• 27 اپریل, 2024

جماعت احمدیہ کا نظام خلافت (قسط 2)

جماعت احمدیہ کا نظام خلافت
قسط 2

(تسلسل کے لئے دیکھیں الفضل آن لائن موٴرخہ 3؍ستمبر 2022ء)

خلیفہ کا مقام اور مرتبہ

روحانی دنیا میں سب سے اعلیٰ وارفع اور بڑا مقام نبی اور رسول کا ہوتا ہے۔خلیفہ چونکہ نبی کاجانشین اور قائمقام ہوتا ہے اور نبی کے انوار و برکات خلیفہ میں منعکس ہوتے ہیں اور خلیفہ کا وہی کام ہوتا ہے۔جو نبی کا ہوتا ہے۔ لہٰذا نبی کے بعد خلیفہ کا مقام ہوتاہے۔

حضرت سید شاہ اسمٰعیل شہید علیہ الرحمۃ نے اپنی مشہور کتاب ’’منصب امامت‘‘ میں خلافت راشدہ کے مقام و مرتبہ کے بارہ میں بحث فرمائی ہے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’نکتہ دوم، خلیفہٴ راشد سایہٴ رب العالمین، ہمسایہٴ انبیاء مرسلین، سرمایہٴ ترقی دین اور ہم پایہٴ ملائکہ مقربین ہے۔ دائرہٴ امکان کا مرکز، تمام وجوہ سے باعث فخر اور ارباب عرفان کاافسر ہے۔ دفترِ انسی کا سر ہے۔اس کا دل تجلی ٴ رحمان کا عرش اور اس کا سینہ رحمتِ وافرہ اوراقبال جلالتِ یزداں کا پر تَو ہے۔اس کی مقبولیت جمال ربانی کا عکس ہے اس کا قہر تیغ قضاء اور مہر عطیات کا منبع ہے اس سے اعراض، معارضہٴ تقدیر اور اس کی مخالفت،مخالفت رب قدیر ہے۔جو کمال اس کی خدمت گزاری میں صرف نہ ہو، خیال ہے پُر از خلل اور جوعلم اس کی تعظیم و تکریم کے بیان میں نہ لایا گیا، سراسر وہم باطل و محال ہے۔جو صاحب کمال اس کے ساتھ اپنے کمال کا موازنہ کرے وہ مشارکت حق تعالیٰ پر مبنی ہے۔اہلِ کتاب کی علامت یہی ہے کہ اس کی خدمت میں مشغول اور اس کی اطاعت میں مبذول رہیں۔اس کی ہمسری کے دعویٰ سے دستبردار رہیں اور اسے رسول ﷺ کی جگہ شمار کریں۔

نکتہ سوم خلیفہٴ راشد نبی حکمی ہے۔گو وہ فی الحقیقت پایہٴ رسالت کو نہیں پہنچا لیکن منصب خلافت احکام انبیاء اللہ کے ساتھ منسوب ہوا‘‘

(منصب امامت صفحہ121-122 از شاہ اسمٰعیل شہید رحمہ اللہ مترجم حکیم محمد حسین نقوش پریس لاہور اکتوبر 1994ء آئینہ ادب چوک مینار انار کلی لاہور)

خلیفہٴ راشد اور باقی صلحاء میں نسبت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’امام، رسول کے سعادت مند فرزند کی مانند ہے۔ تمام اکابر امت و بزرگان ملت ملازموں او ر خدمتگاروں اور جاں نثار غلاموں کی مانند ہیں۔پس جس طرح تمام اکابر سلطنت وارکان مملکت کے لئے شہزادہٴ والہ قدر کی تعظیم ضروری اور اس سے توسل واجب ہے اور اس سے مقابلہ کرنا نمک حرامی کی علامت اور اس پر مفاخرت کا اظہار بدانجامی پر دلالت کرتا ہے۔ایسا ہی ہر صاحب کمال کے حضور میں تواضع اور تذلل سعادت دارین کا باعث ہے اور اس کے حضور میں اپنے علم وکمال کو کچھ سمجھ بیٹھنا دونوں جہان کی شقاوت ہے۔اس کے ساتھ یگانگت رکھنا رسول سے یگانگت ہے اور اس سے بیگانگی ہو تو خود رسول سے بیگانگی ہے۔

اسی طرح فرمایا کہ خلیفہ راشد سب کا مطاع ہے۔ لکھتے ہیں کہ:
’’خلیفہٴ راشد رسول کے فرزند ولی عہد کی بجائے اور دوسرے ائمہ دین بمنزلہ دوسرے بیٹوں کے۔پس جیسا کہ تمام فرزندوں کی سعادتمندی کا تقاضا یہی ہےکہ جس طرح وہ مراتب پاسداری و خدمت گزاری اپنے باپ کے حق میں ادا لاتےہیں۔وہ بتمامہٖ اپنےباپ کے جانشین بھائی سے بجالائیں۔اور اسے اپنے باپ کی جگہ شمار کریں اور اس کے ساتھ مشارکت کادم نہ بھریں۔‘‘

(منصب امامت از شاہ اسمٰعیل شہید صفحہ86-87 اکتوبر 1994ء نقوش پریس لاہور)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ خلیفہ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’نبوت کے بعد سب سے بڑا عہدہ یہ (خلافت) ہے ایک شخص نے مجھے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں تا گورنمنٹ آپ کو کوئی خطاب دے میں نے کہا کہ یہ خطاب کوئی ایک معمولی خطاب ہے۔ میں شہنشاہ عالم کے عہدہ کو بھی خلافت کے مقابلہ میں ادنیٰ سمجھتا ہوں۔‘‘

(انوار العلوم جلد9 صفحہ425 از حضرت مصلح موعودؓ شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)

خلیفہ کے اختیارات

جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے کہ خلیفہ نبی کا قائمقام ہوتا ہے اور اس کا کام نبی کے پروگراموں کو آگے بڑھانا ہے۔ لہٰذا ظلی طورپر خلیفہٴ راشد کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں جوکسی نبی کو حاصل ہوتے ہیں۔خلیفہٴ وقت کے اختیارات کی عملی صورت کو بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ ایم اے اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اسلام میں یہ نظام خلافت ایک نہایت عجیب وغریب بلکہ عدیم المثال نظام ہے۔یہ نظام موجود الوقت سیاسیات کی اصطلاح میں نہ تو پوری طرح جمہوریت کے نظام کے مطابق ہے اور نہ ہی اسے موجودہ زمانہ کی ڈکٹیٹر شپ کے نظام سے تشبیہ دے سکتے ہیں بلکہ یہ نظام ان دونوں کے بین بین ایک علیحدہ قسم کانظام ہے۔جمہوریت کے نظام سے تو وہ اس لئے جدا ہے کہ جمہوریت میں صدر حکومت کا انتخاب میعادی ہوتا ہے مگر اسلام میں خلیفہ کا انتخاب میعادی نہیں بلکہ عمر بھر کے لئے ہوتا ہے۔دوسرے جمہوریت میں صدر حکومت بہت سی باتوں میں لوگوں کو مشورہ کا پابند ہوتا ہے مگر اسلام میں خلیفہ کو مشورہ لینے کا حکم تو بے شک ہے مگر وہ اس مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔بلکہ مصلحت عامہ کے ماتحت اسے رد کرکے دوسرا طریق اختیار کرسکتا ہے۔دوسری طرف یہ نظام ڈکٹیٹر شپ سے بھی مختلف ہے کیونکہ اول تو ڈکٹیٹر شپ میں میعادی اور غیر میعادی کا سوال نہیں ہوتا اور دونوں صورتیں ممکن ہوتی ہیں۔دوسرے ڈکٹیٹر کو عموماً کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔حتیٰ کہ وہ حسب ضرورت پرانے قانون کو بدل کر نیا قانون جاری کرسکتا ہےمگر نظام خلافت میں خلیفہ کے اختیارات بہر صورت شریعت اسلامی اورنبی متبوع کو ہدایات کی قیود کے اندر محدود ہیں۔اسی طرح ڈکٹیٹر مشورہ لینے کا پابند نہیں مگر خلیفہ کو مشورہ لینے کا حکم ہے۔

الغرض خلافت کا نظام ایک نہایت ہی نادر اور عجیب وغریب نظام ہے جو اپنی روح میں تو جمہوریت کے قریب تر ہے مگر ظاہری صورت میں ڈکٹیٹر شپ سے زیادہ قریب ہے۔مگر وہ حقیقی فرق جو خلافت کو دنیا کے جملہ نظاموں سے بالکل جدا اور ممتاز کردیتا ہے وہ اس کادینی منصب ہے۔خلیفہ ایک انتظامی افسر ہی نہیں بلکہ نبی کا قائم مقام ہونے کی وجہ سے اسے ایک روحانی مقام بھی حاصل ہوتا ہے۔وہ نبی کی جماعت کی روحانی اوردینی تربیت کا نگران ہوتا ہے اور لوگوں کےلئے اسے عملی نمونہ بننا پڑتا ہے اور اس کی سنت سند قرارپاتی ہے۔پس منصب خلافت کا یہ پہلو نہ صرف اسے دوسرے تمام نظاموں سے ممتاز کردیتا ہے بلکہ اس قسم کے روحانی نظام میں میعادی تقرر کا سوال ہی نہیں اٹھ سکتا۔‘‘

(سلسلہ احمدیہ صفحہ308-309 از حضرت مرزا بشیر احمد ؓ شائع کردہ نظارت تالیف و تصنیف قادیان دسمبر1939ء)

خداتعالیٰ کے مقرر کردہ خلیفہ کے اختیارات کے سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے مجلس مشاورت میں فرمایا:
’’اسلامی اصول کے مطابق یہ صورت ہے کہ جماعت خلیفہ کے ماتحت ہے اور آخری اتھارٹی جسے خدا نےمقرر کیا ہے اور جس کی آواز آخری آواز ہے وہ خلیفہ کی آواز ہے۔کسی انجمن، کسی شوریٰ یا کسی مجلس کی نہیں ہے۔خلیفہ کا انتخاب ظاہری لحاظ سے بے شک تمہارے ہاتھوں میں ہے۔تم اس کے متعلق دیکھ سکتے ہو اور غور کرسکتے ہو مگرباطنی طورپر خدا کے اختیار میں ہے۔خداتعالیٰ فرماتا ہے خلیفہ ہم قرار دیتے ہیں اور جب تک تم لوگ اپنی اصلاح کی فکر رکھو گے ان قواعد اور اصولوں کو نہ بھولو گے جو خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ضروری ہیں تم میں خدا خلیفہ مقرر کرتا رہے گا اور اسے وہ عظمت حاصل ہوگی جو اس کام کے لئے ضروری ہے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ 7اپریل 1925ء صفحہ24)

خلیفہ وقت سے بحث و جدال جائز نہیں

خلیفہ وقت کو خدا مقرر کرتا ہے۔لہٰذا خلیفہ وقت کےساتھ بحث وجدال کرنا گویا کہ خداتعالیٰ کے ساتھ بحث کرنا ہے۔پس حقیقت یہ ہےکہ ہرقسم کی فضیلت امام کی اطاعت میں ہے۔ جیساکہ حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں:
’’یادرکھو کہ ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خداتعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جوبھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے۔

۔۔۔۔ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود علیہ السلام پرایمان لاتا ہوں، ہزار دفعہ کہے کہ میں احمدیت پرایمان رکھتا ہوں،خدا کے حضور ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی۔جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میںاسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔جب تک جماعت کا ہرشخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا اس وقت تک کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدارنہیں ہوسکتا۔‘‘

(الفضل 15؍نومبر 1946ء)

وہی اسکیم وہی تجویز اور تدبیر مفید ہے
جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی بات نکلے اس وقت سب اسکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیاجائے اور سمجھ لیاجائے کہ اب وہی اسکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔جب تک یہ روح جماعت میں پیدانہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں،تمام اسکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 24 جنوری 1936ء الفضل 31 جنوری 1936ء)

اسی طرح آپ ؓ نے فرمایا:
’’اور اگر تم کامل طورپر اطاعت کرو تو مشکلات کے بادل اُڑ جائیں گے۔تمہارے دشمن زیر ہوجائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری عظمت و سطوت والا نیا آسما ن پیدا کریں گے۔لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرمانبرداری کرو جب تم سے مشورہ مانگا جائے مشورہ دو ورنہ چپ رہو۔ادب کامقام یہی ہے لیکن اگرتم مشورہ دینے کے لئے بیتاب ہوتو بغیر پوچھے بھی دے دو۔مگر عمل وہی کرو جس کی تم کو ہدایت دی جائے ہاں صحیح اطلاعات دینا ہر مومن کا فرض ہے اور اس کے لئے پوچھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔باقی عمل اس کے بارہ میں تمہارافرض صرف یہی ہے کہ خلیفہ کے ہاتھ اور اس کے ہتھیاربن جاؤ۔تب ہی برکت ہی برکت حاصل کرسکو گے اور سب کامیابی نصیب ہوگی۔اللہ تعالیٰ تم کو اس کی توفیق بخشے۔‘‘

(روزنامہ الفضل قادیان 4 ستمبر 1937ء)

شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ تعالیٰ اپنی معروف تصنیف منصب امامت میں جیساکہ عنوان کتاب سے ظاہر ہے خلیفہ کے مقام و مرتبہ کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’لازم ہے کہ احکام کے اجراء اورمہمات کا انجام امام کے سپرد کیاجائے اور اس سے قیل و قال اوربحث وجدال نہ کی جائے اور کسی مہم میں خودبخود اقدام نہ کیا جائے۔اس کے حضور میں زبان بند رکھیں اور اپنی رائے سےسرانجام مقدمات میں دخل نہ دیں او ر کسی طرح بھی اس کے سامنے استقلال کا دم نہ ماریں۔‘‘

(منصب امامت صفحہ129 از شاہ اسمٰعیل شہید مترجم حکیم محمد حسین علوی مطبوعہ حاجی حنیف اینڈ سنز لاہور)

قرب خداوندی کے لئے
خلیفہ وقت کی اطاعت ضروری ہے

نیز فرمایا: ’’امام وقت سے سرکشی اور روگردانی گستاخی کا باعث ہے اور اس کے ساتھ بلکہ خود رسول کے ساتھ ہمسری ہے اور خفیہ طورپر خود رب العزت پر اعتراض ہےکہ ایسے ناقص شخص کو کامل شخص کی نیابت کا منصب عطا ہوا۔ الغرض اس کے توسل کے بغیر تقرب الٰہی محض وہم و خیال ہے جوسامنے استقلال کا دم نہ ماریں۔‘‘

(منصب امامت صفحہ111 از شاہ اسمٰعیل شہید مترجم حکیم محمد حسین علوی مطبوعہ حاجی حنیف اینڈ سنز لاہور)

خلیفہ وقت کے ساتھ بحث و تمحیص میں پڑنا سوء ادب ہے اور خلیفہ وقت کے ساتھ فیصلہ کو تسلیم کرنے میں ہی برکت ہے۔جیساکہ شاہ اسمٰعیل شہید ؒ فرماتے ہیں:
’’ایک ان میں سے تعیین احکام کا اجرابذمہ امام ہے۔ مثلاً اگر کسی وقت کوئی مقدمہ سیاست سے پیش آئے یا مہمات دین سے کوئی مہم ظاہر ہوتو اگر امت میں پیغمبر موجود ہوتو ان کو لائق نہیں کہ اس پر سبقت کریں یا قیل وقال شروع کردیں یا آپس میں مشورہ کرکے کسی حکم کی تعیین کرلیں اور اپنی عقل وتدبیر اور رائے وقیاس کو دوڑائیں۔ بلکہ چاہیئے یہ کہ آپ اس مقدمہ میں سکونت اختیار کریں او راس مقدمہ کو پیغمبر کے حضور میں پہنچائیں اور منتظر رہیں کہ اس مقدمہ میں پیغمبر کیا حکم صادر فرماتا ہے اور کس طریق سے بیان فرماتا ہے۔الغرض حکومت پیغمبر کا منصب ہے اور اطاعت امت کا مرتبہ ہے چنانچہ ارشاد باری ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲﴾

(الحجرات: 2)

اے ایمان والو! اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اللہ سے ڈرو اللہ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے۔

نیز فرمایا: ’’اسی طرح لازم ہے کہ احکام کا اجراء اور مہمات کا انجام امام کے سپرد کیاجائے اور اس سے قیل وقال اور بحث وجدال نہ کی جائے۔اور کسی مہم میں خودبخود اقدام نہ کیا جائے۔اس کے حضور میں زبان بند رکھیں اور اپنی رائے سے سرانجام مقدمات میں دخل نہ دیں اور کسی طرح بھی اس کے سامنے استقلال کا دم نہ ماریں۔‘‘

(منصب امامت صفحہ150-151 از شاہ اسمٰعیل شہید ؒ باردوم 1969ء نقوش پریس لاہور)

خلیفہ خدا بناتا ہے

قرآن کریم، احادیث رسول ﷺ اور اقوال صحابہ وبزرگان امت اور خداتعالیٰ کی فعلی شہادت سے ثابت ہے کہ ’’خلیفہ خدا بناتا ہے‘‘ پس اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اس بارہ میں کیا فرمان ہے۔اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے۔ ابتدائے آفرینش کے وقت خداتعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ خلیفہ بنانا میرا کام ہے اور جب میں خلیفہ بناتا ہوں تو انسان تو ایک طرف رہے فرشتوں کو بھی حکم ہوتا ہے کہ وہ اس کے لئے سجدہ کریں۔فرمایا اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً (البقرہ: 31)

’’اے لوگو! سنو اور توجہ سے سنو! کہ میَں خدا ہی زمین میں خلیفہ بناتا ہوں۔‘‘ تاریخ عالم اس بات پر گواہ ہے کہ جن کو خدا نے خلیفہ بنایا ان ہی کی خلافت کو استحکام حاصل ہوا اور انہی کے ذریعہ دین کو تمکنت حاصل ہوئی۔حضرت رسول مقبولﷺکی امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ

(النور: 56)

اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے وہ ضرور ان کو زمین میں خلیفہ بنادےگاجس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایاتھا۔

اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہایت وضاحت سے اس بات کی صراحت کررہا ہے کہ خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے اور امت مسلمہ میں بھی خلافت کے منصب کو وہ خود ہی قائم فرمائے گااور اس منصب کا جس کو وہ سزا وار اور اہل سمجھے گا اسے خود ہی اس منصب پر فائز فرمائے گا۔ پھران خلفاء کے مقرر کرنے کی غرض یہ بیان فرماتا ہے

وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا

(النور: 56)

یعنی ان خلفاء کے ذریعے دین کو ضرورمضبوط کرتا ہے اور ضروران کے خوف کوامن سے تبدیل کر دیتا ہے۔

تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ اگرچہ حضرت رسول کریمﷺ کے وصال پر صحابہؓ کا اجتماع ہوا، مشورہ ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب خلافت کے منصب کے لئے ہوا۔ مگر خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ بےشک یہ انتخاب مومنوں نے کیا لیکن ابوبکر صدیقؓ کو خلافت کے جلیل القدر منصب پر میں نے ہی فائز کیااور انہیں خلیفہ میں نے ہی بنایا۔ ساری امت مسلمہ اس بات پر متفق ہےکہ آیت لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کے مصداق سب سے اوّل حضرت ابوبکرصدیقؓ ہوئےاور خداتعالیٰ نے ان کی خلافت کے قیام کو اپنی طرف نسبت دی۔ فرمایا کہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ضروروہ خود ان نیک لوگوں میں سے کسی کو خلیفہ بنائے گا اور ان کے دین کو وہ تمکنت،استحکام اور عظمت بخشے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا کہ:
’’تب خداتعالیٰ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کوکھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھلایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا: وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جمادیں گے۔‘‘


پس خلیفہ بنانے کی نسبت، خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی طرف ہی کی ہے خواہ وہ خلیفہ نبی ہو یا غیر نبی۔ چنانچہ فرمایا کہ ہم خلیفہ بناتے ہیں۔خلیفہ بنانا انسانوں کا کام نہیں۔اللہ تعالیٰ کے فرمان کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں خدا کے رسول اور نبیوں کے سردار حضرت محمدﷺکا اس بارے میں کیا فیصلہ ہے۔

احادیث نبویہؐ

(1) حضرت عائشہؓ جو حضرت رسول کریمﷺکی زوجہ مطہرہ اور علم دین کی نابغہ تھیں اور جن سے دین کے علم کو سیکھنے کا ارشاد خود حضورﷺ نے فرمایا۔ ان کی روایت ہے کہ آنحضرتﷺنے ان سے ایک دفعہ ایک ذکر فرمایا:

لَقَدْ ھَمَمْتُ اَوْ اَرَادَتُ اَنْ اُرْسِلَ اِلیٰ اَبِی بَکْرٍ وَابْنُہُ فَاَعْھَدُاَنْ یَقُوْلَ القَائِلُوْنَ اَوْ یَتَمَنَّی الْمُتَمَنُّوْنَ ثُمَّ قُلْتُ یَأْبَی اللّٰہُ وَیَدْفَعُ المُؤمِنَونَ اَوْیَدْفَعُ اللّٰہُ وَیَابَی المُؤْمِنُوْنَ۔

(بخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف)

میں نے ارادہ کیا تھا کہ ابوبکر ؓ اور ان کے بیٹے کو بلا کر ان کے حق میں خلافت کی تحریر لکھ دوں تاکہ میری وفات کے بعد دوسرے لوگ خلافت کی خواہش لے کر نہ کھڑے ہوجائیں اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ میں حضرت ابوبکرؓ کی نسبت زیادہ خلافت کا حقدار ہوں۔ مگر پھر میں نے اس خیال سے اپنا ارادہ ترک کردیا کہ اللہ تعالیٰ ابوبکرؓ کے سوا کسی اور کی خلافت پر راضی نہ ہوگا اور نہ ہی مومنوں کی جماعت کسی اور شخص کی خلافت کوقبول کرےگی۔

اس حدیث نبویؐ سے واضح ہے کہ حضرت رسول اکرمﷺنے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حق میں اس لئے وصیت نہیں لکھوائی کہ آپؐ جانتے تھے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور وہ خود مومنوں کے دلوں میں القاء کرے گاکہ حضرت ابوبکرؓ کے سوا کسی کو قبول نہ کریں۔ کیونکہ مومنین خدا کی مرضی کے خلاف قدم نہیں اٹھا سکتے۔چنانچہ آخر وہی ہواجو خداتعالیٰ کا منشاء تھا۔

(2) حضرت حفصہؓ نے روایت کی ہے جو حضرت عمرؓ کی صاحبزادی تھیں اور حضرت رسول اکرمﷺ کی زوجہ مطہرہ اور نہایت زیرک خاتون تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت رسول اکرمﷺنے ان سے فرمایا:

اِنَّ اَبَابَکْرٍ یَلِی الْخِلَافَۃُ مِنْ بَعْدِی ثُمَّ بَعدَہُ اَبُوْکَ فَقَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَ یَارَسُولَ اللّٰہِ قَالَ نَبَّاَنِیَ العَلِیْمُ الخَبِیرُ۔

(تفسیر قمی)

کہ میرے بعد ابوبکرؓ خلیفہ ہوں گے اور ان کے بعد تمہارے باپ خلیفہ ہوں گے۔ حضرت حفصہؓ نے حضورﷺکی خدمت میں عرض کی۔ حضور آپ کو کیسے علم ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ علیم و خبیر خداتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس طرح ہوگا۔

یہ حدیث شیعہ اصحاب کی مشہور کتاب تفسیر قمی میں بیان ہوئی ہے۔حضورپُرنور کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ خلیفہ خداتعالیٰ بناتا ہے اور اس قادر وتوانا ہستی نے حضورؐ کو قبل ازوقت اس بات سے آگاہ فرما دیا تھا کہ آپؐ کی وفات کے بعد پہلا خلیفہ حضرت ابوبکرؓ کوبناؤں گا اور پھر حضرت عمرؓ کو۔

(3) حضرت عثمانؓ جوحضرت رسول اکرمﷺکے جلیل القدر بزرگ صحابی اور خلیفہ ثالث تھے۔ ان سے حضورؐ نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ یَقُمِّصُکَ قَمِیْصًا فَاِنْ اَرَادَکَ الْمُنَافِقُونَ عَلٰی خِلْعِہِ فَلَا تَخْلَعْہُ اَبَدًا

(مسند احمدبن حنبل حدیث نمبر23427)

اے عثمان! یقیناً تجھے اللہ تعالیٰ ایک قمیص پہنائے گا۔ اگر منافق اس قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو ہرگز ہرگز نہ اتارنا۔

ظاہر ہے کہ حضرت رسول اکرمﷺنے اس حدیث میں حضرت عثمانؓ کو یہ بشارت دی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں خلافت کا جامہ پہنائے گا اور منافقین کاطبقہ اس جامہ کو اتارنے کا مطالبہ کرے گا لیکن تم نے ہرگز ہرگز اس جامہ کو نہیں اتارنا۔ حضورؐ کا یہ ارشاد کیسا واضح ہے کہ خلافت کی قمیص تمہیں خداتعالیٰ پہنائے گا۔ اس قمیص کی عظمت واحترام کا یہ تقاضا ہوگا کہ دشمن خواہ کچھ کریں تم نے ان کی طرف سے معزول کئے جانے کے مطالبہ کو تسلیم نہیں کرنا۔خداتعالیٰ نے حضرت عثمانؓ کو منصب خلافت پر فائز فرمایا۔منافقوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ خلافت کے معزز جامہ کو آپؓ سے اتروالیں مگر خداتعالیٰ کے برگزیدہ بندہ نے جان دینی قبول کرلی لیکن قمیص خلافت کو جو خداتعالیٰ نے خود پہنائی تھی اسے اتارنا گوارانہ کیا اور رسول کریمﷺکی ہدایت پر پور اپور ا عمل کردکھایا۔

ان احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت رسول کریمﷺخلافت کے منصب کے متعلق یہی سمجھتے تھے کہ یہ منصب میرے بعد خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور جسے وہ اس مقام کااہل سمجھے گا اسے ہی اس مقام پر فائز فرمائے گا۔

خلفاء راشدین کا نظریہ

اب ہم حضورؐ کے جلیل القدر صحابہؓ اور آپؐ کے خلفاء کے نظریہ پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ ان کا اس بارہ میں کیا عقیدہ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے اورتاریخ نے اسے محفوظ کیا ہےکہ حضرت رسول اکرمﷺکے تمام خلفاء اس ایمان پرقائم تھے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور اس عالمی منصب پر تقرری دراصل خداتعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔

1۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ فرماتے ہیں:

وَقَدِ اسْتَخْلَفَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ خَلِیْفَۃً لِیَجْمَعْ بِہٖ الْفِیْتِکُ وَیُقِیمُ بِہٖ کَلِمَتِکُمْ

