دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ
قسط 10
یارسول اللہ! قصور میرا ہی تھا
ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں لڑائی ہو گئی۔ حضرت ابوبکرؓ حق پر تھے اور حضرت عمرؓ اس لڑائی میں حق بجانب نہیں تھے مگر حضرت عمرؓ چونکہ تیز طبیعت انسان تھے اس لئے حضرت ابوبکرؓ نے جب وہاں سے ہٹنا چاہا تو حضرت عمرؓ نے یہ سمجھا کہ یہ رسول کریم ﷺ کے پاس میری شکایت کرنے چلے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے زور سے حضرت ابوبکرؓ کا دامن کھینچا کہ ٹھہریں بات تو سنیں۔ مگر اس جھٹکے سے حضرت ابوبکرؓ کا کرتہ پھٹ گیا اور وہ وہاں سے چل پڑے۔
حضرت عمرؓ کے دل میں خیال آیا کہ وہ ضرور رسول کریم ﷺ کے پاس میری شکایت کرنے گئے ہیں حالانکہ وہ شکایت کرنے نہیں بلکہ اپنے گھر گئے تھے مگر بہرحال اس خیال کے آنے پر وہ رسول کریم ﷺ کی طرف دوڑے۔ اتنے میں کسی نے حضرت ابوبکرؓ کو اطلاع دی کہ حضرت عمرؓ نے آپ پر ظلم بھی کیا ہے اور پھر وہ آپ کی شکایت کرنے رسول کریم ﷺکے پاس بھی پہنچ گئے ہیں۔
حضرت ابوبکرؓ کو خیال آیا کہ رسول کریم ﷺ مجھ سے ناراض ہوگئے تو یہ اچھا نہیں ہوگا چنانچہ وہ بھی جلدی جلدی رسول کریم ﷺ کے مکان کی طرف چل پڑے۔ جب دروازے کے قریب پہنچے تو چونکہ حضرت عمرؓ پہلے پہنچ چکے تھے اس لئے بات شروع تھی اور اس دوران میں حضرت عمرؓ کے دل میں بھی ندامت پیدا ہو چکی تھی۔ چنانچہ وہ کہنے لگے کہ یارسول اللہ !غصہ میں مجھے خیال نہ رہا اور میں نے حضرت ابوبکرؓ پر اظہار ناراضگی کر دیا۔
رسول کریم ﷺنے جب یہ بات سنی تو آپ کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا اے لوگو! تم مجھے اور ابوبکرؓ کو تکلیف دینے سے باز بھی آؤگے یا نہیں؟ جب تم لوگ میری مخالفت کر رہے تھے تو اُس وقت ابوبکرؓ ہی تھا جو مجھ پر ایمان لایا اور میں نے کبھی کوئی نصیحت نہیں کی جو ابوبکرؓ نے نہ مانی ہو یا اس کے متعلق اس کے دل میں کوئی کجی پائی گئی ہو بلکہ جب بھی میں نے کچھ کہا اس نے اسے مانا اور تسلیم کیا۔ پس کیا تم مجھے اور اسے دکھ دینے سے باز نہیں آوٴ گے؟
آپ یہ الفاظ فرما ہی رہے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ پہنچ گئے اور انہوں نے پہنچتے ہی اپنی اس نیکی کا تازہ بتازہ ثبوت بہم پہنچا دیا جس کا رسول کریم ﷺ ابھی ذکر فرما رہے تھے۔ چنانچہ وہ آئے تو اس نیت سے تھے کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں یہ عرض کریں کہ عمرؓ نے ان پر ظلم کیا ہے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم ﷺ حضرت عمر پر ناراض ہو رہے ہیں تو انہوں نے جھٹ اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ !قصور میرا ہی تھا عمرؓ کا قصور نہیں تھا۔
تو ان لوگوں کی خدمات اور قربانیوں کو اگر دیکھا جائے تو واقعہ میں ان کا پایہ نہایت بلند معلوم ہوتاہے۔
(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ503-505)
میں تجھے ضرور قتل کر دیتا
ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت ابوبکرؓ سے ان کے ایک بیٹے نے جو بعد میں مسلمان ہوئے کہا کہ ابا! فلاں جنگ کے موقع پر جب آپ فلاں جگہ سے گزرے تھے تو اُس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور اگر چاہتا تو آپ پر حملہ کرکے آپ کو ہلاک کر سکتا تھا مگر مجھے خیال آیا کہ اپنے باپ کو کیا مارنا ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات سنی توکہا تیری قسمت اچھی تھی کہ تو مجھے دکھائی نہیں دیا۔ ورنہ اگر تو مجھے دکھائی دیتا تو خدا کی قسم! میں تجھے ضرور قتل کر دیتا۔
یہ وہ جذبۂ محبت ہے جو صحابہؓ کے دل میں رسول کریم ﷺکی ذات کے متعلق تھا کہ انہوں نے آپ کی محبت کے مقابلہ میں نہ بیٹے کی محبت کی پرواہ کی، نہ بیوی کی محبت کی پرواہ کی، نہ عزیزوں اور دوستوں کی محبت کی پرواہ کی۔
(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ503-505)
تمہیں بھی صبر کرنا چاہئے
جب جنگ موتہ ہوئی تو رسول کریم ﷺ نے حضرت زیدؓ کو اسلامی فوج کا سپہ سالار مقرر فرمایا اور ہدایت کی کہ اگر زیدؓ مارے جائیں تو حضرت جعفرؓ کو (جو رسول کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے) سپہ سالار مقرر کر لیا جائے اور اگر جعفرؓ بھی مارے جائیں توعبداللہ بن سرحؓ کو سپہ سالار مقرر کر لیا جائے اور اگر وہ بھی مارے جائیں تو پھر مسلمان جس کو چاہیں اپنا افسر مقرر کر لیں۔ چنانچہ جس طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا بعینہ ویسا ہی ہوا۔ زیدؓ بھی شہید ہوگئے، جعفرؓ بھی شہید ہو گئے اور عبداللہ بن سرحؓ بھی شہید ہو گئے۔ آخر صحابہؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو اپنا افسر مقرر کیا اور وہ بغیر کسی مزید نقصان کے مسلمانوں کے لشکر کو واپس لانے میں کامیاب ہو گئے۔
چونکہ اس جنگ میں علاوہ ان اسلامی جرنیلوں کے اور بھی بہت سے مسلمان شہید ہو گئے تھے اس لئے جب مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو گھر گھر کہرام مچ گیا اور شہداءکے بیوی بچوں اور رشتہ داروں نے رونا شروع کر دیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بین نہیں ڈالتے تھے مگر ابھی تک بین ڈالنے سے اسلام نے پوری طرح روکا بھی نہیں تھا۔
رسول کریم ﷺ اُس دن اپنے گھر سے کسی کام کو نکلے مگر آپ جس گلی میں سے گزرے اتفاقاً اس میں کئی شہادتیں ہوئی تھیں اور ہر گھر میں سے رونے کی آواز آرہی تھی مگر جب آپ حضرت جعفرؓ کے مکان کے پاس سے گزرے تو وہ چونکہ مہاجر تھے اور اُن کا کوئی رشتہ دار مدینہ میں موجود نہیں تھا اِس لئے جعفرؓ کے گھر سے کسی کے رونے کی آواز نہ آئی۔ رسول کریم ﷺ نے اس پر اظہارِ محبت کے لئے کہا کہ جعفرؓ کے گھر سے تو رونے کی کوئی آواز نہیں آرہی۔ صحابہؓ نے جب یہ فقرہ سنا تو انہوں نے فوراً اپنے اپنے گھروں میں جاکر عورتوں کو کہہ دیا کہ جاؤ اور جعفرؓ کے گھر روؤ۔ چنانچہ ساری عورتیں اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر جعفرؓ کے گھر اکٹھی ہو گئیں اور ان سب نے مل کر رونا شروع کر دیا۔
جب رسول کریم ﷺ کو ان کے رونے کی آواز پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ کیا ہوا؟ صحابہؓ نے کہایا رسول اللہ! آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفرؓ پر کوئی رونے والا نہیں ہم نے اپنی عورتوں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں پر نہ روئیں بلکہ جائیں اور جعفر کے گھر روئیں۔
درحقیقت رسول کریم ﷺ کا یہ منشا نہیں تھا کہ عورتیں جعفر کے گھر اکٹھی ہو کر رونا شروع کر دیں بلکہ آپ یہ بتانا چاہتے تھے کہ جب میرا ایک رشتہ دار بھی شہید ہوا ہے اور ہم سب نے اِس پر صبر سے کام لیا ہے تو تمہیں بھی صبر کرنا چاہئے مگر صحابہؓ کے دلوں میں رسول کریم ﷺکی جو محبت تھی اس نے انہیں یہ سوچنے کا موقع نہیں دیا کہ رسول کریمﷺکیا چاہتے ہیں بلکہ اُنہوں نے فوراً عورتوں سے کہہ دیا کہ اپنے غم کو بھلا کر رسول کریم ﷺ کے غم میں شریک ہو جاؤ۔
اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ان کے دلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیسا عشق تھا کہ وہ یہ فقرہ سن کر ہی کہ جعفر کے گھر سے تو رونے کی کوئی آواز نہیں آرہی یہ خیال کر لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی شہادت پر رو کر غلطی کی، اصل غم تو وہی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا۔
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے مگرجذبات کے اظہار کے لئے اس سے بہتر واقعات بہت کم مِل سکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی خدمات محمد ﷺ کے سامنے تھیں۔ جن کی قربانیاں ہر لمحہ اور ہر آن رسول کریم ﷺ کی آنکھوں کے سامنے ہوا کرتی تھیں اور رسول کریم ﷺسے یہ لوگ ایسی محبت رکھتے تھے کہ جس کی نظیر کسی دُنیوی رشتے میں نہیں مل سکتی۔
(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ505-507)
اپنے اقوال و افعال کی نگرانی کرتے رہو
یاد رکھو کہ آئندہ نورِ ہدایت کی اشاعت اور دنیا کی راہ نمائی اسی سلسلہ سے ہوگی۔ باقی سب راستے بند ہو چکے ہیں اور وہ ایسی کھڑکیاں ہیں جن کو بند کر دیا گیا مگر احمدیت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے اور آئندہ لوگ اِسی سے ہدایت اور راہ نمائی حاصل کریں گے اور اس بات کو ہر وقت مدنظر رکھنا چاہئے اور اپنے اقوال اور افعال کی نگرانی کرتے رہنا چاہئے۔ احمدیت کے ذریعہ اسلام کو ایک نئی روشنی دی گئی ہے اور اسلام کی ایک نئی تعبیر کی گئی ہے اور اس تعبیر کو صحیح طور پر وہی لوگ بیان کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کے بیان کرنے والوں کی صُحبت پائی ہے۔
مجھے ایک دوست کا لطیفہ ہمیشہ یاد رہتا ہے وہ آئے اور مجھے کہا کہ آپ سے ایک بات کرنی ہے وہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بہت مقرب تھے، میں نے کہا بہت اچھا۔ میں انہیں مسجد کے ساتھ والے کمرہ میں لے آیا۔ وہ کہنے لگے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے ایک تفسیر سنی ہوئی ہے وہ آپ کو سُناتا ہوں اور وہ سُنانے لگے، کوئی آدھ گھنٹہ سناتے رہے۔ ایک موقع پر کوئی بات تھی جو مجھے اچھی معلوم ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ یہ نئی بات ہے اور میں نے تصدیق کی نیت سے اس کا تکرار کیا اور دریافت کیا کہ اچھا آپ نے یہ بات فرمائی تھی۔ یہ بالکل ویسی ہی بات تھی جیسے کوئی شخص ہمارے سامنے آتا ہے تو ہم کہتے ہیں اچھا آپ آگئے! حالانکہ وہ تو سامنے کھڑا ہوتا ہے اس سے صرف اظہار خوشی مقصود ہوتا ہے، اِسی طرح ان کی بات سن کر میں نے تصدیق کے لئے کہا کہ اچھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة السلام نے یہ بات یوں فرمائی تھی!!
اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ مجھے ان پر کوئی شبہ ہے مگر میرے اس سوال پر وہ رونے لگ گئے اور اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی اور مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں بے ہوش نہ ہو جائیں۔ بہت دیر کے بعد خاموش ہوئے تو میں نے کہا کہ رونے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے جو دریافت کیا تو مَیں نے سمجھا کہ مَیں عالم نہیں ہوں شاید بیان میں کوئی غلطی کر گیا ہوں اور ایسا نہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام پر کوئی افتراءکر جاؤں، حالانکہ میں نے تو تصدیق کے لئے اور اِس وجہ سے کہ وہ بات مجھے لطیف معلوم ہوئی یہ پوچھا تھا مگر انہوں نے سمجھا کہ شاید مجھ سے غلط بات بیان ہو گئی ہے اور اس وجہ سے رونے لگے۔
میرے دل پر اُن کی اِس خشیت کا بڑا اثر ہوا کہ وہ محض اِس شبہ سے کہ مجھ سے کوئی غلط بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے منسوب نہ ہو گئی ہو اور مجھے خداتعالیٰ کے حضور اس پر گرفت نہ ہو اِس قدر روئے اِس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔
صحابہؓ میں بھی ایسے لوگ تھے۔ حضرت زبیرؓ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے لڑکے نے کہا کہ اباجان! آپ بھی تو رسول کریمﷺ کے ساتھ شروع سے رہے ہیں دوسرے لوگ جو آپ سے بعد میں آئے بہت سی احادیث بیان کرتے ہیں مگر آپ نہیں کرتے۔ آپ یہ بات سن کر فرمانے لگے کہ بات یہ نہیں کہ مجھے ان سے کم باتیں معلوم ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی میری طرف غلط بات منسوب کرے گا اُس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ ایسا نہ ہو میں کسی بات کو صحیح سمجھوں اور وہ دراصل غلط ہو اور اس وجہ سے میں عذاب میں مبتلا ہو جاؤں۔
یہ صحیح ہے کہ ایسے لوگ دین کو قائم کرنے والے نہیں ہوتے اور یہ محض خشیت اللہ کا مظاہرہ ہے ورنہ جب انسان سمجھتاہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ صحیح ہے اور اس میں ایک ذرہ کی بھی کمی بیشی میری طرف سے نہیں ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور بری ہے۔
حضرت ابوذرؓ سے کسی نے کہا کہ آپ بعض باتیں ایسی کہہ دیتے ہیں جن سے لوگوں کو ٹھوکر لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو آپ نے کہاکہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے کہ اگر تمہاری گردن پر تلوار رکھی ہو اور تمہیں کوئی بات معلوم ہو تو اسے بیان کرنے میں جلدی کرو تا تلوار چلنے سے پہلے وہ بیان ہو جائے اس لئے میں نے جو بات رسول کریم ﷺسے سنی ہے وہ بیان کرتا جاؤں گا۔
یہ دو مختلف اور متضاد پہلو ہیں اور اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بات کرنے میں یہ دونوں پہلو ہو سکتے ہیں اس لئے بہت احتیاط کرنی چاہئے۔
(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ524-526)
ایک حدیث کے لئے تین ہزار میل کا سفر
دین کی ایک بات بھی بہت بڑی قیمت رکھتی ہے۔ امام بخاری نے حدیث کی کتاب لکھی تو ایک ایک حدیث کے لئے ہزار ہزار میل کا سفر کیا اور اپنی زندگی کے تیس سال احادیث کے جمع کرنے میں صَرف کر دیئے۔ وہ بخارا کے رہنے والے تھے مگر احادیث کے جمع کرنے کے لئے مصر، شام اور عرب میں گئے اور اس طرح یہ کام کیا۔
اسی طرح دوسرے محدثین نے بھی ایک ایک حدیث کے لئے پانچ پانچ سَو اور ہزار ہزار میل کے سفر کئے۔
سپین کا رہنے والا ایک شخص صرف ایک حدیث سننے کے لئے تین ہزار میل کا سفر کرکے بغداد پہنچا تھا۔ وہ راوی جس سے وہ حدیث سننےکے لئے آیا چوتھا یا پانچواں تھا مگر پھر بھی اس کے دل میں یہ شوق تھا کہ براہ راست اس سے سنوں۔
پس دین کی باتوں کے لئے بڑے شوق کی ضرورت ہے اور یہ شوق نہ ہونے کی وجہ سے مسائل میں غور کرنے کی عادت بہت کم ہو گئی ہے۔
(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ528-529)
مومن کی عقل و فہم کا امتحان
اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی امر کی اجازت دی جاتی ہے تو اس کے معنی بھی یہ ہوتے ہیں کہ انسان اپنے حالات کے لحاظ سے یہ دیکھ لے کہ ایسا کرنا اس کے لئے مفید ہے یامضراور کس وقت اللہ تعالیٰ کا منشاء اس طرح پورا ہوتا ہے کہ اس اجازت سے فائدہ اٹھایا جائے اور کس وقت اس طرح کہ نہ اُٹھایا جائے، ہر حالت میں یہ دیکھنا چاہئے کہ دین کا فائدہ کس میں ہے۔ پس اجازت کے معنی ضروری طور پر یہ نہیں ہوتے کہ ان پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنا جائز ہی نہیں۔
ہمارے اپنے خاندان میں میری بیویوں کے غیر احمدی رشتہ دار ہیں اور ان سے ظاہری تعلقات بڑے اچھے ہیں اور میں سمجھتا تھا کہ اگر ہم اُن کی لڑکیاں لے آئیں توبہت مفید ہوگا مگر جماعت میں جب میں نے اِس طرف میلان دیکھا کہ احمدی اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کی لڑکیاں لانے کی طرف مائل تھے تو میں نے یہ خیال ترک کر دیا کیونکہ میں نے سمجھا کہ اِس مثال کو سامنے رکھ کر لوگ عام طور پر ایسا کرنے لگیں گے اور ایک خاندان کے لحاظ سے تو گو یہ فعل احمدیت کے نقطۂ نگاہ سے مفید ثابت ہو مگر ہزار خاندانوں کو نقصان پہنچ جائے گا۔
پس مومن کو ہر وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ کس وقت خداتعالیٰ کا منشاءکیا ہے۔ ایسی اجازت دراصل مومن کی عقل و فہم کا امتحان ہوتی ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ نماز پڑھو تو یہ اخلاص کا امتحان ہوتا ہے کیونکہ نماز ہر حال میں فرض ہے لیکن جہاں اجازت ہو کہ آدمی چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے وہاں اُس کی عقل اور فہم کا امتحان ہوتا ہے۔
دینی امور میں تفقّہ بھی ضروری ہے۔ رسول کریم ﷺ ایک مرتبہ کہیں باہر تشریف لے گئے نماز کا وقت ہوا تو حضرت عباس نے لوٹا لاکر آپ کو وضو کرایا۔ آپ نے دعا فرمائی کہ اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِیعنی اے اللہ! اس نے عقل سے کام لیا ہے اس کی عقل کو دینی امور میں تیز کر دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کئی بار صرف یہ بتانے کے لئے کہ مومن ہونا ہی کافی نہیں بلکہ عقل بھی تیز ہونی چاہئے ایک مثال دیا کرتے تھے۔
