• 26 اپریل, 2024

محترمہ الحاجہ زینب بی بی صاحبہ

محترمہ الحاجہ زینب بی بی صاحبہ آف مانگٹ اونچے کا ذکر ِخیر

خاکسار کی دادی جان مکرمہ الحاجہ زینب بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم الحاج میاں پیر محمد صاحب آف مانگٹ اونچے ضلع حافظ آباد اپنے گاؤں کی قابل احترام اور دعا گو خاتون تھیں جنہوں نے اپنے اور گاؤں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی سعادت حاصل کی۔خود بھی عاشق قرآن تھیں اور اس نور سے سینکڑوں سینوں کو منور کیا اوریوں آنحضورؐ کی اس حدیث کی عملی مصداق ٹھہریں کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو خود بھی قرآن پڑھتا ہے اور دوسروں کو بھی پڑھاتا ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حج ِ بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی اور وہاں محض اللہ کی خاطر اسیر بھی ہوئیں اور اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ آپ کا تعلق مانگٹ اونچے اور پیر کوٹ کے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے تھا ۔والد صاحب کے ساتھ آپ کی تحریری بیعت 1903ء کی ہے لیکن زیارت نہیں ہوئی۔ آپ کے والد محترم، نانا جان، تین ماموں، آپکے شوہر کے دو بھائی اور دو چچا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےصحابہ رضوان اللہ علیھم میں شامل تھے۔

محترمہ زینب بی بی صاحبہ کی پیدائش 1900ء کے لگ بھگ کی ہے۔ تاہم سرکاری ریکارڈ اس بارے میں درست نہیں ہے۔ آپ کے والد اور والدہ اور دیگر عزیزوں کی بیعت کا ریکارڈ الحکم 10جولائی 1903ء میں موجود ہے اور اس میں آپ کا نام بھی لکھا ہے۔ بیعت کے وقت آپ کے گاؤں کا نام موضع تھابل ضلع گوجرانوالہ درج ہے۔ آپ حضرت میاں امام الدین صاحب پیر کوٹی ؓکی نواسی اور حضرت میاں فتح دین صاحب گوندل ؓ کی بیٹی ہیں۔آپ کے والد محترم تھابل دُچھے نزد قلعہ دیدار سنگھ ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے اور انکا سسرال پیر کوٹ میں تھا۔احمدیت کی وجہ سے آپ اپنا گاؤں تھابل چھوڑ کر پیر کوٹ میں آباد ہوگئے۔

آپ کے والد محترم حضرت میاں فتح دین صاحب گوندلؓ نے 1966ء میں 91 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ انہوں نے وفات سے کئی سال قبل اپنا تابوت بنا رکھا تھا تا بہشتی مقبرہ لے جانے کے وقت کوئی مشکل پیش نہ آئے۔آپ کی والدہ محترمہ مریم بی بی صاحبہ کے والد حضرت میاں امام الدین صاحبؓ اور تینوں بھائی حضرت میاں نور محمد صاحبؓ، حضرت میاں پیر محمد صاحبؓ اور حضرت حافظ محمد اسحاق صاحبؓ آف پیر کوٹ اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحابی تھے۔ محترمہ مریم بی بی صاحبہ نے بھی 1903ء میں بیعت کی لیکن حضرت مسیح موعود ؑکی زیارت نہ کر سکیں۔آپ خاندان میں پہلی خاتون تھیں جو نظام وصیت میں شامل ہوئیں اور 1943ء میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں۔ آپ کے تینوں صحابی بھائی بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ محترمہ مریم بی بی صاحبہ متقی، دعا گو اور بزرگ خاتون تھیں۔ بچوں اور عورتوں کو قرآن کریم پڑھانا اور دین سکھانا آپ کا مشغلہ تھا۔پیر کوٹ میں آپ کا مکان مسجد کے قریب ہی جانب مغرب تھا۔ تو آپ مکان کی چھت پر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتی تھیں۔آپ کی پیر کوٹ میں وفات ہوئی اور امانتاً تدفین ہوئی۔سال ڈیڑھ کے بعد جب آپ کی میت قادیان لے جائی جانے لگی اور حافظ آباد کےریلوےاسٹیشن پر انگریز ڈاکٹر نے نعش کا معائنہ کیا تو وہ بہت حیران ہوا کہ یہ تو بالکل تازہ وفات معلوم ہوتی ہے ۔اس نے پوچھاکہ کیا آپ نے اس کو کوئی مصالحہ وغیرہ لگایا تھا؟ آپ کی نواسی مکرمہ بشریٰ بیگم صاحبہ بتاتی ہیں کہ میرے نانا جان حضرت میاں فتح دین گوندل صاحبؓ نے ڈاکٹر کو جواب دیا کہ انکو انکے نیک اعمال کا مصالحہ لگا ہوا ہے۔محترمہ مریم بی بی صاحبہ اپنے نواسوں کی قادیان میں حصول تعلیم کے دوران انکی خدمت کے لئے قادیان میں بھی مقیم رہیں۔