کہ خداتعالیٰ نے مجھے تم پر ایک خلیفہ مقرر کیا ہے تاکہ تمہاری باہمی الفت واخوت کے ذریعہ شیرازہ بندی ہو اور اس کے ذریعہ تمہارا کام قائم رہے۔

(دائرۃ المعارف مطبوعہ مصر جلد3 صفحہ758)

حضرت ابوبکرؓ کو تو علم تھا کہ حضورؐ کی وفات کے بعد لوگوں کا اجتماع ہوا، مشورہ ہوا، اختلاف ہوا اورپھر صحابہؓ نے آپؓ کی بیعت خلافت کر لی۔ بایں ہمہ حضرت ابوبکرؓ خداتعالیٰ کے رسولؐ کا پیارا ساتھی، دکھ سکھ میں ساتھ رہنے والا،سب سے اول ایمان لانے والا،خدائی حکمتوں اور خدائی باتوں کوخداکے رسولؐ کے بعد سب سے زیادہ سمجھنے والا یہ اعلان کرتا ہے کہ قَدِاستَخْلَفَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ کہ خدا تعالیٰ نے تم پر مجھ کو خلیفہ مقرر کردیاہے۔

2۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں:۔

مَنْ اَرَادَاَنْ یَّسئَلَ عَنِ الْمَالِ فَلْیَاتِنِیْ فَاِنَّہُ جَعَلَنِیْ خَازِناً وَقَاسِماً۔

(تاریخ عمر بن الخطاب صفحہ87)

جس شخص نے مال کے متعلق سوال کرنا ہے تو وہ میرے پاس آئےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بناکر قوم کےمال کاخازن مقرر فرمایا ہےاور اس کو تقسیم کرنے کا حق بخشا ہے۔

حضرت عمرؓ کے اس قول سے ظاہر ہے کہ وہ اس پر قائم تھے کہ خداتعالیٰ نے انہیں خلیفہ مقرر فرمایا ہےاور کسی انسان نے انہیں خلیفہ نہیں بنایا۔یہ تقرری خداتعالیٰ کی طرف سے تھی۔یہ درست ہے کہ یہ تقرری حکمت الٰہیہ کے ماتحت بالواسطہ ہوئی تھی بایں ہمہ حضرت عمرؓ یہی سمجھتے اوراسی نظریہ پرقائم تھے کہ اس منصب خلافت پراللہ تعالیٰ نے ہی آپؓ کو فائز فرمایا۔

-3 حضرت عثمان ؓ کابھی یہی مذہب تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں:

(الف) ثُمَّ اسْتَخْلَفَ اللّٰہُ اَبَابَکْرٍ فَوَاللّٰہِ مَاعَصَیْتُہُ وَلَاغَشَشْتُہُ

(بخاری کتاب ہجرۃ الحبشہ)

پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ مقرر فرمایا اور خداتعالیٰ کی قسم میں نے ان کی پوری پوری اطاعت کی۔میں نے نہ توکبھی آپؓ کی نافرمانی کی اور نہ ہی آپؓ کو دھوکادیا۔

(ب) باغیان خلافت نے جب فتنہ پیدا کیا اورخلافت کے منصب کی توہین کے لئے کمربستہ ہوگئے اور حضرت عثمانؓ سے مطالبہ کیاکہ وہ خلافت سے الگ ہوجائیں توخداتعالیٰ کے اس محبوب بندے نے بڑے زوراور پوری قوت سے ان کے مطالبہ کو رد کرتے ہوئے کہا کہ:۔

مَاکُنْتُ لِاَخْلَعَ سَرَبًالَاسَرْبَلِنِیْہِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ

(طبری جلد5 صفحہ121، ازابی جعفر محمد بن جریر الطبری)

میں کبھی بھی اس رداء خلافت کو جو عزت وجلال والے خدا نے مجھے پہنائی، نہیں اتاروں گا۔

اگر حضرت عثمانؓ کا یہ مذہب اور ایمان نہ ہوتاکہ خلیفہ خدا بناتاہے تو کس طرح ممکن تھا کہ ایسے خطرناک حالات میں جب ان کی جان کو خطرہ سامنے تھا اس جرأت سے اظہار کرتے اور فرماتے کہ مجھے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا اور میں اس کی قدر کرتا ہوں۔ میں اس کی بے حرمتی کا مرتکب نہیں ہو سکتا اور اس منصب سے ہرگز ہر گز الگ نہیں ہو سکتا۔

صلحاء امت اور خلافت

امت کے گزشتہ صلحاء بھی اس بات کے قائل تھے کہ خلیفہ خدا بناتاہے اور اگرچہ بظاہر لوگوں کے ذریعہ اس کا انتخاب عمل میں آتا ہے لیکن ان کے دلوں میں اس بات کا الہام خداتعالیٰ کی طرف سے ہی کیا جاتا ہےکہ وہ ایسے شخص کو خلیفہ منتخب کریں جسے خداتعالیٰ خلیفہ بناناچاہتاہے۔

چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ محدث دہلوی فرماتے ہیں:۔
’’آیت لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ خلفاء کو مقرر فرماتاہے۔جب اصلاح عالم کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت سمجھتا ہے تولوگوں کے دلوں میں الہاماً ڈال دیتا ہےکہ وہ ایسے شخص کو خلیفہ منتخب کریں جسے خداتعالیٰ خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘

(ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء جلد1 صفحہ9 ازشاہ ولی اللہ محدث دہلوی)

حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات

اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم وتلقین کو،جو امت کے لئے حکم وعدل ہیں ہم جب دیکھتے ہیں تو اس سے یہ بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ خلیفہ بنانا انسانوں کا کام نہیں بلکہ یہ خالصۃً اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں یہ سوال پیش ہوا کہ حضرت رسول کریمﷺنے خوداپنے بعد کیوں کسی خلیفہ کے متعلق وصیت نہ کردی؟ اس سوال کے جواب میں خداتعالیٰ کے مسیح نے جوحکم وعدل کی حیثیت سے مامور تھے کیا خوب فرمایا:
’’آنحضرتﷺنے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقررنہ کیا۔اس میں بھید تھاکہ آپؐ کو خوب علم تھاکہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرمائے گاکیونکہ یہ خدا کاہی کام ہے اورخداکے انتخاب میں کوئی نقص نہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کواس کام کے واسطہ خلیفہ بنایااورسب سےاوّل انہی کے دل میں ڈالا۔‘‘

(الحکم 4 اپریل 1908ء)

پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس مسئلہ کی حقیقت کو الم نشرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہےتامخالفوں کی دوجھوٹی خوشیوں کو پامال کرکے دکھادے۔سواب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کردیوے۔اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی ہے (حضورؑ نے الہام الٰہی سے اپنی وفات کی خبر سے جماعت کو آگاہ فرمایاتھا۔ناقل) غمگین مت ہواور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اوراس کا آناتمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے۔جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اوروہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں۔ لیکن میں جب جاؤں گاتوپھرخدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گاجو ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ305-306)

اس عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک قدرت ثانیہ سے مراد خلافت ہی ہے۔چنانچہ اسی رسالہ الوصیت میں حضورؑ نے فرمایا ہے:
’’جبکہ آنحضرتﷺکی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔تب خداتعالیٰ نے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو کھڑا کرکے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ305)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت وضاحت سے یہاں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کو قدرت ثانیہ قرار دیا ہے۔گویا دوسری قدرت کانام قرآنی اصطلاح میں آپؑ کے نزدیک خلافت ہی ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنے اس کلام میں یہ بھی وضاحت فرمادی کہ خداتعالیٰ کاہی کام ہے کہ وہ دوسری قدرت کو بھیجے اور یہ دوسری قدرت نبی کی وفات کے بعد ظاہرہوتی ہےاور جب تک میں نہ جاؤں دوسری قدرت یعنی خلافت نہیں آسکتی۔

پھر اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھاکہ آپ خداتعالیٰ کی ایک قدرت ہیں اور دوسری قدرت کے کئی مظاہر آپ کی وفات کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے۔فرماتے ہیں:
’’میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجودہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کردعا کرتے رہو۔۔۔تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہواورتمہیں دکھادے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خداہے۔‘‘

(الوصیت روحانی خزائن جلد20 صفحہ305)

آپ ؑ مزید فرماتے ہیں:
’’نبی کے بعد خلیفہ بناناخدا تعالیٰ کا کام ہے۔صوفیاء نےلکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول اور نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتاہے۔ جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ بہت ہی خطرناک وقت ہوتاہے مگر خداتعالیٰ کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہےاور پھر گویا اس امر کا ازسرنو اس خلیفہ کے ذریعہ اصلاح واستحکام ہوتا ہے۔

آنحضرتﷺنے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ایک خلیفہ مقرر فرمادے گاکیونکہ یہ خدا کا ہی کام ہے اور خدا کے انتخاب میں نقص نہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کام کے واسطے خلیفہ بنایا اور سب سے اوّل حق انہی کے دل میں ڈالا۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ525-526 نیا ایڈیشن)

(باقی آئندہ بروز ہفتہ ان شاءاللہ)

(ابو ہشام بن ولی)

پچھلا پڑھیں

ایم ٹی اے کے ذریعہ جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 ستمبر 2022