فرماتے کسی انسان کا دوست ایک ریچھ تھا۔ اس شخص کی ماں بیمار تھی اور وہ اس کے پاس بیٹھا مکھیاں اُڑا رہا تھا کہ اسے تکلیف نہ ہو۔ کسی نے اسے باہر بلایا تو وہ اپنے جگہ پر مکھیاں اُڑانے کے لئے ریچھ کو بٹھا گیا۔ ریچھ نے مکھیاں اُڑانی شروع کیں تو ایک مکھی بار بار آکر وہیں بیٹھے وہ اسے اُڑائے مگر وہ پھر آکر بیٹھ جائے۔ اب اگر آدمی ہوتا تو سمجھتا کہ مکھی کا کام بیٹھنا ہے اور میرا کام اسے ہٹانا مگر ریچھ میں عقل تو تھی نہیں اس نے سوچا کہ اسے ایسا ہٹانا چاہئے کہ پھر نہ آکر بیٹھ سکے۔ پس اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور جب مکھی آکر بیٹھی تو زور سے پتھر اس پر دے مارا۔ مکھی نے تو کیا مرنا تھا اس سے اس کے دوست کی ماں کی جان نکل گئی۔
تو خالی اخلاص ہر موقع پر کام نہیں آتا بلکہ عقل بھی ضروری ہے۔ پس جہاں تو خداتعالیٰ نے کسی کام کا حکم دیا ہے وہاں تو صرف اخلاص کا امتحان ہے۔ مگر جہاں اجازت دی ہے چاہو کرو چاہو نہ کرو وہاں عقل کا امتحان لیا ہے۔ وہاں یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آیا انسان اس اجازت سے موقع و محل کے لحاظ سے فائدہ اٹھاتا ہے یا بے موقع۔ آیا اندھا دھند فیصلہ کرتا ہے یا موازنہ کرکے دیکھتا ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہ کرنا چاہئے۔
(خطابات شوریٰ جلد 2صفحہ536-538)
تعریف و تنقیص میں حصہ
جس قدر اجتماعی کام ہیں ان میں انسان کو اس تمام تنقیص، مذمت اور ندامت میں سے حصہ لینا پڑتا ہے جو کسی جماعت یا قوم کے حصہ میں آتی ہے اور اگر حصہ نہ لینا پڑے تو قومی روح انسان کے اندر پیدا نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں لڑکا بُرا ہو تو باپ بھی اس کی بدنامی میں سے حصہ لیتا ہے اور باپ بُرا ہو تو لڑکا اس کی بدنامی میں شریک ہوتا ہے۔
مثل مشہور ہے کہ کوئی شخص کفن چور تھا۔ جب لوگ کسی میت کو قبرستان میں دفن کرکے آتے تو وہ رات کو جاتا اور قبر کھود کر کفن نکال لاتا۔ لوگ بڑی گالیاں دیتے اور کہتے کہ خدا اس کا بیڑا غرق کرے اس نے تو ہمیں تنگ کر رکھا ہے۔ آخر کچھ دنوں کے بعد وہ مرگیا تو لوگوں نے اس کی پھر بُرائیاں بیان کرنی شروع کر دیں اور کہنے لگ گئے کہ بڑا خبیث تھا، خدا کی اس پر لعنت ہو اور وہ اسے دوزخ میں ڈالے، اس نے دنیا میں بڑی خباثت پھیلائی ہوئی تھی۔
اس کا بیٹا نیک انسان تھا جب اس کے باپ کو کوئی شخص بُرا بھلا کہتا تو اسے تکلیف محسوس ہو تی مگر باپ کی زندگی میں تو اس نے اس بات کو زیادہ محسوس نہ کیا جب اس کے مرنے کے بعد بھی لوگوں نے لعنتیں ڈالنی بند نہ کیں تو اُسے بہت تکلیف ہوئی۔ آخر وہ کسی عقلمند سے مشورہ لینے کے لئے گیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ اور کہنے لگا کہ میرا باپ خود تو بُرا آدمی تھا ہی مجھے یہ تکلیف ہے کہ مجھے اس کی برائیاں سننی پڑتی ہیں اور میں نہ ان کی تائید کر سکتا ہوں اور نہ تردید کر سکتا ہوں آخر کروں توکیا کروں؟
وہ کوئی مذاقی آدمی تھے کہنے لگے تم چند دنوں تک یوں کروکہ جب لوگ کسی میت کو قبرستان میں دفن کر کے چلے جائیں تو تم قبر کھود کر میت کو باہر پھینک دیا کرو۔ اُس نے چند دن ایسا ہی کیاتو لوگوں میں ایک شور مچ گیا اور وہ کہنے لگے خدااس پہلے کفن چور کو جنت نصیب کرے، وہ توکوئی شریف آدمی تھا کہ صرف کفن چراتا تھا، میت کی بے حرمتی نہیں کرتا تھا مگر اب تو کوئی ایسا خبیث پیدا ہوا ہے جو میت تک کو قبر سے باہر نکال کر پھینک دیتا ہے۔ خیر چند دن ایسا ہوتا رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ اب اس کے باپ کی لوگ بُرائی بیان نہیں کرتے تو اس نے اس کام کو چھوڑ دیا۔
