• 25 اپریل, 2024

خلاصہ اختتامی خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی مؤرخہ 9؍ اکتوبر 2021ء

خلاصہ اختتامی خطاب  حضور انور ایّدہ الله
برموقع  جلسہ سالانہ جرمنی مؤرخہ 9؍ اکتوبر 2021ء

حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہِ  العزیز   نے تشہّد، تعوّذ  اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا!

گزشتہ سال کرونا وائرس کی وباء کی وجہ سے حکومت کی طرف سےجو پابندیاں تھیں اِس وجہ سےجرمنی میں اور دنیا کے بہت سے ممالک میں جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہو سکا، الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ پابندیاں آہستہ آہستہ نرم ہو رہی ہیں اور اِس لیئے جماعت جرمنی کو بھی جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔

مقصد انعقاد جلسہ سالانہ

 گو اِس جلسہ کی وسعت اتنی تو نہیں ہے جتنی عمومی طور پر جلسہ کی ہؤا کرتی ہے لیکن پھر بھی اس سے کچھ حد تک روحانی پیاس بجھانے کے سامان ہوں گے جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور بار بار سنتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کا مقصد روحانیت میں ترقی کرنا اور اُس کے لیئے کوشش کرنا ہے، اپنی اصلاح کے لیئے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیئے ایک جگہ جمع ہونا ہے۔ روحانی ماحول میں رہتے ہوئے تقویٰ میں ترقی کرنا ہے اگر یہ نہیں تو جلسہ کا انعقاد بے مقصد ہے، انسان کو یادہانی کی ضرورت پڑتی ہے اور ہر سال کے جلسہ کے انعقاد اور تین دن، ایک دینی اور روحانی ماحول میں گزارنے سے اپنے بھائیوں، بہنوں کو ملنے اور اُن سے نیک باتوں کے تبادلۂ خیال کرنے سے دینی اور روحانی جلاء پیدا ہوتی ہے۔ مَیں  امید رکھتا ہوں  کہ اِس سال کا جلسہ جو صرف دو دن کا تھا اِن باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ دو دن آپ نے گزاریں ہوں گے، اگر میری یہ امید سچ ثابت ہوئی  تو یقینًا ہم نے  اُس مقصد کو پا لیا جو جلسہ سالانہ کے انعقاد کا مقصد ہے۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والا ہر  جرمن احمدی  چاہے اس نے جلسہ گاہ میں آ کرجلسہ سنا یا گھر میں بیٹھ کر جلسہ سنا اُس نے اپنے لیئے ایک سال کا روحانی مائدہ جمع کر لیا ہے اب اُس کی جگالی کرنا اور اُسے اپنی زندگی حصہ بنانا ہر احمدی کا کام ہے۔ پس ہر ایک کو اِس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی گزارنی چاہیئے ورنہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ جس تقویٰ اور پاک تبدیلی کے حصول کے لیئے ہم جلسہ میں شامل ہوئے تھے اُس کے حصول کی ہم کوشش کر رہے ہیں۔

تقویٰ کیا ہے؟

حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہِ  العزیز   نے ارشاد فرمایا! آج مَیں بھی تقویٰ کے حوالہ سے چند باتیں کروں گا تاکہ جب آپ یہاں سے جائیں  تو تقویٰ کی اہمیت ذہنوں میں قائم رہے۔ اِس کا ذکر بے شمار جگہ الله تعالیٰ  نےقرآنِ کریم نے فرمایا ہے، پس اگر ہم الله تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کی روح کو سمجھ لیں تو پھر ہم الله تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جائیں گے اور ہماری دنیا اور آخرت سنورنے کے سامان ہو جائیں گے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے زمانہ کے امام مسیحِ موعود  اور مہدی معہود علیہ السّلام کو مانا ہے جنہوں نے بار بار اور بے شمار جگہ ہمیں اس قرآنی حکم کے مطابق تقویٰ کی اہمیت اور اُس پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسلام نے ایک شعر کا یہ مصرعہ بنایا ؂

ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے

آپؑ کو الہامًا الله تعالیٰ نے یہ مصرعہ عطاء فرمایا!

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

پس ہم جو حضرت مسیحِ موعود ؑ کی بیعت کا دعویٰ کرتے ہیں اگر حقیقت میں ہم نے اس بیعت کا حق ادا کرنا ہے تو یہ جڑ اپنے دلوں میں لگانی ہو گی تاکہ تقویٰ کے شیریں ثمر ہمارے ہر عمل کو لگیں ورنہ ہمارے دعوے کھوکھلے ہیں ، ہمارے ایمان بھی تبھی مضبوط ہوں گے جب ہمارے اندر اور باہر اندرونہ اور بیرونہ ایک ہو جائیں گے،  جب ہمارے قول اور عمل ایک جیسے ہوں گے۔ پس ہمیں یاد رکھنا چاہیئے تقویٰ کی جڑیں مضبوط ہوں گی تو ایمان کی جڑیں بھی مضبوط ہوں گی ورنہ شیطان کے حملوں کا ہم  مقابلہ نہیں کر سکتے، شیطان تو حملہ کرتا رہے گا ، یہ بات اُس نے روزِ اول سے جب سے کہ آدمؑ پیدا ہؤا ہے کہی ہے اور الله تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا ہے  کہ  میرے وہ بندے جو تقویٰ پر چلتے رہیں گے شیطان کے حملہ سے بچتے رہیں گے۔

کون سے ذرائع ہیں جن سے تم تقویٰ پر چل سکتے ہو

حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہِ  العزیز نے ارشاد فرمایا کہ آجکل کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیطان کوئی حیلہ نہیں جانے دیتا جب وہ انسان کو دین سے دور لے جانے کی کوشش نہ کر رہا ہو، ایمان سے دور لے جانے، تقویٰ سے دور لے جانے کی کوشش نہ کر رہا ہو، پس اِس حقیقت کو ہر ایک کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تقویٰ کیا  چیز ہے اور کس طرح ہم نے شیطان کے حملوں سے بچ کر رہنا ہے، اپنے دین اور ایمان اور تقویٰ کی حفاظت کرنی ہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا!حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے بار بار  اس طرف ہمیں توجہ دلائی ہے اور اسی بارہ میں الله تعالیٰ نے بے شمار جگہ پر قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے کہ تقویٰ کیا چیز ہے اور تم نے کس طرح اُس پر چلنا ہے، وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے تم تقویٰ پر چل سکتے ہو اِس بارہ میں جو خاص طور پر زور دے کر قرآن کریم کے حکم  کی روشنی میں حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے بتایا ہے۔ وہ یہ ہے تم الله تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرو کیونکہ یہی انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور یہی تمہیں تقویٰ میں  بڑھانے والی چیز ہے بشرطیکہ عبادت کا حق ادا کرتے ہوئے عبادت کی جائے نہ یہ کہ صرف سر سے  بھار اتارنے کے لیئے نمازیں ادا کی جائیں اور جو انسان الله تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرتا ہے پھر الله تعالیٰ اُس کے ہر کام میں برکت عطاء فرماتا ہے۔

الله تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہ کرنا تو کافروں کا شیوہ ہے

پس آجکل کے زمانہ میں جبکہ دنیاوی خواہشات اور چکا چوند نے ہر انسان کو گھیرا ہؤا ہے اور شیطان ہر طرف سے  حملہ کی کوشش کر رہا ہے اور اسے خدا تعالیٰ سے دور لے جانے کی کوشش کر رہا ہے، ایک احمدی کا کام ہے کہ الله تعالیٰ  کا قرب پانے کی کوشش کرے اور اِس کا بہترین ذریعہ الله تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے فرمایا! الله تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا نہ کرنا تو کافروں کا شیوہ ہے اور اُن کی زندگیاں اس حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے جانوروں کی زندگی ہے، پس ایک مؤمن کو اور اُس شخص کو جو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کے ماننے کا اقرار کر کے اپنے ایمان کی مضبوطی کا دعویٰ کرتا ہے اُسے الله تعالیٰ کی عبادت کے حق کی ادائیگی کی طرف ہر وقت کوشش کرنی چاہیئے۔

