• 6 مئی, 2024

برصغیر کے حاذق اور ماہر طبیب (قسط اول)

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہودؑ
برصغیر کے حاذق اور ماہر طبیب
حضرت اقدسؑ کی طب یونانی کے خواص اور میڈیکل سائنسز کے عجائبات پر مشتمل تحقیقات
(قسط اول)

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:

وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ ﴿ۙ۸۰﴾ وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۱﴾

(الشعراء: 80 تا 81)

ترجمہ: اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی ہے جو مجھے شفا دیتا ہے۔

جب سے انسان اس کرئہ ارض پر وارد ہوا ہے اسے آب و ہوا کی ناموافقت، غذا کی ناہمواری اور جذبات کے اتار چڑھائو کے سبب مختلف امراض سے نبرد آزما ہونا پڑتا رہا ہے اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ مرض اور صحت کا بہت گہرا ساتھ رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ مرض سے چھٹکارا پانے کے لئے انسان ہمیشہ سے مختلف تدابیر وضع کرتا رہا ہے۔ انہی تدابیر کے مجموعہ کو علم العلاج یا علم طب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ طب کے لغوی معنی علاج معالجہ کے ہیں۔ انسانی تاریخ میں آغاز سے ہی طبیب یعنی مادی بیماریوں کے علاج کے ماہر کی اہمیت بہت زیادہ رہی ہے۔ روحانی دنیا میں روحانی طبیب اور مسیحا۔ انبیاء، صوفیاء اور مصلحین کی صورت میں آتے رہے ہیں۔ سب سے بڑے روحانی طبیب سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کے ہاتھوں سے ہزاروں لاکھوں مریضوں نے شفاء پائی۔

حضرت مسیح موعودؑ اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی طبیب ہونے اور آپؐ کی قوت قدسیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ کیسی بدیہی اور صاف بات ہے کہ ایک طبیب اگرناقابل علاج مریضوں کو اچھا کردے، تو اس کو طبیب حاذق ماننا پڑے گا۔ …اسی طرح پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھوں مریضانِ گناہ کو اچھا کیا۔ حالانکہ ان مریضوں میں سے ہر ایک بجائے خود ہزارہاقسم کی روحانی بیماریوں کا مجموعہ اور مریض تھا جیسے کوئی بیمار کہے سردرد بھی ہے، نزول ہے، استسقاء ہے۔ وجع المفاصل ہے، طحال ہے وغیرہ وغیرہ تو جو طبیب ایسے مریض کا علاج کرتا ہے اور اس کو تندرست بنادیتا ہے۔ اس کی تشخیص اور علاج کو صحیح اور حکمی ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ ایسا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اچھا کیا ان میں ہزاروں روحانی امراض تھے جس جس قدر ان کی کمزوریوں اور گناہ کی حالتوں کا تصور کرکے پھر ان کی اسلامی حالت میں تغیر اور تبدیلی کو ہم دیکھتے ہیں۔ اسی قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور قوت قدسی کا اقرار کرنا پڑتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ116۔117)

حضرت مسیح موعود ؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

؎ہر اک آزار سے مجھ کو شفا دی
مرض گھٹتا گیا جوں جوں دوا دی
دوا دی اور غذا دی اور قبا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

(درثمین)

حضرت مسیح موعود ؑ خدا داد صلاحیتوں اورعلم طب میں غیرمعمولی تحقیق کی وجہ سے بلا شبہ برصغیر کے حاذق طبیب شمار کئے جاتے ہیں۔ آپؑ کے علم کلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے روحانی علوم کی معراج تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس عظیم شعبہ میں بھی گرانقدر معلومات بہم عطا فرمائی ہیں اس مضمون میں آپؑ کے علم کلا م او ر رو حانی خزائن میں سے طب اور اس سے متعلقہ علوم کے بارے میں مواد ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعہ کے بعد یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اس دور کے چوٹی کے طبیب تھے اور آپ کی نظر ان علوم پر بہت گہری تھی۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود ؑ کو روحانی علوم کے ساتھ طب کا بھی علم عطا فرمایا گیا۔ آپؑ نے طب کا ابتدائی علم اپنے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب سے حاصل کیا جن کی طبابت کا برصغیر کے کناروں تک شُہرہ تھا۔

حضرت مرزا غلام مرتضیٰ کی طبی صلاحیت

حضرت مسیح موعودؑ کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نہایت قابل اور حاذق طبیب تھے۔ دُور دُور سے لوگ معالجات کی خاطر ان کے پاس آتے اور فائدہ اٹھاتے اور آپ بلا امتیاز مذہب و ملت، امیر و غریب سب کو فیضیاب کرتے۔ طب آپ کا ذریعہ معاش نہ تھا۔ بلکہ محض مخلوق الٰہی کی نفع رسانی مد نظر تھی۔ قریباً ساٹھ سال آپ نے طبابت کی۔ کسی سے ایک پیسہ تک معاوضہ میں نہیں لیا۔ حتیٰ کہ بعض رؤسا نے اپنے علاج کے بدلے انعام میں گاؤں کے گاؤں آپ کو دینے کی کوشش کی لیکن آپ نے سب ٹھکرا دیا۔ بلکہ اکثر اوقات قیمتی ادویات اپنے پاس سے دیتے اور ہمیشہ سہل الحصول علاج تجویز فرماتے۔ اگر مریض کو گھر جاکے دیکھنے کی ضرورت ہوتی تو تشریف لے جاتے۔ آپ نے طب کا علم لاہور سے پڑھا اور پھر دہلی جاکر اس علم کی تکمیل کی۔

