• 18 مئی, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک وشہور (قسط 8)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک وشہور
قسط8

ارشادات برائے گورداسپور

بعد نماز عىد الفطر ظہر کے وقت جب حضرت اقدس مسجد مىں تشرىف لائے تو بعض احباب نے ذکر کىا کہ گورداسپور مىں چند اىک شخص اىسے ہىں جن کو بڑا اشتىاق حضور کى زبان مبارک سے دعوىٰ کے دلائل سننے کا ہے۔ اس پر آپ نے فرماىا کہ :۔
اگر کوئى تقرىب نکل آئى تو ان شاء الله و ہاں اىک مجمع کر کے بىان کر دىئے جاوىں گے اصل ذرىعہ تبلىغ کا تقرىر ہى ہىں اور انبىاء اس کے وارث ہىں۔ اب انگرىزوں نے اسى کى تقلىد کى ہے۔ بڑى بڑى ىونىورسٹىوں مىں ان کا طرىق تعلىم ىہى ہے کہ تقرىروں کے ذرىعہ سے تعلىم دى جاتى ہے۔ آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم بعض وقت اس قدر لمبى تقرىر فرماتے تھے صبح سے لے کر عشاء تک ختم نہ ہوتى تھى۔ درمىان مىں نمازىں آجاتىں تو آپ ان کو ادا کر کے پھر تقرىر شروع کر دىتے تھے۔

(ملفوظات جلدپنجم صفحہ349 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
ہم اس اعتراض کا واضح جواب دىنے سے پىشتر اىک ضرورى امر اور بىان کرنا چاہتے ہىں۔ ہر اىک مسلمان کو ىادر ہے کہ ہم بلحاظ گورنمنٹ کے ہندوستان کو دارالحرب نہىں کہتے اور ىہى ہمارا مذہب ہى؛ اگر چہ اس مسئلہ مىں علماء مخالفىن نے ہم سے سخت اختلاف کىا ہے اور اپنى طرف سے کوئى دقىقہ ہم کو تکلىف دہى کا انھوں نے باقى نہىں رکھا مگر ہم ان عارضى تکالىف اور اپنى ضرر رسا نىوں کے خوف سے حق کو کىونکر چھوڑ سکتے ہىں۔ ہم اس بات پر اىمان رکھتے ہىں کہ حکومت کے لحاظ سے ہندوستان ہرگز ہرگز دارالحرب نہىں ہے۔ ہمارا مقدمہ ہى دىکھ لو۔ اگر ىہى مقدمہ سکھوں کے عہد حکومت مىں ہوتا اور دوسرى طرف ان کا کوئى گر و ىا بر ہمن ہوتا تو بد وں کسى قسم کى تحقىق وتفتىش کے ہم کو پھانسى دے دىنا کوئى بڑى بات نہ تھى مگر انگرىزوں کى سلطنت اور عہد حکومت ہى کى ىہ خوبى ہے کہ مقابل مىں اىک ڈاکٹر اور پھر مشہور پادرى ہے لىکن تحقىقات اور عدالت کى کارروائى مىں کوئى سختى کا برتاؤ نہىں کىا جا تا۔ کىپٹن ڈگلس نے اس بات کى ذرا بھى پروا نہىں کى کہ پادرى صاحب کى ذاتى وجاہت ىا ان کے اپنے عہد ہ اور درجہ کا لحاظ کىا جاوے؛ چنانچہ انہوں نے لىمار چنڈ صاحب سے جو پولىس گورداسپور کے اعلىٰ افسر ہىں، ىہى کہا کہ ہمارا دل تسلى نہىں پکڑتا۔ پھر عبد الحمىد سے درىافت کىا جاوے۔ آخر کار انصاف کى رو سے ہم کو اس نے برى ٹھہراىا۔ پھر ىہ لوگ ہم کو ارکان مذہب کى بجا آورى سے نہىں روکتے، بلکہ بہت سے برکات اپنے ساتھ لے کر آئے، جس کى وجہ سے ہم کو اپنے مذہب کى اشاعت کا خاطر خواہ موقع ملا اور اس قسم کا امن اور آرام نصىب ہوا کہ پہلى حکومتوں مىں ان کى نظىر نہىں ملتى۔ پھرىہ صرىح ظلم اور اسلامى تعلىم اور اخلاق سے بعىد ہے کہ ہم ان کے شکر گزار نہ ہوں۔ ىاد رکھو! انسان جو اپنے جىسے انسان کى نىکىوں کا شکر گزار نہىں ہوتا، وہ خدا تعالىٰ کا بھى شکر گزار نہىں ہوسکتا؛ حالانکہ وہ اسے دىکھتا ہے۔ تو غىب الغىب ہستى کے انعامات کا شکر گزار کىونکر ہو گا، جس کو وہ دىکھتا بھى نہىں، اس لىے محض حکومت کے لحاظ سے ہم اس کو دارالحرب نہىں کہتے۔

ہاں! ہمارے نزدىک ہندوستان دارالحرب ہے بلحاظ قلم کے۔ پادرى لوگوں نے اسلام کے خلاف اىک خطرناک جنگ شروع کى ہوئى ہے۔ اس مىدان جنگ مىں وہ نىزہ ہائے قلم لے کر نکلے ہىں نہ سنان و تفنگ لے کر۔ اس لىے اس مىدان مىں ہم کو جو ہتھىار لے کر نکلنا چاہىے وہ قلم اور صرف قلم ہے۔ ہمارے نزدىک ہر اىک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس جنگ مىں شرىک ہو جاوے۔ اللہ اور اس کے برگزىدہ رسول صلى اللہ علىہ وسلم پر وہ دل آزار حملے کئے جاتے ہىں کہ ہمارا تو جگر پھٹ جاتا اور دل کانپ اٹھتا ہے۔ کىا امہات المومنىن در بار مصطفائى کے اسرار جىسى گندى کتاب دىکھ کر ہم آرام کر سکتے ہىں، جس کا نام بھى اس طرز پر رکھا گىا ہے۔ جىسے ناپاک ناولوں کے نام ہوتے ہىں۔ تعجب کى بات ہے کہ در بارلنڈن کے اسرار جىسى کتابىں تو گورنمنٹ کے اپنے علم مىں بھى اس قابل ہوں کہ اس کى اشاعت بند کى جائے مگر آٹھ کروڑ مسلمانوں کى دلآزارى کرنے والى کتاب کو نہ روکا جائے۔ ہم خود گورنمنٹ سے اس قسم کى درخواست کرنا ہرگز ہرگز نہىں چاہتے بلکہ اس کو بہت ہى نا مناسب خىال کر تے ہىں۔ جىسا کہ ہم نے اپنے مىمورىل کے ذرىعہ سے واضح کر دىا،لىکن ىہ بات ہم نے محض اس بنا پر کہى ہے کہ بجائے خود گورنمنٹ کا اپنا فرض ہے کہ وہ اىسى تحرىروں کا خىال رکھے۔ بہر حال گورنمنٹ نے عام آزادى دے رکھى ہے کہ اگر عىسائى اىک کتاب اسلام پر اعتراض کرنے کى غرض سے لکھتے ہىں تو مسلمانوں کو آزادى کے ساتھ اس کا جواب لکھنے اور عىسائى مذہب کى تردىد مىں کتا بىں لکھنے کا اختىار ہے۔

(ملفوظات جلداول صفحہ200-201 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام کو 15/ جولائى 1901ء کو اس مقدمہ مىں جو مىرزا نظام الدىن وغىرہ پر مسجد کا راستہ جو شارع عام ہے بند کرنے کى وجہ سے کىا گىا ہے فرىق ثانى کى درخواست پر بغرض ادائے شہادت جانا پڑا۔ گورداسپور کو جاتے ہوئے راستہ مىں اىک بہت بڑى نہر آتى ہے اور اىک مقام پر وہ نہر دو بڑے شعبوں مىں منقسم ہو کر بہتى ہے اس مقام کا نام ہم نے اپنے اس سفر نامہ مىں مَجْمَعُ الْبَحْرَىْن رکھا جو احباب ىکوں پر سوار گئے تھے وہ وہاں پہلے پہنچے اس لئے حضور اقدس علىہ الصلوٰة والسلام کے انتظار مىں شہر گئے چنانچہ کوئى آدھ گھنٹہ کے انتظار کے بعد حضرت اقدس کى سوارى آپہنچى۔ حضرت اقدس نے کھانا کھانے کا حکم دىا۔ دسترخوان بچھاىا گىا۔ احباب نے کھانا کھاىا۔ اس وقت کچھ باتوں کا سلسلہ چل پڑا۔ حضرت اقدس نے فرماىا۔
’’متقى کى تائىد خود خدا تعالىٰ فرماتا ہے مومن کى تو شان ہى کے خلاف ہے کہ وہ منصوبہ کرے۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ182 جدىد اىڈىشن)

