• 21 مئی, 2024

روحانی سانچا

ہمارے بچپنے میں ڈائی (Dye) کا لفظ اتنا مستعمل نہ تھا۔ جتنا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس لفظ کا استعمال آج ہے۔ ہم بچپن میں اینٹوں کے بھٹوں پر اینٹیں بنتی دیکھا کرتے تھے۔ بالخصوص مٹی کے مرکب کو اکٹھا کر کے ایک تھوپا (مجموعہ) سا بنا کر لکڑی کے ڈبے میں ڈال کر اینٹ کی شکل دینے سے خوب محظوظ ہوا کرتے تھے اور جب بھَٹے سے اینٹ پک کر باہر آتی تو اس کے نچلے حصہ پر انگریزی حروف تہجی کے دو یا تین حروف نقش ہوئے دیکھتے۔ اس وقت نہ تو لکڑی کے ڈبے کو کس نام سے پکارتے تھے پتہ تھا اور ان انگریزی حروف کی حکمت سے بھی نا بلد تھے۔

پھر 1965ء میں ابا جان مرحوم ہم سب بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے راولپنڈی سے ربوہ اپنے آبائی گھر میں آباد ہو گئے تو ربوہ گول بازار میں ٹوپیوں کی ایک مشہور دکان میں ٹوپیاں بنتی دیکھیں۔ ٹوپی کے کپڑے کو گیلا کر کے اور لئی لگا کر لکڑی کے فرما پر چڑھایا جاتا اور خشک ہو جانے پر ٹوپی کی شکل دی جاتی۔ (یہاں مجھے ایک ثانوی بات یاد آگئی کہ لاہور سے تین غیر از جماعت صحافی خاکسار کے ساتھ ربوہ دیکھنے آئے تو ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر ربوہ میں ٹوپیوں، برقعوں اور سائیکلوں کا کاروبار کیا جائے تو خوب سود مند ہو گا) پھر 1970ء میں ہم دو بھائیوں کو گرمی کی رخصتوں میں کراچی ابا جان کے پاس جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ وہاں سیمنٹ کے بلاکس لوہے کے سانچے میں بنتے دیکھے۔ مگر ان سانچوں یا ڈائیوں کے ناموں سے واقفیت نہ تھی۔

ہم نے بچپن میں مٹی کے مرکب سے بنے مختلف جانور گلی بازاروں میں بکتے دیکھے۔ ہم ان کو گگو گھوڑےکہا کرتے تھے۔ گو وہ ہاتھ سے بنے ہوتے تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بھی ڈائیاں بن گئیں اور بڑے خوبصورت رنگ برنگے کھلونے مارکیٹ میں نظر آنے لگے۔ ان میں بعض میں تو اصل اور نقل کی تمیز کرنا بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ ہم خود بھی کبھی کبھار چکنی مٹی ڈھونڈ کر پانی سے اس کا مرکب بنا کر اس کا گھوڑا بنا لیتے اور اس کو ختم کر کے بکری بنا لیتے یا کوئی اور صورت۔ یہی وہ مضمون ہے جو میں آگے روحانی سانچا میں بیان کرنے جا رہا ہوں۔ لیکن اس مضمون کے بیان کرنے سے قبل سانچا اور ڈائی کے لغوی معنی جاننا ضروری ہے۔

• سانچا۔ لکڑی، لوہے یا پلاسٹک کے اس ڈھانچے کو کہتے ہیں جس میں کسی چیز کے قوام، مادہ اور خمیر کو ڈال کر ایک خاص وضع، شکل اور قالب دی جاتی ہے۔ آج کے دور میں اسے ڈائی (Dye) کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جگہ جگہ خرادیے بیٹھے ہیں جو ہر قسم کی ڈائی بنا دیتے ہیں۔ یہ لفظ اب اتنا عام ہو گیا ہے کہ لوگ سانچا کے لفظ کو بھول گئے ہیں اور ڈائی کے لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔ اب تو ہر چھوٹی بڑی فیکٹریاں پہلے ڈائیاں بناتی ہیں جیسے کوئی کار بنانے والی فرم پہلے کار کے دروازوں، بونٹ اور انجن کے ہر پُرزے کی ڈائیاں بناتی ہیں جن میں لوہے یا پلاسٹک کو پگھلا کر ان کے اندر ڈال کر خوشنما اور سڈول پُرزے بنائے جاتے ہیں۔ حتٰی کہ مٹی کے برتن بنانے والوں نے بھی ڈائیاں بنا رکھی ہیں۔ اب تو ہر گھر کے کچن میں بچوں کو بہلانے کے لیے مختلف ڈائیاں موجود ہوتی ہیں۔ جن کے ذریعہ مختلف شکلوں کی اشیاء تیار کر کے بچوں کو دی جاتی ہیں اور وہ بچے خوشی خوشی کھا لیتے ہیں۔

