• 4 مئی, 2024

مسیح موعود ؑکو میں اُس وقت سے مانتا تھا جس زمانے میں چاند گرہن اور سورج گرہن ہوا تھا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر ایک روایت حضرت ماسٹر عبد الرؤوف صاحبؓ ولد غلام محمد صاحب کی ہے۔ ان کا سن بیعت 1898ء ہے اور اسی سال انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت بھی کی۔ کہتے ہیں کہ شروع زمانے میں جبکہ میری عمر بچپن کی تھی اور اُس وقت بھیرہ ہائی سکول میں تعلیم پاتا تھا۔ اُس وقت یہ چرچا ہمارے بھیرہ میں ہوا کہ قادیان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کہتے ہیں ہوتے ہوتے ہمارے محلے میں بھی اسی طرح خبر پہنچی کہ ایک شخص جس کا نام مرزا غلام احمد ہے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کہتے ہیں میں تو بچہ تھا اتنا علم نہ تھا۔ مگر میرا بھائی جس کا نام غلام الٰہی ہے اُس نے کتابیں پڑھ کر مرزا صاحب کی بیعت کر لی اور اُس کا نام 313صحابہ میں درج ہے۔ (ان کا نام انجام آتھم میں جو فہرست ہے اُس میں 249 نمبر پر مستری غلام الٰہی صاحب بھیرہ کے نام سے درج ہے۔) بہرحال کہتے ہیں میرے بھائی نے اپنے گھر کے تمام آدمیوں کے نام بیعت میں لکھوا دیئے۔ اُس وقت میں بھی مرزا صاحب کی کتابیں اور اشتہار جو محلے میں آتے، پڑھا کرتا تھا اور اپنی مسجد میں بھی رات کے وقت پڑھ کر سناتا۔ گنگا بشن اور عبداللہ آتھم تو اب تک یاد ہے۔ (جو بھی اشتہار ان کے بارے میں تھے۔) بہرحال مجھے بھی مرزا صاحب کو ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ یعنی مجھے شوق پیدا ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملوں اور مَیں مغرب کی نماز کے بعد وہیں بھیرہ میں ہی ایک پُل پر بیٹھ کر دعائیں کیا کرتا تھا کہ اے الٰہی! اگر مرزا سچا ہے تو مجھے بھی قادیان پہنچا اگر جھوٹا ہے تو اسی جگہ بٹھا۔ (یعنی بھیرہ میں ہی رہوں، پھر مجھے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔) لکھتے ہیں کہ دسویں جماعت کا امتحان میں نے راولپنڈی میں دیا (جس زمانے میں چاند گرہن اور سورج گرہن 1311ھ میں ہوا تھا۔ وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اُس وقت میں مڈل کی جماعت میں پڑھتا تھا۔) جب میں امتحان سے سن 98ء میں (1898ء میں) فارغ ہو چکا تو میرا بھائی غلام الٰہی مجھ کو قادیان میں اپنے ہمراہ لایا۔ اُس وقت میں نے مرزا صاحب کی دستی بیعت کی۔ اُس وقت چھوٹی سی مسجد تھی۔ کچھ دن رہ کر پھر میں اپنے بھائی کے ساتھ بھیرے میں واپس چلا آیا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب میرے بھائی کے واقف تھے۔ اس لئے انہوں نے میرے بھائی کو لکھا کہ اپنے بھائی عبدالرؤوف کو قادیان بھیج دو۔ آخر خدا کے فضل سے 1899ء میں پھر دوبارہ قادیان پہنچا اور مولوی صاحب اور حضرت صاحب کی ملاقات کی۔ مولوی صاحب کو میری تعلیم کا علم تھا۔ اور میں غریب آدمی تھا۔ (یعنی یہ پتہ تھا کہ جو اس زمانے کی تعلیم تھی اُس کے مطابق مَیں پڑھا لکھا ہوں۔ لیکن غریب آدمی بھی ہوں اس لئے مولوی صاحب نے مدرسے میں مجھے ملازمت کی جگہ دے دی جو سن 1899ء میں آٹھ روپے ماہوار پر دوم مدرس پرائمری کے عہدے پر مقرر ہوا۔ اُس وقت چھ سات جماعتیں تھیں۔ مڈل کی کلاس نہیں ہوتی تھی۔ آخرمَیں نے مدرّسی کا کام سن 1902ء تک کیا۔ اُس زمانے میں مولوی شیر علی صاحب ہیڈ ماسٹر مدرسہ تھے۔ پرائمری طلباء کو تعلیم بھی دیتا اور پانچوں نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ ادا کرتا جبکہ اُس وقت مولوی عبدالکریم صاحب امامت کراتے تھے۔ پانچوں نمازوں میں حضرت صاحب کی مجلس میں بیٹھتا۔ جب گھر سے تشریف لاتے تو حضرت صاحب نماز پڑھنے سے پہلے اپنے الہامات، کشف، رؤیا اور خوابیں سناتے۔ میں بھی اُن سے حظ اُٹھاتا۔ نماز کے وقت موقع پا کر پاؤں دباتا، مٹھی چاپی کرتا۔ کچھ عرصہ تو حضرت صاحب مغرب کے وقت کھانا مسجد میں کھاتے اور میں بھی مہمانوں کے ساتھ مسجد میں کھانا کھاتا۔ حضرت صاحب کا جوٹھا وغیرہ بھی کبھی کبھی بطور تبرک کے چکھ لیتا۔ مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک کی شاہ نشین پر بیٹھتے۔ رنگا رنگ کے کلمات الٰہیہ، کشف اور خوابیں سناتے۔ علیٰ ھذا القیاس۔ مسٹر ڈوئی، چراغ دین جمونی اور مولوی کرم دین ساکن بھیں کے متعلق الہامات اور خوابیں بھی ہوتیں۔ یہ بیان فرماتے۔ یہ تمام باتیں کتابوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ دوبارہ تحریر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماسٹر عبدالرؤوف صاحب کے بارے میں مزید وہاں حاشیہ میں لکھا ہوا ہے کہ یہ صدر انجمن احمدیہ کے پینشنر تھے، سابق ہیڈ کلرک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان۔ 1899ء میں یہ سکول میں آئے، 1902ء تک یہ ٹیچر رہے۔ اُس کے بعد دفتر ریویو آف ریلیجنر میں کام کیا۔ پھر چھ (1906ء) سے ستائیس سن (1927ء) تک ہائی سکول کے ہیڈ کلرک رہے۔ یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود کو میں اُس وقت سے مانتا تھا جس زمانے میں چاند گرہن اور سورج گرہن ہوا تھا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد7 صفحہ88-89۔ روایات حضرت ماسٹر عبدالرؤوف صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 19؍اکتوبر 2012ء)

پچھلا پڑھیں

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 31)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2022