غرض بدی اگر باپ میں ہو تو اس کی ملامت میں بیٹے کو بھی شریک ہونا پڑتا ہے اور اگر بیٹا بدی میں شریک ہو تو اسکی ملامت میں باپ کو بھی حصہ لینا پڑتا ہے۔
(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ551-552)
جن کو رونا اور شور مچانا آتا ہو وہ اپنی بات منوا لیتے ہیں
ہم نے تو دیکھا ہے جب کوئی شخص اس طرح کھلے رنگ میں اپنے جذباتِ درد کا اظہار کرے تو سننے والی طبیعت اثر قبول کئے بغیر نہیں رہتی۔
حضرت مسیح موعودؑ ایک دفعہ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ اتفاق سے جماعت نے آپ کے قیام کے لئے جو بالاخانہ تجویز کیا وہ بغیرمنڈیر کے تھا آپ کو چونکہ اس بات کا علم نہیں تھا کہ اس مکان کی چھت پر منڈیر نہیں اس لئے آپ مکان میں تشریف لے گئے مگر جونہی آپ کو معلوم ہوا کہ اس کی منڈیر نہیں آپ نے فرمایا کہ منڈیر کے بغیر مکان کی چھت پر رہنا جائز نہیں اس لئے ہم اس مکان میں نہیں رہ سکتے۔
پھر آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا ابھی سیدحامد شاہ صاحب کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم کل واپس جائیں گے کیونکہ ایسے مکان میں رہنا شریعت کے خلاف ہے۔
وہ بڑے مخلص اور سلسلہ کے فدائی تھے انہوں نے جب یہ سنا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر کہا کہ بہت اچھا حضرت صاحب سے عرض کردیجئے ہم انتظام کر دیتے ہیں۔
جماعت کے دوستوں کو معلوم ہوا تو ایک کے بعد دوسرے دوست نے آنا شروع کردیا اور انہوں نے کہا کہ حضرت صاحب سے عرض کیا جائے کہ وہ ہماری اِس غلطی کو معاف فرمادیں ہم ابھی آپ کے لئے کسی اَور مکان کا انتظام کر دیتے ہیں وہ خدا کے لئے سیالکوٹ سے نہ جائیں۔ مگر شاہ صاحب نے فرمایا میں اِس بات کو پیش کرنا ادب کے خلاف سمجھتا ہوں۔ جب حضرت صاحب نے فرما دیا ہے کہ اب ہم واپس جائیں گے تو ہمیں حضور کی واپسی کا انتظام کرنا چاہئے۔
اتنے میں ان کے والد میر حسام الدین صاحب مرحوم کو اِس بات کا پتہ لگ گیا۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ سے بہت بے تکلفی کے ساتھ گفتگو فرمالیا کرتے تھے اور تھے بھی حضور کے پُرانے دوستوں میں سے۔ سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو زمانۂ ملازمت گزرا ہے اُس میں میر صاحب کے حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہ چکے تھے اِس لئے وہ بےتکلفی سے گفتگو کرلیا کرتے تھے۔
وہ یہ سنتے ہی مکان پر تشریف لائے اور بڑے زور سے کہا۔ بلاؤ! مرزا صاحب کو، مجھے جہاں تک یاد ہے انہوں نے حضرت کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ میرا چونکہ اُن سے کوئی تعارف نہیں تھا اس لئے میں تو نہ سمجھ سکا کہ یہ کون دوست ہیں مگر کسی اور شخص نے مجھے بتایا کہ یہ میر حامد شاہ صاحب کے والد ہیں۔ خیر میں گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے کہا کہ ایک بڈھا سا آدمی باہر کھڑا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بُلاؤ!مرزا صاحب کو، نام حسام الدین ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی اسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور سیڑھیوں سے نیچے اُترنا شروع کر دیا۔ ابھی آپ آخری سیڑھی پر نہیں پہنچے تھے کہ میر حسام الدین صاحب نے رو کر اوربڑے زور سے چیخ مار کر کہا کہ اس بڈھے واریں مینوں ذلیل کرنا ہے ساڈا تے نک وڈیا جائے گا۔ یعنی کیا اِس بڑھاپے میں آپ مجھے لوگوں میں رُسوا کرنا چاہتے ہیں میری تو ناک کٹ جائے گی اگر آپ واپس چلے گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اِس کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ آپ نے فرمایاسید صاحب! ہم بالکل نہیں جاتے، آپ بے فکر رہیں۔ چنانچہ فوراً جماعت نے کیلے گاڑ کر قناتیں لگا دیں اور شریعت کا منشاءبھی پورا ہوگیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو شکایت تھی وہ دُور ہو گئی۔
تو جن لوگوں کو رونا اور شور مچانا آتا ہے وہ دوسروں سے اپنی بات منوا لیا کرتے ہیں۔
(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ554-555)
سلسلہ کے لئے مانگنے میں ہتک نہیں
جماعتی ضروریات کے لئے لوگوں سے روپیہ مانگنا اور اُن سے بار بار اِس کا تقاضا کرنا قومی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہوا کرتا ہے۔ مگر میں نے دیکھا ہے غرباء تو پھر بھی مانگ لیتے ہیں، اور امراء پر جماعتی ضروریات کے لئے لوگوں سے چندہ مانگنا نہایت ہی گراں گزرتا ہے اور بعض لوگ اسی بات کو طعنے کے طور پر پیش کر دیتے ہیں۔ مثلاً لوگوں میں لانگری کا ایک لفظ رائج ہے جو عام طور پر دوسرے کی تحقیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ فلاں شخص ایسا ہے جیسے اُس نے مجاوروں کی طرح کسی کی قبر پر لنگر جاری کر رکھا ہو اور وہ اس ذریعہ سے لوگوں سے مانگتا رہتا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب وفات پا گئے تو صدر انجمن احمدیہ نے میرے سپرد لنگر خانہ کا کام کر دیا۔ خواجہ کمال الدین صاحب عام طور پر میرے کاموں کو پسند نہیں کیا کرتے تھے لیکن اگر میں کام نہ کرتا تو حضرت خلیفہ اوّلؓ سے یہ شکایت کر دیتے کہ میاں ہماری مدد نہیں کرتے۔
بہرحال جب یہ کام میرے سپرد ہوا تو خواجہ صاحب نے حقارت کے طور میرے متعلق لانگری کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ جب بھی میں اُن سے ملتا کہتے آگئے لانگری صاحب۔ وہ سمجھتے کہ اِس طرح میری خوب ہتک ہوتی ہے مگر میں پرواہ بھی نہ کرتا۔ آخر چند دن کے بعد وہ خود ہی تھک گئے اور اُنہوں نے اس لفظ کا استعمال ترک کر دیا۔
توکچھ حقارت کے الفاظ ہوتے ہیں جن کا استعمال لوگ اپنے لئے ہتک کا موجب سمجھتے ہیں مگر ہمیں یہ امر اچھی طرح مد نظر رکھ لینا چاہئے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور اللہ سے روزانہ سوال کرنا ہمارا کام ہے۔ پس جب ہم اللہ سے روزانہ مانگتے ہیں تو اُس کے سلسلہ کے لئے اگر ہمیں کچھ مانگنا پڑے تو اس میں ہمارے لئے ہر گز کوئی ہتک نہیں ہو سکتی۔ مانگنا وہ بُرا ہوتا ہے جس میں انسان اپنے لئے یا اپنے ایسے عزیزوں کے لئے مانگے جن کی ذمہ داری اُس پر ہو۔
(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ660-661)
(محمد انور شہزاد)