• 1 مئی, 2024

ناپاک اور پاک برابر نہیں ہو سکتے

حدیقة النساء
ناپاک اور پاک برابر نہیں ہو سکتے

جدھر دیکھو ابر گناہ چھا رہا ہے
گناہوں میں چھوٹا بڑا مبتلا ہے

فی زمانہ بہت سی برائیوں کو یہ کہہ کر رائج کیا جا رہا ہے کہ ہر کسی کی پرسنل لائف ہے ان کی پرائیویسی ہے۔ ہر کسی کی اپنی چوائس ہے۔ سب یہی کر رہے ہیں ہم کر لیں گے تو کیا ہو جائے گا۔ باقی سب معروف باتوں پر عمل کرتے ہیں اگر ایک یہ کام نہ بھی کریں گے تو کیا ہوا۔ فلاں صاحب کی بیگم اور بیٹی بھی پردہ نہیں کرتیں۔ اگر ہم بھی نہ کریں گے تو کیا ہو جائے گا زمانہ اب بدل گیا ہے اس کا ساتھ دیں لیں گے تو کیا ہو جائےگا۔ وہ فلاں صاحب بھی سور اور شراب والے ریسٹورنٹ میں نوکری کرتے ہیں ہم یا ہمارے بچے کر لیں گے تو کیا ہوا؟ فلاں صاحب سود پر کاروبار کرتے ہیں اور کم آمد پر بجٹ بنواتے ہیں آمدن کے حساب سے کم چندہ دیتے ہیں ان کو تو کوئی نہیں پکڑتا ہم کیوں پورا دیں؟ ہمیں نہیں پتا کہ اس پورے چندے کی وجہ سے ہم کہاں کہاں پکڑ میں نہیں آتے اور وہ آمدن چھپا کر کہاں کہاں پکڑ میں آرہے ہیں۔ جس طرح حلال و طیب دودھ کے بھرے گلاس کو ایک پیشاب کا قطرہ ناپاک بنا دیتا ہے اسی طرح ساری حلال کی آمد میں چند روپے بھی حرام کے مل جائیں تو وہ نار جہنم کے بھڑکانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کتاب رحمان میں صاف صاف بتا رہا ہے کہ

قُلۡ لَّا یَسۡتَوِی الۡخَبِیۡثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوۡ اَعۡجَبَکَ کَثۡرَۃُ الۡخَبِیۡثِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ

(المائدہ: 101)

تُو کہہ دے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوسکتے خواہ تجھے ناپاک کی کثرت کیسی ہی پسند آئے۔ پس اے عقل والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

کسی بھی کام کو کرنے کی نیت اور سوچ اس کی بنیاد ہوتی ہے وہ بنیاد اگر طیب ہے پاک ہے تو اس کام کا نتیجہ بھی پاک اور طیب ہو گا ورنہ اس کے برعکس ناپاک اور حرام۔ کیونکہ اوپر بیان کردہ آیت کے مطابق حلال اور حرام، پاک اور ناپاک برابر نہیں ہو سکتے۔ چاہے ساری دنیا بھی وہ کام کر رہی ہو وہ کام جائز نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی مرد اپنی گھر کی نگرانی نہیں کر رہا بیوی اور بچوں کی تربیت کا خیال نہیں رکھ رہا یہ دیکھ کر کہ گھر والے غیر اسلامی حرکات میں ملوث ہیں آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتا ہے کہ دوست اور رشتے دار مرد بھی ایسے ہی اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور گھر والوں کو آزادی دیتے ہیں اسی طرح گھر والے خوش رہتے ہیں۔ بیگم یا بچیاں جو چاہیں وہ لباس پہنیں پردے کی پابندی نہ کریں۔ بچے دیر سے گھر آئیں جس طرح کی جگہوں پر چاہیں جائیں جو چاہے وہ کرتے پھریں۔ آپ کو اس کا حساب دینا ہو گا جو ذمہ داری بحیثیت گھر کے سربراہ کے آپ پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح یہی بات عورتوں کے بارے میں بھی ہے۔ وہ اگر اپنے شوہر کا پیسہ بے جا خرچ کرتی ہیں۔ اس کی اولاد کی تربیت نہیں کرتیں غلط کاموں میں ساتھ دیتیں ہیں یہ سوچ رکھتے ہوئے کہ آج کل ایسی باتیں آوٹ ڈیٹڈ ہیں یا ہم لبرل ہیں دوسرے لوگوں کی طرح تو تمام نتائج ان کو بھگتنا پڑیں گے۔ کیونکہ ببول بو کر گلاب کھلنے کی امید رکھنا عبث ہے۔ اس زمانہ میں اس آیت پر غور و فکر کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ خدا تک جانے کے لیے اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے پاک بننا ازحد ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