محترمہ زینب بی بی صاحبہ بزرگ والدین اور پیر کوٹ کے تقویٰ شعار ننھال کے زیر سایہ پروان چڑھیں اور انکی نیکی اور تقویٰ کا اثر آپ کی شخصیت پر نقش ہوا۔آپ نے اپنے نیک بزرگان کی روایات کو برقرار رکھا۔ مروجہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی تاہم قرآن کریم اور اردو پڑھنا جانتی تھیں۔ جواں عمری میں آپ کی شادی مانگٹ اونچے میں مکرم الحاج میاں پیر محمد صاحب سے 1919ء میں ہوئی۔ مانگٹ اونچے میں آپ کا گھرانہ تعلیم و تربیت ، زہد و تقویٰ اور نیکی کی وجہ سے معروف اور قابل ِ احترام سمجھا جاتا تھا۔آپ کے شوہر گاؤں کے امین بھی تھے اور امام مسجد بھی۔ آپ گاؤں کی بچیوں کو قرآن پڑھاتیں اور انہیں دینی علوم سکھاتی تھیں۔آپ نے اپنے بچوں کی بہت اعلیٰ رنگ میں تربیت کی اور انکو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ اس وجہ سے بھی گاؤںمیں آپ کا گھرانہ قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کہ آپ کی سبھی اولاد تعلیم یافتہ اور جماعتی خدمتگار تھی۔آج آپ کی اولاد کے سینکڑوں احمدی خاندان دنیا کے چھ براعظموں میں آباد ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دینی و دنیاوی نعمتوں سےمالا مال ہیں۔

حج اور اسیری کی سعادت

جنوری 1974ء میںمحترمہ زینب بی بی صاحبہ کو اپنے بیٹے مکرم الحاج مولوی محمد شریف صاحب واقف ِزندگی سابق اکاؤنٹنٹ جامعہ احمدیہ کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔حج کے اخراجات آپ کے دوسرے بیٹے مکرم چوہدری سلطان احمد طاہر صاحب آف کراچی نے ادا کئے تھے۔ مکہ معظمہ میں آپ کا قیام چار ماہ رہا۔ مکہ کی رہائش میں 12 احمدی اکٹھےرہ رہے تھے۔ بعدہٗ اس میں چنیوٹ کے تین غیر از جماعت بھی شامل ہوگئے۔ جماعت کے معاند مولوی منظور احمد چنیوٹی تک انہوں نے انکی خبر کی اور پھر اسی کے ذریعہ سے حکام کو اطلاع کی گئی۔ اس مخبری کے بعد باقی احمدی تو مدینہ منورہ اور جدہ چلے گئے۔آپ دونوں چونکہ حج سے پہلے مدینہ منورہ جا چکے تھے اس لئےآپ کا قیام اس رہائش گاہ میں رہانیز آپ کے غیر از جماعت ساتھیوں نے تسلی دلائی کہ شکایت والا معاملہ رفع دفع ہو گیا ہے۔ مکرم مولوی محمد شریف صاحب نے اپنی والدہ محترمہ کو احتیاطاً کہہ دیا تھاکہ اگر میں گرفتار ہو گیا تو آپ نے گھبرانا نہیں۔

