• 9 مئی, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 14)

اپنے جائزے لیں
ازارشادات خطبات مسرور جلد 13۔ حصہ اول
قسط 14

اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لئے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لئے کتنی کوشش کریں گے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’آج کا جمعہ اس نئے سال 2015ء کا پہلا جمعہ ہے۔ مجھے مختلف لوگوں کے نئے سال کے مبارکباد کے پیغام آ رہے ہیں۔ فیکسیں بھی اور زبانی بھی لوگ کہتے ہیں۔ آپ سب کو بھی یہ نیا سال ہر لحاظ سے مبارک ہو۔ لیکن ساتھ ہی مَیں یہ بھی کہوں گا کہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہو گا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لئے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لئے کتنی کوشش کریں گے۔ پس ہمیں اس جمعہ سے آئندہ کے لئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو نئے سال میں ہمارے لئے اس حق کی ادائیگی کے لئے چستی اور محنت کاسامان پیدا کرتے رہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ1 خطبہ جمعہ 2؍جنوری 2015ء)

سال کے آغاز پر جائزے لینے کی تلقین

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’آج ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال میں ہم نے جن تدبیروں اور حیلوں پر انحصار کیا، انہی کو سب کچھ سمجھا یا یہ چیزیں صرف ہم نے تدبیر کے طور پر استعمال کیں اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر ان تدبیروں سے اللہ تعالیٰ کی خیر اور برکت چاہی۔ اپنے آپ کا انصاف کی نظر سے جائزہ خود ہمیں اپنے عہد کی حقیقت بتا دے گا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ3 خطبہ جمعہ 2؍جنوری 2015ء)

اسائلم سیکرز جھوٹ کا سہارا لینے پر جائزہ لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’آجکل یہاں اور یورپیئن ممالک میں بھی اسائلم کے لئے لوگ آتے ہیں لیکن باوجود میرے بار بار سمجھانے کے ان وکیلوں کے کہنے پر جھوٹ بول دیتے ہیں۔ جھوٹ پر مبنی کہانی لکھواتے ہیں اور پھر بھی بعضوں کے بلکہ بہت ساروں کے کیس reject ہو جاتے ہیں۔ باقی دنیا میں بھی اور یہاں بھی جماعتی طور پر وکیلوں کی ایک مرکزی ٹیم ہے۔ وہ اسائلم لینے والوں کی مدد کرتی ہے۔ ان کو وکیلوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے یا انہیں بعض ایسی ضروری باتیں بتاتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں جو اُن کے کیس کے لئے مفید ہوں۔ کئی مرتبہ ہوا ہے کہ مجھے کمیٹی کے صدر نے کہا کہ فلاں کا کیس اس لئے reject ہوا ہے کہ بے انتہا جھوٹ تھا۔ صرف ایک دنیاوی مفاد حاصل کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا اور یہ بھی نہ سوچا کہ جھوٹ اور شرک کو اللہ تعالیٰ نے اکٹھا کر کے بیان فرمایا ہے۔ پھر اسی طرح بعض benefits لینے کے لئے غلط بیانی کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’جھوٹ بھی ایک بُت ہے جس پریہ بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ361)

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ3-4 خطبہ جمعہ 2؍جنوری 2015ء)

اس باریکی سے اپنے جائزے لینے اور ٹی وی انٹرنیٹ کے منفی پہلوسے بچنے کے لئےجائزے لینے کی ضرورت ہے

آجکل ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے اس پر ایسی بیہودہ فلمیں چلتی ہیں یا کھولنے سے نکل آتی ہیں جو نظر کا بھی زنا ہے، خیالات کا بھی زنا ہے، پھر برائیوں میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ گھروں کے ٹوٹنے کی وجہ ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اپنے خاوندوں کے بارے میں لکھتی ہیں کہ سارا دن انٹرنیٹ پر بیٹھے رہتے ہیں اور بیٹھ کر گندی فلمیں دیکھتے ہیں۔ بعض مرد بھی اپنی بیویوں کے بارے میں لکھتے ہیں اور پھر نتیجۃً خلع اور طلاق تک نوبت آ جاتی ہے۔ یا انہی فلموں کی وجہ سے جانوروں سے بھی زیادہ بدترین بن جاتے ہیں۔ احمدی معاشرہ عموماً تو اس سے بچا ہوا ہے۔ شاذ و نادر کے سوا کوئی ایسے واقعات نہیں ہوتے لیکن اگر اس معاشرے میں رہتے ہوئے اس گند سے اپنے آپ کو بچانے کی بھر پور کوشش نہ کی تو پھر کسی پاکیزگی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پس اس بارے میں بھی بہت فکر سے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ4 خطبہ جمعہ 2؍جنوری 2015ء)

ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے عہد کو کس حد تک نبھایا

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ان تمام باتوں کی اطاعت کرنی ہے جو آپ ہماری دینی، علمی، روحانی اور عملی تربیت کے لئے ہمیں فرما گئے ہیں یا آپ کے بعد خلافت احمدیہ کے ذریعہ سے جماعت کے افراد تک وہ پہنچتی ہیں جو شریعت کے قیام کے لئے ہیں۔ جو قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور اسوۂ حسنہ کے مطابق ہیں کہ اس کے بغیر نہ ہی ہماری ترقی ہو سکتی ہے، نہ ہماری اِکائی قائم رہ سکتی ہے۔

پس ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے عہد کو کس حد تک نبھایا اور اگر کمیاں ہیں تو اس سال ہم نے کس طرح انہیں پورا کرنا ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ14 خطبہ جمعہ 2؍جنوری 2015)

نومبائعین سے رابطوں کے ٹوٹنے یا پیچھے ہٹنے والوں کی وجوہات جاننے کے لئے جائزہ لینے کے لئے پروگرام بنانے چاہئیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’نومبائعین اور پرانے احمدیوں کے بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو مالی قربانیوں میں اضافے کے معیار بڑھنے کی وجہ سے ان کے اخلاص کا پتا دیتے ہیں۔ اس سے ان کے اخلاص کے معیاروں کا پتا لگتا ہے۔ لیکن جماعتی نظام کو بھی ضائع ہونے والوں کا پتا لگانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ ہندوستان میں بھی جیسا کہ مَیں نے کہا بنگال کے علاقے میں بیعتیں ہوئی تھیں۔ جائزہ لینے کے لئے پروگرام بنانے چاہئیں تا کہ رابطوں کے ٹوٹنے یا پیچھے ہٹنے والوں کی وجوہات کا پتا چلے اور آئندہ کے لئے ان کمیوں کو سامنے رکھتے ہوئے پھر تبلیغ اور تربیت کی جامع منصوبہ بندی ہو۔ اسی طرح باقی دنیا میں بھی اس نہج پر کام کرنا چاہئے کہ جو جماعت میں شامل ہوتا ہے اس سے ہم کس طرح مسلسل رابطہ رکھیں چاہے وہ کتنا ہی دور دراز علاقے میں رہتا ہو۔ رابطہ انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کام کو کرنے کی جماعتوں کو توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ32-33 خطبہ جمعہ 9؍جنوری 2015ء)

اپنے مفاد کے لئے سچائی کے معیار سے نیچے گرنے والوں کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جو لوگ اپنے مفاد کے لئے سچائی کے معیار سے نیچے گرتے ہیں انہیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ان ملکوں میں حکومت سے فائدہ اٹھانے کے لئے، اسائلم کے لئے، انشورنس کمپنیوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے غلط طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایسے احمدیوں کو جو اس قسم کی حرکت کرتے ہیں سوچنا چاہئے کہ غلط طریق سے جو یہ دنیاوی فائدے اٹھانا ہے، یہ ایک احمدی کو زیب نہیں دیتا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ66 خطبہ جمعہ23؍جنوری 2015ء)

اپنے جائزے لے کر ہر ایک کو پرکھنا چاہئے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’واضح ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر ہمارے دل کی پاتال تک ہے، گہرائی تک ہے۔ کسی بھی قسم کا بہانہ اپنی کم علمی یا کم عقلی یا استعدادوں کی کمی کا اللہ تعالیٰ کے حضور نہیں چل سکتا۔ اس لئے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے پھر اپنی استعدادوں کے جائزہ لے کر اپنے ایمان اور عمل کو پرکھنا چاہئے۔ یہی نہیں کہ تھوڑے سے تھوڑا معیار ہے تو بس ہمیں چھٹی مل گئی۔ کم از کم معیار بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا وہ یہ تھا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں اور ایک مرد کے لئے پانچ نمازیں باجماعت فرض ہیں۔ روزے فرض ہیں اور اگر مال پر قربانی یا زکوٰۃ لگتی ہے تو وہ بھی فرض ہے۔ پس یہ کم از کم معیار ہیں۔ پس ان معیاروں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے جائزے لے کر ہر ایک کو پرکھنا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد13 صفحہ 73 خطبہ جمعہ30؍جنوری 2015ء)