گورداسپور مىں حضرت اقدس نے مولانا مولوى محمد على صاحب کى تجوىز کے موافق ان کے خسرمنشى نبى بخش صاحب رئىس گورداسپور کے عالىشان مکان مىں قىام فرماىا۔ مقدمہ کے متعلق باتوں کا سلسلہ شروع ہو گىا اور کسى کے ىہ کہنے پر کہ فرىق مخالف نے بہت بىہودہ جرح کرنے کا ارادہ کىا ہوا ہے۔ آپ نے فرماىا۔
’’مىں اس بات کى کچھ پرواہ نہىں کرتا۔ مومن کا ہاتھ اوپر ہى پڑا ہے ىَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَىْدِىْھِمْ کافروں کى تدبىر ىں ہمىشہ الٹى ہو کر ان پر ہى پڑا کرتى ہىں مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ خَىۡرُ الۡمٰکِرِىۡنَ (اٰلِ عمران : 55)۔ مىں ىہ اچھى طرح جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو مىرے ساتھ ذاتى عداوت اور بغض ہے اور اس کى وجہ ىہى ہے کہ مىں ملل باطلہ کے رداور ہلاک کرنے کے لئے مامور کىا گىا ہوں۔ مىں جانتا ہوں اور مىں اس مىں ہرگز مبالغہ نہىں کرتا کہ ملل باطلہ کے رد کرنے کے لئے جس قدر جوش مجھے دىا گىا ہے مىرا قلب فتوىٰ دىتا ہے کہ اس تر دىد و ابطال ملل باطلہ کے لئے اگر تمام روئے زمىن کے مسلمان ترازو کے اىک پلہ مىں رکھے جائىں اور مىں اکىلا اىک طرف تو مىرا پلہ ہى وزن دار ہو گا۔ آرىہ، عىسائى اور دوسرى باطل ملتوں کے ابطال کے لئے جب مىرا جوش اس قدر ہے پھر اگر ان لوگوں کو مىرے ساتھ بغض نہ ہو تو اور کس کے ساتھ ہو۔ ان کا بغض اسى قسم کا ہے جىسے جانوروں کا ہوتا ہے۔ تىن دن ہوئے مجھے الہام ہوا تھا اِنِّىْ مَعَ الْاَ فْوَاجِ اٰتِىْکَ بَغْتَۃً مىں حىران ہوں ىہ الہام مجھے بہت مرتبہ ہوا ہے اور عموماً مقدمات مىں ہوا ہے۔ اَفْوَاجِ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابل مىں بھى بڑے بڑے منصوبے کئے گئے ہىں اور اىک جماعت ہے کىونکہ خدا تعالىٰ کا جوش نفسانى نہىں ہوتا ہے، اس کے تو انتقام کے ساتھ بھى رحمانىت کا جوش ہوتا ہے۔ پس جب وہ اَفْوَاجِ کے ساتھ آتا ہے تو اس سے صاف پاىا جاتا ہے کہ مقابل مىں بھى فوجىں ہىں۔ جب تک مقابل کى طرف سے جوش انتقام کى حد نہ ہو جاوے خدا تعالىٰ کى انتقامى قوت جوش مىں نہىں آتى۔‘‘

(ملفوظات جلددوم صفحہ182-183 جدىد اىڈىشن)

آج دس بجے کے بعد حضرت اقدس کو شہادت مىں پىش ہونا تھا۔ منشى فىض رحمان صاحب ٹرىژرى کلارک گورداسپور نے مقدمہ کے لئے دعا کے واسطے عرض کىا۔ حضرت اقدس نے ان کو مخاطب کر کے فرماىا:۔
مىرا مذہب تو ىہ ہے کہ جس کو بلا سے بچنا ہو وہ پوشىدہ طور پر خدا سے صلح کر لے۔ اور اپنى اىسى تبد ىلى کر لے کہ خود اسے محسوس ہووے کہ مىں وہ نہىں ہوں۔ خدا تعالىٰ قرآن مىں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا ىُغَىِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰى ىُغَىِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ (الرعد: 12) سچے مذہب کى جڑ خدا پر اىمان ہے اور خدا پر اىمان چاہتا ہے کہ سچى پرہىز گارى ہو۔ خدا کا خوف ہو۔ تقوىٰ والے کو خدا تعالىٰ کبھى ضائع نہىں کرتا۔ وہ آسمان سے اس کى مدد کرتا ہے۔ فرشتے اس کى مدد کو اترتے ہىں۔ اس سے بڑھ کر کىا ہوگا کہ متقى سے معجزہ ظاہر ہو جا تا ہے۔ اگر انسان خدا تعالىٰ کے ساتھ پورى صفائى کر لے اور ان افعال اور اعمال کو چھوڑ دے جو اس کى نا رضا مندى کا موجب ہىں تو وہ سمجھ لے کہ ہر اىک کام بر کت سے طے پا جائے گا۔ ہمارا اىمان تو آسمانى کارروائىوں ہى پر ہے۔ ىہ سچى بات ہے کہ اگر خدا تعالىٰ کسى کا ہو جائے تو سارا جہان اپنى مخالفت سے کچھ بھى بگاڑ نہىں سکتا۔ جس کو خدا محفوظ رکھنا چاہے اس کو گزند پہنچانے والا کون ہوسکتا ہے؟

