• 5 مئی, 2025

وقف زندگی کی اہمیت و برکات

خداتعالیٰٰ نے جن و انس کی تخلیق کا مقصد صرف اور صرف اپنی عبادت قرار دیا ہے۔ اورجب بھی نیکی اور بدی دونوں سرشتوں سے سرشار حضرت انسان اپنے اس مقصد ِحقیقی سے دُورہوا خدا تعالیٰٰ نے اپنے فرستادے بھیج کر اس کی راہنمائی فرمائی۔اور ہر بار وقت اور زمانہ کے موافق یہ فرستادے یا تو عقائد سابقہ کی اصلاح کر دیتے یا پھر حکم ایزدی کے تحت ایک نئے عقیدہ اور نئے مذہب کی بنیاد رکھ دیتے۔ اور پھر اس نئے مذہب کی آبیاری کے لیےخدا تعالیٰٰ اس کے ماننے والوں کو کچھ رستے بھی دکھا دیتا جس سے اِ س مذہب کے عقائدکی بقاء وابستہ ہوتی۔ اور اس سے دوسروں کی ہدایت کے سامان پیدا ہو جاتے اور ان کو بار بار ان کے مقصد حقیقی کو یاد کروا دیا جاتا۔

چنانچہ خدا تعالیٰٰ اسی ضمن میں فرماتا ہےکہ:

وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُ مَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْر وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر وَ اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

(اٰل.عمران: 105)

ترجمہ: اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بری باتوں سے روکیں اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

سورۃ اٰل عمران کی اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰٰ نے من حیث القوم کامیابی کا نسخہ بتا دیا ہے کہ کسی بھی ملت یا مذہب کی بقاء کے لیے یہ امر بہت ضروری ہے کہ اس میں ہمیشہ کچھ ایسے وجود موجود رہیں جونہ صرف خود نیکوکار اور عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں بلکہ اپنے کمزور ساتھیوں کو بھی ان راہوں پر چلنے کی تحریک کرنے والے ہوں۔ اور جہاں وہ خود برائیوں سے محفوظ رہیں وہاں معاشرہ میں موجود دیگر برے عناصر کی روک تھام کے لیے بھی جدوجہد کرتے رہیں۔اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ’’وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُ مَّةٌ‘‘ میں خدا تعالیٰٰ نے جس گروہ ِ خاص کا ذکر کیا ہے وہ کن خصوصیات کا حامل ہواور وہ کس طرح ’’یَدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘اور ’’يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر‘‘ جیسے فرائض کو سرانجام دے۔ چنانچہ اس کے لیے بھی ہمیں قرآن کریم راہنمائی مہیا کرتا ہے۔ اور سب سے پہلے تو اس گروہ کے لیے جس شرط کا اعلان کرتا ہے وہ انبیاء کی راہیں ہیں کہ یہ وجود خود کو ایسے فنافی الرحمٰن کردیں کہ ان کی روح یہ اقرار کررہی ہو کہ:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

(الانعام: 163)

ترجمہ: تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہےجو تمام جہانوں کا رب ہے۔

جب کوئی انسان خدا تعالیٰٰ کی ذات میں اس قدر فنا ہو جائے کہ اس کا ہر فعل خدا تعالیٰٰ کی رضا کے لیے ہو جائے تو خدا تعالیٰٰ اس کی زبان میں وہ تاثیر اور اس کے کلام میں وہ اثر ضرور پیدا کردیتا ہے کہ وہ لوگوں سے اپنی بات منوا سکے اور انہیں راہِ راست پر لا سکے۔ چنانچہ یہ وقف کا سب سے اعلیٰ درجہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰٰ کے انبیاء کو نصیب ہوتاہے اور وہ خدا کی ذات سے ایسے وابستہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا چلنا، پھرنا، سونا، جاگنا، اُٹھنا، بیٹھنا، بولنا سب خدا کے لیے ہو جاتا ہے اور ان کا سانس سانس عبادت بن جاتا ہے۔