16 اور17 مارچ 1974ء کی درمیانی رات جب مکرم مولوی محمد شریف صاحب مسجد حرام میں تلاوت قرآن کریم کر رہے تھے تو آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور بیان وغیرہ کے بعد جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس واقعہ کا آپ کی والدہ محترمہ کو علم نہ ہوا تاہم دوسرے روز آپ نے درخواست کی کہ میری والدہ پریشان ہونگیں انکو اطلاع کر دی جائے۔ چنانچہ آپ کو آپ کی رہائش گاہ پر لایا گیا اور محترمہ زینب بی بی صاحبہ کو بھی حراست میں لے کر حرم کے حوالات میں بند کر دیا گیا۔ عدالتی کارروائی جاری رہی اور حالات و واقعات سے یہی لگتا تھا کہ آپ کو سزائے موت دے دی جائے گی۔چنانچہ مکرم مولوی محمدشریف صاحب نے اپنی والدہ محترمہ کو وصیت بھی لکھ کر دے دی تھی جس میں بیوی بچوں کو صبرو استقامت کی نصیحت کی گئی تھی۔ آپ کو بار بار احمدیت سے انحراف کرنے پر مجبور کیا جاتارہا لیکن آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔مکرم حاجی محمد شریف صاحب کو جیل میں تنہا بند کر دیا گیا اور تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد رہا کر کے جدہ لے جایا گیا۔ دریں اثناء آپ کی والدہ محترمہ زینب بی بی صاحبہ کو مکہ معظمہ میں عورتوں کی جیل میں رکھا گیا تھا۔ ماں بیٹا دونوں کوایک دوسرے کے حالات کا کچھ علم نہ تھا۔ آخر 2مئی کو جدہ میں ماں بیٹے کی ملاقات ہوئی۔

13مئی کو آپ کی واپسی کی ٹکٹ بذریعہ بحری جہازریزرو ہوئی۔ جدہ میں واپسی تک کے بقیہ ایام بھی جیل میں ہی گزرے اور آپ کو جیل سے ہی بندرگاہ پہنچایا گیا۔ دراصل آپ کو ملک بدر کیا جارہا تھا اور یہ بھی کہا گیا کہ دوبارہ سعودی عرب نہ آنا۔ جہاز میں پہنچ کر آپ کا دل شکر کے جذبات سے بھر گیا اور اطمینان کا سانس نصیب ہوا۔ جہاز میں ایک مسافر نے پوچھا کہ سعودی حکام نے آپ کو کیسے چھوڑ دیا تو مکرم حاجی محمد شریف صاحب نے جواب میں اسے یہ شعر سنایا :؎

غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو! زورِ دعا دیکھو تو

الحمدللہ کہ ماں اور بیٹے کو حج بیت اللہ کی سعادت بھی ملی اورارض حرم میں محض اللہ کے نام کی خاطر ہتھکڑیاں بھی لگیں اور قید کیا گیا ۔ قید کے یہ ایام خالصۃً عبادت، ذکر الہٰی، تلاوت قرآن کریم اور درود شریف پڑھنے میں گزرے۔یہ مناجات اور عبادات رنگ لائیں اور آپ کو اسیری سے نجات ملی اور اپنے وطن واپس آئے۔ دونوں ماں بیٹے نے کمال صبر واستقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ کسی نے محترمہ زینب بی بی صاحبہ سے کہا کہ اگر آپ کے بیٹے کو وہاں قتل کر دیا جاتا تو پھر؟ آپ نے کہا کہ اس سے بڑی اور کیا خوش قسمتی ہونی تھی کہ بیٹے کو ارض مقدس میں موت آجاتی۔ یہ احمدی ماؤں کے صبر واستقامت اور مضبوط ایمانی کا نمونہ ہے جس نے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کر دی۔ (ارض ِ حرم میں اسیری کے حالات بیان کردہ الحاج مولوی محمد شریف صاحب مکرم عبدالرحمان مبشر صاحب کی کتاب ’’عالمگیر برکات مامور زمانہ‘‘ اور الفضل انٹرنیشنل لندن میں بھی شائع شدہ ہیں)

حج سے واپسی پر دادی جان اور تایا مکرم حاجی محمد شریف صاحب ہمارے پاس لطیف نگر (نزد محمد آباد سندھ) بھی تشریف لائے جہاں خاکسار کے والد محترم محمد صادق صاحب تحریک جدید کی طرف سے متعین تھے۔ خاکسار اس وقت صرف چھ سال کا تھا۔ تھوڑی سی یاد انکے لطیف نگر آنے کی آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے۔ لیکن دادی جان سے باقاعدہ ملاقات دس سال کی عمر میں 1978ء میں کراچی میں ہوئی جب آپ مانگٹ اونچے سے کراچی اپنے بچوں کے پاس آئی تھیں تو ہمارے گھر ڈرگ روڈ بھی تشریف لائیں۔ آپ کی پیار اور محبت بھری وہ ملاقات اب بھی یاد ہے۔ والد صاحب کی ٹرانسفر سندھ سے ربوہ ہوگئی تو ہم ربوہ منتقل ہوگئے اور اسی دور میں ہمارے دادا دادی بھی پیرانہ سالی کی وجہ سے اپنے گاؤں مانگٹ اونچے سے ربوہ اپنے بچوں کے پاس آگئے یوں ہمیں اپنے بزرگ دادا دادی کی نیک صحبت سے فیضاب ہونے کا موقع مل گیا۔ دادی جان نے 80سال سے زائد عمر میں 8اپریل 1983ء کو جبکہ دادا جان نے 100سال کی عمر میں 1989ء میں وفات پائی۔ دونوں بزرگ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں۔ آپ کے دو بیٹے واقفِ زندگی تھے جبکہ باقی اولاد بھی خدمتِ دین میں پیش پیش رہی اور ساری اولاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام وصیت سے منسلک ہے ۔

