• 27 اپریل, 2024

چوتھی شرط بیعت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر چوتھی شرط بیعت کی یہ ہے ’’یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے، نہ ہاتھ سے، نہ کسی اور طرح سے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ159 اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘، اشتہار نمبر51)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’پہلا خلق ان میں سے عفو ہے‘‘ (معاف کرنا ہے)۔ یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا۔ اس میں ایصالِ خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے۔ وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایا جائے۔ سزا دلائی جائے۔ قید کرایا جائے۔ جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینا مناسب ہو تو اس کے حق میں ایصالِ خیر ہے۔ اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: 135)۔ وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشوریٰ: 41) یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو۔ لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو۔ کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہو۔ نہ غیر محل پر (یعنی اس بخشنے کا کا فائدہ ہو) تو اس کا وہ بدلہ پائے گا۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ351)

پھر فرمایا کہ:
’’انسان کو چاہئے شوخ نہ ہو۔ بے حیائی نہ کرے۔ مخلوق سے بد سلوکی نہ کرے۔ محبت اور نیکی سے پیش آوے۔ اپنی نفسانی اغراض کی وجہ سے کسی سے بغض نہ رکھے۔ سختی اور نرمی مناسب موقع اور مناسب حال کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ609۔ ایڈیشن 2003ء)

پھر عاجزی کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں: ’’اس سے پیشتر کہ عذاب الہٰی آکر توبہ کا دروازہ بند کر دے، توبہ کرو۔ جب کہ دُنیا کے قانون سے اس قدر ڈر پیدا ہوتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ خداتعالیٰ کے قانون سے نہ ڈریں۔ جب بلا سر پر آپڑے تو اس کا مزا چکھنا ہی پڑتا ہے۔ چاہیے کہ ہر شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملا دیں۔ ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے توبہ کریں۔ توبہ سے مراد یہ ہے کہ ان تمام بد کاریوں اور خدا کی نارضا مندی کے باعثوں کو چھوڑ کر ایک سچی تبدیلی کریں اور آگے قدم رکھیں اور تقویٰ اختیار کریں۔ اس میں بھی خدا کا رحم ہوتا ہے۔ عادات انسانی کو شائستہ کریں۔‘‘ (جو انسانی عادات ہیں انسان میں، اچھے اخلاق اُن میں اپنانے کی کوشش کرو) ’’غضب نہ ہو۔ تواضع اور انکساری اس کی جگہ لے لے‘‘ (غصہ کی جگہ عاجزی انکساری لے لے)۔ ’’اخلاق کی درستی کے ساتھ اپنے مقدور کے موافق صدقات کا دینا بھی اختیار کرو۔ وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا (الدھر: 9) یعنی خدا کی رضاکے لئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھانا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خاص اللہ تعا لیٰ کی رضا کے لئے ہم دیتے ہیں اور اس دن سے ہم ڈرتے ہیں جو نہایت ہی ہولناک ہے۔ قصہ مختصر دعا سے، توبہ سے کام لو اور صدقات دیتے رہو تا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم کے ساتھ تم سے معاملہ کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ134-135۔ ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ23 ؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

احمدیت ایک شریں نغمہِ اسلام ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 ستمبر 2021