حضرت مسیح موعودؑ کا علم طب پڑھنا

حضرت مسیح موعودؑ کی جب ولادت ہوئی۔ اس وقت سلسلہ مدارس جاری نہ ہوا تھا۔ صاحب استطاعت لوگ اپنے گھروں پر استاد رکھ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود کو بھی اس طریق کے ماتحت آپ کے والد بزرگوار نے تعلیم دلائی اور اس وقت جو علوم آپ کو پڑھائے گئے ان میں سے ایک علم طب بھی تھا۔ حضرت اقدسؑ نے اپنے والد ماجد سے بھی طبابت کی کتابیں پڑھیں اور ان کی طرح ماہر اور حاذق طبیب بن گئے۔ اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ آپ کو خدائی الہام، کشوف اور رؤیا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے علوم سے بھی ممسوح کیا گیا جو عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ غریبوں، بے سہاروں، مستحقوں اور مسکینوں کی خدمت کرنا، ان کا علاج معالجہ کرنا اور ان کو مفت ادویات مہیا کرنا آپؑ نے اپنے والد سے ورثے میں پایا تھا۔ طب آپؑ کا بھی پیشہ یا ذریعہ معاش نہ تھا آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود و مہدی معہود مبعوث ہو کر اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپ کو اس قسم کے دنیاوی شعبہ جات سے کوئی سروکار نہ تھا بس آپ علم طبابت کو خدمت خلق کا ایک ذریعہ سمجھ کر اپنائے ہوئے تھے۔

فرماتے ہیں:

؎ مرا مقصودو مطلوب و تمنا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

حضرت اقدسؑ اپنی بچپن کی تعلیم کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا۔ تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہٰی تھا۔ اور جب میری عمر قریباً دس برس کے ہوئی۔ تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے۔ جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خداتعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی۔ اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صَرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے۔ اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خداتعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔ اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں۔ اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔ اور ان دنوں میں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میں نہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے باربار یہی ہدایت کرتے تھے۔ کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہئے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘

(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ179-181 حاشیہ)

چشم بصیرت سے مطالعہ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ (1835ء-1908ء) نے اپنی روحانی آنکھ اور چشم بصیرت سے جہاں ’’علم الادیان‘‘ پر ایسی انقلابی روشنی ڈالی کہ دن چڑھا دیا وہاں ’’علم الابدان‘‘ یعنی میڈیکل سائنس اور طب کے سلسلہ میں بھی پوری عمر بے شمار روحانی تجربات و مشاہدات کے بعد دنیائے طب کے لئے ایسے بیش قیمت رہنما اصول رکھے جو صرف اور صرف ایک ربانی مصلح ہی کی خدا نما شخصیت سے مخصوص ہو سکتے ہیں اور علم طب میں ایسی نایاب اور قیمتی موتیوں سے مرصع تحقیق پیش کرنے میں آج تک طب اور میڈیکل سائنس کے ماہر فا ضلوں کا لٹریچر بہت حد تک خاموش ہے جو حضرت مسیح موعود ؑ نے ہمارے سامنے رکھی۔ اس مایہ ناز علم کو آنحضرت ﷺ نے علم ادیان کے بعد دوسرا درجہ بخشا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی یہ حقیقت واضح فرمائی:
’’صحت عمدہ شے ہے، تمام کاروبار دینی اور دنیاوی صحت پر موقوف ہے صحت نہ ہو تو عمر ضائع ہو جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ244)

ضروری ادویات اپنے پاس رکھتے

حضرت مسیح موعودؑ نے باقاعدہ مطب نہیں کیا۔ کچھ تو خود بیمار رہنے کی وجہ سے اور کچھ چونکہ لوگ علاج پوچھنے آجاتے تھے۔ اس لئے آپ اکثر مفید اور مشہور ادویہ اپنے گھر میں موجود رکھتے تھے نہ صرف یونانی بلکہ انگریزی بھی ۔۔۔

سر کے دورے اور سردی کی تکلیف کے لیے سب سے زیادہ آپ مشک یا عنبر استعمال فرمایا کرتے تھے اور ہمیشہ نہایت اعلیٰ قسم کا منگوایا کرتے تھے۔ یہ مشک خریدنے کی ڈیوٹی آخری ایام میں حکیم محمد حسین صاحب لاہوری موجدمفرح عنبری کے سپرد تھی۔ عنبر اور مشک دونوں مدت تک سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراسی کی معرفت بھی آتے رہے۔ مشک کی تو آپ کو اس قدر ضرورت رہتی کہ بعض اوقات سامنے رومال میں باندھ رکھتے تھے کہ جس وقت ضرورت ہوئی فوراً نکال لیا۔

(حیات طیبہ صفحہ نمبر378)

خدا تعالیٰ خود علاج کرتا ہے

جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ اس دور کے ماہر، حاذق اور چوٹی کے طبیب بھی تھے۔ اور آپ کی نظرطبابت کے علوم پر بہت گہری تھی، آ پؑ نے علم طب کو روحانیت کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:۔ ’’اصل میں انسان جوں جوں اپنے ایمان کو کامل کرتا ہے اور یقین میں پکا ہوتا جاتا ہے توں توں اللہ تعالیٰ اس کے واسطے خود علاج کرتا ہے۔ اس کو ضرورت نہیں رہتی کہ دوائیں تلاش کرتا پھرے وہ خدا تعالیٰ کی دوائیں کھاتا ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کا علاج کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ539)

طبیب اپنے بیمار کے واسطے دعا کرے

آپؑ مخلوق خدا کے ساتھ ساتھ اپنا، اپنے خاندان، عزیزواقارب اور رفقاء خاص کا بھی علاج فرماتے اور دعا کے ذریعہ اللہ سے شفاء طلب فرماتے۔ دعا کے سلسلے میں آپؑ نے فرمایا:
’’طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمار کے واسطے دعا کیا کرے کیونکہ سب ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ53-54)

