ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
خدا کی قسم وہ نبی ہے
قسط نمبر 4
آنحضرت ﷺ کو اللہ تبارک تعالیٰ نے ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ ؓ کے بطن سے آخری عمر میں ذی الحجہ 8 ہجری میں ایک بیٹے ابراہیمؓ سے نوازا۔ آپؐ اپنے بیٹے سے بے حد محبت کرتے تھے بچہ اپنی انا اُم سیفؓ کے ہاں مدینے کی نواحی بستی ’عوالی‘ میں پرورش پارہا تھا۔ آپؐ وہاں تشریف لے جاتے۔ بچے کو گود میں لے کر پیار کرتے چومتے۔ ام سیف کے شوہر لوہار کا کام کرتے تھے گھر دھوئیں سے بھرا ہوتا مگر بچے کی محبت میں کھچے چلے آتے کچھ دیربچے کے ساتھ رہتے اور رضاعی والدہ کی گود میں دے کر چلے جاتے۔
حضرتِ ابراہیم ؑبہت کم عمر لے کر آئے تھے۔ بیمار ہوئے نزع کا عالم تھا آنحضورؐ تشریف لائے بچے کو گود میں اٹھا لیا۔ اس کی تکلیف دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے حضرت عبد الرحمان بن عوف ؓ ساتھ تھے۔
عرض کیا یا رسول اللہ ؐ !آپ روتے ہیں؟ فرمایا ’’یہ رونا اور یہ آنسو رحمت ہیں‘‘
رسولِ خدا ؐ کا یہ لاڈلا بیٹا19 شوال 10 ہجری صرف سولہ ماہ کی عمر میں وفات پا گیا۔ آنحضور ﷺ نے صاحبزادے کی وفات پر انتہائی صبر کا نمونہ دکھایا۔ بچے کو دفن کرنے کے لئے قبر میں اُترے لاش کو ہاتھوں میں اُٹھا کر لحد میں رکھا اور فرمایا
’’جائو اپنے بھائی عثمانؓ بن مظعون کے پاس‘‘
حضرت عثمان ؓ ایک صحابی تھے جو آنحضرت ﷺ کو بہت عزیز تھے۔ اور اس واقعہ سے چھ سال پہلے وفات پا چکے تھے۔ آپ ؐ کو غم کی حالت میں اپنے اس صحابی کی یاد آگئی۔ شیر خوار بچے کو یاد کرتے ہوئے فرمایا
’’ابراہیم میرا بیٹا تھا وہ حا لتِ شیرخوارگی میں ہی وفات پاگیا اس کے لئے دو انائیں ہیں جوجنت میں اس کی رضاعت کی مدت پوری ہونے تک اسے دودھ پلائیں گی‘‘
(مسلم کتاب الفضائل باب رحمۃ الصبیان حدیث 2)
حضرتِ ابراہیمؓ کواللہ تعالیٰ نے بڑے مرتبے سے نوازا تھا آپ ؐ نے فرمایا
وَاللّٰہِ اِنَّہُ لَنَبِیُّ
(’الفتاوی الحدیثیہ‘ صفحہ671 علامہ ابنِ حجر ھیشمی مطبوعہ مصر 1970ء)
نیز آپؐ نے فرمایا
لَو عَاشَ (اِبْرَاہِیمُ) لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا
ترجمہ: اگر ابراہیم زندہ رہتا تو وہ سچا نبی ہوتا
(ابنِ ماجہ جلد اول باب454 حدیث 1572)
آخری عمر کا بیٹا سچے راستباز نبی ہونے کی بشارت کا حامل قبر میں سلا کے اللہ کی رضا پہ راضی رہنے والے صبر جمیل کے پیکرنے اپنے غم کا اظہار ان درد انگیز الفاظ میں فرمایا
تَدْمَعُ الْعَيْنُ، وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ مَا يُسْخِطُ الرَّبَّ، وَإِنَّا بِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ
سولہ ماہ میں راہیء ملکِ عدم ہو جانے والے بچے کی استعداد کے بارے میں پڑھتے ہوئے اس دور کے مسیحاؑ اور ظلِّ محمد ﷺ کا ایک ایمان افروز واقعہ یاد آتا ہے۔ حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کا بھی ایک سولہ ماہ کا بچہ فوت ہوا تھا۔ دونوں بچوں کی اعلیٰ استعداد کے بارے میں پیش خبریاں تھیں۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے عمدہ رنگ میں صبرِ جمیل کی توفیق دی تھی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 20؍فروری و 8؍اپریل 1886ء اور 7؍اگست 1887ء کو نَو سال کے اندر ایک غیر معمولی صفات کے حامل لمبی عمر پانے والے بیٹے کی پیدائش کے متعلق الہام مشتہر فرمائے تھے۔ ان میں ایک غیرمعمولی صفات کے حامل لڑکے کی پیشگوئی تھی جس کی عمدہ صفات اور لمبی عمر کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس میں ایک کم عمر والے مہمان کی پیشگوئی بھی تھی۔
15؍اپریل 1886ء کو صاحبزادی عصمت پیدا ہوئیں تو کم فہم معاندین نے شور مچانا شروع کردیا کہ بیٹا کہا تھا بیٹی پیدا ہوگئی۔ پھر سواسال کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے 7؍اگست 1886ء کو ایک بیٹے سے نوازا جو صرف سولہ ماہ زندہ رہ کر 4؍نومبر 1888ء کو خالقِ حقیقی سے جاملا۔ بشیر اول کی وفات پر مخالفین کو اپنی پراگندگیء طبع کے مظاہرے کا خوب موقع ہاتھ آیا۔ اور جتنا بس چلا مخالفت میں بغیر سوچے سمجھے شور مچا دیا۔ حضرت اقدس ؑ دوسرے بچے کی وفات پر اپنا صدمہ پس پشت ڈال کر راضی برضا دل کے ساتھ جماعت کو سنبھالنے کی فکر میں لگ گئے۔ اور اس وفات میں مضمر اللہ جل شانہ کی قدرتوں کے کئی رنگ دکھانے کے لئے مضمون لکھا۔ جس میں مومنین کے ازدیادِ ایمان کے لئے پیشگوئی پوری ہونے کے کئی رخ اور بدخواہوں کے اعتراضات کے جوابات میں سیر حاصل مدلل بحث کی۔
اس بچے کی پیدائش سے پہلے اس پسرِ متوفی کی بہت سی ذاتی بزرگیاں الہامات میں بیان کی گئیں تھیں جو اس کی پاکیزگی روح اور بلندیء فطرت اورعلو استعداد اور روشن جوہری اورسعادتِ جبلی کے متعلق تھیں اور اس کی کاملیتِ استعدادی سے علاقہ رکھتی تھیں۔‘‘
(سبزاشتہار، روحانی خزائن جلد دوم صفحہ450)
اس بچے کے بارے میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں
’’خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا جوفوت ہو گیا ہے ذاتی استعدادوں میں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دنیوی جذبات بکلی اس کی فطرت سے مسلوب اور دین کی چمک اس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدیقی روح اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کا نام بارانِ رحمت اور مبشر اور بشیر اور یداللہ بجلال و جمال وغیرہ اسماء بھی ہیں‘‘۔
(سبزاشتہار، روحانی خزائن جلد دوم صفحہ453)
آنحضرت ﷺ اور حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام پر اس اعتراض کے جواب میں کہ کم عمری میں وفات پانے والے بچے کی صفات کیسے معلوم ہوتی ہیں۔ درجِ ذیل اقتباس دیکھئے۔ حضرت اقدسؑ تحریر فرماتے ہیں
’’بعض بچے ایسے کامل الخِلقت ہوتے ہیں کہ صدیقوں کی پاکیزگی اور فلاسفروں کی دماغی طاقتیں اورعارفوں کی روشن ضمیری اپنی فطرت میں رکھتے ہیں اور ہونہار دکھائی دیتے ہیں مگراس عالمِ بے ثبات پر رہنا نہیں پاتے۔ اور کئی ایسے بچے بھی لوگوں نے دیکھے ہوں گے کہ ان کے لچھن اچھے نظرنہیں آتے اور فراست حکم کرتی ہے کہ اگر وہ عمر پاویں توپرلے درجے کے بدذات اور شریر اور جاہل اور ناحق شناس نکلیں۔ ابراہیم لختِ جگر آنحضرت ﷺ جو خورد سالی میں یعنی سولھویں مہینے میں فوت ہوگئے اس کی صفاتی استعداد کی تعریفیں اور اس کی صدیقانہ فطرت کی صفت و ثنا احادیث کے رو سے ثابت ہے ’ایسا ہی وہ بچہ جو خوردسالی میں حضرت خضر ؑنے قتل کیا اس کی خباثتِ جبلی کا حال قرآنِ شریف کے بیان سے ظاہروباہر ہے۔
(سبزاشتہار، روحانی خزائن جلد دوم صفحہ454)
(امتہ الباری ناصر۔امریکہ)