جائزہ لیں کہ میرے کام کو خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمیں اس سوچ کے ساتھ اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہنا چاہئے اور ہر کام کے انجام پر نظر رکھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی میرے ہر کام پر نظر ہے۔ یہ سوچ جب پیدا ہو جائے تو مومن ایک حقیقی مومن بن جاتا ہے یا بننے کی طرف قدم بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اس معیار کو دیکھنے کے لئے کسی جماعتی یا ذیلی تنظیم کے رپورٹ فارم کو دیکھنے اور اس پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر ایک شخص خود اپنے جائزے لے سکتا ہے کہ کیا یہ اس کے معیار ہیں کہ ہر کام کرنے سے پہلے اسے یہ خیال آئے کہ خدا تعالیٰ میرے اس کام کو دیکھ رہا ہے۔ اگر میں نیک نیّتی سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ کام کر رہا ہوں تو اللہ تعالیٰ کا کئی گنا جزا کا بھی وعدہ ہے، اجر کا بھی وعدہ ہے اور اگر نیت بد ہے تو پھر انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں بھی آ سکتا ہوں۔ جب ہم میں سے ہر ایک ایسی سوچ کے ساتھ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرے گا اور اس کے لئے کوشش کرے گا تو جماعت کے جو تقویٰ کے عمومی معیار ہیں وہ بھی بلند ہوں گے اور یہ تقویٰ کا معیار بلند ہوتا ہوا جماعتی طور پر بھی خودبخود نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ نہ تربیت کے شعبے کے لئے مشکلات اور مسائل ہوں گے، نہ امور عامہ اور قضاء کے شعبے کے لئے مسائل، نہ ہی دوسرے شعبوں کو یاددہانیوں کی ضرورت اور فکر پڑے گی۔

پس اپنے دلوں کو ہر وقت صبح شام ٹٹولتے رہنا چاہئے اور شیطان کے حملوں سے نفس کو بچانے کی انتہائی کوشش کی ضرورت ہے۔ اگر نہیں خیال آتے تو یہ شیطان کی وجہ سے ہی نہیں آتے۔ اس بات کو بھلانے میں شیطان ہی کردار ادا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھلایا جائے تو شیطان ہی ہے جو کردار ادا کرتا ہے۔ کل کی اگر فکر نہ ہو تو وہ شیطان ہی ہے جو بھلاتا ہے۔ یہ شیطان ہی ہے جو یہ کہتا ہے اس بات کو بھول جاؤ کہ خدا تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں کہ اکثر اس بات کو نہیں سوچتے کہ میرے کام کو خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ160 خطبہ جمعہ 6؍مارچ 2015ء)

روحانی بیماری حملہ کرنے سے قبل اپنے جائزے لیتے ہوئے حفظ ماتقدم کے عمل کو شروع کر دینا چاہئے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’شیطان کا حملہ یا روحانی بیماری جو ہے جسمانی بیماری سے بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بسا اوقات اس کے علاج کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا۔ دوسرے توجہ بھی دلائیں کہ علاج کروا لو تو اس طرف توجہ نہیں ہوتی۔

پس ایک مومن کو اس سے پہلے کہ بیماری حملہ کرے اپنے جائزے لیتے ہوئے حفظ ماتقدم کے عمل کو شروع کر دینا چاہئے اور اس معاشرے میں جیسا کہ میں نے کہا کہ ر وحانی بیماریاں مستقل فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اس لئے اپنے آپ کو بچانے کے لئے مستقل عمل کی بھی ضرورت ہے یا مستقل علاج کی بھی ضرورت ہے۔ حفظ ما تقدم کی ضرورت ہے اور یہی ایک حقیقی مومن کے لئے ضروری ہے اور اس کو چاہئے کہ وہ اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتا رہے…یعنی کسی روحانی بیماری کے حملہ آور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ میری نجات بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے۔ مجھے بھی ہر وقت اس کی طرف جھکے رہنے کی ضرورت ہے۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سب کے باوجود اس قدر خشیت کا اظہار کرتے ہیں تو پھر اور کون ہے جو کہہ سکے کہ مجھے ہر وقت ہر کام میں کل پر نظر رکھنے کی ضرورت نہیں اور کام کر کے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ پس ہر وقت ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے کاموں اور اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اس کا رحم مانگنے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت یہ خیال دل میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ میں نے اپنے ایمان کو کس طرح بچانا ہے اور اس کی طرف جو اگلی آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا کیونکہ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اپنے آپ سے غافل کر دے گا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ161-162 خطبہ جمعہ 6؍مارچ 2015ء)