قرآن کریم اور آنحضرت ؐ کی صداقت

قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معقولی معجزات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:
اب اے نئی تحقیقات پر اترانے والو! خدا کے لئے ذرا انصاف کو کام میں لاؤ اور بتلاؤ کہ کیا وہ مذہب انسانی افترا ہو سکتا ہے جس میں ایسے حقائق پہلے سے موجود ہوں اور تیرہ سَوسال کی محنتوں، تحقیقاتوں اور جان کنیوں کا نتیجہ ہوں۔ یہ قرآن کریم اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معقولی معجزات ہیں اور دیکھو قلب دل کو کہتے ہیں اور قلب گردش دینے والے کو بھی کہتے ہیں۔ دل پر مدار دوران خون کا ہے۔ آج کل کی تحقیقات نے تو ایک عرصہ دراز کی محنت اور دماغ سوزی کے بعد دورانِ خون کا مسئلہ دریافت کیا لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سَو سال پیشتر ہی سے دل کا نام قلب رکھ کر اس صداقت کو مرکوز اور محفوظ کر دیا‘‘۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ170)

قرآن کریم کی عظمت اور علوم طبعی کی ترقی

’’ہمارا تو مذہب یہ ہے کہ علوم طبعی جس قدر ترقی کریں گے اور عملی رنگ اختیار کریں گے۔ قرآن کریم کی عظمت دنیا میں قائم ہوگی۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ362)

لمبی عمر پانے کاروحانی نسخہ

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے لمبی عمر پانے کا نسخہ تحریر فرمایا ہے، فرماتے ہیں :
’’دوسروں کے لئے دعا کرنے میں ایک عظیم الشان فائدہ یہ بھی ہے کہ عمر دراز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں اور مفید وجود ہوتے ہیں ان کی عمر دراز ہوتی ہے۔جیسا کہ فرمایا: وَ اَمَّا مَا یَنۡفَعُ النَّاسَ فَیَمۡکُثُ فِی الۡاَرۡضِ (الرعد: 18) اور دوسری قسم کی ہمدردیاں چونکہ محدود ہیں اس لئے خصوصیت کے ساتھ جو خیر جاری قرار دی جا سکتی ہے وہ یہی دعا کی خیر جاری ہے، جبکہ خیر کا نفع کثرت سے ہے تو اس آیت کا فائدہ ہم سب سے زیادہ دعا کے ساتھ اٹھا سکتے ہیں۔ اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ جو دنیا میں خیر کا موجب ہوتا ہے اس کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو شر کا موجب ہوتا ہے وہ جلدی اٹھا لیا جاتا ہے ۔۔۔ پس انسان کو لازم ہے کہ وہ خَیْرُالنَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ بننے کے واسطے سوچتا رہے اور مطالعہ کرتا رہے جیسے طبابت میں حیلہ کام آتا ہے اسی طرح نفع رسانی اور خیر میں بھی حیلہ ہی کام دیتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اس تاک اور فکر میں لگا رہے کہ کس راہ سے دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ353)

مختلف اشیاء میں اللہ تعالیٰ نے ہی خواص رکھے ہوتے ہیں، اس کی روشنی میں حضرت مسیح موعود اشیاء کے حقائق اور ان کے خواص کی حقیقت اور حکمت بیان کرتے ہوئے درج ذیل اقتباسات میں فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ اشیاء میں خواص رکھتا ہے

’’خواص الاشیاء کی نسبت کبھی یہ یقین نہ کیا جاوے کہ وہ خواص ان کے ذاتی ہیں بلکہ یہ ماننا چاہئے کہ وہ خواص بھی اللہ تعالیٰ نے ان میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ جیسے تر بد اسہال لاتی ہے یا سم الفار ہلاک کرتا ہے۔ اب یہ قوتیں اور خواص ان چیزوں کے خود بخود نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں رکھے ہوئے ہیں۔اگر وہ نکال لے تو پھر نہ تربد دست آور ہو سکتی ہے اور نہ سنکھیا ہلاک کرنے کی خاصیت رکھ سکتا ہے نہ اسے کھا کر کوئی مر سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ2)

حقائق الاشیاء کے ذرائع

’’مصری کی ایک ڈلی کو کان پر رکھیں، تو اس کامزہ معلوم نہ کر سکیں گے اور نہ اس کے رنگ کو بتلا سکیں گے۔ ایسا ہی اگر آنکھ کے سامنے کریں گے، تو وہ اس کے ذائقہ کے متعلق کچھ نہ کہہ سکے گی۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے کے لیے مختلف قویٰ اور طاقتیں ہیں۔ اب آنکھ کے متعلق اگر کسی چیز کا ذائقہ معلوم ہو اور وہ آنکھ کے سامنے پیش ہو،تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ اس چیز میں کوئی ذائقہ ہی نہیں یا آواز نکلتی ہو اور کان بند کر کے زبان سے وہ کام لینا چاہیں، تو کب ممکن ہے ………تاریخی امور تو تاریخ ہی سے ثابت ہوں گے اور خواص الاشیاء کا تجربہ بدوں تجربہ صحیحہ کے کیونکر لگ سکے گا۔ امور قیاسیہ کا پتہ عقل دے گی۔ اسی طرح پر متفرق طور پر الگ الگ ذرائع ہیں۔ انسان دھوکہ میں مبتلا ہو کر حقائق الاشیاء کے معلوم کرنے سے تب ہی محروم ہو جاتا ہے جبکہ وہ ایک ہی چیز کو مختلف امور کی تکمیل کا ذریعہ قرار دے لیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ190)

خواص الاشیاء۔ ہمارے علم کی بنیاد

’’علوم ہیں ہی کیا؟ صرف خواص الاشیاء ہی کا تو نام ہے۔ سیارہ، ستارہ، نباتات کی تاثیریں اگر نہ رکھتا تو اللہ تعالیٰ کی صفت علیم پر ایمان لانا انسان کے لئے مشکل ہو جاتا۔ یہ ایک یقینی امر ہے کہ ہمارے علم کی بنیاد خواص الاشیاء ہے۔ اس سے یہ غرض ہے کہ ہم حکمت سیکھیں۔ علوم کا نام حکمت بھی رکھا ہے۔ چنانچہ فرمایا: وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا۔ (البقرہ: 270)‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ79)

اشیاء کے خواص کی حکمت

فرماتے ہیں:
’’مجھے ایک واقعہ یاد ہے۔ ڈاکٹر خوب جانتے ہیں۔ عبدالکریم نام ایک شخص میرے پاس آیا۔ اس کے پیٹ کے اندر ایک رسولی تھی، جو پاخانہ کی طرف بڑھتی جاتی تھی۔ ڈاکٹروں نے اسے کہا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس کو بندوق مارکر مار دینا چاہئے۔ الغرض بہت سے امراض اس قسم کے ہیں جن کی ماہیت ڈاکٹروں کو بخوبی معلوم نہیں ہو سکتی۔ مثلاً طاعون یا ہیضہ ایسے امراض ہیں کہ ڈاکٹر کو اگر پلیگ ڈیوٹی پر مقرر کیا جاوے تو اسے خودہی دست لگ جاتے ہیں۔ انسان جہاں تک ممکن ہو علم پڑھے اور فلسفہ کی تحقیقات میں محو ہو جاوے، لیکن بالآخر اس کو معلوم ہوگا کہ اس نے کچھ ہی نہیں کیا ……… انتہائے عقل ہمیشہ انتہائے جہل پر ہوتی ہے۔ مثلاً ڈاکٹروں سے پوچھو کہ عصبہ مجوفہ کو سب وہ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ مگر نور کی ماہیت اور اس کا کنہ تو بتلائو کہ کیا ہے؟ آواز کی ماہیت پوچھو تو یہ تو کہہ دیں گے کہ کان کے پردہ پر یوں ہوتا ہے اور ووں ہوتا ہے، لیکن ماہیت آواز خاک بھی نہ بتلا سکیں گے۔ آگ کی گرمی اور پانی کی ٹھنڈک پر کیوں کا جواب نہ دے سکیں گے۔ کنہہ اشیاء تک پہنچنا کسی حکیم یا فلاسفر کا کام نہیں ہے۔دیکھئے ہماری شکل آئینہ میں منعکس ہوتی ہے، لیکن ہمارا سرٹوٹ کر شیشہ کے اندر نہیں چلا جاتا۔ ہم بھی سلامت ہیں اور ہمارا چہرہ بھی آئینہ کے اندر نظر آتا ہے۔ پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ چاند شق ہو اور شق ہو کر بھی انتظام دنیا میں خلل نہ آوے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ اشیاء کے خواص ہیں۔ کون دم مار سکتا ہے۔ اس لیے خداتعالیٰ کے خوارق اور معجزات کا انکار کرنا اور انکار کے لئے جلدی کرنا شتاب کا روں اور نادانوں کا کام ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ57)

خواص کے پردہ میں محجوب اشیاء

’’زمین کی ہر ایک چیز بزبان حال اپنی ثنا کر رہی ہے مثلاً سنا کہتی ہے کہ میں دوسرے درجہ کے آخری حصہ میں گرم اور اول درجہ میں خشک ہوں اور بلغم اور سودا اور صفرا اور اخلاط سوختہ کا مسہل ہوں اور دماغ کی منقّی ہوں اور صرع اور شقیقہ اور جنون اور صداع کہنہ و درد پہلو و ضیق النفس و قولنج و عرق النساء و نقرس و تشنج عضل وداء الثعلب وداء الحیہ اور حکہ اور جرب اور بثور کہنہ اور اوجاع مفاصل بلغمی و صفراوی مخلوط باہم اور تمام امراض سوداوی کو نافع ہوں اور ریوندبول رہی ہے کہ میں مرکب القویٰ ہوں اور دوسرے درجہ کی پہلے مرتبہ میں گرم اور خشک ہوں اور بالعرض مبرد بھی بوجہ شدت تحلیل ہوں اور رطوبات فضلیہ اپنے اندر رکھتی ہوں مجفف ہوں قابض ہوں جالی ہوں اور منضج اور مقطع موادلزجہ ہوں اور سموم باردہ کا تریاق ہوں خاص کر عقرب کیلئے اور اخلاط غلیظہ اور رقیقہ کا مسہل ہوں اور حیض اور بول کی مدر ہوں اور جگر کو قوت دیتی ہوں اور اس کے اور نیز طحال اور امعاء کے ُسدے کھولتی ہوں اور ریحوں کو تحلیل کرتی ہوںاور پرانی کھانسی کو مفید ہوں اور ضیق النفس اور سل اور قرحہ ریہ و امعاء اور استسقاء کی تمام قسموں اور یرقان سدی اور اسہال سدی اور ماساریقا اور ذوسنطاریا اور تحلیل نفخ اور ریاح اور اور ام باردہ احشا و تخمہ و مغص و بواسیر و نواسیر و تپ ربع کو مفید ہوں۔اور جدوار کہتی ہے کہ میں تیسرے درجہ کے اول مرتبہ میں گرم اور خشک ہوں اور حرارت غریزی سے بہت ہی مناسبت رکھتی ہوں اور مفرح اور مقوی قویٰ اور اعضاء رئیسہ دل اور دماغ اور کبد ہوں اور احشاء کی تقویت کرتی ہوں اور تمام گرم اور سرد زہروں کا تریاق ہوںاور اسی وجہ سے زرنباد اور مشک اور زنجبیل کا قلیل حصہ اپنے ساتھ ملا کر تیزاب گو گرد اور آب قاقلہ سفید اور آب پودینہ اور آب بادیان کے ساتھ ہیضہ و بائی کو باذن اللہ بہت مفید ہوں اور مسکن اوجاع اور مقوی باصرہ ہوں اورتفتیت حصاۃ اور قلع قولنج و عسر البول و رفع تپ ربع میں نفع رکھتی ہوں اور بقدر نیم مثقال گزیدہ مار اور عقرب کے لئے بہت ہی فائدہ مند ہوں یہاں تک کہ عقرب جرارہ کی بھی زہردور کرتی ہوں اور بید مشک اور عرق نیلوفر کے ساتھ دل کے ضعف کو بہت جلد نفع پہنچاتی ہوں اور کم ہوتی ہوئی نبض کو تھام لیتی ہوں اور گلاب کے ساتھ وجع مفاصل کو مفید ہوں اور سنگ گردہ اور مثانہ کو نافع ہوں اگر بول بند ہو جائے تو شیرہ تخم خیارین کے ساتھ جلد اس کو کھول دیتی ہوں اور قولنج ریحی کو مفید ہوں اور اگر بچہ پیدا ہونے میں مشکل پیش آجائے تو آب عنب الثعلب یا حلبہ یا شیرہ خار خسک کے ساتھ صرف دو دانگ پلانے سے وضع حمل کرا دیتی ہوں اور ام الصبیان اور اکثر امراض دماغی اوراعصابی کو مفید ہوں اوراورام مغابن یعنی پس گوش اور زیر بغل اور بن ران اور خناق اور خنازیراور تمام اورام گلو کو نفع پہنچاتی ہوں اور طاعون کے لئے مفید ہوں اور سرکہ کے ساتھ پلکوں کے ورم کو نفع دیتی ہوں اور دانتوں پر ملنے سے ان کے اس درد کو ساکن کر دیتی ہوں اور آنکھ میں چکانے سے رمد باردکو دور کر دیتی ہوں اور احلیل میں چکانے سے نافع حبس البول ہوں اور مشک وغیرہ ادویہ مناسبہ کے ساتھ باہ کیلئے سخت موثر ہوں اور صرع اور سکتہ اور فالج اور لقوہ اور استرخاء اور رعشہ اور خدر اور اس قسم کی تمام امراض کو نافع ہوں اوراعصاب اور دماغ کے لئے ایک اکسیر ہوں اور اگر میں نہ ملوں تو اکثر باتوں میں زرنباد میرا قائم مقام ہے۔

غرض یہ تمام چیزیں بزبان حال اپنی اپنی تعریف کر رہی ہیں اور محجوب بانفسہاہیں یعنی اپنے خواص کے پردہ میں محجوب ہیں اس لئے مبدء فیض سے دور پڑگئی ہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ164۔163)

دیسی جڑی بوٹیوں کی اہمیت اور ان کے کارآمد ہونے کے حوالے سے فرمایا:
’’ہزاروں بوٹیاں اور انسانی فطرت جیسا بوٹیاں ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں اور جمادات میں بھی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں۔ کوئی چاندی کی کان ہے، کوئی سونے کی،کوئی تانبے اور لوہے کی۔ اسی طرح پر انسانی فطرتیں مختلف قسم کی ہیں۔ بعض انسان اس قسم کی فطرت رکھتے ہیں کہ وہ ایک گناہ سے نفرت کرتے ہیں اور بعض کسی اور قسم کے گناہ سے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ15)

دیسی جڑی بوٹیاں بہت کارآمد ہوتی ہیں

سیر میں برلب سڑک خود رو بوٹیوں کی طرف اشارہ کر کے اور حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب کو مخاطب کر کے حضرت اقدس نے فرمایا:
یہ دیسی بوٹیاں بہت کارآمد ہوتی ہیں مگر افسوس کہ لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے۔حضرت مولوی صاحب نے عرض کیا کہ یہ بوٹیاں بہت مفید ہیں۔ گندلوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ ہندو فقیر لوگ بعض اسی کو جمع کر رکھتے ہیں اور اسی پر گزارا کرتے ہیں۔ یہ بہت مقوی ہے اور اس کے کھانے سے بواسیر نہیں ہوتی۔ ایسا ہی کنڈیاری کے فائدے بیان کئے جو پاس ہی تھی۔

حضرت نے فرمایا:
’’ہمارے ملک کے لوگ اکثر ان کے فوائد سے بے خبر ہیں اور اس طرح توجہ نہیں کرتے کہ ان کے ملک میں کیسی عمدہ دوائیں موجود ہیں جو کہ دیسی ہونے کے سبب ان کے مزاج کے موافق ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ196)

سفوف بھلاوہ کی افادیت

’’سفوف بھلاہ کا ذکر تھا۔ فرمایا: باہ کے مایوسوں کے واسطے مفید ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ529)

مختلف علوم کے فلسفہ اور ان کے سائنسی عجائبات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’علم اور طبیعت کی مناسبت بعض کی فطرت علم حساب اور ہندسہ سے ایک مناسبت رکھتی ہے اور بعض کی علم طب سے اور بعض کی علم منطق اور کلام سے لیکن خود بخود یہ استعداد مخفیہ کسی کو محاسب اور مہندس یا طبیب اور منطقی نہیں بنا سکتی بلکہ ایسا شخص تعلیم استاد کا محتاج ہوتا ہے، اور پھر دانا استاد جب اس شخص کی طبیعت کو ایک خاص علم سے مناسبت دیکھتا ہے تو اس کے پڑھنے کی اس کو رغبت دیتا ہے اس کے مناسب یہ شعر ہے:

ہر کسے را بہر کارے ساختند
میل طبعش اندران اندا ختند‘‘

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد6 صفحہ19 حاشیہ)

علم عمل الترب کے خواص

’’علم عمل الترب ایک عظیم الشان علم ہے جوطبیعی کا ایک روحانی حصہ ہے جس میں بڑے بڑے خواص اور عجائبات پائے جاتے ہیں اور اس کی اصلیت یہ ہے کہ انسان جس طرح باعتبار اپنے مجموعی وجود کے تمام چیزوں پر خلیفۃاللہ ہے اور سب چیزیں اس کے تابع کر دی گئی ہیں اسی طرح انسان جس قدر اپنے اندر انسانی قویٰ رکھتا ہے تمام چیزیں ان قویٰ کی اس طرح پر تابع ہیں کہ شرائط مناسبہ کے ساتھ ان کا اثر قبول کر لیتی ہیں … اور یاد رکھنا چاہئے کہ جو قرآن کریم میں چار پرندوں کا ذکر لکھا ہے کہ ان کو اجزاء متفرقہ یعنی جدا جدا کر کے چار پہاڑیوں پر چھوڑا گیا تھا اور پھر وہ بلانے سے آگئے تھے یہ بھی عمل الترب کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عمل الترب کے تجارب بتلا رہے ہیں کہ انسان میں جمیع کائنات الارض کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ایک قوت مقناطیسی ہے اور ممکن ہے کہ انسان کی قوت مقناطیسی اس حد تک ترقی کرے کہ کسی پرند یا چرند کو صرف توجہ سے اپنی طرف کھینچ لے۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ504)

انسان عالم صغیر ہے

’’جاننا چاہئے کہ انسان بھی ایک عالم صغیر ہے اور عالم کبیر کے تمام شیون اور صفات اور خواص اور کیفیات اس میں بھری ہوئی ہیں جیسا کہ اس کی طاقتوں اور قوتوں سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ہر ایک چیز کی طاقت کا یہ نمونہ ظاہر کر سکتا ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ173 حاشیہ)

نادر الوقوع عجائبات

’’بڑی غلطی جو حکما کو پیش آتی ہے اور بڑی بھاری ٹھوکر جو ان کو آگے قدم رکھنے سے روکتی ہے یہ ہے کہ وہ امور کثیر الوقوع کے لحاظ سے نادرالوقوع کی تحقیق کے درپے نہیں ہوتے اور کچھ ان کے آثار چلے آتے ہیں ان کو صرف قصے اور کہانیاں خیال کر کے اپنے سر پر سے ٹال دیتے ہیں حالانکہ یہ قدیم سے عادت اللہ ہے جو امور کثیر الوقوع کے ساتھ نادر الوقوع عجائبات بھی کبھی کبھی ظہور میں آتے رہتے ہیں اس کی نظیریں بہت ہیں جن کا لکھنا موجب تطویل ہے اور حکیم بقراط نے اپنی ایک طبی کتاب میں چند چشم دید بیماروں کا بھی حال لکھا ہے۔جو قواعد طبی اور تجربہ اطباء کے رو سے وہ ہر گزقابل علاج نہیں تھے مگر ان بیماروں نے عجیب طور پر شفاپائی جس کی نسبت ان کا خیال ہے کہ یہ شفا بعض نادر تاثیرات ارضی یا سماوی سے ہے۔اس جگہ ہم اس قدر اور لکھنا چاہتے ہیں کہ یہ بات صرف نوع انسان میں محدود نہیں کہ کثیر الوقوع اور نادر الوقوع خواص کا اس میں سلسلہ چلا آتا ہے بلکہ اگر غور کر کے دیکھیں تو یہ دوہرا سلسلہ ہر یک نوع میں پایا جاتا ہے مثلاً نباتات میں سے آک کے درخت کو دیکھو کہ کیسا تلخ اور زہر ناک ہوتا ہے مگر کبھی مدتوں اور برسوں کے بعد ایک قسم کی نبات اس میں پیدا ہو جاتی ہے جو نہایت شیریں اور لذیذ ہوتی ہے اب جس شخص نے اس نبات کو کبھی نہ دیکھا ہو اور معمولی قدیمی تلخی کو دیکھتا آیا ہو بے شک وہ اس نبات کو ایک امر طبعی کی نقیض سمجھے گا ایسا ہی بعض دوسری نوع کی چیزوں میں بھی دور دراز عرصہ کے بعد کوئی نہ کوئی خاصہ نادر ظہور میں آجاتا ہے کچھ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ مظفرگڑھ میں ایک ایسا بکرا پیدا ہوا کہ جو بکریوں کی طرح دودھ دیتا تھا۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 ص98)

علوم فلسفہ طب بذریعہ اہل عرب آئے

’’انگریزوں کا اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ انگلستان میں علوم و فنون کا پودہ عرب کے عالیشان مدارس سے آیا ہے اور دسویں صدی میں جب کہ یورپ جہالت میں پڑا ہوا تھا۔ اہل یورپ کو تاریکی جہالت سے علم و عقل کی روشنی میں لانے والے مسلمان ہی تھے۔ (دیکھو صفحہ95 کتاب جان ڈیون پورٹ صاحب) ایسا ہی رائے بہادر ڈاکٹر چیتن شاہ صاحب آنریری سرجن اور ڈاکٹر دتامل صاحب سول سرجن پنجاب ریویو جلد نہم میں لکھتے ہیں کہ اہل یورپ کو اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ تمام علوم فلسفہ طب وغیرہ بذریعہ اہل عرب ان تک پہنچے ہیں۔ کیمسٹری یعنے علم کیمیا بھی اہل یورپ نے عروج سلطنت اسلامیہ میں عربوں سے حاصل کیا ہے۔ اگرچہ ہندی طبابت نے (جو بزعم آریوں کے ویدوں سے لی گئی ہے) جو ہماری اپنی وطنی طبابت ہے یونانی اور انگریزی طبابت سے کوئی چیز عاریتاً نہیں لی۔‘‘

(شحنہ حق، روحانی خزائن جلد2 صفحہ362)

پیوند کاری اور انسانی صانعیت

’’یورپ کے اکثر کاریگر دانتوں کی جگہ دانت اور آنکھ کی پتلی کی جگہ آنکھ کی پتلی اور ٹانگوں کی جگہ ٹانگ اور بالوں کی جگہ مصنوعی بال لگا کر گزارہ چلا دیتے ہیں۔ بعض حکیموں نے چاند بنا کراور چڑھا کر محدود حد تک اس کی روشنی سے کام لیا ہے بعض نے پرند بنا کر کنجی دینے سے ایک حد تک انہیں اڑا کر دکھلا دیا ہے اور بعض نے مینہہ برسنے کی ترکیب نکالی اور کسی حدکے اندر اندر مینہہ برسادیا ایسا ہی قسم قسم کے پھول اور پھل اور موتی و دیگر جوہرات ایسے بنائے گئے ہیں جو دیکھنے والوں کو حیران کر دیا ہے اور ابھی انسان کی صانعیت کی کچھ انتہا نہیں کیونکہ وہ ترقیات غیر محدود کے لئے پیدا کیا گیا ہے جن کی تحصیل کے لئے وہ فطرتاً مشغول ہے۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ201 حاشیہ)

کیمرہ کے ذریعہ امراض کی تشخیص

’’یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت ﷺ کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھا اور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وجع المفاصل و نقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اورمرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ایسا ہی فوٹوکے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔چنانچہ بعض انگریزوں نے فوٹو کے ذریعہ سے دنیا کے کل جانداروں یہاں تک کہ طرح طرح کی ٹڈیوں کی تصویریں اور ہر ایک قسم کے پرند اور چرند کی تصویریں اپنی کتابوں میں چھاپ دی ہیں۔جس سے علمی ترقی ہوئی ہے۔پس کیا گمان ہو سکتا ہے کہ وہ خدا جو علم کی ترغیب دیتا ہے وہ ایسے آلہ کا استعمال کرنا حرام قرار دے جس کے ذریعہ سے بڑے بڑے مشکل امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور اہل فراست کے ہدایت پانے کا ایک ذریعہ ہو جاتا ہے۔‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ366)

نیک نطفہ پر روح القدس کا اثر

’’جب بچہ پیٹ میں پڑتا ہے تو اس وقت اگر بچہ سعید اور نیک ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر روح القدس کا سایہ ہوتا ہے اور اگر بچہ شقی ہے اور بد ہونے والا ہے تو اس نطفہ پر شیطان کا سایہ ہوتا ہے۔‘‘

(رسالہ دعوت قوم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ56)

انسانی جسم میں سلسلہ تحلیل

’’کَانَا یَاۡکُلٰنِ الطَّعَامَ

(المآئدہ: 76)

یعنی وہ دونوں حضرت مسیحؑ اور آپ کی والدہ صدیقہ کھانا کھایا کرتے تھے۔ اب آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کیوں کھانا کھاتا ہے اور کیوں کھانا کھانے کا محتاج ہے۔ اس میں اصل بھید یہ ہے کہ ہمیشہ انسان کے بدن میں سلسلہ تحلیل کا جاری ہے یہاں تک کہ تحقیقات قدیمہ اور جدیدہ سے ثابت ہے کہ چند سال میں پہلا جسم تحلیل پا کر معدوم ہو جاتا ہے اور دوسرا بدن بدل مایتحلل ہو جاتا ہے اور ہر ایک قسم کی جو غذا کھائی جاتی ہے اس کابھی روح پر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ امر بھی ثابت شدہ ہے کہ کبھی روح جسم پر اپنا اثر ڈالتی ہے اور کبھی جسم روح پر اپنا اثر ڈالتا ہے جیسے اگر روح کو یکدفعہ کوئی خوشی پہنچتی ہے تو اس خوشی کے آثار یعنی بشاشت اور چمک چہرہ پر بھی نمودار ہوتی ہے اور کبھی جسم کے آثار ہنسنے رونے کے روح پر پڑتے ہیں۔‘‘

(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد6 صفحہ92)

علم طب کی حقیقت، کرشمے اور فوائد کے بارے میں حضرت اقدس فرماتے ہیں:

طبابت بہت عمدہ پیشہ ہے

فرمایا: ’’تحصیل دین کے بعد طبابت کا پیشہ بہت عمدہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ334)

مامور وقت کے یہ الفاظ طبیبوں اور ڈاکٹروں کے لئے ایک سنہری سر ٹیفیکیٹ کا درجہ رکھتے ہیں۔

عمیق در عمیق طب

’’ایک دفعہ مجھے بعض محقق اور حاذق طبیبوں کی بعض کتابیں کشفی رنگ میں دکھلائی گئیں۔جو طب جسمانی کے قواعد کلیہ اور اصول علمیہ اور ستہ ضروریہ وغیرہ کی بحث پر مشتمل اور متضمن تھیں جن میں طبیب حاذق قرشی کی کتاب بھی تھی اور اشارہ کیا گیا کہ یہی تفسیر قرآن ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ علم الابدان اور علم الادیان میں نہایت گہرے اور عمیق تعلقات ہیں اور ایک دوسرے کے مصدق ہیں اور جب میں نے ان کتابوں کو پیش نظر رکھ کر جو طب جسمانی کی کتابیں تھیں۔ قرآن شریف پر نظر ڈالی تو وہ عمیق در عمیق طب جسمانی کے قواعد کلیہ کی باتیں نہائت بلیغ پیرایہ میں قرآن شریف میں موجود پائیں۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ103)

طب کے وراء محکمہ

’’طب تو ظاہری محکمہ ہے۔ ایک اس کے وراء محکمہ پردہ میں ہے جب تک وہاں دستخط نہ ہو کچھ نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ353)