پس خدا پر بھروسا کرنا ضرورى ہے اور ىہ بھروسا اىسا ہونا چاہىے کہ ہر اىک شے سے بکلى ىاس ہو۔ اسباب ضرورى ہىں مگر خلق اسباب بھى تو خدا تعالىٰ ہى کے ہاتھ مىں ہے۔ وہ ہر اىک سبب کو پىدا کر سکتا ہے اس لئے اسباب پر بھى بھروسہ نہ کرو۔ اور ىہ بھروسہ ىوں پىدا ہوتا ہے کہ نمازوں کى پابندى کرو اور نمازوں مىں دعاؤں کا التزام رکھو۔ ہر اىک قسم کى لغزش سے بچنا چاہىے اور اىک نئى زندگى کى بنىاد ڈالنى چاہىے۔ ىہ ىاد رکھو! عزىز بھى اىسے دوست نہىں ہوتے جىسے خدا عزىز ہوتا ہے۔ وہ راضى ہوتو کل جہان راضى ہو جا تا ہے اگر وہ کسى پر رضا مندى ظاہر کرے تو الٹے اسباب کو سىدھا کر دىتا ہے۔ مضر کو مفىد بنادىتا ہےىہى تو اس کى خدائى ہے۔

ہاں ىہ بات بھى ىاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس کے لئے دعا کى جاتى ہے اس کو ضرورى ہے کہ خود اپنى صلاحىت مىں مشغول رہے۔ اگر وہ کسى اور پہلو سے خدا کو ناراض کر دىتا ہے تو وہ دعا کے اثر کو روکنے والا ٹھہر تا ہے۔ مسنون طرىق پر اسباب سے مددلىنا گناہ نہىں ہے مگرمقدم خدا کور کھے اور اىسے اسباب اختىار نہ کرے جو خدا تعالىٰ کى ناراضى کا موجب ہوں۔

مىں بھى ان شاء الله تعالىٰ دعا کروں گا تم خود اپنى صلاحىت مىں مشغول ہو۔ اور خدا تعالىٰ سے صلح کرو کہ وہى کارساز ہے۔

جس روز رات کو گورداسپور پہنچے تھے حضرت اقدسؑ کى طبىعت کسى قدر نا ساز تھى با ىںہمہ حضرت اقدسؑ نے تمام احباب کو جو ساتھ تھے آرام کرنے اور سو جانے کى ہداىت فرمائى تھى چنانچہ تعمىل ارشاد کے لئے متفرق مقامات پر احباب جا کر سو رہے۔ برادرم عبدالعزىز صاحب اور دو تىن اور دوست اس مکان مىں رہے جہاں حضرت اقدس آرام کرتے تھے۔ سارى رات حضرت اقدس ناسازى طبىعت اور شدت حرارت کى وجہ سے سو نہ سکے۔ چونکہ بار بار رفع حاجت کى ضرورت محسوس ہوتى تھى اس لئے بار بار اٹھتے تھے۔ حضرت اقدس ارشاد فرماتے تھے کہ ’’مىں حىران ہوں منشى عبد العزىز صاحب سارى رات ىا تو سوئے ہى نہىں اور ىا اس قدر ہوشىارى سے پڑے رہے کہ ادھر مىں سر اٹھاتا تھا ادھرمنشى صاحب فوراً اٹھ کر اور لوٹا لے کر حاضر ہو جاتے تھے۔ گوىا سارى رات ىہ بنده خدا جاگتا ہى رہا۔ اور اىسا ہى دوسرى رات بھى‘‘ پھر فرماىا کہ ’’در حقىقت آداب مرشد اور خدمت گزارى اىسى شے ہے جو مرىد و مرشد مىں اىک گہرا رابطہ پىدا کر کے وصول الى اللہ اور حصول مرام کا نتىجہ پىدا کرتى ہے۔ اس خلوص اور اخلاص کو جومنشى صاحب مىں ہے ہمارى جماعت کے ہر فرد کو حاصل کرنا چاہىے۔

جب دس بج چکے تو حضرت اقدس نے کچہرى کو چلنے کا حکم دىا چنانچہ ارشاد عالى سنتے ہى خدام اٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح پرکوئى چالىس آدمىوں کے حلقہ مىں خدا کا برگزىدہ ادائے شہادت کے لئے چلا۔ راستہ مىں لوگ دوڑ دوڑ کر زىارت کرتے تھے۔ آ خرضلع کى کچہرى آ گئى اور کچہرى کے سامنے جو پختہ تالاب ہے اس کے جنوب اور شرقى گوشہ پر درى بچھائى گئى اور حضرت اقدس تشرىف فرما ہوئے۔ حضور کا تشرىف رکھنا ہى تھا کہ سارى کچہرى امنڈ آئى اور اس درى کے گرد اىک دىوار بن گئى زائرىن کا ہجوم دمبدم بڑھتا جاتا تھا اىک آتا تھا دوسرا جاتا تھا چونکہ تىسرى ىا چوتھى دفعہ تھى جو حضور گورداسپور کى کچہرى مىں رونق بخش ہوئے۔ پہلے اور طرف بىٹھا کرتے تھے۔ اس طرف بىٹھنے کے لئے ىہ پہلى مرتبہ تھى آپ نے فرماىا ’’ىہ جگہ باقى رہ گئى تھى۔‘‘

اسى عرصہ مىں اىک شخص معزز حضور کى خدمت مىں حاضر ہوئے اور بڑے تپاک اور خندہ پىشانى سے حضرت سے مصافحہ کىا اور کچھ باتىں کرتےرہے اور اپنے لڑکے کے لئے جو بىمار تھا دعا کے لئے عرض کى۔ آپ نے دعاکا وعدہ فرماىا پھر اس نے عرض کى کہ جناب ہمارے لئے ہى ىہاں تشرىف لائے ہىں اور خدا تعالىٰ نے ہمارے واسطے ہى آپ کى تشرىف آورى کى سبىل پىدا کى ہے کہ ہم مشتاقوں کو بھى آپ کى زىارت سے سعادت مند وبہره ور فرمائے۔ حضرت نے جواباً ارشاد فر ماىا ’’ہاں اىسا ہوتا ہے کہ خدا تعالىٰ ان لوگوں کو بھى جو قادىان مىں کسى وجہ سے نہىں آ سکتے اور اپنے اندر اخلاص رکھتے ہىں ہمارى ملاقات سے محروم نہ رکھے۔ فرماىا ’’لکھا ہے کہ دو بزرگ اىک حضرت سىد عبد القادر جىلانى کے مرشد حضرت ابو سعىد اور اىک اور بزرگ اىک مقام مىں جمع ہوئے اور ىہ گفتگو ہوئى کہ حضرت اقدس و اکرم رسول الله صلى اللہ علىہ وسلم کو مکہ سے مد ىنہ مىں ہجرت کرا کر کىوں خدا تعالىٰ لے گىا۔ ان دونوں بزرگوں مىں سے اىک نے فرماىا کہ مصلحت و حکمت الہٰى اس بات کى مقتضى تھى کہ جو مراتب اور علو درجات رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کو عطا کرنے تھے وہ اس ہجرت اور سفر اور مصائب و تکالىف شدىده کے برداشت کرنے سے آپ کو عناىت فرمائے۔ دوسرے بزرگ نے فرماىا کہ مىرے خىال مىں ىہ آتا ہے کہ مدىنہ مىں بہت سى اىسى روحىں پر جوش اور با اخلاص اور خدا تعالى کى طرف دوڑنے والى تھىں جو اىک ذرىہ عظىمہ اور سبب کبرىٰ کو چاہتى تھىں اور وہ بباعث کسى سبب ىا بے دست و پا ہونے کے کہىں جا نہىں سکتى تھىں سوان کے تکمىل کے لئے خداوند جل شانہ نے رسول اللہ صلى الله علىہ وسلم کو مد ىنہ مىں پہنچاىا۔ غرض ان بزرگوں نے اپنے اپنے خىال کے مطابق ىہ دو باتىں بىان کىں اور دونوں ہى باتىں سچى تھىں سو خدا تعالىٰ جو ہمىں گورداسپور لاىا اور وہ اپنى مرضى اور حکمت کے رو سے لا ىا نہ ہم خود اپنى مرضى اور خواہش سے آئے۔ خدا ہى جانے اس مىں کىا اس کى حکمتىں اور مصلحتىں ہىں اور ہمارے زرىعہ ىا ہمارے وجود سے حق کى کىا کىا تبلىغ اور سچائى کى کىا کىا حجتىں پورى ہوں گى اور خدا کے علم مىں اور کىا کىا باتىں ہىں جو ہمىں معلوم نہىں۔ خدا تعالىٰ اپنى حکمتوں سے خوب واقف ہے۔‘‘ پھر آپ نے چند نصىحتىں کئى پىراىوں مىں تقوىٰ وطہارت اختىار کرنے اور برائىوں سے بچنے اور صدق اور راستى کے قبول کرنے کى نسبت بىان فرمائىں۔

(ملفوظات جلددوم صفحہ183-187جدىد اىڈىشن)

 مولوى عبدالکرىم صاحب نے اىک شہادت پر گورداسپور جانا تھا۔ اس پر مولوى صاحب نے کہا کہ مىں ىہاں سے باہر جا نا نہىں چاہتا مگر اب تو اللہ تعالىٰ لے چلا ہے خود تو مىں نہىں جاتا۔ حضرت اقدس نے فرماىا کہ:۔
قِىَامٌ فِىْ مَآ اَقَامَ اللّٰہُ ىہى تو ہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ438 جدىد اىڈىشن)

ىہاں تک آپ نے تقرىر کى تھى اتنے مىں مولوى عبدالکرىم صاحب گورداسپور سے اور دىگر احباب آگئے اور حالات سفر وغىرہ سناتے رہے۔ مولوى عبدالکرىم صاحب کے سفر مىں ہر اىک قسم کے عوارض اور شکاىت سے محفوظ رہنے پر حضرت اقدس نے فرماىا کہ :۔
ہمارا اىمان ہے کہ سب اس کے ہاتھ مىں ہے خواہ اسباب سے کر ے خواہ بلا اسباب کے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ440-441 جدىد اىڈىشن)

اس وقت حضرت اقدس نے تشرىف لا کر خبر سنائى کہ
اىک کارڈ گوجرانوالہ سے آىا ہے جس مىں خبر ہے کہ ٹىکہ کا عمل گورنمنٹ نے بند کردىا ہے مگر اس خبر کى تصدىق ىہاں بھى ہو ئى ہے لالہ شرمپت مىرے پاس آئے تھے انہوں نے کہا کہ گورداسپور مىں بھى ٹىکہ کے جلسے بند ہو گئے ہىں اور دوائى ٹىکہ تمام واپس منگوائى گئى ہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ351 جدىد اىڈىشن)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
اس سے اِ بْرَآء کا نشان لو۔ ىہ وہ نشان ہے جومسٹرڈگلس ڈپٹى کمشنر گورداسپور کے سامنے پورا ہوا۔ امرتسر کے اىک پادرى ڈاکٹر کلارک نے مجھ پر اقدام قتل کا مقدمہ بناىا تھا کہ عبدالحمىد نام اىک شخص کو گوىا مىں نے اس کے قتل کے لىے بھىجا ہے۔ ىہ مقدمہ مسٹر ڈگلس کے سامنے پىش ہوا۔ اور خدا تعالىٰ کے وعدہ اور پىشگوئى کے موافق مجھے برى کىا۔ جىسا کہ پہلے الہام اِ بْرَآء (بے قصور ٹھہرانا) ہو چکا تھا۔ جو لوگ اس وقت ىہاں ہمارے پاس موجود تھے اور دوسرے مقامات کے لوگ بھى اس امر کے گواہ ہىں کىونکہ مولوى عبد الکرىم صاحب کى عادت ہے کہ جب کوئى الہام وہ سنتے ہىں اسے فوراً بذرىعہ خطوط پھىلا دىتے ہىں۔ اس طرح پر ىہ الہامات جو اس مقدمہ کے نام و نشان سے بھى پہلے ہوئے تھے ہمارى اپنى جماعت مىں پورے طور پر اشاعت پا چکے تھے اور وہ سب لوگ جانتے ہىں کہ مقدمہ سے پہلے اِنْ ھٰذَا اِلَّا تَھْدِىْدُ الْحُکَّامِ اور صادق آن باشد کہ اىام بلا الخ وغىرہ الہام ہوئے تھے اور ان سب کے بعد اللہ تعالىٰ نے خبر دے دى تھى کہ اِبْرَآء (بے قصور ٹھہرانا)۔

اىک دانشمند اور سلىم الفطرت اس عظىم الشان نشان سے بہت بڑا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالىٰ کى عظمت دل مىں نہ ہوتو اور بات ہے مگر خدا ترس اور متقى آدمى سمجھ لىتا ہے کہ ىہ پىشگوئى اس طرز کى نہىں ہے جىسے راول ہاتھ دىکھ کر اناپ شناپ بتا دىتے ہىں۔ ىہ خدا کى باتىں ہىں جو قبل از وقت ہزارہا انسانوں مىں مشتہر ہوئىں اور آخر اسى طرح ہوا ور نہ کىا کسى کے خىال اوروہم مىں ىہ بات آ سکتى تھى کہ مثل پورے طور پر مرتب ہو جاوے اور عبد الحمىدا پنا اظہار بھى دے کہ ہاں مجھے بھىجا ہے۔ آخرى وقت پر جو فىصلہ لکھنے کا وقت سمجھا جاتا ہے۔ خدا تعالىٰ نے مسٹر ڈگلس کے دل مىں القاء کىا کہ ىہ مقدمہ بناوٹى ہے اور اس کے دل کو غىر مطمئن کر دىا چنانچہ اس نے کپتان لىمار چنڈ کو (جوڈسٹر کٹ سپرنٹنڈنٹ پولىس تھا) کہا کہ مىرا دل اس سے تسلى نہىں پاتا۔ بہتر ہے کہ تم اس مقدمہ کى تفتىش کرو اور عبدالحمىد سے اصل حالات معلوم کرو۔ چنانچہ جب کپتان لىمارچنڈ نے اس سے پوچھا تو اس نے پھر وہى پہلا بىان دىا۔ مگر جب کپتان صاحب نے اسے کہا کہ تو سچ سچ بتا۔ عبد الحمىد رو پڑا اور اقرار کىا کہ مجھے تو سکھاىا گىا تھا۔ اب بتاؤ کہ کىا ىہ انسان کا کام ہے۔ کىا ہر روز ىہ لوگ مقدمات مىں اسى طرح کىا کرتے ہىں۔ واقعات پر فىصلے دىتے ہىں ىا دل کى تسلىوں کو دىکھتے ہىں۔ نہىں ىہ خدا تعالىٰ کى قدرت کا کرشمہ تھا جو وہ وعدہ کر چکا تھا وہى ہونا تھا۔ پس اِ بْرَآء کا نشان عظىم الشان نشان ہے جو الف کى مد مىں ہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ148-149 جدىد اىڈىشن)

مولوى عبد الکرىم صاحب نے بىان کىا کہ سول ملٹرى گزٹ مىں چونکہ حسب دستور مردم شمارى پر رىمارک لکھا جا رہا ہے انہوں نے اس غلطى کو شائع کر دىا ہے کہ احمدىہ فرقہ کا بانى مرزا غلام احمد ہے اس نے اول ابتدا چوڑھوں سے کى اور پھر ترقى کرتے کرتے اعلىٰ طبقہ کے آدمى اس کے پىرو ہو گئے۔ حضرت اقدس نے فر ماىا کہ:۔
اس کى بہت جلد تر دىد ہونى چاہىے۔ ىہ تو ہمارى عزت پر بہت سخت حملہ کىا گىا ہے۔ چنانچہ اسى وقت حکم صادر ہوا کہ اىک خط جلدتر انگرىزى زبان مىں چھاپ کر گورنمنٹ اور مردم شمارى کے سپرنٹنڈنٹ کے پاس بھىجا جاوے تا کہ اس غلطى کا ازالہ ہو اور لکھا جاوے کہ گورنمنٹ کو معلوم ہوگا کہ چوڑ ھے اىک جرائم پىشہ قوم ہے ان سے ہمارا کبھى بھى تعلق نہىں ہوا۔ اىک شخص نامى مرزا امام الدىن قادىان مىں ہے جس کى ہم سے 30 برس سے زىادہ سے عداوت چلى آتى ہے اور کوئى مىل ملاپ اس کا اور ہمارا نہىں ہے۔ اس کا تعلق چوڑھوں سے رہا اور اب بھى ہے۔ تو اىک فرىق جو کہ ہمارا دشمن ہے اور اس کا تعلق چوڑھوں سے ہے اس کے عادات اور چال چلن کو ہم پر تھاپ دىنا سخت درجہ کى دل آزارى ہمارى اور ہمارى جماعت کى ہے۔ اور ىہ عزت پر سخت حملہ ہے اور اىک بڑى مکروہ کاروائى ہے جو کہ سرزد ہوئى ہے۔ چوڑ ھے تو درکنار ہمىں تو اىسے لوگوں سے بھى تعلق نہىں ہے جو کہ ادنى ٰدرجہ کے مسلمان اور رذىل صفات رکھتے ہىں۔ ہمارى جماعت مىں عمدہ اور اعلىٰ درجہ کے نىک چال چلن کے لوگ ہىں۔ اور وہ سب حسنہ صفات سے متصف ہىں۔ اور اىسے ہى لوگوں کو ہم ساتھ رکھتے ہىں۔ گورنمنٹ کو چاہىے کہ صاحب ضلع گورداسپور سے اس امر کى تحقىقات کرائے۔ اور عدل سے کام لے کر اس آلودگى کو ہم سے دور کرے۔ ہم خود امام الدىن کو اسى لىے نفرت سے دىکھتے ہىں کہ اس کا اىسى قوم سے تعلق ہے۔ پنجاب مىں ىہ مسلم امر ہے کہ جس شخص کے زىادہ تر تعلقات چوڑھوں سے ہوں اس کا چال چلن اچھانہىں ہوا کرتا۔ اسى لىے گورنمنٹ کا فرض ہے کہ اس غلطى کا ازالہ کرے۔

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ163-164 جدىد اىڈىشن)

آج ظہر اور عصر کى نمازىں جمع کرکے حضرت اقدس گورداسپور کے لىے روانہ ہوئے آپ کے ہمراہ صاحبزادہ مىاں بشىر الدىن محمود بھى تھے۔ سٹىشن کے قرىب جو سرائے تھى اس مىں حضور علىہ الصلوٰۃ والسلام نے نزول فرماىا۔ مغرب و عشاء کى نمازىں ىہاں جمع کرکے پڑھى گئىں۔

 حضور علىہ الصلوٰۃ والسلام نماز ادا فرمارہے تھے اور آپ کى طبىعت نا ساز تھى کہ نماز کے اندر طبىعت مىں ىہ خواہش پىدا ہو ئى کہ اگر انگور ملىں تو وہ کھائے جاوىں مگر چونکہ نزدىک و دوران کا ملنا محال تھا اس لىے کىا ہو سکتا تھا کہ اس اثنا مىں اىک صاحب جناب حکىم محمد حسىن صاحب ساکن بلب گڈھ ضلع دہلى جو کہ حضرت اقدس کے مخلص خدام سے ہىں قادىان سے واپس ہو کر حضرت اقدس کى خدمت مىں حاضر ہوئے اور انہوں نے اىک ٹوکرى انگوروں اور دوسرے ثمرات مثل انار وغىرہ کى حضرت کى خدمت مىں پىش کى اور بىان کىا کہ مجھے علم نہ تھا کہ حضور بٹالہ تشرىف لائے ہوئے ہىں۔ مىں قادىان چلا گىا وہاں معلوم ہو ا تو اسى وقت مىں واپس ہوا اور ىہ پھل حضور کے لىے ہىں۔

(ملفوظات جلدپنجم صفحہ253-254 جدىد اىڈىشن)

(بوقت صبح بمقام گورداسپور) حضرت مسىح موعود ؑ فرماتے ہىں:
مىں نے اىک قلم لکھنے کے واسطے اٹھائى ہے دىکھنے سے معلوم ہو اکہ اس کى اىک زبان ٹوٹى ہوئى ہے تو مىں کہا کہ محمد افضل نے جو پَر (نِب) بھىجے ہىں ان مىں اىک لگادو وہ پَر تلاش کئے جارہے ہىں کہ اس اثناء مىں مىرى آنکھ کھل گئى۔

(ملفوظات جلدپنجم صفحہ276 جدىد اىڈىشن)

کسى کے نام سے بطور تفاؤل کے فال پرسوال ہوا۔

فرماىا کہ:۔ ىہ اکثر جگہ صحىح نکلتا ہے آنحضرت صلى الله علىہ وسلم نے بھى تفاؤل سے کام لىا ہے اىک دفعہ مىں گورداسپور مقدمہ پر جارہا تھا اور اىک شخص کو سز املنى تھى مىرے دل مىں خىال تھا کہ اسے سزا ہوگى ىا نہىں؟ اتنے مىں اىک لڑکا اىک بکرى کے گلے مىں رسى ڈال رہا تھا اس نے رسى کا حلقہ بنا کر بکرى کے گلے مىں ڈالا اور زور سے پکارا کہ وہ پھس گئى وہ پھس گئى مىں نے اس سے نتىجہ ىہ نکالا کہ اسے سزا ضرور ہوگى چنانچہ اىسا ہى ہوا۔

اسى طرح اىک دفعہ سىر کو جارہے تھے اور دل مىں پگٹ کا خىال تھا کہ بڑا عظىم الشان مقابلہ ہے دىکھئے کىا نتىجہ نکلتا ہے کہ اىک شخص غىر از جماعت نے راستہ مىں کہا اَلسَّلَامُ عَلَىْکُمْ مىں نے اس سے ىہ نتىجہ نکالا کہ ہمارى فتح ہوگئى۔

(ملفوظات جلدپنجم صفحہ94 جدىد اىڈىشن)

(جارى ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

اسلامی اصطلاحات کا بر محل استعمال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 نومبر 2021