اس وقفِ عظیم کی مثال ہمیں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی سے لیکر ہمارے سیدو مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور پھر آپؐ کے غلام صادق امام آخر الزماں حضرت مسیح موعودؑ تک خدا کے ہر فرستادے میں ملتی ہے۔خدا تعالیٰٰ حضرت ابراہیم ؑ کی اطاعت عظیم اور وقف کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے:

اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ

(البقرۃ: 132)

ترجمہ: (یاد کرو) جب اللہ نے اُس سے کہا کہ فرمانبردار بن جا۔ تو (بے ساختہ) اس نے کہا میں تو تمام جہانوں کے رب کے لیے فرمانبردار ہو چکا ہوں۔

پھر حضرت ابراہیم نے اس وقف اور فرمانبرداری کا نہ صرف خود حق ادا کردیا بلکہ اپنی اولاد اور آنے والی نسل کو بھی اس کی تحریک فرما دی۔ اور اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰٰ کے حکم کے ماتحت ایک بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آئے۔اور جب ذبح عظیم جو کہ دراصل وقف عظیم تھا کا ذکر کیا تو آپ کے فرمانبردار بیٹے حضرت اسماعیل ؑ نے ’’اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ؕ سَتَجِدُنِيْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْن‘‘ کی صدا بلند کر کے رہتی دنیا تک وقف کی عظیم مثال قائم کردی۔خدا تعالیٰٰ نے اس کا ثمرہ یہ عطا کیا کہ آپ کی ذرّیت میں سے کائنات کا سب سے اعلیٰ وجود مبعوث فرما دیا۔

اسی طرح خدا تعالیٰٰ نے مومنین کو بھی تفقّہ فی الدین کی تحریک کی تا ہر دور میں رشد کا سلسلہ جاری رہے اور ہدایت کے سامان پیدا ہوتے رہیں۔اس ضمن میں اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے:

وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَآ فَّةً ؕ فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَ لِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ

(التوبہ: 122)

ترجمہ: مومنین کے لیے ممکن نہیں کہ وہ تمام کے تمام اکٹھے نکل کھڑے ہوں۔ پس ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے ہر فرقہ میں سے ایک گروہ نکل کھڑ ا ہوتا وہ دین کا فہم حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو خبردار کریں جب وہ ان کی طرف واپس لوٹیں تاکہ شاید وہ (ہلاکت سے) بچ جائیں۔

جب ہم آنحضرت ﷺ کی زندگی کامطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایک ایسا وقف ملتا ہے کہ جس کہ سامنے فرشتے بھی سرنگوں ہیں۔ آپ ﷺ کی سانس سانس خدا کےلیے محوِ حمد نظر آتی ہے اور اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ ؐ نے مقصد حقیقی کے لیے گزارا۔ لوگوں کے ظلم و تشدّد کے باوجود آپؐ کبھی اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے۔ عبادت کا یہ عالم کہ ساری ساری رات خدا کے حضور سر بسجود رہتے۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضورؐ رات کو اُٹھ کر نماز پڑھتے یہاں تک کہ قیام کی وجہ سے آپ کے پاؤں متورم ہو کر پھٹنے لگ جاتے۔ ایک دفعہ میں نے آپ ؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! خدا تعالیٰٰ نے تو آپ ؐکو ہر قسم کی لغزشوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا ہوا ہے اور آپ کے تو اگلے پچھلے سب قصور معاف ہیں۔ پھر آپؐ اس قدر کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں؟ اس پر حضور ﷺ نے جوابًا فرمایا کہ ’’اَفَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُونَ عَبْدًا شَکُوْرًا‘‘ کہ کیا میں خدا تعالیٰٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔

پھر آپ ﷺ کی ذات میں پیغام حق پہنچانےاور ظلمت زدہ انسانیت کو گمراہی سے بچانے کے لیے جو درد تھا اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی۔ طائف کی بستی میں جب پیغام حق پہنچانے گئے تو اُن بد بختوں نے آپ پر طرح طرح کے مظالم کیے اور آپ ؐ کو زخمی کردیا۔ لیکن واپسی پر جب ایک جگہ قیام تھا تو وہاں بھی فکر تھی تو اس بات کی کہ کس طرح پیغام حق پہنچایا جائے۔غرض یہ کہ آپ ؐ کی ساری زندگی ’’اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ (الانعام: 163) (میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مَرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے) کے مرتبہ کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔اور آپ ؐ کی یہ حالت ہمارے لیے بھی اسوہ حسنہ ہے کہ ہم بھی اپنی پیدائش کے مقصد کو ہمیشہ مدِّ نظر رکھیں اور اپنی زندگیاں خدا تعالیٰٰ کی عبادت اور پیغام حق دوسروں تک پہنچانے کے لیے وقف کریں۔