کفّار اور مؤمنوں کی زندگی کے نمونے

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام فرماتے ہیں،سورۂ عصر میں اللہ تعالیٰ نے کفّار اور مؤمنوں کی زندگی کے نمونے بتائے ہیں، کفّار کی زندگی بالکل چوپاؤں کی سی زندگی ہوتی ہےجن کو کھانے اور پینے اور شہوانی جذبات کے سوا اَور کوئی کام نہیں ہوتا۔

یَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاْکُلُ الْاَنْعَامُ۔ (محمد: 13)

(اس طرح کھا رہے ہیں جیسا جانور کھا رہے ہیں) مگر دیکھو ایک بَیل چارہ تو کھا لے لیکن ہل چلانے کے وقت بیٹھ جائے اُس کا نتیجہ کیا ہو گا، یہی ہو گا کہ زمیندار اُسے بوچڑ خانے میں جا کر بیچ دے گا۔(ذبح کرنے کے لیئے بیچ دے  گا) اِسی طرح اُن لوگوں کی نسبت (جو خدا تعالیٰ کے احکام کی پیروی یا پرواہ نہیں کرتے اور اپنی زندگی فسق و فجور میں گزارتے ہیں ) فرماتا ہے۔

قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُکُمْ۔ (الفرقان: 78)

 یعنی میرا ربّ تمہاری کیا پرواہ کرتا ہے اگر تم اُس کی عبادت نہ کرو۔

فرمایا کہ یہ امر   بحضورِ دل  یاد رکھنا چاہیئے (خاص طور پر یاد رکھو، اِس کو دل میں بٹھا لو) کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لیئے محبّت کی ضرورت ہے۔

تمہاری پیدائش کی اصلی غرض

مزید آپؑ فرماتے ہیں،چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لیئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا !

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ (الذاریات: 57)

 اس لیئے اللہ تعالیٰ نے اُس کی فطرت ہی میں اپنے لیئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اُسے اپنے لیئے بنایا ہے۔

 اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصلی غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں  کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سو رہنا سمجھتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں(ان کو خدا تعالیٰ کا فضل نہیں ملتا) اور خداتعالی کی ذمہ داری اُن کے لیئے نہیں رہتی۔

ذمہ داری کی زندگی

 وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ

 پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے۔  فرمایا! موت کا اعتبار نہیں ہے، سعدیؒ کا ایک شعر ہے، بڑا  سچ ہے ؂

مَکُنْ تَکْیِہْ بَر ْعُمْرِ نَاپَائیدَارْ
مَبَاشْ اَیْمَنْ اَزْ بَازِیِ رُوْزگَارْ

ناپائیدا عمر پر بھروسہ نہ کر، اپنے آپ کو زمانہ کی چالوں سے محفوظ نہ سمجھ۔

 اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ عمر ناپائیدار پر بھروسہ کرنا عقل مند کا کام نہیں ہے،آپؑ فرماتے ہیں۔

عمر ناپائیدار پر بھروسہ کرنا دانشمند کا کام نہیں، موت یونہی آکر لتاڑ جاتی ہے اور انسان کو پتہ بھی نہیں لگتا جب کہ انسان اس طرح پر موت کے پنجہ میں گرفتا ر ہے۔ پھر اُس کی زندگی کا خداتعالیٰ کے سوا کون ذمہ دارہوسکتا ہے۔اگر زندگی خداکے لیئے ہو تو اس کی حفاظت کرے گا۔  

