• 28 اپریل, 2024

’’اپنے جائزے لیں‘‘ (قسط 4)

’’اپنے جائزے لیں‘‘
از ارشادات خطبات مسرور جلد 5
قسط 4

(اس عنوان کے تحت حضرت امیر الموٴ منین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات قارئین کی خدمت میں قسط وار پیش کئے جارہے ہیں)

ایک دعا اور عہد
جو نفس کے جائزے لینے کی طرف متوجہ کرتاہے

ایک دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے دعا کی اے اللہ! آسمانوں اور زمین کو پیداکرنے والے، غیب اور حاضرکا علم رکھنے والے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرا بندہ اور رسول ہے۔ اگر تو نے مجھے میرے نفس کے سپرد کر دیا تو وہ مجھے برائی کے قریب کر دے گا اور نیکی سے دور کر دے گا اور مَیں صرف تیری رحمت پر ہی بھروسہ کر سکتا ہوں۔ پس تو میرے لئے اپنے پاس ایک وعدہ لکھ رکھ جسے تو میرے لئے قیامت کے دن پورا کرے۔ یقینا تو وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔جس شخص نے یہ دعا کی اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے قیامت کے دن یہ فرمائے گا کہ میرے بندے نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا پس اسے اس کے لئے پورا کردو۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کر دے گا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ95 مسند عبداللہ بن مسعودؓ حدیث نمبر 3916 ایڈیشن1998ء بیروت)

تو یہ دعا، ایک عہد، اس طرف بھی توجہ دلانے والا ہے کہ اپنے نفس کا بھی جائزہ لیتے رہناچاہئے کہ اللہ کے فضل اور رحم کی جب بھیک مانگ رہا ہے تو ایسے اعمال کی طرف بھی عموماً توجہ رہنی چاہئے جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہوں، اس کے بعد اگر کوئی کمیاں، خامیاں رہ جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے لیکن اصرار کرکے اگر کوئی صرف یہ کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھیک مانگتا ہوں اور زور ظلموں پر ہو، اس کے حکموں سے پیچھے ہٹنے والا ہو تو یہ پھر اس زُمرہ میں نہیں آئے گا۔ کیونکہ پہلے یہی کہا ہے کہ مَیں نفس کے سپرد نہ ہو جاؤں اور اگر یہ دعا مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نیکیاں کرنے کی بھی توفیق ملتی چلی جائے گی۔

(خطبات مسرور جلد5 صفحہ40)

آج بھی اگر ہم جائزہ لیں تو کسی نہ کسی رنگ میں شیطان حسد اور بغض کے جذبات بہت سوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے

ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’تم سے پہلی قوموں کی بیماریاں تم میں آہستہ آہستہ داخل ہو رہی ہیں۔ یعنی بغض اور حسد‘‘

اب یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر اس زمانے میں بھی غور کریں تو یہ چیزیں بھی دوبارہ داخل ہو رہی ہیں بلکہ ایک انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس پیغام کو لے کے آئے تھے اس میں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو توجہ تھی اس میں بھی بغض اور حسدایک بہت بڑی چیز ہے جو حقوق ادا نہ کرنے کی ایک وجہ بنتی ہے۔ تو جماعت کو ہمیشہ اس سے محفوظ رہنا چاہئے۔

فرمایا کہ… یہ بیماریاں تم میں آہستہ آہستہ داخل ہو رہی ہیں یعنی بغض اور حسد۔ ’’بغض مونڈھ دینے والی ہے۔ فرمایا: بالوں کو مونڈھنے والی نہیں بلکہ دین کو مونڈھنے والی۔ بُغض ایسی چیز ہے جو تمہارے دین کو ختم کر دے گی۔ فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کامل ایمان نہ لے آئو اور اس وقت تک کامل ایمان نہیں لا سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ اور کیا مَیں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتائوں جو اس محبت کو تم میں مضبوط کر دے گی، وہ بات یہ ہے کہ تم آپس میں سَلَام کو رواج دو۔‘‘

(الترغیب والترھیب جزء3 الترغیب فی افشاء السلام و ما جاء فی فضلہ…
حدیث نمبر3978۔ صفحہ 371-372)

پس جیسا کہ مَیں نے کہا آج بھی اگر ہم جائزہ لیں تو کسی نہ کسی رنگ میں شیطان حسد اور بغض کے جذبات بہت سوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے۔ پس کتنی بدنصیبی ہے کہ زمانے کے امام کو مان کر بھی ہم بعض حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں۔

پس اللہ تعالیٰ کی سلامتی حاصل کرنے کے لئے، اللہ اور رسول ؐ نے یہی راستہ بتایا ہے کہ سلام کو رواج دو۔ اس سے آپس میں دلوں کی کدورتیں بھی دور ہوں گی، محبت بھی بڑھے گی، عفو اور درگزر کی عادت بھی پیدا ہو گی اور پھر اس سے معاشرے میں ایک پیار اور محبت کی فضا پیدا ہو جائے گی جو کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک بڑا اہم حکم ہے جس سے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی۔

(خطبات مسرور جلد5 صفحہ196)

