• 25 اپریل, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 39)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 39

حضرت خواجہ باقی باللہؒ کی قبر پر دعا

بعض مقامات نزول برکات کے ہوتے ہیں اور یہ بزرگ چونکہ اولیاء اللہ تھے اس واسطے ہم ان کے مزار پر گئے۔ ان کے واسطے بھی ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اپنے واسطے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور دیگر بہت دعائیں کیں۔ لیکن یہ دو چار بزرگوں کے مقامات تھے جو جلد ختم ہوگئے۔ اور دہلی کے لوگ تو سخت دل ہیں۔ یہی خیال تھا کہ واپس آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے الہام ہوا۔

دست تو دعائے تو ترحم ز خدا

(ملفوظات جلد8 صفحہ213 ایڈیشن 1984ء)

مخاطبات و مکالمات کا دروازہ کھلا ہے

…اس امت کے لئے مخاطبات اور مکالمات کا دروازہ کھلا ہے اور یہ دروازہ گویا قرآن مجید کی سچائی اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ہر وقت تازہ شہادت ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ ہی میں یہ دعا سکھائی ہے۔ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کی راہ کے لئے جو دعا سکھائی تو اس میں انبیاء علیہم السلام کے کمالات کے حصول کی طرف اشارہ ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو جو کمال دیا گیا وہ معرفت الٰہی ہی کا کمال تھا۔ اور یہ نعمت ان کو مکالمات اور مخاطبات سے ملی تھی۔اسی کے تم بھی خواہاں ہو۔ پس اس نعمت کے لئے یہ خیال کرو کہ قرآن شریف اس دعا کی تو ہدایت کرتا مگر اس کا ثمرہ کچھ بھی نہیں یا اس اُمت کے کسی فرد کو بھی یہ شرف نہیں مل سکتا اور قیامت تک یہ دروازہ بند ہوگیا ہے۔ بتاؤ اس سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ثابت ہوگی یا کوئی خوبی ثابت ہوگی؟

(ملفوظات جلد8 صفحہ252 ایڈیشن 1984ء)

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ

قرآن شریف کو جہاں سے شروع کیا ہے ان ترقیوں کا وعدہ کر لیا ہے جو بالطبع روح تقاضا کرتی ہے۔ چنانچہ سورۃ فاتحہ میں اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) کی تعلیم کی اور فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ اے اللہ ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت فرما۔ وہ صراط مستقیم جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرے انعام و اکرام ہوئے۔ اس دعا کے ساتھ ہی سورہ البقرہ کی پہلی ہی آیت میں یہ بشارت دے دی ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۳﴾ (البقرہ: 3) گویا روحیں دعا کرتی ہیں اور ساتھ ہی قبولیت اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اور وہ وعدہ دعا کی قبولیت کا قرآن مجید کے نزول کی صورت میں پورا ہوتا ہے۔ ایک طرف دعا ہے اور دوسری طرف اس کا نتیجہ موجود ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے جو اس نے فرمایا۔ مگر افسوس دنیا اس سے بے خبر اور غافل ہے اور اس سے دور رہ کر ہلاک ہورہی ہے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ317-318 ایڈیشن 1984ء)

میّت کے واسطے دعا

میّت کے واسطے دعا کرنی چاہیئے کہ خدا تعالیٰ اس کے ان قصوروں اور گناہوں کو بخشے جو اس نے اس دنیا میں کئے تھے اور اس کے پس ماندگان کے واسطے بھی دعا کرنی چاہیئے… تم اپنی ہی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہو اور جس میں تم کو جوش پیدا ہوتا ہے میّت کے واسطے دعا کرو۔میّت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتا ہے۔ لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کی بجائے دعا ہے جو میّت کے حق میں کرنی چاہیئے۔ میّت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کا کرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنّت سے ثابت ہے۔ لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتا ہے۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ405 ایڈیشن 1984ء)

دعا کا جواب ضرور مل جاتا ہے
جواب خواہ حسب مراد ہو یا خلاف

بڑے شکر کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں جو دعائیں کی جاتی ہیں وہ اکثر قبول ہوتی ہیں۔ قضا و قدر تو رُک نہیں سکتی اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمتِ کاملہ سے ہر ایک کام کرتا ہے۔ لیکن اکثر دعاؤں میں اپنی مراد کے مطابق کامیابی ہوجاتی ہے اور ایک قطعی اور یقینی امر یہ ہے کہ دعا کا نتیجہ خواہ کچھ ہی ہونےوالا ہو۔ جواب ضرور مل جاتا ہے۔ خواہ وہ جواب حسب مراد ہو اور خواہ خلافِ مراد ہو… اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھی اخفاء ہوتا ہے اس واسطے میں ڈرتا ہوں کہ اس کے متعلق زیادہ دریافت کرنے کی کوشش کرنا کہیں بیہودگی نہ سمجھی جاوے۔ تاہم اللہ تعالیٰ غَفُورٌ رحیم ہے۔ وہ دعا سے ناراض نہیں ہوتا۔ لکھا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ کہا گیا کہ اگر تو فلاں اشخاص کے متعلق ستر دفعہ بھی دعا کرے تب بھی قبول نہ ہوگی تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں ستر سے بھی زیادہ دفعہ دعا کروں گا۔ ایسا ہی حضرت ابراہیمؑ نے قومِ لوط کے متعلق مجادلہ کیا۔ حالانکہ مجادلہ کرنا سوء ادب ہے۔ کیونکہ مجادلہ میں بے دلیل درخواست ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ دعا کا رنگ تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کو ناپسند نہیں فرمایا۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ410-411 ایڈیشن 1984ء)

ہمارا ہتھیار دعا ہے

مسیح موعود کے متعلق کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ تلوار پکڑے گا اور نہ یہ لکھا ہے کہ وہ جنگ کرے گا بلکہ یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دم سے کافر مریں گے یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعہ سے تمام کام کرے گا۔ اگر میں جانتا کہ میرے باہر نکلنے سے اور شہروں میں پھرنے سے کچھ فائدہ ہوسکتا ہے تو میں ایک سیکنڈ بھی یہاں نہ بیٹھتا۔ مگر میں جانتا ہوں کہ پھرنے میں سوائے پاؤں گھسانے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہوسکیں گے۔ دعا میں بڑی قوتیں ہیں۔

کہتے ہیں ایک دفعہ ایک بادشاہ ایک ملک پرچڑھائی کرنے کے واسطے نکلا۔ راستہ میں ایک فقیر نے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا کہ تم آگے مت بڑھو ورنہ میں تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا۔ بادشاہ حیران ہوا۔ اور اس سے پوچھا کہ تو ایک بے سروسامان فقیر ہے تو کس طرح میرے ساتھ لڑائی کرے گا؟ فقیر نے جواب دیا کہ میں صبح کی دعاؤں کے ہتھیار سے تمہارے مقابلہ میں جنگ کروں گا۔ بادشاہ نے کہا میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔

غرض دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔ جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا تعالےٰ اس کو ظاہر کرکے دکھادیتا ہے۔ گزشتہ انبیاء کے زمانہ میں بعض مخالفین کو نبیوں کے ذریعہ سے بھی سزا دی جاتی تھی مگر خدا جانتا ہے کہ ہم ضعیف اور کمزور ہیں ۔ اس واسطے اس نے ہمارا سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خشک ملا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لئے تمام سامان بھی مہیا ہوجاتے۔ جب ہماری دعائیں ایک نقطہ عروج پرپہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہوجائیں گے۔ نادان دشمن جو سیاہ دل ہے وہ کہتا ہے کہ ان کو سوائے سونے اور کھانے کے اور کچھ کام ہی نہیں۔ مگر ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں۔ سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالےٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ28-27 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

تاجر اور قاضی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 اگست 2022