خدا تعالیٰٰ نے آپ ؐ کی امت کو خیر الامت کے لقب سے نوازا اور یہ لقب بھی وقف کی اس صفت عظیم کی وجہ سے ہی ملا جس کا ذکر اوپر ’’يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘ اور ’’ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ‘‘ کے الفاظ میں آچکا ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰٰ فرماتا ہے۔

’’كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ‘‘

(اٰل.عمران: 111)

ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لیے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔

پھر آپ ﷺ کی امت میں وہ آخری مصلح جس کا انتظار دنیا کی ہر قوم کر رہی تھی جب مبعوث ہوا تو زمانہ طرح طرح کی ظلمات میں مبتلا تھا اور دنیا مادیت کی طرف بھاگ رہی تھی اور مقصد حقیقی سب کو بھول چکا تھا۔ لیکن سیدنا مسیح پاک ؑ نے ایک بار پھر توحید کی صدا بلند کی اور دنیا کو حق کی دعوت دی۔اور اپنی زندگی خدا کی خاطر وقف کر کے امت مسلمہ کے لیے ایک نیا نمونہ قائم کیا۔آپ ؑ وقف کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اگر خدا تعالیٰٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اُس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقرار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں، بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے۔ میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو۔ اور یہی اسلام ہے اور یہی وہ غرض ہے جس کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اس وقت اس چشمہ کے نزدیک نہیں آتا۔ جو خدا تعالیٰٰ نے اس غرض کے لیے جاری کیا ہے وہ یقینا بے نصیب رہتا ہے۔اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہیے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمہ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰٰ کے سامنے غیرت کا چولہ اُتار کر آستانۂ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کرلے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا اور خدا تعالیٰٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہو گیا۔ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیمؑ بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ:

ولی پرست نہ بنو۔ بلکہ ولی بنو
اور پیر پرست نہ بنو۔ بلکہ پیر بنو

تم ان راہوں سے آؤ۔ بیشک وہ تنگ راہیں ہیں۔ لیکن اُن سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ اگر بہت بڑی گٹھڑی سر پر ہو تو مشکل ہے۔ اگر گزرنا چاہتے ہو تو اس گٹھڑی کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھڑی ہے، پھینک دو۔ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کو پھینک دے۔ تم یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم میں وفاداری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے۔ اور خدا تعالیٰٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے۔ ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفاداری کو چھوڑ کر غداری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰٰ فریب نہیں کھاسکتا اور نہ کوئی اُسے فریب دے سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔

تم پر خدا تعالیٰٰ کی حجت سب سے بڑھ کر پوری ہوئی ہے۔ تم میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا ہے۔ پس تم خدا تعالیٰٰ کے الزام کے نیچے ہو، اس لیے ضروری ہے کہ تقویٰ اور خشیت تم میں سب سے زیادہ پیدا ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ138-139)

اسی طرح اس زمانہ کے حکم و عدل سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ بندگانِ خدا کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’خداتعالیٰٰ کے بندے کون ہیں؟ یہ وُہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰٰ نے اُن کو دی ہے۔ اللہ تعالیٰٰ ہی کی راہ میں وقف کردیتے ہیں اوراپنی جان کو خداکی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اُس کی راہ میں صرف کرنا اُس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں، مگر جو لوگ دُنیا کی املاک وجائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنالیتے ہیں، وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں، مگر حقیقی مومن اور صادق مُسلمان کا یہ کام نہیں ہے۔ سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کردے، تاکہ وہ حیاتِ طیبہ کا وارث ہو۔چنانچہ خود اللہ تعالیٰٰ اس للہی وقف کی طرف ایماء کرکے فرماتا ہے۔ ’’مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْن‘‘ (البقرہ: 113) اس جگہ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ کے معنی یہی ہیں کہ ایک نیستی اور تذلل کا لباس پہن کر آستانۂ الوہیت پر گرے اور اپنی جان، مال، آبروغرض جو کچھ اس کے پاس ہے۔ خدا ہی کے لیے وقف کرے اور دُنیا اور اُس کی ساری چیزیں دین کی خادم بنادے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 364)

برکات

اللہ تعالیٰٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

’’بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ‘‘

ترجمہ: نہیں نہیں، سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خد اکے سپرد کردے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔ اور ان ( لوگوں) پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے۔

اسی طرح حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ آنحضرت ؐ نے حضرت علی ؓسے مخاطب ہو کر فرمایا کہ خدا کی قسم ! تیرے ذریعے سے ایک آدمی کا بھی ہدایت پا جانا اعلیٰ درجے کے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے بہتر ہے۔

(صحیح مسلم کتاب العلم باب من سنّ حسنۃ او سیئۃ)

اسی طرح ایک مشہور حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اَلدَّالُ عَلَی الخَیرِ کَفَاعِلِہٖ‘‘ کہ نیکی کی طرف راغب کرنے والا بھی نیکی کرنےوالے ہی کی طرح ہوتا ہے۔

پھر خدا تعالیٰٰ کی خاطر وقف کرنے اور تفقّہ فی الدین حاصل کرنے پر خدا تعالیٰٰ کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

’’مَنْ تَفَقّہَ فِی دِینِ اللّٰہِ کَفَاہُ اللّٰہُ تَعَالیٰ مُھِمَّہٗ وَ یَرْزُقُہٗ مِن حَیثُ لَا یَحْتَسِبْ‘‘

(ابن ماجہ باب فضل العلماء و الحث علیٰ طلب العلم)

یعنی جو شخص بھی اپنے اندر تفقّہ فی الدّین پیدا کرتا تو اللہ تعالیٰٰ اس کے تمام کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے اور اس کے لیے ایسی جگہوں سے رزق کے سامان مہیا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا۔

حضرت مسیح موعودؑ عمر بڑھانے کا نسخہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اگر انسان چاہتا ہے کہ اپنی عمر بڑھائے اور لمبی عمر پائے تو اس کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے خالص دین کے واسطے اپنی عمر کو وقف کر دے۔ یہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰٰ سے دھوکہ نہیں چلتا۔ جو اللہ تعالیٰٰ کو دغا دیتا ہےوہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے وہ اس کی پاداش میں ہلاک ہو جائے گا۔

پس عمر بڑھانے کا اس سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہےکہ انسان خلوص اور وفاداری کے ساتھ اعلاء کلمۃ الاسلام میں مصروف ہو جاوے اور خدمت دین میں لگ جاوےاور آجکل یہ نسخہ بہت ہی کارگر ہےکیونکہ دین کو آج ایسے مخلص خادموں کی ضرورت ہے۔ اگریہ بات نہیں ہے تو پھر عمر کا کوئی ذمہ دار نہیں ہےیونہی چلی جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ563)

ایک اور مقام پر آپ ؑ وقف کو نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’نجات اس کو ملتی ہے جس نے اپنا سارا وجوداللہ کی راہ میں سونپ دیا۔یعنی اپنی زندگی کو خدا تعالیٰٰ کی راہ میں وقف کر دیا اور اس کی راہ میں لگا دیا۔اور وہ بعد وقف کر نے اپنی زندگی کے نیک کاموں میں مشغول ہو گیا اور ہر ایک قسم کے اعمال حسنہ بجا لانے لگا پس وہی شخص ہے جس کو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ملے گااور ایسے لوگوں پر نہ کچھ ڈر ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہونگے یعنی وہ پورے اور کامل طور پر نجات پا جائیں گے۔‘‘

(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد6 صفحہ143-144)

وقف کرنا جاں کا ہے کسبِ کمال
جو ہو صادق وقف میں ہے بے مثال
چمکیں گے واقف کبھی مانند بدر
آج دنیا کی نظر میں ہیں ہلال

(مبشر احمد مشتاق)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 دسمبر 2021