یہ سچ ہے کہ جو پاک ہو جاتے ہیں
خدا سے خدا کی خبر لاتے ہیں

تو اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا کے ولی بنیں اس سے اپنا تعلق بنائیں تو پھر پاک ہونا پڑے گا ہر طرح سے۔ ذریعہ معاش بھی پاک ہو۔ رزق بھی پاک ہو، ہر تعلق بھی پاک ہو،دل بھی پاک صاف ہو جہاں وہ پاک وجود بسیرا کر سکے۔ روح بھی مصفا ہو۔ جس طرح کسی مہمان کی آمد سے قبل اپنے گھر کا کونہ کونہ صاف کیا جاتا ہے اسی طرح اُس بزرگ و برتر ہستی کو اپنے دل میں بسانے کے لیے اپنے پورےوجود کو ستھرا کرنا ہو گا۔ دنیا کی دیکھا دیکھی اس کی ناپاکی کو قبول نہیں کرنا بلکہ اس دعا کے مصداق بننا ہے جو بانیٴ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی جسمانی و روحانی اولاد کے لیے فرمائی کہ

عیاں کر اُن کی پیشانی پہ اقبال
نہ آوے اُن کے گھر تک رُعبِ دجال

تو اس رعب دجال سے خود بھی بچنا ہے اور اپنی نسل کی حفاظت بھی کرنا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’لوگ عام طور پر پوچھا کرتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ سے کس طرح محبت کریں، نیکیوں میں کس طرح ترقی کریں، گناہوں اور مختلف بدیوں سے کس طرح بچیں… اللہ تعالیٰ ان سب سوالات کا یہ جواب دیتا ہے کہ … اگر تم یہ چاہتے ہو کہ عمل صالح تم سے صادر ہوں تو تم حلال اور طیب چیزیں استعمال کرو۔ اگر تم حرام خوری کروگے تو تم میں دھوکا بھی ہوگا، فریب بھی ہوگا، دغابازی بھی ہوگی، لالچ بھی ہوگا، معاملات میں خرابی بھی ہوگی۔ اس کے بعد یہ امید رکھنا کہ تم نیکیوں میں ترقی کرنے لگ جاؤگے اور خدا تعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہوجائے گی، محض ایک خام خیالی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ اول صفحہ181)

خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہےکہ خلافت جیسی نعمت سے وابستہ رہنے والے عموماً دنیا کی برائیوں کی طرف کم راغب ہوتے ہیں اوران کی اولاد بھی اپنے والدین کو جب سچی اطاعت کرتےدیکھتی ہے تو ان کے دل پر بھی اس کا اثر ہوا کرتا ہے۔ پس اپنی نسلوں کو پاکیزہ بنانے کے لیےہمیں پہلے خود پاک بننا پڑے گا۔ ہر انسان کمزور ہے خطاؤں سےمبرا کوئی انسان نہیں۔ سب غلطیاں کرتے ہیں کوتاہیاں کرتے ہیں لیکن جس وقت اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اسی وقت نادم ہو کر اس غفور و رحیم خدا کے آگے گر جائیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لینے سے اور ان سے ہمیشہ کے لیے تائب ہو جانے سے وہ وھاب خدا فضل سے متوجہ ہوتا ہے اور ہمیں معاف کر دیتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں ناپاک اور پاک کے فرق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان اشعار پر اس مضمون کو ختم کرتی ہوں:

قدموں میں اپنے آپ کو مولا کے ڈال دو
خوف و ہراس غیر کا دل سے نکال تو
لعل و گہر کے عشق میں دنیا ہے پھنس رہی
تو اس سے آنکھ موڑ، ہے مولا کا لال تو
دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا ہوا ہے گند
ہر ہر قدم پہ ہوش سے دامن سنبھال تو

(صدف علیم صدیقی۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اے خدا! سارے زمانے کو ہدایت دے دے

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی