے شامل ہونے والوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔پس جہاں دین کی نصرت کے لئے آسمان پر شور ہے وہاں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان ذمہ داریوں کو بھی ہمیں نبھانا ہو گا۔ اور ہم ہلاکت سے اس صورت میں بچ سکتے ہیں جب اَحْسِنُوْا پر عمل کرتے ہوئے اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرنے والے ہوں او ر اس کے نتیجہ میں خدا کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔…

موصیان کو تمام تحریکات میں چندہ دینا چاہیے

… چندوں کے بارہ میں بعض جماعتوں کے بعض استفسار ہوتے ہیں جو بعض لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ وضاحت کر دوں۔ ایک تو یہ کہ آج کل وصیت کی طرف بہت توجہ ہے۔ اور وصیت کی طرف توجہ تو ہو گئی ہے لیکن تربیت کی کافی کمی ہے۔ اس لئے بعض موصیان یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے وصیت کی ہوئی ہے اس لئے ہم صرف وصیت کا چندہ دیں گے باقی ذیلی تنظیموں کے چندے یا مختلف تحریکات کے چندے ہم پر لاگو نہیں ہوتے۔ تو یہ واضح ہو، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر تو حالات ایسے ہوں کہ تمام چندے نہ دے سکتے ہوں تو اس کی اجازت لے لیں۔ ورنہ تو قع ایک موصی سے یہ کی جاتی ہے کہ ایک موصی کا معیار قربانی دوسروں کی نسبت، غیر موصی کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے۔ تو اگر وصیت کا صرف کم سے کم 10/1حصہ سے دے کر باقی چندے نہیں دے رہے تو ہو سکتا ہے غیر موصی دوسرے چندے شامل کرکے موصیان سے زیادہ قربانی کر رہے ہوں۔ تو اس لحاظ سے واضح کر دوں کہ کوئی بھی چندہ دینے والا، چاہے وہ موصی ہیں یا غیر موصی ہیں اگر توفیق ہے تو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہئیں کیونکہ ہر تحریک اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑی اہم ہے۔

پھر ایک چیز یہ ہے کہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اصل مقصد چندوں کا اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے، نہ کہ پیسے اکٹھے کرنا۔اس لئے بالکل صحیح طریق سے بغیر کسی چیز کو، اپنی آمد کو چھپائے بغیر، اپنے بجٹ بنوانے چاہئیں جوکہ سال کے شروع میں جماعتوں میں بنتے ہیں۔ اور بجٹ بہرحال صحیح آمد پہ بننا چاہئے۔ اس کے بعد اگر توفیق نہیں تو چندوں کی چھوٹ لی جا سکتی ہے۔

نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں

پھر ایک اور بات ہے جس کی طرف مَیں عرصے سے توجہ دلا رہا ہوں کہ نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں۔ یہ جماعتوں کے عہدیداروں کا کام ہے۔ جب نومبائعین مالی نظام میں شامل ہو جائیں گے تو جماعتوں کے یہ شکوے بھی دور ہو جائیں گے کہ نومبائعین سے ہمارے رابطے نہیں رہے۔ یہ رابطے پھرہمیشہ قائم رہنے والے رابطے بن جائیں گے اور یہ چیز ان کے تربیت اور ان کے تقویٰ کے معیار بھی اونچے کرنے والی ہو گی۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قرآن کریم میں مالی قربانیوں کے بارے میں بے شمار ہدایات ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ جو بھی فضل فرماتا ہے ان کو اس میں بھی شامل کرنا چاہئے۔

زکوٰۃ کی ادائیگی ضرور کریں

پھر زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں بعض سوال ہوتے ہیں۔ یہ بنیادی حکم ہے۔ جن پر زکوٰۃ واجب ہے ان کو ضرور ادا کرنی چاہئے اور اس میں بھی کافی گنجائش ہے۔ بعض لوگوں کی رقمیں کئی کئی سال بنکوں میں پڑی رہتی ہیں اور ایک سال کے بعد بھی اگر رقم جمع ہے تو اس پہ بھی زکوٰۃ دینی چاہئے۔ پھر عورتوں کے زیورات ہیں ان پر زکوٰۃ دینی چاہئے۔ جو کم از کم شرح ہے اس کے مطابق ان زیورات پہ زکوٰۃ ہونی چاہئے۔ پھر بعض زمینداروں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے ان کو اپنی زکوٰۃ اداکرنی چاہئے۔ تو یہ ایک بنیاد ی حکم ہے اس پر بہرحال توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 31مارچ 2006ء، الفضل انٹرنیشنل21تا27اپریل2006ء، مشعل راہ جلد پنجم حصہ سوم،ارشادات حضرت خلیفتہ المسیح الخامس(ایدہ اللہ تعالی)ص 207تا 210)

نظام جماعت کو اخراجات کے بارہ احتیاط کرنی چاہیے

… جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوشش کرتی ہے کہ کم از کم وسائل کو زیر استعمال لا کر زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے۔ یہ معاشیات کا سادہ اصول ہے۔ اور دوسری دنیا میں تو پتہ نہیں اس پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں لیکن جماعت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہئے۔ جو بھی جماعتی عہدیدار منصوبہ بندی کرنے والے یا کام کرنے والے یا رقم خرچ کرنے والے مقرر کئے گئے ہوں ان کو ہمیشہ اس کے مطابق سوچنا چاہئے اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ بعض دفعہ بے احتیاطیاں بھی ہو جاتی ہیں اس لئے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جو ذمہ دار افراد ہیں وہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کریں کہ جماعت کا ایک ایک پیسہ بامقصد خرچ ہونا چاہئے۔ جماعت میں اکثریت ان غریب لوگوں کی ہے جو بڑی قربانی کرتے ہوئے چندے دیتے ہیں اس لئے ہر سطح پر نظام جماعت کو اخراجات کے بارے میں احتیاط کرنی چاہئے کہ ہر پیسہ جو خرچ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ ہو اوراللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی پر خرچ ہو۔ جب تک ہم اس روح کے ساتھ اپنے اخراجات کرتے رہیں گے، ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت ڈالتا رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ ابھی تک جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے کہ جہاں کسی کام پر دوسروں کا ایک ہزار خرچ ہو رہا ہو وہاں جماعت کوایک سو خرچ کرکے وہ مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں۔ توجب تک اس طرح جماعت احتیاط کے ساتھ خرچ کرتی رہے گی،برکت بھی پڑتی رہے گی۔ جہاں قربانیاں کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی قربانیاں تمام قسم کی بدظنیوں سے بالا ہو کر پیش کریں گے اور جماعت کے افراد اسی سوچ کے ساتھ کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ خرچ کرنے والے احتیاط سے خرچ کرنے والے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے۔

چندہ پر معترض لوگ

بعض لوگ ایسے بھی ہیں، چند ایک ہی ہیں، جو مالی لحاظ سے بہت وسعت رکھتے ہیں لیکن چندے اس معیار کے نہیں دیتے اور یہ باتیں کرتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ جماعت کے پاس تو بہت پیسہ ہے اس لئے جماعت کو چندوں کی ضرورت نہیں ہے، جو ہم دے رہے ہیں ٹھیک ہے۔ جماعت کے پاس بہت پیسہ ہے یا نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پیسے میں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ برکت بہت زیادہ ہے۔ اس لئے معترضین اور مخالفین کو بھی یہ بہت نظر آتا ہے۔ معترضین تو شاید اپنی بچت کے لئے کرتے ہیں اور مخالفین کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی کئی گنا کرکے دکھا رہا ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ برکت ڈالتا ہے اور بے انتہا برکت ڈالتا ہے۔ مَیں نے یہاں بعض اپنوں کاذکر کیا تھا جو کہتے ہیں کہ پیسہ بہت ہے اس لئے یہ بھی ہونا چاہئے اور یہ بھی ہونا چاہئے اور خود ان کے چندوں کے معیار اتنے نہیں ہوتے۔ عموماً جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی منصوبہ بندی سے خرچ کرتی ہے۔ اس لئے ایسی باتیں کرنے والے بے فکر رہیں اور چندہ نہ دینے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے اپنے فرائض پورے کریں۔

(باقی آئندہ)

(سلطان نصیر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 10 جولائی 2020ء