• 17 مئی, 2024

مسلمان وہی ہے جو صدقات اور دعا کا قائل ہے

مسلمان وہی ہے جو صدقات اور دعا کا قائل ہے
(حضرت مسیح موعودؑ )

مسلمان کی تعریف بہت وسیع امر ہے۔ 1953ء میں جسٹس منیر انکوائری پینل میں مسلمانوں کے فرقے کسی تعریف پر اکٹھے نہ ہو سکے تھے۔ جماعت احمدیہ نے جو تعریف پیش کی وہ یہ ہے:
’’جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان کی صرف وہی تعریف قابل قبول اور قابل عمل ہو سکتی ہے جو قرآن عظیم سے قطعی طور پر ثابت ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی طور پر مروی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں اُس پر عمل ثابت ہو۔ اس اصل سے ہٹ کر مسلمان کی تعریف کرنے کی جو بھی کوشش کی جائے گی وہ رخنوں اور خرابیوں سے مبرانہیں ہوگی بالخصوص بعد کے زمانوں (جبکہ اسلام بٹتے بٹتے بہتّر فرقوں میں تقسیم ہو گیا) میں کی جانے والی تمام تعریفیں اس لئے بھی ردّ کرنے کے قابل ہیں کہ اُن میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بیک وقت اُن سب کو قبول کرنا ممکن نہیں اور کسی ایک کو اختیار کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ اس طرح ایسا شخص دیگر تعریفوں کی رُو سے غیر مسلم قراردیا جائے گا اور اس دلدل سے نکلنا کسی صورت میں ممکن نہیں رہے گا۔‘‘

(محضر نامہ صفحہ 16)

آنحضرتؐ کے الفاظ میں مسلمان کی تعریف

(i)۔ ایک دفعہ مدینہ منورہ میں آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کی فہرست تیار کرنے کا ارشاد فرمایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ:

وَاکْتُبُوْا لِیْ مَنْ یَّلْفَظُ بِالْاِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ

(بخاری کتاب الجہاد)

کہ لوگوں میں سے جو شخص اپنی زبان سے اسلام کا اقرار کرتا ہے اس کا نام میرے لئے تیار ہونے والی فہرست میں لکھ لو۔

(ii)۔

مَنْ صَلّٰی صَلٰوتَنَا وَ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذَالِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّةُ اللّٰہِ وَ ذِمَّةُ رَسُوْلِہٖ فَلاَ تَحْفِرُوْا اللّٰہَ فِیْ ذِمَّتِہٖ

(صحیح بخاری کتاب الصلوة)

ترجمہ: جو شخص بھی ہمارے قبلہ (یعنی کعبہ) کی طرف منہ کر کے مسلمانوں کی سی نماز پڑھے اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھائے پس وہ مسلمان ہے جس کو خدا اور اس کے رسول کی ضمانت حاصل ہے۔ پس تم خدا اور رسولؐ کی ضمانت کو مت توڑو۔

(iii)۔ حضرت اسامہ بن زیدؓ نے ایک دشمن کو پکڑا تو اس نے کلمہ توحید پڑھ دیا۔ لیکن انہوں نے اسے قتل کردیا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس واقعہ کا ذکر ہوا تو آپؐ نے فرمایا:

اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ توحید پڑھ لینے کے باوجود قتل کردیا؟ انہوں نے عرض کی اے اللہ کے رسولؐ! اس نے ہتھیار کے ڈر سے ایسا کہا تھا۔ تو آپؐ نے فرمایا:

اَفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ حَتَّی تَعْلَمَ اَقَالَھَا اَمْ لاَ

(بخاری کتاب المغازی باب اسامہ بن زید)

کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کے دیکھا کہ اس نے دل سے کہا یا نہیں؟ آپ بار بار یہ بات دہراتے جاتے تھے۔

اسلام کی جو تعریفیں مختلف جگہوں سے ملتی ہیں۔ اس کے مطابق اللہ کو وحدہ لا شریک تسلیم کرنا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اور قرآن کریم کو خاتم الکتاب ماننا، ارکان اسلام اور ارکان ایمان پر یقین رکھنا۔ ویسے تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بھی مسلمان قرار دیا جو سابقہ انبیاء پر ایمان لائے۔ انہی تعریفوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زیر عنوان فقرہ کو اس آرٹیکل میں دیکھنا ہو گا۔

آپؑ فرماتے ہیں:

’’مسلمان وہی ہے جو صدقات اور دعا کا قائل ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ295 ایڈیشن 1984ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے اس فقرہ کو اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍اپریل 2010ء میں بیان فرمایا ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ جو انسانی فطرت کی پاتال تک سے واقف ہے جس طرح وہ اپنی مخلوق کو جانتا ہے کوئی اور نہیں جان سکتا ہے، اسی نے پیدا کیا ہے۔ اس نے یہ فرمایا کہ دعوت الی اللہ کرنے والے سے کون بہتر ہو سکتا ہے؟ تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ دعوتِ الی اللہ کرنے والے کی کوشش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ اعمالِ صالحہ بجا لائے اور یہ اعلان کرے کہ مَیں کامل فرمانبردار بنتا ہوں یا بننے کی کوشش کروں گا۔ مجھ پرمسلمان ہونے کا احمدی ہونے کا صرف Label نہیں لگا ہوا۔ بلکہ مَیں خدا تعالیٰ کے احکامات کو کامل فرمانبرداری سے ادا کرنے کی کوشش کرنے والا ہوں اور ایک مسلمان فرمانبردار تبھی بنتا ہے جب حقوق اللہ کی طرف بھی توجہ رہے اور حقوق العباد کی طرف بھی توجہ ر ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمان کے فرمانبردار ہونے کا عبادت کے ساتھ بہت تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ مسلمان وہی ہے جو دعا اور صدقات کا قائل ہو۔‘‘

(الفضل آن لائن لندن 3؍اکتوبر 2022ء)

حضرت مسیح موعودؑ کے اس مختصر سے تربیتی فقرہ میں دعا کے الفاظ میں حقوق اللہ اور صدقات کے الفاظ میں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف احمدیوں کو متوجہ کرنا ہے اور یہی دو حقوق دین اسلام کا نچوڑ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حوالہ سے ایک جگہ فرمایا کہ ’’حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ظلم و زیادتی نہ کرو۔ اپنے فرائض منصبی نہایت دینات داری سے بجا لاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ265)

جہاں تک حقوق اللہ کی ادائیگی میں دعا کا تعلق ہے۔ گزشتہ 6ماہ سے ہر بدھ وار کو الفضل آن لائن میں دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے کے عنوان پر امریکہ سے مکرمہ حسنیٰ مقبول احمد سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات سے ارشادات پیش کئے ہیں اور یہ ایک بہت عمدہ مائدہ تیار ہو گیا ہے۔ اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

دعا کی اہمیت، افادیت اور اس کے فضائل پر قرآن کریم اور احادیث میں بہت سبق ملتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مجسم دعا تھے اور صحابہؓ نے آپؐ کی تقلید میں اپنے آپ کو دعاؤں سے مزین کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ جب حضرت عمر بن الخطابؓ نے عمرہ پر جانے کی اجازت چاہی تو آپؐ نے اجازت دیتے ہوئے حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا: لا تنسنا يا أُخيَّ من دعائك (ترمذی کتاب الدعوات) کہ اے میرے بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا۔

ایک موقع پر فرمایا الدّعاء مخّ العبادة کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔

یہ اس عبادت کا مغز ہے جس کی خاطر فرمایا گیا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۔ اس سے با آسانی دعا کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دعا میں لگے رہو کہ خدا تعالےٰ فرماتا ہے قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡلَا دُعَآؤُکُمۡ (الفرقان: 78) ایک انسان جو دعا نہیں کرتا۔ اس میں اور چارپائے میں کچھ فرق نہیں۔ ایسے لوگوں کی نسبت خدا تعالےٰ فرماتا ہے۔ وَیَاۡکُلُوۡنَ کَمَا تَاۡکُلُ الۡاَنۡعَامُ وَالنَّارُ مَثۡوًی لَّہُمۡ ﴿۱۳﴾ یعنی چارپائیوں کی زندگی بسر کرتے ہیں اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔

پس تمہاری بیعت کا اقرار اگر زبان تک محدود رہا تو یہ بیعت کچھ فائدہ نہ پہنچائے گی۔ چاہیئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں۔ میں ہرگز یہ بات نہیں مان سکتا کہ خدا تعالےٰ کا عذاب اس شخص پر وارد ہو جس کا معاملہ خدا تعالیٰ سے صاف ہو۔ خدا تعالےٰ اسے ذلیل نہیں کرتا جو اس کی راہ میں ذلت اور عاجزی اختیار کرے۔ یہ سچی اور صحیح بات ہے…پس راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو۔ کوٹھری کے دروازے بند کرکے تنہائی میں دعا کرو کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اپنا معاملہ صاف رکھو کہ خدا کا فضل تمہارے شامل حال ہو جو کام کرو نفسانی غرض سے الگ ہو کر کرو تا خدا تعالیٰ کے حضور اجر پاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ357-359 ایڈیشن 1984ء)

انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ و خیرات

زیر نظر عنوان میں حقوق العباد میں صدقہ و خیرات کا ذکر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انفاق فی سبیل اللہ پر بہت زور دیا ہے۔ نماز کے ذکر کے بعد انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر بہت زیادہ ملتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حکایات کی روشنی میں اس مضمون کو سمجھایا ہے۔ ایک دفعہ یہ قصہ صحابہ کو سنایا کہ ایک آدمی بے آب و گیا ہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ گھنے بادل آئے جو برسنے لگے۔ اس آدمی نے ایک آواز سنی کہ اے بادل! فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر۔ اس نے دیکھا کہ پانی ایک نالے کی صورت میں پتھریلی زمین پر جانے لگا۔ وہ آدمی اس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا تا اس نیک آدمی کو جان سکے۔ وہ آدمی کیا دیکھتا ہے کہ یہ نالی ایک باغ میں جا کر رکی اور اس کا مالک اس پانی سے باغ کو سیراب کر رہا تھا۔ تب آدمی نے اس سے نیکی اور اس انعام کی وجہ پوچھی۔ اس نیک آدمی نے بتایا کہ میرا طریق کار یہ ہے کہ اس باغ سے جو پیدا وار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی اللہ تعالیٰ کی راہ میں، ایک تہائی اپنے اہل و عیال کے لیے جبکہ باقی تہائی حصہ اگلی فصل کے لیے بیج خریدنے کے لیے رکھتا ہوں۔

(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمٰن مرحوم صفحہ706-707)

دیکھیں! اللہ تعالیٰ کو اس نیک آدمی کی صدقہ و خیرات کی خوبی پسند آئی اور اس کے صلہ میں انعام بھی کتنا بڑا دیا کہ بادلوں کو اس کی طرف موڑ دیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دعا، صدقہ اور خیرات سے عذاب کا ٹلنا ایسی ثابت شدہ صداقت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کا اتفاق ہے اور کروڑ ہا صلحاء اور اتقیااور اولیاء اللہ کے ذاتی تجربے اس امر پر گواہ ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ159-158 ایڈیشن1984ء)

پھر ایک موقع پر دعا و صدقات کے آپس کے تعلق کو یوں بیان فرمایا۔
’’دعا بہت بڑی سِپر کامیابی ہے۔ یُونسؑ کی قوم گریہ و زاری اور دعا کے سبب آنے والے عذاب سے بچ گئی۔ میری سمجھ میں محاتبت مغاضبت کو کہتے ہیں اور حُوت مچھلی کو کہتے ہیں اور نُون تیزی کو بھی کہتے ہیں اور مچھلی کو بھی۔ پس حضرت یُونسؑ کی وہ حالت ایک مغاضبت کی تھی۔ اصل یوں ہے کہ عذاب ٹل جانے سے ان کو شکوہ اور شکایت کا خیال گزرا کہ پیشگوئی اور دعا یوں ہی رائیگاں گئی اور یہ بھی خیال گزرا کہ میری بات پوری کیوں نہ ہوئی۔ پس یہی مغاضبت کی حالت تھی۔ اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات فرد قرار داد اور جرم کو بھی ردّی کر دیتے ہیں۔ اصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے۔ یہ طریق اللہ کو راضی کرتے ہیں۔ علم تعبیر الرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے۔ انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل و قال سے کچھ نہیں بنتا۔ جبتک کہ عملی رنگ میں لا کر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے۔ صدقہ اس کو اسی لیے کہتے ہیں۔ کہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ238-237 ایڈیشن 1984ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے میں دعاؤں کو، صدقات کو قبول کرتا ہوں لیکن ان بندوں کی جو اس کی طرف جھکتے ہیں، اپنی کمزوریوں اور اپنی نالائقیوں سے آئندہ بچنے کی کوشش کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں کو جو ایسی کوشش کر رہے ہوں، اس کی طرف آنے کی کوشش کر رہے ہوں، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ اگر ایک قدم چل کے آتا ہے تو اللہ میاں دو قدم چلتا ہے اور زیادہ تیز چلتا ہے تو دوڑ کر آتا ہے، تو بہرحال جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ بندہ اس کی طرف آ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ تو بہت رحم کرنے والا ہے۔ وہ تو جب بندہ خالص ہو کر اس کی طرف جھکتا ہے فوراً اپنے رحم کو جوش میں لے آتا ہے کیونکہ وہ تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب میرا بندہ دعا اور صدقات سے میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، یہ ضروری نہیں کہ خواہش کے مطابق کام ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ تو اگر فوری طور پر خواہش کے مطابق یعنی جو بندے کی خواہش ہے نتیجہ نہ بھی ظاہر فرمائے تو بھی بندے کی دعا اور صدقہ قبول کر لیتا ہے اور اَور ذرائع سے اَور وقتوں میں پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ میری دعا کا اثر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مختلف رنگوں میں فضل ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ بغیر کسی شرط کے خالص ہو کر اس کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جائیں اور جس طرح اس نے فرمایا ہے کہ صدقہ و خیرات اور توبہ کرتے رہیں۔ دعاؤں پر زور دیں۔ اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارا کام صرف یہ ہوکہ اس کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ صدقہ و خیرات اور چندے دینے کے بعد بھی کبھی بھی کسی قسم کا تکبر، غرور یا دکھاوا ہم میں ظاہر نہیں ہونا چاہئے بلکہ عاجزی سے ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا حیا والا ہے۔ بڑا کریم ہے، سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے۔ (ابو داؤد ابواب الوتر باب الدعاء) جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دعا کرتا ہے اور صدقہ و خیرات دیتا ہے، اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے، صرف اس لئے کہ اللہ کا قرب پائے، اس کی رضا حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی بعض صفات میں رنگین ہونے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ تواپنی تمام صفات میں کامل ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ بندے کو اس کی خاطر کئے گئے کسی کام پر اجر نہ دے۔ اس کی دعاؤں کو قبول نہ کرے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 26؍نومبر 2004ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 دسمبر 2022