ہرقوم کو طب سے استفادہ کرنا چاہئے

چند مولوی اور مدرسہ طبیہ کے چند طالب علم اور طبیب آئے۔ طب کا ذکر درمیان میں آیا۔ حضرت نے فرمایا:
’’مسلمانوں کو انگریزی طب سے نفرت نہیں کرنی چاہئے۔ اَلْحِکْمَۃُ ضَآلَّۃُ الْمُؤْمِنِ حکمت کی بات تومومن کی اپنی ہے۔ گم ہو کر کسی اور کے پاس چلی گئی تھی۔ پھر جہاں سے ملے جھٹ قبضہ کرلے اس میں ہمارا یہ منشا نہیں کہ ہم ڈاکٹری کی تائید کرتے ہیں بلکہ ہمارا مطلب صرف یہ ہے کہ بموجب حدیث کے انسان کو چاہئے کہ مفید بات جہاں ملے وہیں سے لے لے۔ ہندی، جاپانی، یونانی، انگریزی ہر طب سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے اور اس شعر کا مصداق اپنے آپ کو بنانا چاہئے۔

؎تمتع زہر گوشہ یا فتم
زہر خرمنے خوشہ یا فتم

تب ہی انسان کامل طبیب بنتا ہے۔ طبیبوں نے تو عورتوں سے بھی نسخے حاصل کئے ہیں … لَیْسَ الْحَکِیْمُ اِلَّا ذُوْ تَجْرِبَۃٍ لَیْسَ الْحَلِیْمُ اِلَّا ذُوْعُسْرَۃٍ۔ حکیم تجربہ سے بنتا ہے اور حلیم تکالیف اٹھا کر حلم دکھانے سے بنتا ہے اور یوں تو تجربوں کے بعد انسان رہ جاتا ہے کیونکہ قضا و قدر سب کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ507)

طبی کرشمے اور عجائبات

’’مسیح کے معجزات جو قصص کے رنگ میں ہیں ان سے کوئی فوق العادت تائید الہٰی کا پتہ نہیں لگتا۔ جبکہ آج اس سے بڑھ کر طبی کرشمے اور عجائبات دیکھے جاتے ہیں۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ خود انجیل میں ہی لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا۔ جس میں ایک وقت غسل کرنے والے شفا پا لیتے تھے اور اب تک یورپ کے بعض ملکوں میں ایسے چشمے پائے جاتے ہیں اور ہمارے ہندستان میں بھی بعض چشموں یا کنوئوں کے پانی میں ایسی تاثیریں ہوتی ہے۔ تھوڑے دن ہوئے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ کنوئیں کے پانی سے جذامی اچھے ہونے لگے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ85)

طبابت ظنی علم ہے

’’علم طبابت ظنی ہے۔ کسی کو کوئی دوا پسند کسی کوکوئی۔ ایک دو اایک شخص کے لیے مضر ہوتی ہے دوسرے کے لئے وہی دوا نافع، دوائیوں کا راز اور شفا دینا خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کسی کو یہ علم نہیں۔ کل ایک دوائی میں استعمال کرنے لگا تو الہام ہوا ’’خطرناک‘‘ دوائیں اندازہ کرنے پر مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ ضرورتوں کو لینا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ437)

بعض ادویہ کی بعض کے ساتھ مناسبت

طب اور معالجات کا تذکرہ تھا۔ فرمایا:
’’یہ سب ظنی باتیں ہیں علاج وہی ہے جو خداتعالیٰ اندر ہی اندر کر دیتا ہے جو ڈاکٹر کہتا ہے کہ یہ علاج یقینی ہے وہ اپنے مرتبہ اور حیثیت سے آگے بڑھ کر قدم رکھتا ہے۔ بقراط نے لکھا ہے کہ میرے پاس ایک دفعہ ایک بیمار آیا میں نے بعد دیکھنے حالات کے حکم لگایا کہ یہ ایک ہفتہ کے بعد مر جائے گا۔ تیس سال کے بعد میں نے اس کو زندہ پایا۔

’’بعض ادویہ کو بعض کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے۔ اسی بیماری میں ایک کے واسطے ایک دوا مفید پڑتی ہے اور دوسرے کے واسطے ضرر رساں ہوتی ہے۔ جب برے دن ہوں تو مرض سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر مرض سمجھ میں آجائے تو پھر علاج نہیں سوجھتا۔ اسی واسطے (مومن) جب ان علوم کے وارث ہوئے تو انہوں نے ہر امر میں ایک بات بڑھائی۔ نبض دیکھنے کے وقت سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا (البقرہ: 33) کہنا شروع کیا اور نسخہ لکھنے کے وقت ھُوَالشَّافِیْ لکھنا شروع کیا۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ296)

علاج کی پانچ صورتیں

اسی طرح فرمایا:
’’علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں دوا سے، غذا سے، عمل سے، پر ہیز سے علاج کیا جاتا ہے۔ ایک پانچویں قسم بھی جس سے سلب امراض ہے وہ توجہ ہے… … دعا بھی توجہ ہی کی ایک قسم ہوتی ہے توجہ کا سلسلہ کڑیوں کی طرح ہوتا ہے جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہیئے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ280)

دوران خون کا مسئلہ

دیکھو قلب دل کو کہتے ہیں اور قلب گردش دینے والے کو بھی کہتے ہیں۔ دل پر مداردوران خون کا ہے۔ آجکل کی تحقیقات نے تو ایک عرصہ دراز کی محنت اور دماغ سوزی کے بعد دوران خون کامسئلہ دریافت کیا لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پیشتر ہی سے دل کا نام قلب رکھ کر اس صداقت کو مرکوز اور محفوظ کر دیا۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ170)

(باقی آئندہ ان شاءاللہ)

(ترتیب و تحقیق: ابو سدید)

پچھلا پڑھیں

احمدیت ایک شریں نغمہِ اسلام ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 ستمبر 2021