• 18 مئی, 2024

اس بات کو یاد رکھیں کہ دعوتِ الی اللہ، اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس اس حوالے سے میں آسٹریلیا کی جماعت کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس بات کو یاد رکھیں کہ دعوتِ الی اللہ، اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے لیکن اس کے لئے، اس کے ساتھ اور اس کام کو کرنے کے لئے اپنے عمل اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے اور کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا نمونہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک جس کی آبادی 23 ملین کے قریب ہے لیکن رقبے کے لحاظ سے بہت وسیع ہے، بلکہ برّاعظم ہے لیکن بہر حال آبادی اتنی زیادہ نہیں ہے اور چند شہروں تک محدود ہے۔ بے شک بعض شہروں کا فاصلہ بھی بہت زیادہ ہے لیکن جیسا کہ میں نے جلسہ پر بھی کہا تھا کہ لجنہ، خدام اور انصار اور جماعتی نظام کو تبلیغ کے کام کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ ہمارا کام پیغام پہنچانا ہے، نتائج پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اگر ہم اپنے کام کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ نتائج بھی پیدا ہوں گے۔ کوئی ہمیں یہ نہ کہے کہ ہم تو جماعت احمدیہ کو جانتے نہیں۔ اتفاق سے میں نے عید والے دن یہاں سے جو ایم ٹی اے سٹوڈیو کا پروگرام آ رہا تھا دیکھا، تو ہمارے نائب امیر صاحب جو ہیں، خالد سیف اللہ صاحب، یہ بتا رہے تھے کہ 1989ء میں، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے عید اور جمعہ یہاں پڑھایا اور مسجد بہت بڑی لگ رہی تھی اور زیادہ سے زیادہ اڑھائی سو کے قریب یہاں آدمی تھے، اور اب اُن کے خیال کے مطابق اڑھائی ہزار کے قریب ہیں۔ اُس وقت تو میرا بھی فوری ردّ عمل یہی تھا کہ الحمد للہ۔ اور اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ تعداد بڑھائی۔ لیکن جب میں نے سوچا تو ساتھ ہی فکر بھی پیدا ہوئی کہ تقریباً چوبیس سال کے بعد یہ تعداد بھی زیادہ تر پاکستان اور فجی سے آنے والوں کی ہے۔ تبلیغ سے شاید دو چار احمدی ہوئے ہوں اور وہ بھی سنبھالے نہیں گئے۔ چوبیس سال میں یہاں کے لوکل، مقامی چوبیس احمدی بھی نہیں بنائے گئے۔ یعنی سال میں ایک احمدی بھی نہیں بنا۔ یہ تعداد جو بڑھی ہے، وہ یہاں کی تعداد میں اضافہ پاکستان اور فجی کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ آسٹریلیا کی جماعت کی کوشش سے نہیں ہوا۔ پس ہمیں حقائق سے آنکھیں بندنہیں کرنی چاہئیں اور ان کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ یہ فکر کی بات ہے۔ کم از کم میرے لئے تو یہ بہت فکر کی بات ہے۔ اسی طرح لوکل لوگوں کے علاوہ یعنی جو لوگ شروع میں یہاں آ کر آباد ہوئے، جو اَب اپنے آپ کو آسٹریلین کہتے ہیں، اُن کے علاوہ مقامی آبادی جو پہلے کی ہے، نیٹو (Native) ہیں، اُن کے علاوہ بھی یہاں عرب اور دوسری قومیں بھی آباد ہوئی ہیں۔ اُن میں بھی تبلیغ کی ضرورت ہے۔ باقاعدہ plan کر کے پھر تبلیغ کی مہم کرنی چاہئے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ آسٹریلین لوگوں میں سننے کا حوصلہ بھی ہے اور بات کرنا چاہتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں۔ اگر تعلقات بنا کر، رابطے کر کے ان تک پہنچا جائے تو کچھ نہ کچھ سعید فطرت لوگ ضرور ایسے نکلیں گے جو حقیقی دین کو قبول کرنے والے ہوں گے۔ ہر طبقے کے لوگوں تک اسلام کا امن اور محبت اور بھائی چارے کا پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔ میلبرن میں جو بعض لوگ مجھے ملے، وہ احمدیوں کو تو جانتے ہیں جن کی دوستیاں ہیں لیکن اکثر اُن میں سے ایسے تھے جن کو اسلام کے حقیقی پیغام کا پتہ نہیں تھا۔ وہ احمدیوں کو ایک تنظیم سمجھتے ہیں، اچھے اخلاق والے سمجھتے ہیں، لیکن اسلام کا بنیادی پیغام اُن تک نہیں پہنچا ہوا۔ پس اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔

ایک مخلص دوست کو جلسہ پر انعام دیا گیا کہ باوجود معذوری کے انہوں نے اسلام کا امن کے پیغام کا جو فلائر تھا وہ بیس ہزار کی تعداد میں تقسیم کیا۔ اب آپ کہتے ہیں کہ پورے ملک میں آپ چار ہزار کے قریب ہیں، ویسے میرا خیال ہے اس سے زیادہ ہیں۔ اگر اس سے نصف لوگ یعنی دو ہزار لوگ پانچ ہزار کی تعداد میں بھی فلائر تقسیم کرتے تو دس ملین تقسیم ہو سکتا تھا۔ گویا آسٹریلیا کی آدھی آبادی جو ہے اُس تک اسلام کا امن کا پیغام پہنچ سکتا تھا اور اسلام کی جو صحیح تصویر ہے ایک سال میں پھیلائی جا سکتی تھی۔ پھر تبلیغ کے لئے اگلا پمفلٹ تیار ہوتا، بلکہ اس کاچوتھا حصہ بھی اگر ہم تقسیم کرتے، بلکہ دسواں حصہ بھی تقسیم کرتے تو میڈیا کو توجہ پیدا ہو جاتی ہے، پھر اخبارات ہی اس پیغام کو اٹھا لیتے ہیں۔ اور کئی ملکوں میں اس طرح ہوا ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی اس طرح ہوا ہے۔ اور باقی کام ان کے ذریعہ سے ہو جاتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے میڈیا سے تعلقات بیشک اچھے ہیں، اور توجہ تو ہے لیکن اس کو اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ یہاں بہت سے بڑی عمر کے لوگ بھی جو آئے ہوئے ہیں اور مختلف ملکوں میں بھی آئے ہوئے ہیں اُن کو بھی مَیں یہی کہتا ہوں اور یہاں بھی یہی کہوں گا کہ ان کے پاس کام بھی کوئی نہیں ہے، گھر میں فارغ بیٹھے ہیں، اپنا وقت وقف کریں اور پمفلٹ وغیرہ تقسیم کریں۔ جماعت کالٹریچر ہے، لے جائیں، تقسیم کریں، تبلیغ کریں۔

(خطبہ جمعہ 18؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایم ٹی اے کے ذریعہ جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 ستمبر 2022