محترمہ زینب بی بی صاحبہ شب بیدار،عاشق قرآن،امین و دیانت دار ،مونس و غم خوار اور دیگر اوصاف ِحمیدہ سے متصف تھیں اور اپنی نیکیاں اپنی اولاد میں بھی احسن تربیت کے ساتھ پیدا کرنے کی کوشش کی۔آپ نمازوں کو سنوار کر اپنے وقت مقررہ پر ادا کرتی تھیں اور یہی اپنے بچوں کو تلقین کیا کرتی تھیں۔ رات تہجد کے لئے بیدار ہوتیں تو تہجد میں قرآن کریم اونچی آواز میں پڑھنا آپ کی عادت تھی جونہی نماز کا وقت آتا دیگر مصروفیات ختم کر کے نماز ادا کرتی تھیں۔آپ کی نواسی شاہدہ نسرین صاحبہ آف ناروے بیان کرتی ہیں کہ آپ خود بھی عبادت گزار تھیں اور اپنی ساری اولاد کو بھی اس کی پابندی کروائی۔نماز کے بعد تسبیح کرنا ان سے سیکھا ہے۔ نماز پڑھنے کا طریق بھی آپ چھوٹے بچوں کو بتایا کرتی تھیں۔وضو کی خوب تلقین کرتیں اور نماز جمع کی بجائے الگ الگ ادا کرنے کی تاکید کیا کرتی تھیں۔فرض نماز اور سنتوں و نوافل کی مثال یوں دیتی کہ اگر تجارت کا مال قیمت ِخرید پر بیچ دیا تو کیا فائدہ ؟اگر سنتیں نہ ادا کیں تو گھاٹے کا سودا ہے۔ اگر نوافل ادا کریں گے تو نفع بخش تجارت ہوگی۔آپ اذان کی آواز سنتیں تو اس کے الفاظ ساتھ ساتھ دہرایا کرتی تھیں اور اذان کے بعد کی دعا خود بھی پڑھتیں اور بچوں کو بھی تلقین کرتیں کہ یہ پڑھا کرو تا تمہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو۔دیہاتی ماحول میں گھڑی وغیرہ کا تو رواج نہیں تھا نمازوں کے اوقات سورج کے سایہ سے معلوم کرنے کی ماہر تھیں۔ اسی طرح تہجد کے اوقات ستاروں کے جھرمٹ اور قطبی ستارہ سے اندازہ کرتیں۔

آپ کی زبان ذکر الہٰی سے تر رہا کرتی تھی۔ گھریلو کام کاج کے دوران بھی بکثرت دعائیں اور درودشریف کا ورد آپ کامعمول تھا۔ درودشریف کی برکات سے بچوں کو آگاہ کرتیں اور کہا کرتی تھیں کہ درودشریف سے کھانا بابرکت ہو جاتا ہے اور جسمانی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی مل جاتی ہے۔ رمضان کی عبادات میں خاص ماحول پیدا کرتی تھیں۔ مسجد مبارک میں بھی آپ کو اعتکاف کی سعادت ملی۔ اور پھر حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی اور اسیری کے دوران آپ کی عبادات اپنے معراج پر تھیں اور کہا کرتیں کہ اسیری کے دوران عبادات کی لذت ہی کچھ اور تھی۔ مختلف دعاؤں کا ورد آپ نے معمول بنا رکھا تھا مثلاً ہر نیا چاند دیکھنے پر اس کی طرف دیکھ کر خوشی کا اظہارکرتیں اور بچوں کو بھی اس خوشی میں شریک کرکے نئے چاند کی دعا کرتیں۔

قرآن کریم کے ساتھ تو عشق تھا۔ آپ کی ساری عمر قرآن پڑھنے اور پڑھانے میں گذری۔ اللہ تعالیٰ نے پھر اس کی برکات اور انوار سے آپ کو آپ کی اولاد کو وافر حصہ عطا فرمایا۔ آپ کی بیٹی محترمہ پروفیسر صادقہ شمس صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپ رات کو تہجد کے لئے بیدار ہوتیں تو اس میں قرآن کریم کا جو حصہ یادہوتاتھاوہ بالجہر پڑھتی تھیں گویا فَتَھَجَّدبِہِ کا عملی نظارہ نظر آتا۔ فجر کے بعد آپ کو چرخہ کاتنے کی بھی عادت تھی اور چرخہ کاتتے ہوئے آپ نعتیں اور نظمیں پڑھا کرتی تھیں پھر دودھ بلوتیں۔ دودھ بلونے کے بعد کسی غریب کو لسی دیا کرتی تو اس میں کچھ مکھن بھی ڈال دیتی تھیں۔ دودھ بلونے کے بعد آپ تلاوت قرآن کریم کیاکرتی تھیں اور لمبی تلاوت کرتیں یہاں تک کہ بچے انتظار میں ہوتے کہ ہمیں صبح کی روٹی پکا کے دیں۔ اسیری کے دوران تلاوت قرآن کریم آپ کی روح کی غذا تھی اور اسی کی برکت سے آپ کی رہائی کے سامان بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کردئیے۔

قرآن کریم کے ساتھ عشق کے مختلف انداز تھے۔ آپ کی نواسی شاہدہ نسرین صاحبہ بتاتی ہیں کہ آپ ہمیں قرآن کریم میں مذکور انبیاء کی کہانیاں اور واقعات سنایا کرتی تھیں۔ ملکہ سبا کے شیشے کے محل سے گزرتے وقت کی کیفیت بیان کرتے وقت آپ کے چہرے کی عجب کیفیت ہو جاتی اور کہتیں کہ سبحان اللہ قرآن کریم نے کیا سچائی بیان کی ہے کہ ہر طرف رب کے جلوے نظر آتے ہیں اور کم عقل ان کو خدا بنا بیٹھتے ہیں۔ ملکہ نے سورج کو خدا سمجھا اور پھر حضرت سلیمانؑ کی دانشمندی سے وہ اصلی خدا کو پہچان گئی۔ قرآن کریم میں مذکور پھلوں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں مثلاً شہد، انگور، انار، کھجور، کیلے اور ادرک کو اس لئے کھانا پسند کرتیں کہ ان کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ کئی مرتبہ ہوا کہ ھُد ھُد کو دیکھا تو کہتیں یہ کتنا پیارا نام ہے اور کتنا پیارا پرندہ ہے کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آیا ہے۔

تلاوت قرآن کریم کے دوران اگر وہ اسماء آجاتے جو آپ کے بچوں کے نام بھی تھے جیسے سلطان، صادق، حنیف، ابراہیم تو آپ اونچی آواز میں دو تین مرتبہ وہ حصہ تلاوت کیا کرتی تھیں یہ بچوں کی تربیت کا بھی انداز تھا اور قرآن کریم کے ساتھ محبت کا بھی اظہار تھا۔ آپ کے چھوٹے بیٹے کا نام ابراہیم اور ان کی اہلیہ کا نام بشریٰ ہے۔ جب قرآن کریم کی یہ آیت وَلَقَدْ جاءَتْ رُسُلُنَا اِبْراھیمَ بِاْلبُشْریِٰ (ھود:70) کی تلاوت کرتیں تو کہتیں کہ یہ جوڑی تو رب نے آپ بنائی ہے۔ قرآن کریم سکھاتے ہوئے آپ پارہ کا نام اور سورتوں کے نام بھی یاد کروایا کرتی تھیں اور قرآن پڑھنے والے بعض غریب بچوں کو لسی دیکربھی رخصت کرتیں۔