روحانی سانچا

یہ تمام تمہید صرف اور صرف قارئین کو اسی مضمون کو سمجھانے کے لیے بیان کی ہے۔ انسان کو بھی اللہ تعالیٰ نے گیلی مٹی سے پیدا کیا اور انسان کے اندر وہ تمام خاصیتیں اور صلاحیتیں موجود ہیں جو ایک مٹی کے مرکب سے بنائی ہوئی چیز میں ہوتی ہیں اور تھوڑی دیر میں اس بنی بنائی ہوئی چیز کو ختم کر کے اسی مٹی سے کوئی اور چیز بنا لی جاتی ہے۔

انسان کی پیدائش گیلی مٹی سے

انسان کی پیدائش کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

طِیۡنٍ یعنی گیلی مٹی سے پیدا کیا جیسے فرمایا:

خَلۡقَ الۡاِنۡسَانِ مِنۡ طِیۡنٍ

(السجدہ: 8)

• طین سے پیدا کرنے کا ذکر سورۃ ص:72 میں ان الفاظ میں ملتا ہے۔

اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ

(ص: 72)

سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡن یعنی گیلی مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا جیسے فرماتا ہے:

وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡن

(المؤمنون: 13)

طِیۡنٍ لَّازِبٍ چمٹ جانے والی مٹی سے پیدا کیا جیسے فرماتا ہے:

اِنَّا خَلَقۡنٰہُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ لَّازِبٍ

(الصافات: 12)

صَلۡصَالٍ اور حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ یعنی گلے سڑے ہوئے کیچڑ اور خشک کھٹکتی ہوئی ٹھیکریوں سے پیدا کیا جیسے فرمایا:

وَلَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ

(الحج: 27)

جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے تو اس کے اندر اسلامی سانچے میں Adjust ہونے کی صلاحیت بھی رکھی ہے۔ یہ گیلی مٹی ہمیشہ نئے سانچے میں بھی ڈھلنے کے لیے تیار رہتی ہے۔

اسلامی سانچے

آئیں! دیکھتے ہیں کہ اسلام نے مسلمانوں کو سانچے میں ڈھلنے کے لیے کون کون سے سانچے (ڈائیاں) متعارف کروائے ہیں۔

قرآن کریم

ان میں سب سے پہلے سانچے میں قرآن کریم کا نام آتا ہے۔ جس میں 700 سے زیادہ احکام خداوندی موجود ہیں۔ ہر حکم ہی قالب ہے جن میں مومن اپنے آپ کو صبح و مساء ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں بھی اور آج اخروی دَور میں بھی صحابہؓ نے قرآن کریم میں بیان احکام کی فہرستیں تیار کر رکھی تھیں ان پر عمل کرنے کے لیے تا کوئی حکم عمل کرنے سے رہ نہ جائے۔

جامع البیان فی تفسیر القرآن میں یہ دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ ایک مہاجر صحابیؓ نے ایسے ہی احکام قرآنی کی فہرست بنا رکھی تھی۔ تمام حکموں پر عمل کر بیٹھے تو قرآنی حکم ’’اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آیا کرو‘‘ پر تعمیل باقی رہ گئی۔ اس کے لیے انہوں نے مدینہ کی بستی کے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ کوئی مجھے کہہ دے کہ میں اس وقت ملاقات نہیں کرنا چاہتا تو میں واپس آ جاؤں اور اس قرآنی حکم کی تعمیل ہو۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔

(700احکام خداوندی از حنیف محمود صفحہ37)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

اسلام میں ایک سانچا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور صحابہؓ نے اپنے آپ کو اس پیارے قالب میں ڈالا۔ صحابہؓ کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہر اس فعل یا عمل کو اپنے اندر اتاریں جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھتے تھے۔ صرف خود نہیں بلکہ اپنے دیگر صحابہؓ سے جہاں مقابلہ بھی رہتا وہاں اپنے عزیز و اقارب اور بچوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قالب میں اترنے کی تلقین کرتے۔

اس مضمون میں وہ تمام احادیث آجاتی ہیں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں اور یوں ایک قالب سیرۃ رسول اپنانے کے لیے احادیث کے مجموعے ہو سکتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کا سانچا

آج کے دور میں ایک روحانی سانچا امام آخر الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے اور آپؑ کا کوئی ایسا فعل نہ تھا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے منافی ہو۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈالے تا آپؑ کے توسط سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہو سکے۔

خلیفۃ المسیح کا قالب

ایک منہ بولتا قالب ہمارے پیارے خلیفۃ المسیح ہیں جو مجسم سیرت ہیں حضرت مسیح موعودؑ کی، جو مجسم سیرت ہیں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی، جو مجسم تصویر ہیں احکام قرآنی کی۔

ان کے علاوہ خاندان میں بزرگ حضرات و خواتین، اپنے ماں باپ اور بڑے بطور نمونہ کے موجود ہیں جن کی ڈائیوں میں اپنے آپ کو ڈھالا جا سکتا ہے۔ پس اپنے اوپر احکام قرآنی، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سیرت مسیح موعودؑو خلفاء کا لبادہ اوڑھ لیں اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے بننے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام اسلامی سانچوں میں اپنے آپ کو Adjust کرنے کی توفیق دے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

اے خدا! سارے زمانے کو ہدایت دے دے

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی