• 8 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 55)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 55

پاکستان ایکسپریس

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت میں 24 دسمبر 2010ء صفحہ13 پر پورے صفحہ پر خاکسار کا مضمون خاکسا رکی تصویر کےساتھ شائع کیا۔ نیز روضہ حضرت امام حسین کی تصویر بھی ساتھ ہی شائع کی ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے ’’شہادت حضرت امام حسینؓ اور آپ کا بلند مقام‘‘ نفس مضمون وہی ہے جو اس سے پہلے گزر چکا ہے۔

دی انڈین ایکسپریس

دی انڈین ایکسپریس نے اپنی اشاعت میں ہمارے تبلیغی اشتہار بابت جلسہ سالانہ ویسٹ کوسٹ شائع کیا ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعودؑ اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصاویر کے ساتھ جلسہ کی تفاصیل مسجد بیت الحمید کی تصویر اور دیگر معلومات درج ہیں۔

انڈیا ویسٹ

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 24 دسمبر 2010ء صفحہ 23 پر 3 تصاویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی ہے۔ جس کی شہ سرخی یہ ہے کہ احمدیہ مسلم جماعت کے افراد ہالی ووڈ میں مسلم فا رپیس کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ ایک تصویر میں اسامہ ایک شخص کو یہ فلائر دے رہے ہیں اور دوسری 2 تصاویر میں سفیان فاروقی دو امریکن کو یہ فلائر دے رہے ہیں۔

خبر اور نفس مضمون ایک ہی ہے جو اس سے قبل دیگر اخبارات کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔

ہفت روزہ نیویارک عوام

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 24 تا30 دسمبر 2010ء صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’توہین رسالت اور مرتد کی سزا قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے لکھا ہے کہ اسلام جیسا پیارا اور امن پسند مذہب قبول کرنے کے بعد کفر کی طرف لوٹ جانا انتہائی مکروہ اور قبیح فعل ہے۔ اور کسی کلمہ گو سے آنحضرت ﷺ کی توہین، یہ تو اور بھی ناممکن ہے۔ اسلام ایک بین الاقوامی مذہب ہے اس کی تعلیم سب کے لئے بلا امتیاز اور سب زمانوں کے لئے قابل عمل ہے۔ اسلام میں جہاں مومنوں کے لئے کچھ قوانین اور ضابطے ہیں وہیں نہ ماننے والوں کے لئے بھی کچھ قوانین ہیں۔

آج مغرب اسلام پر معترض ہے کہ وہ مذہبی آزادی نہیں دیتا۔ شروع اسلام میں اور اب بھی کچھ مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے کہ اسلام جبر و اکراہ کے ساتھ پھیلا ہے۔ حالانکہ اسلام نہ پہلے جبر سے پھیلا تھا اور نہ اب پھیلے گا۔ یہ اپنی حسین تعلیم کے زور سے پھیلا ہے اور اب بھی اسی طرح پھیلے گا۔ مغرب کا یہ نقطہ نگاہ کہ اسلام جبر سے پھیلا ہے مسلمانوں کی اپنی غلط تشریحات کی وجہ سے ہے۔ اس ضمن میں خاکسار نے پھر چند قرآنی آیات درج کی ہیں۔ (آیات کے ترجمہ کی تشریح دی گئی ہے)

1۔ سورۃ البقرہ میں دین میں کوئی جبر نہیں۔ یہ آیت بڑے زور کے ساتھ اعلان کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذہب کے بارے میں جبر اور تشدد جائز نہیں رکھا۔ ہر ایک کو مکمل مذہبی آزادی حاصل رہے گی کیونکہ مذہب انسان اور خدا کا معاملہ ہے۔

2۔ سورۃ اٰل عمران میں یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کیا، پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی اور یہی وہ لوگ ہیں جو گمراہ ہیں۔ اس میں بھی کفر میں بڑھتے چلے جانے کا ذکر ہے۔ اگر ایک دفعہ مسلمان ہو کر پھر کافر ہو جائے تو اگر اس کی گردن زنی ہو گئی تو وہ کفر میں کس طرح بڑھتا چلا جائے گا؟ یعنی اسلام سے مرتد ہو جانے پر کسی کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔

3۔ تیسری آیت سورۃ النساء کی ہے۔ یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا۔ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کر دے۔

یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہرگز نہیں۔ اس کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے اگر کفر کی حالت ہی میں مرے گا تو جہنمی ہو گا اور وہ سزا بھی خدا نے اپنے اختیار میں رکھی ہوئی ہے۔ جاہل مولویوں اور ان کے پیروکاروں کو اختیا رنہیں کہ جلوس لے کر ایسے شخص پر ہلا بول دیا جائے اور اسے مار دیا جائے۔ اگر مرتد کی سزا قتل ہوئی تو اس کے بار بار ایمان لانے اور پھر کفر اختیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔

پس یہ زیادتی ہو گی اگر یہ کہا جائے کہ قرآن شریف میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ قرآن شریف ہر ایک کو مذہب اختیار کرنے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔

پس یہ تو واضح ہو گیا۔ اب دوسری بات یہ ہے کہ کسی مسلمان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اہانت رسول اللہ ﷺ کا مرتکب ہو۔ اگر کوئی اپنی ناسمجھی میں ایسا کر دے تو کیا اس کو قتل کر دیا جائے یا کوڑے مارے جائیں یا سنگسار کر دیا جائے یا جیل بھیج دیا جائے!

اس کے لئے ہمیں آنحضرت ﷺ کی پاک زندگی کا نمونہ دیکھنا ہو گا۔ سب سے پہلے طائف کا واقعہ دیکھتے ہیں: شریروں نے، بدمعاشوں نے، کفار نے، ظالموں نے پتھر مار مار کر آپ کو لہولہان کر دیا۔ پہاڑوں کا فرشتہ آکر کہتاہے کہ اجازت ہو تو ان کو ملیامیٹ کر دوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ نہیں شاید ان کی اولادیں ہی اسلام قبول کر لیں۔ آپ نے تو ان کے لئے دعا کی ہے۔ یہ تھا رحمۃ للعالمین کا اسوہ۔ کیا وہ توہین رسالت کے مرتکب نہ ہوئے تھے۔ کیوں پتھر مارنے کے ساتھ ساتھ وہ آپ کا تمسخر بھی کر رہے تھے۔ آپ پر آوازیں بھی کس رہے تھے۔

دوسرے حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے نفس کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ انتقام انسان کب لیتا ہے؟ جب اس کی ہتک کی جائےاسے بے عزت کیا جائے تو آپ کا یہ عظیم خلق تھا کہ آپ نے کبھی کسی سے بھی انتقام نہیں لیا۔

خاکسار نے اس مضمون میں یہ واقعہ بھی لکھا ہے کہ ایک خاتون آپ پر گند پھینکتی تھی ایک دن وہ نظر نہ آئی آپ اس کے گھر چلے گئے کیونکہ وہ بیمار تھی۔

وہ خاتون تو ہتک رسول کی کی مرتکب ہوئی تھی ہر دن! لیکن آپ نے کیا نمونہ اختیار کیا۔

پھر صلح حدیبہ کے موقع پر اگر واقعی کفار کو ہتک رسول کرنے پر سزا دینی ہوتی تھی تو آپ نے تو اس موقعہ پر کفار کی تمام شرائط کو قبول کر لیا۔ حتی کہ اپنے ہاتھ سے ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ بھی اڑا دیا۔ کیا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ ہتک رسول نہ تھی؟ کیا آپ رسول نہ تھے؟ 1500 صحابہ جانثاری کا نمونہ دکھانے کے لئے بے تاب تھے مگر آپ نے تو ایسا کچھ بھی نہ کیا منافقین کے سردار عبداللہ بن سلول سے آپ نے کیا سلوک فرمایا؟