غریب پروری اور لوگوں کی ہمدردی آپ کا نمایاں وصف تھا۔ گھر میں بھینس رکھنے کا شروع سے شوق رہا۔ رات کو ایک گلاس دودھ کسی غریب عورت کو دیا کرتی تھیں۔ اس طرح آپ کو مرغیاں پالنے کا بھی شوق تھا اور مرغی کا پہلا انڈہ کسی غریب کو دیتی تھیں۔ گاؤں کی نادار خواتین کی مدد کا ایک یہ طریق بھی اپنا رکھا تھا کہ آپ اپنی مرغی اور انڈے آدھ پر دے دیتیں یعنی جب چوزے نکل آئیں اور کچھ بڑے ہو جائیں تو نصف نصف چوزوں کی تقسیم ہو جاتی۔ اس طرح ان کی مدد ہو جاتی۔

غیبت اور چغلی سے آپ کو سخت نفرت تھی۔ آپ کی بیٹی محترمہ پروفیسر صادقہ شمس صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ غیبت سے آپ سخت کراہت کا اظہار کرتی تھیں اور آپ کے بچوں میں سے اگر کوئی کسی تیسرے کی بات شروع کرتا تو آپ فوراً انہیں منع کردیتیں اور ساتھ کہتی کہ جس کی تم بات کر رہے ہو اس کے گناہ جھڑ رہے ہیں اور تم پر یہ گناہ پڑ رہے ہیں۔ اس لئے کسی کی بات نہ کریں۔

آپ کے شوہر گاؤں کے امین تھے۔ لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھوایا کرتے تھے۔ اس کے لئے آپ کے پاس ایک مضبوط اور وزنی سیف موجود تھا۔ آپ خود بھی صفتِ امین سے متصف تھیں اور اپنے بچوں کو بھی اسی کی تلقین کی۔ بچپن میں ایک بار آپ کے ایک بیٹے سلیٹ پر سوال نکال رہے تھے لیکن درست نہیں نکل رہا تھا اور وہ سلیٹ کو نیچے مار رہے تھے۔ آپ کی بیٹی صادقہ شمس صاحبہ بتاتی ہیں کہ والدہ صاحبہ نے پوچھا کیا مسئلہ ہے تو بھائی نے بتایا کہ سوال نہیں حل ہو رہا۔ والدہ صاحبہ نے پوچھا کہ یہ سلیٹی (جس سے سلیٹ پر لکھا جاتا ہے) تم نے کہا ں سے لی؟ بھائی نے کہا کہ اپنے تایا زاد بھائی بشارت احمد کے بستے سے لی تھی۔ یہ سن کر والدہ صاحبہ بہت ناراض ہوئیں اور کہا کہ یہ سلیٹی تو تم کل اس کو واپس کر دینا اور ابھی دکان پر جاؤ اور اپنی سلیٹی لےکر آؤ۔

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ بظاہر یہ چھوٹی سے بات معلوم ہوتی ہے لیکن آپ نے بچوں کو امانت دیانت کی باریک راہوں پر چلنا سکھایا۔ الحمد للہ کہ آپ کی اولاد نے ان روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا خوف اور نیکی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاس چاندی کا ایک وزنی کڑا تھا وہ بلدار اور کوئی دس بارہ تولے کا ہوگا۔ یہ
52-1951ء کی بات ہے۔ آپ نے وہ کڑا فروخت کیا جو کہ اسّی روپے میں فروخت ہوا۔ بیچنے کا مقصد اپنے چھوٹے بیٹے محمد ابراہیم شمس صاحب کو سائیکل خرید کر دینا تھا تاکہ وہ گاؤں سے حافظ آباد پڑھنے کے لئے پیدل جانے کی کوفت سے بچ جائے اور آنے جانے میں سہولت پیدا ہو جائے۔ چنانچہ سائیکل خرید کر دیا گیا لیکن کسی کی شرارت سے جلد ہی چوری ہوگیا۔اس زمانہ میں سائیکل شاذ کے طور پر ہی کسی کے پاس ہوتا تھا خاص طور پر دیہاتوں میں ۔ محترمہ زینب بی بی صاحبہ نے سائیکل چوری ہونے پر کہا کہ شاید یہ اس لئے چوری ہوگیا کہ میں نے اپنے چاندی کے کڑے کی زکو ٰۃ نہیں دی تھی حالانکہ زکو ٰۃ تو نصاب کے مطابق 52 تولے چاندی پر ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی دل میں نقصان کی وجہ اپنی کسی کمی کو ہی قراردیا تو اس حد تک آپ کی نیکی کااعلیٰ معیار تھا۔

آپ کی صفت امانت ، قناعت اور بچوں کی تربیت کے انداز کا تذکرہ کرتے ہوئے محترمہ پروفیسر صادقہ شمس صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ پرانے وقتوں میں خاص طور پر دیہاتوں میں عموماً رواج تھا کہ لوگ اپنی گندم بیچ کر دکانوں یا پھیری والوں سے اپنی ضرورت کی اشیاء خرید لیا کرتے تھے۔اس عمل سے ایک نقصان یہ ہوتا تھا کہ کئی لوگوں کی گندم نئے سیزن سے پہلے ہی ختم ہو جایا کرتی تھی اور پھر وہ ادھار گندم لینے یا قرض لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ لیکن ہماری والدہ صاحبہ نے اپنے گھر میں یہ طریق اختیار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے بچوں کو اجازت دی کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے گندم دے کر اشیاء خریدیں۔ والدہ کہتی تھیں کہ آپ کے والد محترم کی اجازت کے بغیر تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ میں گندم بیچنے دوں ۔ تاہم اگر انکے پاس پیسے ہوتے تو وہ ہمیں دے دیا کرتی تھیں۔ہمارے والد محترم بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ ہم گندم بیچ کر اشیاء لیں۔ آپ کبھی کبھار ہمیں پیسے دے دیا کرتے تھے اور ساتھ کفایت شعاری اور قناعت کادرس دیتے تھے۔ الحمدللہ کہ ہماری گندم کبھی ختم نہیں ہوئی اور ہمارے پڑوسیوں اور عزیزوں کی گندم اکثر فروری مارچ میں ختم ہو جایا کرتی تھی اور پھر بقیہ عرصہ کی گندم کے حصول کے لئے وہ ہمارے والد صاحب کے ہاں آتے تھے۔

اپنے بچوں کے بعد اپنی تیسری نسل کے بچوں سے پیار اور انکو دینی آداب سکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ کی نواسی شاہدہ نسرین صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ بڑی نواسی ہونے کے ناطے میں انہیں بہت عزیز تھی اور میں نے آپ کی صحبت سے بہت عرصہ فیض پایا گاؤں میں بھی اور پھر جب وہ ہمارے پاس دارالیمن ربوہ میں آگئیں تب بھی ۔ نانی جان مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کہ دعا کر میں تیری شادی تک زندہ رہوں ۔ آپ کی یہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ آپ کی وفات میری شادی کے چھ ماہ بعد ہوئی۔مجھے یہ دعا دیا کرتی تھیں کہ جہاں بھی جاؤ وہاں کی مٹی تمہارے لئے سونا بن جائے ۔آپ کی یہ دعا قبول بھی ہوئی۔شادی کے بعد مجھے سیرالیون خدمت کی توفیق ملی اور پھر ناروے میں بھی خدمت ِ دین کی توفیق مل رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا بھی مشاہدہ کر رہی ہوں۔یوں افریقہ اور یورپ کی زمین میں نے اپنے لئے سونا بنتی دیکھی ہے۔ بہت چھوٹی عمر میں ہی آپ ہمیں اپنے ساتھ جلسہ سالانہ پر لیکر جاتیں اور جلسہ کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی جلسہ گاہ پہنچ جاتیں تا ساری کارروائی سن سکیں۔اسی طرح بہشتی مقبرہ بھی اپنے ساتھ لیکر جاتیں اور قطعہ خاص میں دعا کے بعد اپنے بزرگ والد اور تینوں ماموں صاحبان کی قبروں پر بڑے ذوق اور ابتہال کے ساتھ دعا کرتی تھیں۔اپنے ننھیالی بزرگان سے باقاعدگی سے ملنے جایا کرتی تھیں۔آپ بتاتی تھیں کہ میں اپنے والدین اور ساس سسر کے لئے تین تین مرتبہ ربّ ارحمھما کما ربیٰنی صغیرا کی دعا روزانہ باقاعدگی سے مانگتی ہوں۔ اپنے ساس سسر کے لئے اس لئے کہ وہ بھی میرے والدین ہیں۔

ہماری دادی جان سلیقہ مند خاتوں تھیں۔ آپ کھانا پکانے میں مہارت رکھتی تھیں۔ میری والدہ محترمہ اکثر آپ کے سالن بنانے کی مہارت اور لذت کا تذکرہ کرتی ہیں۔ آپ جو کھانا بھی بناتی تھیں اس میں لذت پیدا کر دیتیں ۔ آپ سالن اورپراٹھے ہلکی آنچ پر تیار کیا کرتی تھیں۔تازہ مکھن کے ساتھ آپ کے بنے تہدار پراٹھوں کو آپ کے پوتے پوتیاں آج بھی یاد کرتے ہیں۔