اپنے کاموں کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار پر پرکھنے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اگر تقویٰ پر نہیں چلتے۔ اپنے کل کی فکر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نہیں چلتے تو پھر فاسقوں میں شمار ہو گا اور فاسق وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو توڑنے والے ہیں۔ جو گناہوں میں مبتلا رہنے والے ہیں۔ جو اطاعت سے نکلنے والے ہیں۔ جو سچائی سے دُور ہٹنے والے ہیں۔ پس اگر ہم اپنے جائزے نہیں لیتے، اپنے کاموں کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار پر پرکھنے کی کوشش نہیں کرتے تو بڑے خوف کا مقام ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ164 خطبہ جمعہ 6؍مارچ 2015ء)

بڑے روئے مگر دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
اس حوالے سےاپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرور ت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’بعض کہتے ہیں کہ جی ہم بڑے روئے، بڑے چلّائے، دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ لیکن اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی ضرور ت ہے کہ باقی چیزیں بھی پوری ہو رہی ہیں کہ نہیں۔‘‘

(خطبات مسرورجلد13 صفحہ235-236 خطبہ جمعہ 10 اپریل 2015ء)

لوگوں کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اس دنیا میں جہاں انسان کی مختلف ترجیحات ہیں اور خاص طور پر ان ترقی یافتہ ممالک میں جہاں مادیت کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ان مادیت کی چیزوں کو بعض لوگوں نے خدا تعالیٰ کے احکامات پر ترجیح دینی شروع کر دی ہے یا دیتے ہیں۔ دنیاوی فائدہ کے اٹھانے کے لئے غلط بیانی اور جھوٹ سے بھی کام لیتے ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے۔ پس ایسے لوگ خلافت سے صحیح فیضیاب نہیں ہو سکتے۔ یہاں جرمنی سے مجھے کسی نے خط لکھا کہ ان کا ایک زیر تبلیغ دوست تھا وہ سب مسائل اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائل ہو گیا۔ جب اس شخص نے اپنے دوست کو یہ کہا کہ پھر بیعت کر کے جماعت میں آ جاؤ تو کہنے لگا کہ میں بہت سے احمدیوں کو جانتا ہوں بعض میرے ارد گرد جو میرے قریبی ہیں جو ٹیکس چوری بھی کرتے ہیں۔ جو جھوٹ سے بھی کام لیتے ہیں، جو اور بھی غلط کاموں میں ملوث ہیں۔ تو میں تو بہر حال یہ سب غلط کام نہیں کرتا۔ میں ٹیکس بھی پورا ادا کرتا ہوں۔ اگر ٹیکسی چلاتا ہوں تو اس کے بھی پیسے پورے دیتا ہوں تو پھر مَیں کس طرح ان میں آ جاؤں۔ اس لئے ان سے بہتر ہوں باوجود اس کے کہ باقی تمہارے عقائد مان لیتا ہوں۔ گو اس کا یہ جواب غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کو نہ مان کر وہ خود ملزم بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اسے یہی کہنا ہے کہ تمہارے سامنے جو حقیقت آ گئی تو تم نے چند لوگوں کو دیکھ کر اس کا انکار کیوں کیا۔ تمہیں جو میرا حکم تھا تم نے وہ کیوں نہ مانا۔ لیکن ایسے احمدی اپنے غلط رویّوں سے دوہرے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ خود بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم رہیں گے اور ہو رہے ہیںا ور دوسروں کو بھی دُور ہٹا رہے ہیں اور ایسے لوگوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ ہماری طرف منسوب ہو کر ہمیں بدنام کرنے والے ہیں۔

خدمت دین بھی صرف خلافت سے وابستگی میں ہے

پس جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کو بدنام کرنے والے ہیں تو انہوں نے پھر آپ کی جاری خلافت کے فیض سے کیا حصہ لینا ہے۔ پس ایسے لوگوں کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کام کرنے والوں اور عہدیداروں سے بھی میں یہی کہتا ہوں کہ یہ برکت جو آپ کے کام میں ہے یا جو آپ کو اللہ تعالیٰ کام کی توفیق دے رہا ہے یہ صرف اور صرف خلافت سے وابستگی میں ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ338 خطبہ جمعہ 29؍مئی 2015ء)