آنحضرت ﷺ کو تو قرآن کریم کے اس حکم پر تعمیل کرنا تھا۔ فَاصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وہ آپ کو مجنون، دیوانہ اور نہ جانے کیا کیا کہتے تھے۔ لیکن آپ نے صبر کیا اور کسی کو قتل کی سزا نہ دی اور دنیاکے لئے آپ ایک نمونہ بن گئے۔

پس جب آپ کو صبر کی تلقین ہے تو آپ کے ماننے والے کیسے بے صبری دکھائیں گے اور اگر خدانخواستہ کس سے آپ کی شان میں گستاخی ہو جائے تو اس پر دکھ، ملال، تکلیف، بے چینی، اضطراب اور گھبراہٹ تو ضرور ہو گی مگر ہم خدا کے رسول ﷺ کے نمونے کو نہیں چھوڑ سکتے۔ کیونکہ ہمیں یہی حکم ہے کہ آپ کے نمونہ کو اختیار کیا جائے۔

ڈیلی بلٹن

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 18دسمبر 2010ء صفحہ A14 پر ہمارے 25 ویں جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی ہے کہ ’’مسلمانوں کا کنونشن ہو رہا ہے‘‘ اور پھر جلسہ سالانہ کی تفصیل دی ہے کہ مسلمانوں کا وہ گروہ جو کہتا ے کہ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ چینو میں اپنا سالانہ جلسہ منعقد کر رہا ہے جو کہ تین دن ہو گا۔ خواتین بھی اس موقعہ پر اپنا ایک علیحدہ اجلاس کریں گی۔ ہستی باری تعالیٰ، قرآن کریم اور بانی اسلام کے بارے میں تقاریر ہوں گی۔ امام شمشاد نے کہا ہے کہ جلسہ سالانہ کا مرکزی نقطہ یا موضوع مسلم فار پیس ہو گا تاکہ اسلام کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جاسکے۔

ہفت روزہ نیویارک عوام

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 31 دسمبر 2010ء تا 6 جنوری 2011ء صفحہ 12 پر خاکسار کے مضمون توہین رسالت اور مرتد کی سزا کی قسط دوم خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ قسط اول کے مضمون کا خلاصہ اس سے قبل گزر چکا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے مضمون کے بقیہ حصہ کو درج کیا ہے۔

ان احادیث کا ذکر ہے جن پر بعض مکتبہ فکر مرتد کی سزا قتل اور اہانت رسول کی سزا سنگساری یا موت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر قرآنی آیات اور سنت رسول یعنی اسوہ رسول کو اچھی طرح سمجھ لیتے تو پھر انہیں باقی واقعات کو سمجھنے میں آسانی ہو سکتی تھی۔ کیونکہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ قول قرآن اور فعل رسول میں نَعُوْذُ بِاللّٰہِ کوئی تضاد ہو۔ قرآن مقدم ہے اس کے بعد سنت رسول ﷺ اور پھر احادیث نبویہ ﷺ۔

حدیث نبوی کی تشریح قرآنی آیات کی روشنی میں ہو گی۔ بعض لوگ قرآن کریم کے احکامات پر زیادتی کر جاتے ہیں وہ بھلا احادیث پر کیوں زیادتی نہ کریں گے۔

پہلی روایت یا حدیث۔ مولانا مودودی صاحب نے اپنے رسالہ ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں صفحہ 15 پر ایک حدیث کا حوالہ درج کیا ہے۔ عبداللہ بن ابی سرح جو کاتب وحی تھے اسے شیطان نے پھسلا دیا۔ فتح مکہ پر آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ حضرت عثمان نے اس کی سفارش کر دی اور اس طرح وہ بچ گیا۔ حالانکہ جس طرح یہ واقعہ پیش کیا گیا ہے ایسا نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے محض ارتداد کی وجہ سے کسی کو نہ قتل کیا اور نہ اس کے قتل کئے جانے کا حکم دیا۔

یہ شخص نہ صرف مرتد ہوا بلکہ اپنی شرارت میں بڑھ چکا تھا اور مسلمانوں کے خلاف محاربت میں شامل تھا۔

حضرت عثمان نے کیوں ان کی معافی کرائی اور پناہ دی کیا آپ کو پتہ نہیں تھا کہ مرتد کی سزا قتل ہے؟ ایسے شخص کو پناہ دینا ہی بہت بڑا جرم تھا اور پھر آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان کو یہ نہیں فرمایا کہ عثمان یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟

تمہیں یہ علم نہیں کہ یہ خدا کی حدود ہیں اور خدا کی حدود میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں ہے۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک چوری کرنے والی خاتون کے بارے میں اسامہ کو جواب دیا تھا۔

خاکسار نے اس ضمن میں قریباً دس (مرد و خواتین) کا ذکر کیا ہے کہ انہیں صرف مرتد ہونے کی بنا پر سزا نہیں ہوئی تھی نہ سزا دی گئی تھی۔ کیونکہ یہ قرآنی منشاء کے خلاف ہے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ان کے اور بہت سے گھناؤنے جرم تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں سزا دی گئی اور بعض کو معاف بھی کر دیا گیا۔ اگرچہ اس فہرست میں مرتد بھی شامل ہیں لیکن ارتداد کی وجہ ان کے لئے قتل کی سزا نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے صرف قتل کرنے کے شوق میں بعض ضعیف روایت کا سہارا لیا ہے اور حد سے گزر گئے۔ پس آنحضرت ﷺ کی زندگی میں کوئی ایک بھی واقعہ ایسا نہیں ثابت ہوتا کہ محض کسی کو ارتداد کی وجہ سے قتل کر دیا گیا ہو۔ اگر کسی کو (جو مرتد ہوا تھا) سزا دی گئی ہے تو وہ اس کے دوسرے جرموں کی وجہ سے تھا۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 31 دسمبر 2010ء صفحہ 13 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’مرتد کی سزا قرآن و حدیث کی روشنی میں‘‘ قسط اول خاکسار کی تصویر کےساتھ شائع کی ہے۔

اس مضمون کا خلاصہ دوسرے اخبار کی اشاعت کی تفصیل میں آچکا ہے۔

نوٹ: یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل واحسان ہے کہ ان پاکستانی اخبارات (اردو) جو امریکہ کے مختلف شہروں سے شائع ہوتے ہیں میں جماعت احمدیہ کا نقطہ نگاہ جو عین قرآن کریم کے احکامات، سنت رسول اللہﷺ اور آپ کی تعلیمات کے مطابق ہیں کو شائع کرانے کی توفیق ملی اور بہت سے اردو دان طبقہ نے اس کو سراہا لیکن نیویارک میں خصوصاً علماء اور ان کے ماننے والوں نے اس کی سخت مخالفت بھی کی لیکن حق ہمیشہ بالا ہی رہا ہے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

اب ہم سال 2011ء میں داخل ہوتے ہیں۔ اس سال میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے پیغام حق کے پہنچانے میں پریس اور میڈیا نے بہت تعاون کیا۔ (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ)

ویسٹ سائڈ سٹوری نیوز

ویسٹ سائڈ سٹوری نیوز نے اپنی اشاعت 6 جنوری 2011ء میں اس عنوان سے خبر دی:۔

پاکستانی گورنر تاثیر جو اقلیتوں کے مددگار تھے، کے بہیمانہ قتل پر امریکن مسلمان غمزدہ اور افسردہ ہیں۔

خبر کی تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو انہی کے باڈی گارڈ نے قتل کر دیا ہے۔ باڈی گارڈ نے یہ قتل اس لئے کیا کہ سلمان تاثیر نے اقلیتوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ جس میں خصوصیت کے ساتھ آسیہ بی بی ہیں۔ آسیہ بی بی پر یہ الزام تھا کہ اس نے توہین رسالت کی ہے۔ جب کہ آسیہ بی بی نے اس سے انکار کیا۔ لیکن عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی۔ گورنر سلمان تاثیر نے پاکستان کے صدر جناب آصف علی زرداری صاحب سے ان کی معافی کی درخواست کی تھی۔ نیز بتایا کہ پاکستان میں ایک ایسا قانون ہے جس کی وجہ سے اقلیتوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔ ان اقلیتوں میں شیعہ، عیسائی، سکھ، ہندو اور احمدی مسلمان بھی شامل ہیں۔

اخبار نے گذشتہ سال 2010ء میں لاہور میں ہماری احمدیہ مساجد پر حملہ کا بھی ذکر کیا کہ اس میں 100 سے زائد افراد مارے گئے اور اَسّی سے زائد زخمی بھی ہوئے۔ اخبار نے لکھا کہ پاکستان کے یہ گورنر واحد شخص ہیں جنہوں نے اس موقعہ پر اظہار ہمدردی کیا۔ اور سلمان تاثیر نے ہسپتال جا کر زخمیوں کی عیادت بھی کی اور ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ ’’احمدی مسلمان ہمارے بہن بھائی ہیں‘‘ اس موقعہ پر انسانی ہمدردی کے ناطے پر بین الاقوامی طور پر اُن کی بہت پذیرائی ہوئی۔ لیکن اندرونِ ملک بہت سے متشدّد طبقہ نے اُن کے قتل کئے جانے کا اعلان بھی کیا۔

مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نائب امیر امریکہ نے اس موقعہ پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’انسانی زندگی ایک مقدس امانت ہے اور یہ اسلامی تعلیم ہے۔ اسلام میں توہین مذہب پر اس قسم کی کوئی سزا نہیں ہے‘‘

لوکل جماعت کیلی فورنیا میں مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد ناصر نے گورنر پاکستان سلمان تاثیر کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور متاثرہ افراد اور خاندان کے ساتھ تعزیت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سلمان تاثیر ایک نڈر شخص تھے جو آمریت اور تشدّد کے خلاف آواز بلند کرتے تھے‘‘

امام شمشاد ناصر نے مزید کہا کہ ’’ہمیں برداشت کا مادہ اختیار کرنا چاہیئے اور اس قسم کے قانون کو ختم کرنا چاہیئے۔ کیوں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور قرآن پاک میں برداشت کی اور مذہبی آزادی کی تعلیم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی انتہا پسندی، دہشت گردی اور دوسرے کی جان لینا اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام میں ان چیزوں کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔‘‘

ایشیا ٹربیون

ایشیا ٹربیون نے اپنی اشاعت 7 جنوری 2011ء کے صفحہ 5 پر پورے صفحہ پر ہمارے جلسہ سالانہ ویسٹ کوسٹ کی خبر 12 تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ خبر کا عنوان ہے: ’’جماعت احمدیہ امریکہ ویسٹ کوسٹ کا تین روزہ جلسہ سالانہ۔‘‘

جلسہ میں امریکہ کی 35 جماعتوں سے 1300احباب نے شرکت کی۔ تصاویر میں ایک تصویر نائب امیر ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب کی، ایک تصویر مولانا نسیم مہدی صاحب مشنری انچارج امریکہ کی، ایک تصویر ڈاکٹر ظہیر الدین منصور احمد سیکرٹری نیشنل تعلیم القرآن کی۔ 4 تصاویر سامعین جلسہ کی، ایک تصویر سٹیج پر بیٹھے ہوئے افراد اور مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب کی تقریر کرتے ہوئے، ایک تصویر میں احباب جماعت آپس میں گفتگو کرتے ہوئے اور ایک تصویر میں خاکسار تقریر کرتے ہوئے۔ دوسری تصویر میں خاکسار دوران تقریر ہاتھ میں ’’مسلم فار پیس‘‘ کا پمفلٹ دکھاتے ہوئے، ایک تصویر میں ایک خادم تقریر کرتے ہوئے دکھائے ہیں۔ خبر کے نیچے لکھا ہے کہ مزید معلومات کے لئے امام شمشاد ناصر سے رابطہ کریں۔ مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر دیا گیا ہے۔ خبر کا متن یوں ہے:

جماعت احمدیہ امریکہ ویسٹ کوسٹ کا 25 واں تین روزہ جلسہ سالانہ کرسمس کی تعطیلات 24 تا 26 دسمبر کو چینو میں منعقد ہوا۔ جلسہ میں امریکہ کی 35 جماعتوں سے 1300 احباب جماعت نے شرکت کی۔ بعض قریبی ممالک سے بھی احباب شامل ہوئے۔ جلسہ کا آغاز 24 دسمبر کو مسجد بیت الحمید میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے ساتھ ہوا۔ ساؤتھ ویسٹ ریجن کے امام شمشاد ناصر نے خطبہ جمعہ دیا۔ اس جلسہ کا مرکزی موضوع مسلم فار پیس اور مسلم فار لائلٹی تھا۔ جلسہ کے پہلے دن کی صدارت مکرم ڈاکٹر حمید الرحمان صاحب نائب امریکہ امریکہ نے کی۔ انہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں جلسہ کی غرض و غایت اور اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اور جلسہ میں شرکت کرنے پر مہمانوں کو خوش آمدید اور شکریہ کہا۔

جلسہ سالانہ میں روحانی اور علمی موضوعات پر متعدد تقاریر کی گئیں جن میں ’’قرآنی رہنمائی اور اصلاح کا بہترین ذریعہ‘‘ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم امن کے داعی اور بچوں کی اسلامی تربیت اور والدین کی ذمہ داریاں جیسے موضوعات پر تھیں۔ جماعت احمدیہ کی خواتین (لجنہ اماء اللہ) کا بھی ایک علیحدہ سیشن ہوا۔ جس میں خواتین کے حوالے سے تقاریر کی گئیں جن کے موضوعات خانگی حالات میں خواتین کا کردار، ایک خدا پر ایمان لانے کی اہمیت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے بہترین اسوہ ہیں۔ جلسہ کے موقع پر بک سٹال بھی لگایا گیا تھا۔ نیز جلسہ کے تینوں دن لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ سے احباب کے لئے کھانا تیار کیا گیا۔

ہفت روزہ نیو یارک عوام

ہفت روزہ نیو یارک عوام نے اپنی اشاعت 7؍جنوری 2011ء کے صفحہ 1 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’سال نوکا تحفہ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ‘‘ خصوصی مضمون کے تحت خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے بتایا کہ ہم نئے سال 2011ء میں داخل ہوئے ہیں۔ ہماری دلی دعا ہے کہ یہ سال ہم سب کے لئے بہت بابرکت ہو۔ خدا اس سال کو سب کے لئے پیار، محبت اور امن والا بنا دے۔ ہر ایک کے دکھ دور ہوں۔ ہر ایک کی تکلیف آسان ہو۔ ہر ایک کی نیک تمنا پوری ہو اور ہر ایک کو امن نصیب ہو۔ ہر ایک دل میں خدااپنی محبت ڈال دے، خدا کے سوا کسی اور کا خوف دامنگیر نہ ہو۔ ہر ایک کو خدا اپنا بندہ بنا لے اور شیطان کے پنجہ سے رہائی دے۔ دجال کے رعب سے سب بچ جائیں، خدا ہر ایک کو دجال کی چالاکیوں اور دھوکہ بازیوں سے محفوظ رکھے۔ ہم الٰہی وعدہ سے ہر ایک کو بلاتخصیص سال نو کو تحفہ، جو ہمارے پیارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کو مسکراتے چہرہ سے عنایت فرماتے تھے ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ‘‘ دیتے ہیں۔ اس کے بعد خاکسار نے السلام علیکم کے اہمیت احادیث کی روشنی میں بیان کی کہ صحابہ بازاروں میں صرف ایک دوسرے پر سلامتی کا تحفہ بھیجنے کے لئے نکل جاتے تھے۔ یہ امن کا حقیقی معاشرہ تھا۔ اب تو مسلمان کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے۔ پاکستان کے گلی کوچوں میں مسلمان مسلمان کو قتل کرنے کے درپے ہے۔ مارنے والا بھی غازی اور قتل ہونے والا بھی شہید، ہر دوکلمہ گو ہیں۔

ہم کیسے ہر ایک کو دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت والا اور امن بانٹنے والا بنائیں؟ جواب تو ہر ایک جانتا ہے مگر اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ جواب یہ ہے کہ معاشرہ میں عدل اور انصاف کے ذریعہ۔عدل کے نام پر خون نہ کریں۔ عدل کے ترازو میں ہر ایک کو برابر تولیں۔ یہ نہ ہو کہ اپنے لئے تو عدل کا پیمانہ اور ہو اور غیر کے لئے پیمانہ بدل جائے۔ اس پر قرآن کریم کی آیت 91 جو سورۃ النحل کی ہے لکھی گئی ہے کہ اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ پھر فرمایا کہ صلح کرو اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ قرآن کی تعلیم کے مطابق تو ہمیں دشمن سے بھی انسان کرنا چاہیئے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کسی اور مذہب نے بھی دشمن کے ساتھ عدل و انصاف کی ایسی تعلیم دی ہے جیسی قرآن کریم نے! لیکن اس تعلیم سے مسلمان کہلانے والے بالکل غافل ہیں۔ خصوصاً پاکستان میں تو عدل و انصاف کا گویا نام ہی نہیں ہے۔ ایسا ملک جس کے باشندے مسلمان کہلاتے ہیں رسول پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام اور حرمت پر مٹ مرتے ہیں لیکن ان میں اتنی کرپشن، اتنی بے ایمانی، رشوت، جھوٹ پایا جاتا ہے کہ کافروں کا معاشرہ بھی اس کے سامنے شرمسار ہوجاتا ہے بلکہ کافر ملک انہیں اپنے ملک میں آنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچتے ہیں کہ انہیں ویزہ دیا جائے یا نہیں؟ خاکسار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بیان کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سات اشخاص ایسے ہوں گے جن پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہو گا۔ اور ان میں ایک اور پہلے نمبر پر ’’امام عادل‘‘ ہے یعنی ایسا حاکم جو اپنی رعایا سے بلاتمیز و تفریق انصاف کرے۔ یعنی اس کے نزدیک شیعہ، سنی، احمدی، عیسائی، سکھ، ہندو سب برابر ہوں۔ ریاست کے شہری ہونے کے لحاظ سے ہر ایک سے مساویانہ سلوک کرے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر جب ایک مسلمان اور یہودی کے درمیان تنازعہ تھا۔ یہودی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ خاکسار نے آخر میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی تعلیم کا ایک حصہ درج کیا ہے۔ جو کشتیٔ نوح سے ہے۔

’’اس کے بندوں پر رحم کرو اور اُن پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو…… تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو……… بدکار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ خائن اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ اور ہر ایک جو اس کے نام کیلئے غیرت مندنہیں اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا…… نوع انسان کے لئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔‘‘

(ہماری تعلیم، کشتیٔ نوح)

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 7 جنوری 2011ء میں صفحہ 23 پر خاکسار کا ایک مضمون انگریزی زبان میں اس عنوان سے شائع کیا ہے۔

‘‘If Jesus Visited Pakistan’’

کہ اگر عیسیؑ پاکستان کا وزٹ کریں۔ تو پھر ان کے ساتھ کیا ہوگا۔

خاکسار نے مضمون کے شروع میں لکھا کہ اگر مسیح علیہ السلام آج مسلمانوں اور عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق آسمان سے نازل ہوں جائیں اور وہ پاکستان جانا چاہئیں تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ کیا ان کا گرمجوشی سے والہانہ استقبال ہوگا یا انہیں فوراً قید کر کے جیل بھیج دیا جائے گا؟

یہ میں ایسا کیوں لکھ رہا ہوں۔ کیونکہ پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ اب اگر کوئی نبی ہونے، مصلح ہونے، ریفارمر ہونے کا دعویٰ کرے گا تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا جائے گا۔ 1974ء میں مسلمان طبقہ کے پریشر کی وجہ سے حکومت پاکستان کی قومی اسمبلی نے یہ قانون پاس کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی شخص اپنے آپ کو نبی، رسول، مصلح وغیرہ کہتا ہے تو اس کو قید کر کے جیل خانہ بھیج دیا جائے گا۔ پھر 1984ء میں جنرل ضیاء ڈکٹیٹر نے اس قانون میں مزید ترمیمات کیں اور خاص طور پر یہ قانون احمدیہ مسلم کمیونٹی کے خلاف بنایا گیا۔ یہ قانون سراسر بے انصافی پر مبنی ہے کیونکہ دنیا کی کسی پاور اور حکومت کو اللہ نے یہ اختیار دیا ہی نہیں کہ وہ کسی کے ایمان کا فیصلہ کرے یا کسی کے ایمان میں دخل اندازی کرے۔ اور اس قانون کے نتیجہ میں پاکستان میں اقلیتیں اپنے بنیادی حقوق سے محروم کر دی گئی ہیں۔ بلکہ اس قانون کی آڑ میں بعض لوگ دوسرے پر محض الزام لگا کر اپنے حسد اور کینہ کی وجہ سے دشمنی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے جیل بھجوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بلکہ ایسا ہوا ہے اور ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا جب تک یہ قانون ہے۔ ایک شخص دوسرے پر جھوٹا الزام لگا کر کہ یہ احمدی ہے یا اس نے توہین مذہب اور توہین رسالت کی ہے اس کی زمین اور جائیداد پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا قانون بناتے وقت انہوں نے یہ بات بالکل نہیں سوچی کہ ان کا اپنا ہی یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام مہدی نے آنا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی آنا ہے۔ تو کیا یہ مصلح یا ریفارمر نہ ہوں گے (حالانکہ آنے والے عیسیٰ کو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں 4 دفعہ نبی اللہ کے نام سے پکارا ہے) پھر ایک اور نکتہ یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰؑ آئیں گے۔ اگر ان کے پاس دنیا کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی اتھارٹی (نبی یا مصلح یا ریفارمر) والی نہ ہوگی تو وہ اپنے فرائض منصبی کس طرح ادا کریں گے۔ وہ تبلیغ کس حیثیت سے کریں گے؟

قرآن کریم نے تو انہیں (سورہ آل عمرآن آیت 50) کے مطابق نبی کے نام سے یاد کیا ہے۔ تو جب وہ آئیں گے تو قرآن تو انہیں نبی کے نام سے پکارے گا۔ اور مسلمان سکالر کس نام سے پکاریں گے۔ اگر نبی کے نام سے تو پھر پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی یا ریفارمر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ پھر ایک اور بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ قرآن مجید سے قطعاً اس بات کا ثبوت نہیں ملتا کہ حضرت عیسیٰؑ اس جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔ اور پھر اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ آسمان سے ہی اس مادی جسم کے ساتھ اتریں گے۔

جماعت احمدیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو (لعنتی موت) سے بچایا (جو بائیبل کہتی ہے) اور جب انہیں صلیب پر لٹکایا گیا تو وہ بے ہوش ہوگئے۔ اور سپاہیوں نے انہیں اتار کر ان کے حواریوں کے حوالے کیا۔ اور صحت یاب ہونے پر وہ کشمیر گئے۔ جہاں انہوں نے اسرائیل کے گھرانے کی بھیڑوں کو تبلیغ کی۔

پاکستان میں جو یہ قانون بنایا گیا ہے اس کی وجہ سے گزشتہ سال 28 مئی 2010ء کو لاہور میں جماعت احمدیہ کی 2 بڑی مساجد پر حملہ کیا گیا جس میں 80 سے زائد لوگ موقعہ پر ہی مارے گئے اور سو سے زیادہ زخمی ہوئے اور یہ سب اس قانون کی وجہ سے ہے جو 1974ء اور پھر 1984ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف بنا۔

میں تمام امریکنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ آبھی جائیں گے تو خدارا انہیں پاکستان کے وزٹ پر مت بھیجیں۔ انہیں وہاں گرفتار کر لیا جائے گا یا موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاءاللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین جولائی 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