انسانی پیدائش کی غرض عبادت ہے

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام فرماتے ہیں، انسان کی پیدائش کی اصل غرض تو عبادت الٰہی ہے لیکن اگر وہ اپنی فطرت کو خارجی اسباب اور بیرونی تعلقات سے تبدیل کرکے بیکار کر لیتا ہےتو خداتعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے۔

قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لاَ دُعَاؤُکُمْ۔

فرماتے ہیں کہ  مَیں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ مَیں ایک جنگل میں کھڑا ہوں۔ شرقاً غرباً اُس میں ایک بڑی نالی چلی گئی ہے اس نالی پربھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک قصاب کے جو ہر ایک بھیڑ پہ مسلط ہے کھڑا ہے، ہاتھ میں چھری ہے جو انہوں نے اس کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف منہ کیا ہؤا ہے،مَیں ان کے پاس ٹہل رہا ہوں۔ میں نے یہ نظارہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ آسمانی حکم کے منتظر ہیں۔ تو مَیں نے یہی آیت پڑھی!

قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَا دُعَآؤُکُمْ۔ (الفرقان: 78)

 یہ سنتے ہی ان قصابوں نے فی الفور چھریاں چلا دیں اور یہ کہا کہ تم ہو کیا ؟آخر گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو ۔

مزید آپؑ فرماتے ہیں، غرض خداتعالیٰ متقی کی زندگی کی پرواہ کرتا ہے اور اس کی بقا کو عزیز رکھتا ہے۔ اور جو اس کی مرضی کے برخلاف چلے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کو جہنم میں ڈالتا ہے۔ اس لیئے ہر ایک کو لازم ہے کہ اپنے نفس کو شیطان کی غلامی سے باہر کرے۔ جیسے کلوروفارم نیند لاتا ہے اسی طرح پر شیطان انسان کو تباہ کرتا ہے اور اسے غفلت کی نیند سلاتا ہے اور اسی میں اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔

اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھیں

حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس حوالہ سے ارشاد فرمایا کہ پس بڑے خوف کا مقام ہے، ہم میں سے ہر ایک کو چاہیئے کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھیں اور اِس کو سمجھ کر الله تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں اپنی عبادتوں کو سنواریں یہاں یورپ کی آسائشوں یا ترقی یافتہ ملکوں کی جو آسائشیں ہیں ہمیں ہمارے مقصد پیدائش سے  غافل نہ کریں اگر خدا نخواستہ ایسا ہے تو پھر ہم نے اپنی بیعت کا حق ادا نہیں کیا۔ پس پہلی اور بنیادی چیز تو یہ ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے کا حق ادا کریں اور اُس کی عبادت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے والیں بنیں پھر اِس کے بعد الله تعالیٰ کے باقی احکامات ہیں اُن پر بھی چلنے کی کوشش کریں۔

یہ ہے وہ معیار جو ہمیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہیئے

اصل میں تو اِس عبادت کی حقیقت کو انسان سمجھ لے باقی فرائض تو خودہی ادا کرنے والا بن جائے گا وہ تاہم تقویٰ کے حصول کے لیئے  بعض اور باتوں کا بھی ذکر  بھی  حضور  انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز  نے فرمایا،  جو حضرت مسیحِ موعود علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے بیان فرمائی ہیں،  فرمایا!زبان کا زیان خطرناک ہے اس لیئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے، اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو،پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اَناپ شناپ بولتے رہو۔

اِس ضِمن میں حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا! پس یہ ہے وہ معیار جو ہمیں اپنانے کی کوشش کرنی چاہیئے اپنے روزمرہ کے معاملات میں ہم کیا کرتے ہیں یہ ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے ہمارا بولنا، ہماری باتیں کرنا ، ہمارا ایک دوسرے سے  تبادلۂ خیال کرنا، ہمارے ایک دوسرے سے کسی کاروبار میں یا کسی بھی وجہ سے جو انٹرایکشن ہے، بات چیت ہے، اُس کو ہم کس طرح کر رہے ہیں، اگر ہماری زبانوں کے غلط استعمال ہیں تو ہم اسلام کی تعلیم سے دور جا رہے ہیں، تقویٰ سے دور جا رہے ہیں۔

اگر تو یہ ٹھیک ہے ؟

الله تعالیٰ کے حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے کیا اور کس حد تک حق ادا کر رہے ہیں، عبادت کا حق ادا کر رہے ہیں تو ساتھ دوسرے بھی حقوق دیکھنے ہوں گے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہے تبھی تقویٰ کی صحیح راہوں کا ہمیں پتا چلتا ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ آپس میں  کس حد تک ہم  محبّت اور پیار سے رہ رہے ہیں، تکبر سے بچنے کی ہم  کس حد تک کوشش کر رہے ہیں، عاجزی کی راہوں کو  ہم کس حد تک اپنا رہے ہیں، اپنے عہدوں کو کس حد تک پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سچائی کے قیام کے لیئے ہم کیا کوشش کر رہے ہیں کیونکہ سچائی کا قیام ہی ہے جو ہمیں شرک سے بھی پاک کرتا ہے، اپنی اولادوں اور اگلی نسلوں کو سنبھالنے کے لیئے ہماری کیا کوشش ہے کہ تقویٰ اُن میں  جاری رہے اور وہ بھی اپنی زندگی الله تعالیٰ کے حکم کے مطابق گزارنے کی کوشش کرنے والے ہوں، پس اِس حوالہ سے ہمیں ہر چیز کو دیکھنا ہوگا کہ جو بھی نیکیاں ہیں جن کے کرنے کا الله تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے ہم کر رہے ہیں اور جو بھی  برائیاں ہیں جن سے رکنے کا الله تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اُن سے رک رہے ہیں اگر تو یہ ٹھیک ہے تو پھر ہم یقینًا تقویٰ پر چلنے والے کہلا سکتے ہیں۔ پس اپنی زندگیوں کو ہمیں یونہی نہیں ضائع کر دینا چاہیئے بلکہ ہمارا ہر قول و عمل ہمیں صحیح راستے پر ڈالنے والا ہونا چاہیئے۔

ایک برائی بہت  بڑی بدظنی بھی ہے

ہماری آپس کی محبّت ایسی ہو جو ایک مؤمن کو دوسروں سے ممتازکرنے والی ہو، گھر کے ماحول سے لیکر معاشرہ کے عمومی تعلقات تک ہم اس کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے والے  ہوں اور یہ نظر آنی چاہئیں ورنہ نہ ہی گھر میں امن و سکون رہتا ہے  نہ ہی معاشرہ میں اور جب ہم  اِس پر غور کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بد ظنی کی وجہ سے یہ امن و سکون برباد ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک برائی بہت  بڑی بدظنی بھی ہے، بعض فتنہ انگیز بد ظنی کی بات دل میں پیدا کر دیتے ہیں کوئی ایسی بات کر دیتے ہیں جس سے بدظنی دل میں پیدا ہو جائے اور جلد باز انسان  بغیر سوچے سمجھے اُس بات پر یقین بھی کر لیتے ہیں یا آپس میں صحیح طرح ایک دوسرے کی بات کو سمجھا نہ سکنے کی وجہ سے بد ظنیاں پیدا ہو جاتی ہیں، اِس لیئے الله تعالیٰ نے بد ظنی کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے کہ اِس وجہ سے معاشرہ کا امن و سکون برباد ہوتا ہے اور اِس حکم کی وجہ سے آنحضرتﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ بد ظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سخت قسم کا جھوٹ ہے اور ایک دوسرے کے عیب نکالنے کی جستجو میں نہ رہو، ایک دوسرے کے خلاف تجسس نہ کرو ۔