جائزے لیں کہ ہم اپنے تعلق باللہ، اپنے ایمان اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے کی پابندی کرنے کے لحاظ سے کس مقام تک پہنچے ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی یافتہ ممالک میں بلکہ بعض ایسے ممالک بھی جہاں جماعتیں بڑھی ہیں جو جلسے منعقد ہوتے ہیں ان میں شامل ہونے والوں کی اپنی سواریوں اور کاروں کی تعداد ہی اتنی ہوتی ہے کہ انتظامیہ کو کارپارکنگ کے لئے جو انتظام کرنا پڑتا ہے وہ بھی ایک محنت طلب کام ہے اور خاص طور پر کرنا پڑتا ہے۔ آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جن کے آباؤ اجداد جلسے میں اپنے پر تنگی وارد کر کے اور تکلیف اٹھا کر جاتے ہوں گے۔ بعض حسرت اور خواہش رکھنے کے باوجود کہ ہر سال جلسے میںشامل ہوں لیکن ان کے لئے ممکن نہ ہو سکتا ہو گا۔ لیکن کبھی آپ میں سے کسی نے یہ بھی سوچا ہے کہ اتنی آسانیاں میسر آنے کے بعد، کشائش پیدا ہونے کے بعد جو آپ کو سفر کی سہولتیں اور توفیق ملتی ہے کیا یہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنانے اور ایمان میں بڑھانے کا باعث بنی ہیں؟ کیا جو ایمان ہمارے بڑوں کا تھا اور جو تعلق خدا تعالیٰ سے ان کا تھا اس معیار پر ہم بھی پہنچے ہیں۔ بعض اس زمانے کے بزرگوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ پانے کے باوجود، آپ کو ماننے کے باوجود، خواہش کے باوجود جیسا کہ میں نے کہا ہے مالی روکوں کی وجہ سے سفر کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن آج جن ممالک کے جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک غلام اور خلیفہ شامل ہوتا ہے اس میں شمولیت کے لئے لوگ دوسرے ممالک سے خرچ کر کے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ میرے سامنے بھی کئی بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت جاننے کے لئے ایسے لوگ بھی دوسرے ممالک سے شامل ہونے کے لئے آ جاتے ہیں جو ابھی آپ پر ایمان نہیں لائے۔ پس یہ بات جہاں اس لحاظ سے خوش کن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حالات بدل دئیے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے وہاں ان بزرگوں کی اولادوں کے لئے اپنے جائزے لینے کی طرف متوجہ ہونے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم اپنے تعلق باللہ، اپنے ایمان اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے کی پابندی کرنے کے لحاظ سے کس مقام تک پہنچے ہیں۔ اگر ہمارے خاندانوں میں ہمارے بزرگوں کے نیکی کے معیار وں کے مقابلے میں تیزی سے تنزّل ہو رہا ہے تو ہماری حالت قابل فکر ہے۔ ہماری کشائش اور ہماری کُھل بے فائدہ ہے۔ ہم دنیا تو کما رہے ہیں لیکن ہمارا دین کا خانہ خالی ہو رہا ہے اور ایسے حالات میں پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان دنیا کے دھندوں میں غرق ہو کر خدا تعالیٰ سے بالکل ہی تعلق ختم کر دیتا ہے اور یوں خدا تعالیٰ کی نظر سے گر کر شیطان کی جھولی میں جا گرتا ہے۔ پھر ایسے لوگوں کا جلسہ پر آنا صرف ایک رسم بن جاتا ہے۔

پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جلسے پر شمولیت ہمیں ہماری کمزوریوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ہمارے اندر انقلاب لانے والی ہو۔ ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بنانے والی ہو۔ ہماری کشائش ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہو۔ ہم ہمیشہ یہ دعا اور کوشش کرتے رہنے والے ہوں کہ ہم یا ہماری نسلیں کبھی خدا تعالیٰ کے غضب کا مورد نہ بنیں۔ ہم اپنے بزرگوں کی خواہشات اور دعاؤں کا وارث بننے والے ہوں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ343 خطبہ جمعہ 5؍جون 2015ء)

اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا اگر ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے اور بندوں کا حق ادا کرنے کا کام کر رہے ہیں، اگر ہمارے معاملات خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے ساتھ صاف ہیں اور اس میں امتیازی شان رکھتے ہیں تو یقیناً ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نئی زمین اور نیا آسمان بنانے میں آپ کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ پس اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ:351-352 خطبہ جمعہ 5؍جون 2015)