پھلدار درخت

قرآن کریم نے شجرہ طیبہ کی خوبصورت مثال ہمارے سامنے رکھی ہے جس کی خوبی ہے کہ وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے۔ اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جو باغ لگایا گیا ہے اس کے درخت دنیا بھر میں پھل پھول رہے ہیں۔ جن درختوں کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ محبتِ الٰہی کے پانی سے سیراب ہورہی ہیں انکی شاخیں پھلوں سے لدی ہوئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس باغ کا ایک شجر پھلدار ہماری دادی جان اور دادا جان اور آپ کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی نسل بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں اور اب ان کی اولاد در اولاد کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ الحمدللہ کہ آپ کے دو بیٹے الحاج مولوی محمد شریف صاحب اور میرے والد چوہدری محمد صادق صاحب سابق اکاؤنٹنٹ وکالت تبشیر واقف ِ زندگی تھے۔ باقی تینوں بیٹے مکرم چوہدری سلطان احمد طاہر صاحب آف کراچی،مکرم محمد حنیف قمر صاحب اور مکرم محمد ابراہیم شمس صاحب آف کراچی بھی مختلف عہدوں پر عمر بھر خدمت ِ دین کرتے رہے۔ آپ کی دو بیٹیاں مکرمہ آمنہ بشارت صاحبہ مرحومہ اہلیہ بشارت احمد صاحب مرحوم دارالیمن وسطی ربوہ اور مکرمہ پروفیسر صادقہ شمس صاحبہ سابق پرنسپل گورنمنٹ جامعہ نصرت ربوہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے پانچ پوتے مربیان سلسلہ ہیں۔ ایک پوتا واقف ِ زندگی ڈاکٹر کے طور پر سیرالیون میں خدمت کر رہا ہے۔ چھوٹی پوتی واقفہ نو ہےاور طاہر ہارٹ میں خدمت کر رہی ہیں۔ ایک پوتے اور ایک نواسی کو نصرت جہاں سکیم کے تحت بطور ڈاکٹر اور ٹیچر افریقہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ آپ کی ایک نواسی اور ایک پوتی مربی سلسلہ سے بیاہی ہوئی ہیں اور اس وقت افریقہ میں خدمت کر رہی ہیں۔ آپ کے کئی پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اس وقت بطور صدر جماعت اور دیگر جماعتی عہدوں پر دنیا بھر میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ آپ کی چوتھی نسل میں بھی وقف کا سلسلہ جاری ہے ۔ یوں مانگٹ اونچے کے اس خاندان کی نیکی کا فیض اللہ تعالیٰ کے فضل اور جماعت کی برکت سے دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی اولاد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں۔ آپ کی چھوٹی بیٹی گورنمنٹ جامعہ نصرت ربوہ کی پرنسپل کے طور پر ریٹائر ہوئیں۔آپ کی اولاد میں گولڈ میڈلسٹ طلبہ، پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، مربیان سلسلہ، پروفیسرز، میڈیکل ڈاکٹرز، انجینئرز، فارماسسٹ، کمیشنڈآفیسر، بزنس ایڈمنسٹریشن نیز متفرق پیشوں سے وابستہ افراد موجود ہیں۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل، بزرگان کی دعاؤں اور احمدیت کی برکت کی وجہ سے ہوا ہے۔

مانگٹ اونچے میں ہماری دادی دادا کا گھروالدین کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے چوہدری سلطان احمد طاہر صاحب نے ضروری تعمیرات کے بعد صدر انجمن احمدیہ کو ھبہ کر دیا اور اب یہ گھر مربی ہاؤس کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ یوں آپ نے اپنے بزرگ والدین کی اس یاد گار کو بطور صدقہ جاریہ بنا دیا ہے۔ ہماری دادی جان نے اپنے گاؤں کے سینکڑوں بچوں کو قرآن کے نور سے منور کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے نور کی بدولت آپ کے اموال، نفوس اور اخلاص میں غیر معمولی برکت عطا کی اور آپ کا گھرانہ خیروبرکت سے بھر گیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی نسلوں کو آپ کی نیک روایات زندہ رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

(مرسلہ: (محمد محمود طاہر))

پچھلا پڑھیں

آپ کی نسبت سے ہی

اگلا پڑھیں

اجتماعیت کا دائرہ