آنحضرت ﷺ نے بہت سی برائیوں کا ذکر فرمایا ہے

اور پھر اِس کے ساتھ ہی  آنحضرت ﷺ نے بہت سی برائیوں کا ذکر فرمایا ہے کہ اِن سے بچو کیونکہ یہ معاشرہ کا امن برباد کرتی ہیں، آپﷺ نے فرمایا! اپنے بھائی کی اچھی چیز ہتھیانے کی حرص نہ کرو، کسی کے پاس اچھی چیز دیکھو تو اُسے فوری طور پر اپنے قبضے میں  لینے کی حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، کسی کی اچھی چیز دیکھ کے یا ترقی دیکھ کر تمہارے اندر حسد نہیں  پیدا  ہونی چاہیئے، مسابقت کی روح بے شک ہو، آگے بڑھنے کی روح بے شک ہو لیکن حسد کرتے ہوئے اُسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہو پھر تم، اِس لیئے حسد نہ کرو، آپس میں دشمنی نہ رکھو، دشمنیاں بھی بد ظنیوں کی وجہ سے عمومًا پیدا ہوتی ہیں جائزہ لے لیں تو۔

حقیقی عباد الرّحمٰن بنو

آپﷺ نے فرمایا ! ایک دوسرے سے بے رخی نہ برتو اور اللهتعالیٰ کے حکم کے مطابق الله تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ الله تعالیٰ کے بندے بننے کا مطلب کیا ہے، اِس کا مطلب ہے حقیقی عباد الرّحمٰن بنو اور عباد الرّحمٰن تو وہی ہو سکتا ہے کہ جو الله تعالیٰ کا بھی حق ادا کرنے والاہو اور اُس کے حکموں پر چلتے ہوئے مخلوق کا بھی حق ادا کرنے والا ہو، پس جب انسان الله تعالیٰ کا بندہ بننے کی کوشش کرے گا تو اُس سے برائیاں سرزد ہو ہی نہیں سکتیں، آپﷺ نے فرمایا! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اُس پر ظلم نہیں کرتا، اُسے رسواء نہیں کرتا، اُسے حقیر نہیں جانتا۔

مقام ِ تقویٰ دل ہے 

اپنے سینے کی طرف اشارہ کر تے ہوئے آپﷺ نے  فرمایا! تقویٰ یہاں ہے، ایک تو اِس کا یہی مطلب ہے کہ حقیقی تقویٰ اپنے سینے کی طرف اشارہ کر تے ہوئے آپﷺ نے  فرمایا! تقویٰ یہاں ہے، ایک تو اِس کا یہی مطلب ہے کہ حقیقی تقویٰ آنحضرتﷺ کے مطہر دل میں ہی ہے سب سے بڑھ کے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے تقویٰ یہاں ہے سے مراد یہ بھی ہے کہ مقام ِ تقویٰ دل ہے۔ جس کو اِس بات کی سمجھ آ جائے کہ دل کو تقویٰ سے بھرنا ہے اُسے پھر یہ خیال آ ہی نہیں سکتا کہ وہ کوئی ایسی حرکت کرے جس سے دلوں کی رنجشیں پیدا ہوں، ایک دوسرے کے حق غصب کرنے کا خیال آئے، پس ہمیں اپنے دلوں کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ہمارے دلوں میں تقویٰ ہے یا صرف ہمارے منوؤں کی باتیں ہیں، اگر ہمارے دل میں دوسرے کا احترام نہیں ہے، اُس کا حق ادا کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو ہمارے دل تقویٰ سے خالی ہیں، ہم لاکھ نمازیں پڑھنے والے اور عبادت کرنے والے ہوں ہم الله تعالیٰ کی نظر میں تقویٰ پر چلنے والے نہیں کہلا سکتے پھر بھی اگر یہ باتیں ہم میں نہیں ہیں۔

ایک مسلمان کے لیئے یہی برائی کافی ہے

آنحضرتﷺ نے ہمیں کس باریکی سے اس بارہ میں نصیحت فرمائی ہے کہ فرمایا! ایک مسلمان کے لیئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے۔

ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت

آپﷺ نے فرمایا!  ہر مسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں، اُس کا خون، اُس کی آبرو اَور اُس کا مال۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہی تین باتیں مسلمانوں میں سے بہت سوں نے اپنے اوپر حلال کی ہوئی ہیں بلکہ اپنے آپ کو دینی علم کا علمبردار سمجھتے ہیں اور پھر بھی یہ حرکتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ دوسرے کا مال کھانا تو اکثریت کا شیوہ ہے لیکن پھر بھی یہی دعویٰ ہے اُن کا کہ ہم ہی پکے مسلمان ہیں۔ لیکن اِن مسلمانوں کے یہ عمل  ایک حقیقی مسلمان کو، ایک حقیقی احمدی کو جس نے حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی بیعت کرنے کی توفیق پائی ہے اور الله تعالیٰ نے اُس پر احسان کیا  کہ اُس کو اِس کی توفیق دی، اپنے آپ کو اِن چیزوں سے بچانا چاہیئے۔ اگر ہم میں سے کوئی باقی برائیاں نہ بھی کرے اور مال کے بارہ میں ہی خیانت کرے تو بھی گنہگار ہیں اور تقویٰ سے دور ہیں۔ پس بہت خوف کا مقام ہے ، زندگی میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ الله تعالیٰ کو ہماری کوئی پرواہ نہیں ہے۔

آنحضرت ﷺ کے نزدیک منافق

آنحضرتﷺ نے عہد نہ پورا کرنے والے کو بہت بڑا اَنذار بیان فرمایا ہے، ایک حدیث ہے جس میں بہت سی برائیوں کا ذکر ہے جو کسی شخص کو منافق بناتی ہیں اور اُن میں سے ایک اپنے عہد کی پابندی نہ کرنا ہے، اِس حدیث کے تناظر میں حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں! پس بڑے خوف کا مقام ہے، اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے، آپس کے معاہدوں اور عہدوں کی پابندی سے لیکر اپنے عہدِ بیعت کی پابندی تک  ہر جگہ غور سے جائزہ کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اپنے عہدوں کی پابندی کر رہے ہیں، روزمرہ کے کاروباروں میں ہم اپنے وعدے کس حد تک  نبھا رہے ہیں۔ وعدے نہ نبھانے والے جھوٹ بھی بولتے ہیں، ہر روز ایک نیا وعدہ کر کے اُس سے مکر جاتے ہیں، اِسی طرح امانتوں میں بھی خیانت کرنے والے ہیں، وہ بھی وعدہ خلافی کر رہے ہوتے ہیں اور جب عہد پورا نہ کریں تو جھگڑے کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، قضاء میں، عدالتوں میں  یہ معاملات اِس لیئے جاتے ہیں کہ عہدوں کی پابندی نہیں کی، امانت میں خیانت کی پھر اپنی جان بچانے کے لیئے جھوٹ بولا، وعدوں پر وعدے کرتے رہے تاکہ معاملہ لٹکتا رہے ایسے لوگ آنحضرت ﷺ کے نزدیک منافق ہیں اور اِس فیصلہ کے بعد کسی اور فتویٰ کی ضرورت نہیں ہے۔

ہم عہدِ بیعت نبھا رہے ہیں یا نہیں

پھر ہم جو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے عہدِ بیعت باندھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ہم نے دیکھنا یہ  ہے کہ تقویٰ پر چلتے ہوئے ہم عہدِ بیعت نبھا رہے ہیں یا نہیں اگر نہیں تو الله تعالیٰ فرماتا ہے وہ ایسے عہد شکنی کرنے والوں سے محبّت نہیں کرتا کیونکہ اِن میں تقویٰ نہیں ہے۔ پس اگر ہم غور کریں تو ہمارے لیئے کوئی راستہ نہیں ہے اِس کے علاوہ  کہ ہم ہر برائی کو بیزار ہو کر ترک کریں اور اُن راہوں پر چلنے کی کوشش کریں جو نیکی اور تقویٰ کی راہیں ہیں۔

عہد بھی ایک امانت ہے

عہدوں کے پورا کرنے کے بارہ میں حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کیا ارشاد فرماتے ہیں، ایک جگہ آپؑ نے فرمایا!

خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے، چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوٰی قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کار بند ہو جائے۔

 باریکی سے دیکھے کہ اُن پر عمل کرنا ہے عہدو ں کو بھی  اور عہد جو ہیں وہی امانتیں ہیں، عہد بھی ایک امانت ہے۔

اصل میں الله تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے

اس زمانہ میں ہم نے حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی بیعت کر کے آپؑ سے ایک عہد کیا ہؤا ہے اور اصل میں آپؑ کی بیعت میں آ کر الله تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم تیرے بھیجے ہوئے کی بیعت میں آ کر اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کے لیئے تیار ہوئے ہیں اور اِس کے لیئے ہر قربانی دینے کے لیئے ہم تیار ہیں، دنیاوی خواہشات اور لالچوں کے چھوڑنے کا ہم عہد کرتے ہیں، اپنے دلوں کو تقویٰ سے بھرنے کا ہم عہد کرتے ہیں۔

عہدِ بیعت کوئی معمولی عہد نہیں ہے

 پس ہر احمدی کو اِس سوچ کے ساتھ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور جائزہ لینا چاہیئے! عہدِ بیعت کوئی معمولی عہد نہیں ہے کیا حقیقت میں ہم نے اپنے آپ کو بیچ دیا ہے اگر نہیں تو ہم ابھی تقویٰ کے وہ معیار حاصل نہیں کر سکے جو ایک مؤمن کے لیئے ضروری ہیں۔ اگر ہم نے بیعت کا حق ادا کر دیا  تو ایک انقلاب  ہم بہت جلد دنیا میں بپا ہوتا دیکھ لیں گے۔

وہ  کس طرح حقِ بیعت ادا کر سکتے ہیں؟

 لیکن بعض لوگ اپنی مرضی کی بات نہ ہو تو مَیں نے دیکھا ہے خلیفۂ وقت کی باتوں کو بھی رد کر دیتے ہیں کجا یہ کہ اپنے عہدِ بیعت کو پورا کریں، گزشتہ دنوں جب یُو کے جلسہ میں مَیں نے عورتوں کے حقوق کی بات کی تو مجھے پتا لگا کہ بعض خاندانوں  نے یہ کہا کہ یہ کہاں سے نکال لیئے اِنہوں نے فتوے حالانکہ جو باتیں مَیں نے کیں وہ قرآن، حدیث اور حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تعلیم کے مطابق تھیں کہ کیا حقوق ہیں عورتوں کے، تو  اِس طرح کے اختلاف رکھنے والے جو ہیں وہ  کس طرح حقِ بیعت ادا کر سکتے ہیں؟

آج یہاں سے اِس عہد کے ساتھ اٹھیں!

پس آج یہاں سے اِس عہد کے ساتھ اٹھیں کہ بیعت کا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے اور اپنی توبہ کا جو حق ہے اُس طرح توبہ کرنی ہے اور الله تعالیٰ کی طرف مکمل طور پر جھک جانا ہے تاکہ ہمارا شمار بھی الله تعالیٰ کے محبّوں میں ہو۔

 آخر پر اختتامی  دعا سے قبل حضور انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے  حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کا ایک اقتباس بابت آپؑ ہمارا تقویٰ کا کیا معیار دیکھنا چاہتے ہیں، پیش فرمایا۔

(قمر احمد ظفر ۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء کے موقع پر مستورات کے اجلاس سے سیدنا حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز خطاب

اگلا پڑھیں

میاں بیوی کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلخ کلامی