• 18 مئی, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ بعض واقعات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، حضرت مصلح موعود ؓ کے حوالہ سے ہی مزید بیان فرماتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عفو اور درگذر کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ جس جس رنگ میں دشمنوں نے آپ کا مقابلہ کیا دوست جانتے ہیں۔ دشمنوں نے کمہاروں کو آپ کے برتن بنانے سے، سقّوں کو پانی دینے سے بند کر دیا۔ لیکن پھر جب کبھی وہ معافی کے لئے آئے تو حضرت صاحب معاف ہی فرما دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کے کچھ مخالف پکڑے گئے تو مجسٹریٹ نے کہا کہ میں اس شرط پر مقدمہ چلاؤں گا کہ مرزا صاحب کی طرف سے سفارش نہ آئے کیونکہ اگر انہوں نے بعد میں معاف کر دیا تو پھر مجھے خواہ مخواہ ان کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر دوسرے دوستوں نے کہا کہ نہیں اب انہیں سزا ضرور ہی ملنی چاہئے۔ جب مجرموں نے سمجھ لیا کہ اب سزا ضرور ملے گی تو انہوں نے حضرت صاحب کے پاس آ کر معافی چاہی تو حضرت صاحب نے کام کرنے والوں کو بلا کر فرمایا کہ ان کو معاف کر دو۔ انہوں نے کہا ہم تو اب وعدہ کر چکے ہیں کہ ہم کسی قسم کی سفارش نہیں کریں گے۔ حضرت اقدس فرمانے لگے کہ وہ جو معافی کے لئے کہتے ہیں تو ہم کیا کریں۔ مجسٹریٹ نے کہا دیکھا وہی بات ہوئی جو میں پہلے کہتا تھا۔ مرزا صاحب نے معاف کر ہی دیا۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد10 صفحہ277۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر 1926ء)

یہ جو واقعات ہیں، ہمیں ان سے صرف محظوظ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے اوپر لاگو بھی کرنے چاہئیں۔ معافی اور درگزر کی طرف کافی توجہ کی ضرورت ہے۔

پھر ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ اپنے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میں ان لوگوں میں سے ہوں جو نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا کرتے ہیں۔ مَیں نے اپنے کانوں سے مخالفین کی گالیاں سنیں اور اپنے سامنے بٹھا کر سنیں مگر باوجود اس کے تہذیب اور متانت کے ساتھ ایسے لوگوں سے باتیں کرتا رہا۔ (فرماتے ہیں کہ) میں نے پتھر بھی کھائے۔ اس وقت بھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر امرتسر میں پتھر پھینکے گئے۔ اس وقت میں بچہ تھا مگر اس وقت بھی خدا تعالیٰ نے مجھے حصہ دے دیا۔ لوگ بڑی کثرت سے اس گاڑی پر پتھر مار رہے تھے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے۔ میری اس وقت چودہ پندرہ سال کی عمر ہو گی۔ گاڑی کی ایک کھڑکی کھلی تھی۔ میں نے وہ کھڑکی بند کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ اس زور سے پتھر مار رہے تھے کہ کھڑکی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور پتھر میرے ہاتھ پر لگے۔ پھر جب سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پتھر پھینکے گئے اس وقت بھی مجھے لگے۔ پھر جب تھوڑا عرصہ ہوا میں سیالکوٹ گیا تو باوجود اس کے کہ جماعت کے لوگوں نے میرے ارد گرد حلقہ بنا لیا تھا مجھے چار پتھر لگے۔‘‘

(حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات، انوار العلوم جلد 13صفحہ 508)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالفین کو تحریک کی کہ ایسے جلسے منعقد کئے جائیں جن میں ہر شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں اس لئے باقی سب لوگ اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ بند کر دیں۔ … آپ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ باقی لوگوں کو بھی تبلیغ کا ویسا ہی حق ہے جیسا مجھے۔ اس لئے آپ نے فرمایا کہ تم اپنی بات پیش کرو، مَیں اپنی بات پیش کرتا ہوں اور جب تک یہ طریق نہ پیش کیا جائے امن کبھی نہیں ہو سکتا اور حق نہیں پھیل سکتا۔ دنیا میں کون ہے جو اپنے آپ کو حق پر نہیں سمجھتا لیکن جب خیالات میں اختلاف ہو تو ضروری ہے کہ اسے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے۔‘‘

(خطبات محمود جلد12 صفحہ418۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 30 مئی 1930ء)

یہی بات اگر حکومت پاکستان سمجھ لے یا عرب دنیا میں لوگ سمجھ لیں تو پھر تبلیغ کے بڑے رستے وسیع ہو جائیں اور ان کو خود پتا لگ جائے کہ کون حق پر ہے اور کون غلط۔

پھر ملکہ کو تبلیغ کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ’’پہلے زمانوں میں کیا مجال تھی کہ کوئی بادشاہ کو تبلیغ کر سکے۔ یہ بہت بڑی گستاخی اور بے ادبی سمجھی جاتی تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو ایک خط لکھا جس میں اسے اسلام کی طرف بلایا اور کہا کہ اگر اسے قبول کر لوگی تو آپ کا بھلا ہو گا۔ یہ سن کر بجائے اس کے کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا جاتا اس چٹھی کے متعلق اس طرح شکریہ ادا کیا گیا کہ ہم کو آپ کی چٹھی مل گئی ہے جسے پڑھ کر خوشی ہوئی۔‘‘ (الفضل 19 اگست1916ء صفحہ7 جلد4 نمبر13) تو آج جو ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں وہ تو آج بھی کبھی ان لیڈروں کو اسلام کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔

(خطبہ جمعہ 27؍ فروری 2015ء)

پچھلا پڑھیں

مخالفین کا انبیاء کو نہ ماننا اور شیطان کے قبضہ میں جانا

اگلا پڑھیں

آپ کی نسبت سے ہی