غریب ملکوں میں اگر جائزہ لیں تو ایسے یتیم ہیں جوغیرتربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے ناجائز کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں

بعض عہدیداروں کے بارے میں بھی شکایات ہوتی ہیں کہ بیوی بچوں سے اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ پہلے بھی مَیں ذکر کر چکا ہوں، اس ظلم کی اطلاعیں بعض دفعہ اس کثرت سے آتی ہیں کہ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا انقلاب پیدا کرنے آئے تھے اور بعض لوگ آپؑ کی طرف منسوب ہو کر بلکہ جماعتی خدمات ادا کرنے کے باوجود، بعض خدمات ادا کرنے میں بڑے پیش پیش ہوتے ہیں اس کے باوجود، کس کس طرح اپنے گھر والوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ رحم کرے اور ان لوگوں کو عقل دے۔ ایسے لوگ جب حد سے بڑھ جاتے ہیں اور خلیفۂ وقت کے علم میں بات آتی ہے تو پھر انہیں خدمات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ پھر شور مچاتے ہیں کہ ہمیں خدمات سے محروم کر دیا تو یہ پہلے سوچنا چاہئے کہ ایک عہدیدار کی حیثیت سے ہمیں احکام قرآنی پر کس قدر عمل کرنے والا ہونا چاہئے۔ سلامتی پھیلانے کے لئے ہمیں کس قدر کوشش کرنی چاہئے۔

پھر اسی آیت میں ایک یہ حکم ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یتیموں سے بھی احسان کا سلوک کرو کیونکہ یہ معاشرے کا کمزور طبقہ ہے پھر فرمایا مسکینوں سے بھی حسن سلوک کرو۔یہ دونوں طبقے یعنی یتیم اور مسکین معاشرے کے کمزور ترین طبقے ہیں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ اگر ان پر ظلم ہو رہا ہے تو ان کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا اور پھر بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ یہ کمزور طبقے ردّ عمل کے طور پر پھر فساد کی وجہ بنتے ہیں۔ اور فساد کی وجہ اس طرح ہے کہ پہلے چھوٹی چھوٹی باتوں اور برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ پھر مفاد اٹھانے والے گروہ ان لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ معاشرے کے خلاف ان کے ذہنوں میں زہر بھرتے ہیں۔ ایسا مایوس طبقہ جس کے حقوق ردّ کئے گئے ہوں، پھر یہ جائز سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ اپنا حق لینے کے لئے کر رہا ہے، وہ جو مرضی چاہے حرکتیں کر رہا ہو وہ ٹھیک کر رہا ہے۔ اس کو یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کے یہ ہمدرد ہی اس کے خیر خواہ ہیں جو حقیقت میں اس کو معاشرے میں فساد پھیلانے کے لئے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ غریب ملکوں میں اگر جائزہ لیں تو ایسے یتیم جن کے خاندانوں نے، ان کے عزیزوں نے ان کا خیال نہیں رکھا یا اس حیثیت میں نہیں کہ خیال رکھ سکیں خود بھی غربت نے انہیں پیسا ہوا ہے ایسے محروم بچے پھر تربیت کے فقدان کی وجہ سے بلکہ مکمل طور پر جہالت میں پڑجانے کی وجہ سے تعمیری کام نہیں کر سکتے اور پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں چڑھ جاتے ہیں جو ان سے ناجائز کام کرواتے ہیں۔

(خطبات مسرور جلد5 صفحہ228)

بعض آسودہ حال کو بخل کی وجہ سے کبھی خیال نہیں آتا کہ اپنے قریبی عزیزوں کی مالی ضرورت کا جائزہ لیں

کسی بھی معاشرے میں نسبتی لحاظ سے بھی اور واضح فرق کے لحاظ سے بھی امیر لوگ بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی ہوتے ہیں۔ ضرورت مندبھی ہوتے ہیں اور دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ بعض مالی کشائش ہونے کے باوجود طبیعتوں کے بخل کی وجہ سے نہ دینی ضرورتوں پر خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے پر یہاں تک کہ اپنے قریبی عزیزوں سے حُسنِ سلوک سے بھی بالکل بے پرواہ ہوتے ہیں۔ کبھی خیال نہیں آتا کہ ان کی مالی ضرورت کا جائزہ لے کر اس مال میں سے جو خداتعالیٰ نے انہیں دیا ہے ان پر بھی کچھ خرچ کر سکیں۔ نتیجةً بعض اوقات پھر رشتوں میں ایسی دراڑیں پڑنی شروع ہوتی ہیں اور بڑھتے بڑھتے اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ رشتوں کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ غریب رشتہ داروں کو تکلیف میں جب ضرورت ہوتی ہے اور جب ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، ان کے قریبی عزیز ضرورتیں پوری نہیں کرتے تو یہ باتیں اس حد تک بڑھ جاتی ہیں کہ پھر نفرتیں پنپنے لگتی ہیں۔ گو ایک مومن کا شیوہ نہیں کہ کسی دوسرے کی آسودگی اس کے دل میں حسد اور نفرت کے جذبات پیدا کرے۔ ہر اس شخص کو جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اپنے آپ کو ایسے جذبات سے پاک رکھنا چاہئے اور یہی ایک مومن کی شان ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اِلّاماشاء اللّٰہ جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی برکت سے اس قسم کے خیالات رکھنے والے اور دوسروں کی دولت پر نظر رکھنے والے نہیں ہیں، یا جیسا کہ مَیں نے کہا بہت کم ہوں گے، اِکاّ دُکاّ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا غریب طبقہ، جو کم و سائل والا طبقہ ہے وہ دوسرے کے پیسوں کو دیکھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتے ہوئے، اپنی طاقت سے بڑھ کر خداتعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں کرنے والا ہے۔ اور اگر گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو مالی لحاظ سے کمزور احمدی کا معیار قربانی یعنی اس کی آمد کی نسبت سے قربانی کا جو اس کا معیار ہے وہ اپنے آسودہ حال بھائیوں سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ بہرحال جو لوگ خوشحال ہیں، یا نسبتاً زیادہ بہتر حالت میں ہیں، ان کو اپنے ان عزیزوں کا جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، خیال رکھنا چاہئے کیونکہ آپس میں محبت پیار بڑھانے کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے۔

(خطبات مسرور جلد5 صفحہ236)

گزشتہ 100سال کا جائزہ لیں تو زلزلوں اور آسمانی
آفات کی تعداد گزشتہ کئی 100سال سے زیادہ ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی، پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ268 مطبوعہ لندن)

گزشتہ 100سال کا جائزہ لیں تو زلزلوں اور آسمانی آفات کی تعداد گزشتہ کئی 100سال سے زیادہ ہے۔ گزشتہ گیارہ بارہ سو سال میں اتنی آفات نہیں آئیں جتنی گزشتہ 100سال میں آئی ہیں۔ اس سال بھی کئی زلزلے اور طوفان آئے اور دنیا میں کئی جگہ آئے، یہ انسان کو وارننگ ہے کہ خدا کو پہچانو۔ ہر احمدی کا کام ہے کہ جہاں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے دنیا کو بھی بتائے کہ ان آفات سے بچنے کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ایک خدا کو پہچانو اور اس کے پیاروں کو ہنسی ٹھٹھے کا نشانہ نہ بنائو۔

ساری دنیا میں اس سال چند مہینوں میں جو قدرتی آفات آئی ہیں، ان کا مختصر جائزہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں، کبھی یہ نہیں ہوا کہ چند ماہ میں دنیا کا ہر خطہ کسی نہ کسی آفت کی لپیٹ میں آ گیا ہو لیکن اس سال آپ دیکھیں گے کہ ہر جگہ آفات آ رہی ہیں۔ ان کو بتائیں کہ اب بھی وقت ہے کہ انسان خدا کو پہچانے۔ یہ چھوٹے درجہ کی جو آفات ہیں یہ انتہائی درجہ کی بھی ہو سکتی ہیں۔

(خطبات مسرور جلد5 صفحہ 348)

مومن گزشتہ قوموں کے عذاب کے
واقعات پڑھ کراپنے جائزے لیتا ہے

اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَۃِ ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ (ہود: 104) یقینا اس بات میں ایک عظیم نشان ہے اس کے لئے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہو۔ یہ وہ دن ہے جس کے لئے لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور یہ وہ دن ہے جس کی شہادت دی گئی ہے۔

پس جب ایک مومن ان واقعات کو پڑھتا ہے جو پہلی قوموں پر ہو چکے ہیں۔ یعنی ان کے ظلموں اور زیادتیوں کی وجہ سے ان پر عذاب آئے یا ان آیات کو پڑھتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ مَیں ظلم و زیادتی کرنے والوں کو پکڑوں گا او رآخرت کا عذاب بہت سخت عذاب ہے تو ایک مومن کی روح کانپ جاتی ہے وہ اپنی اصلاح کی مزید کوشش کرتا ہے۔ ہر قسم کے ظلم سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ ایک مومن کی تو یہ شان ہے اور آنحضرتؐ نے ہمیں یہی سکھایا ہے اور یہی اُسوہ ہمارے سامنے پیش فرمایا کہ جب بادل یا آندھی وغیر ہ آتے تھے اور جب آپؐ اُن کو دیکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے بچنے کے لئے دعا کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی دعا کیا کرتے تھے۔ پس مومن ان سب باتوں کو دیکھ کر اپنا جائزہ لیتے ہیں اور ان میں خوف اور خشیت پیدا ہوتی ہے۔عذاب اور پہلے واقعات، یہی چیز ہے جو مومن کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

اللہ کرے کہ آنحضرت ؐ کی اُمّت کا ہر فرد، آپؐ سے منسوب ہونے والا ہر شخص اس حقیقت کو دل کی گہرائی سے سمجھنے والا ہو کہ ظلم و تعدی اور حد سے بڑھی ہوئی نافرمانی اور بغاوت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو توڑ مروڑ کر اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا خدا کے ہاں قابل مؤاخذہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم احمدیوں کو بھی سب سے بڑھ کر ان باتوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبات مسرور جلد5 صفحہ531)

(نیاز احمد نائک۔ استاد جامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

ایم ٹی اے کے ذریعہ جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 ستمبر 2022