رمضان میں ہمیں یہ جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو کس حد تک اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رہے ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں ایک خطبہ میں فرمایا:
’’رمضان کے اس خاص ماحول میں ہمیں یہ جائزے لینے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو کس حد تک اپنی زندگیوں کا حصہ بنا رہے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو ہمارے یہ زبانی دعوے ہوں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کو قبول کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار حکم دئیے ہیں ہمیں ہمیشہ ان حکموں کو سامنے لاتے رہنا چاہئے تا کہ اصلاح نفس کی طرف ہماری توجہ رہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ380 خطبہ جمعہ26؍ جون 2015ء)

ماحول کو پر امن رکھنے کے لئے جائزے لیتے رہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہر ایمان کا دعویٰ کرنے والے کو، ہر احمدی کو جو حقیقی مسلمان ہے جس نے عبد رحمان بننے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بیعت کی ہے اپنے جائزے لیتے ہوئے، عاجزی دکھاتے ہوئے، تکبر کو ختم کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں، اپنے گھر میں اپنے ماحول میں جھگڑوں اور فسادوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امن اور سلامتی کو پھیلانا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ381-382 خطبہ جمعہ26؍جون 2015)

گھروں میں جھگڑے ختم کرنے کے لئے جائزے لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جو خدا تعالیٰ کی خاطر عاجزی دکھائے، جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تکبر سے نفرت کرے، جو خدا تعالیٰ کی خاطر معاشرے سے نفرتوں کے بیج ختم کرنے کی کوشش کرے تا کہ امن اور سلامتی قائم ہو اسے خدا تعالیٰ وہ بلندیاں عطا فرماتا ہے جو انسان کے وہم و گمان سے بھی باہر ہیں۔ یہ دن ہمیں خدا تعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لئے مہیا فرمائے ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا ان دنوں میں ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اپنے گھروں کے جھگڑوں کو خدا تعالیٰ کی خاطر ختم کر کے سلامتی اور امن کی فضا ہر احمدی کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے بھائیوں سے جھگڑوں کو ختم کر کے جن کی بنیاد اکثر اَنا اور تکبر ہی ہوتی ہے معاشرے میں سلامتی پھیلانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ مخالفین کی باتوں پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہدایت کے لئے دعائیں کرنے کی ضرور ت ہے تا کہ دنیا کا فساد بھی ختم ہو۔ ہم امن اور سلامتی اور محبت کو دنیا میں قائم کرنے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن حقیقت اس وقت سامنے آتی ہے جب ہم خود اس معاملے میں ملوث ہوں اور خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی دے کر اس امن اور پیار کو قائم کرنے کی کوشش کریں جس کا اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ383-
384 خطبہ جمعہ26؍جون 2015ء)

تکبر کے حوالے سے جائزہ لیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامتِ اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اس میں آ جاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکارا نہیں پا سکتا۔‘‘ (آپ فرماتے ہیں:) ’’کبیر نے سچ کہا ہے

؎بھلا ہوا ہم نیچ بھئے ہر کو کیا سلام
جے ہو تے گھر اُونچ کے ملتا کہاں بھگوان

یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے۔ اگر عالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدا نہ ملتا۔ جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی (کم) ذات… پر نظر کر کے شکر کرتا۔ پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا ہیچ ہوں۔ میری کیا ہستی ہے۔ ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نہج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو، تمام کائنات سے اپنے آپ کو ضرور بالضرور ناقابل و ہیچ جان لے گا۔‘‘ (پس آنکھیں رکھنا شرط ہے۔ اپنے اندر کا جائزہ لینا شرط ہے۔ اپنے آپ کو پہچاننا شرط ہے۔ پھر کوئی فخر نہیں پیدا ہو سکتا۔ فرمایا کہ) ’’انسان جب تک ایک غریب و بیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جو ایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا برتنے چاہئیں اور ہر ایک طرح کے غرور و رعونت و کبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘

(ملفوظا ت جلد5 صفحہ437۔ 438)

پس یہ وہ معیار ہے جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دنیا میں خدا کی بادشاہت اس کے دین کو پھیلا کر قائم کرنے کا ہمارا دعویٰ ہے تو پھر اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو ہمیں اپنی حالتوں کو بھی ایسا بنانا چاہئے کہ پہلے خود خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر یہ تکبر وغیرہ ہے اور اپنی حالت کی طرف جائزہ نہیں لے رہے اور کسی بھی طرح اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہو، کسی بھی قسم کا تکبر تمہارے اندر پایا جاتا ہے تو وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں شامل نہیں ہو سکتا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ385 خطبہ جمعہ26؍جون 2015ء)

(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاءاللّٰہ)

(ابو مصور خان۔ رفیع ناصر)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 دسمبر 2022