• 30 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 74)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 74

ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 8؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 8 پر ایک تصویر کے ساتھ ہماری خبر اس طرح شائع کی تھی۔ ’’بین المذاہب دوستی‘‘۔ اخبار نے جو تصویر شائع کی ہے وہ رنگین ہے۔ اس میں خاکسار پاسٹر Rob Patton کو اسلامی لٹریچر دے رہاہے۔ خبر میں لکھا ہے کہ 21؍ اگست کو مسجد بیت الحمید چینو میں پاسٹر راب پیٹن اپنے چرچ کے قریباً 30 ممبران کے ساتھ مسجد بیت الحمید آئے جو کہ یونائیٹڈ چرچ آف کرائسٹ کا چرچ ہے۔ انہوں نے مسجد بیت الحمید میں امام شمشاد احمد ناصر کا اسلام کے بارے میں لیکچر سنا جس کا مرکزی موضوع تو ردّ کفارہ تھا۔ اس کے ساتھ امام نے توبہ و استغفار اور گناہ کے معانی پر بھی سیر حاصل تقریر کی۔ اس کے بعد تمام مہمانوں نے مسجد میں کھانا کھایا۔ اس موقعہ پر پاسٹر پیٹن نے بھی تقریر کی۔ اس کے علاوہ گزشتہ جمعہ کو ایک اور چرچ سے بھی لوگ آئے تھے اور انہوں نے احمدیہ مسلم کی رمضان کی عبادات اور کھانے میں شرکت کی تھی۔ اس کے علاوہ پاسٹر جین چیز بھی اپنے لوگوں کو لے کر رمضان میں شام کے وقت درس قرآن میں اور ڈنر میں شامل ہوئیں۔ سب کے ساتھ سوال و جواب بھی ہوئے تھے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 2؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’اپنی خوشیوں اور عیدوں میں اسلامی تعلیمات کو نہ بھولیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ یہ مضمون اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔

ویسٹ سائیڈ نیوز پیپر سٹوری۔ اخبار نے خاکسار کا 9/11 کے حوالہ سے ایک مضمون شائع کیا ہے خاکسار کی تصویر کے ساتھ۔ جس کا عنوان یہ ہے۔ ’’9/11۔ دس سال بعد‘‘ یعنی اس نے کس طرح امریکنوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے اور کیا کیا خدشات لاحق ہیں اور کون کون سی باتیں غلط ہیں وغیرہ امور پر اس مضمون میں بحث کی گئی ہے۔ یہ خبر اخبار نے اپنے پہلے صفحہ پر شائع کی تھی۔

11؍ستمبر کا ہولناک واقعہ جس نے سب امریکنوں کو خوف زدہ کیا بلکہ یوں کہنا مناسب گا کہ ساری قوم جس سے بے حد متاثر ہوئی اور اس زخم کو مندمل کرنا سب کے لئے مشکل تھا۔ جس کی وجہ سے قریباً ساری ہی قوم میں غم اور غصہ کی لہر بھی دوڑی۔ جو کہ ایک طبعی امر تھا۔ جس کی وجہ سے ہر ایک یہی کہتا اور سنائی دیا کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر عبرتناک سزا دی جائے اور چونکہ اس کی ذمہ داری ایک مسلم آرگنائزیشن نے لی جس کی وجہ سے یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا واقعی اسلام کی یہی تعلیم ہے؟

بعض نے کہا کہ مسلمان ممالک میں 9/11 کا دن خوشی والا دن منایا گیا۔ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ تمام مسلمانوں نے 9/11 کے دن کو خوشی کا دن منایا۔ یہ جھوٹ ہے۔ سب نے اس واقعہ پر دکھ اور تکلیف کا اظہار کیا اور ہمدردی دکھائی اور جو لوگ اس دن اس واقعہ کی وجہ سے اپنی معصوم جانوں کو کھو چکے ان کے ساتھ اور ان کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی بھی کی۔

اب جب کہ ساری قوم میں ’’یہ دس سالہ‘‘ سالگرہ منائی جارہی ہے۔ اس پر بھی بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں مثلاً کہ کیا اب تک آپ پر اس کا اثر ہے۔ آپ اب تک اس واقعہ سے کتنا متاثر ہورہے ہیں؟

جہاں تک خبروں کا تعلق ہے اس سے سب کو یہی تاثر ملتا ہے کہ ’’مسلمان‘‘ نے کوئی اچھی مثال قائم کی ہے؟ اور جنہوں نے خاص کر اپنے نام کے ساتھ ’’القاعدہ‘‘ کا ٹائیٹل لگایا ہے اور اس وجہ سے القاعدہ یا طالبان میڈیا میں توجہ بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ہر وقت کی خبرو ں میں یہی ایک موضوع مل رہا ہے اور ہر دو کی اسلام کے بارے میں تعریف سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس جو مسلمان امن پسند ہیں اور جن کا دہشت گردی یا اس قسم کی حرکتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میڈیا ان کی بات نہ سنتا ہے اور نہ ہی ان کی بات کو عوام تک پہنچاتا ہے۔؎

خاکسار جو کہ جماعت احمدیہ کا ممبر ہے اور جو مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام پر اس زمانے میں ایمان لاتی ہے اور جنہوں نے حقیقت جہاد بھی بیان کی ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کا اصل جہاد یہ ہے کہ ہم سب مل کر دنیا میں امن قائم کریں اور ایسے لوگوں کا ساتھ دیں جو حقیقت پسند ہیں اور اسلام کے امن کے پیغام کو تبلیغ کے ذریعہ عام کریں۔

میڈیا کہ وجہ سے 50 فیصد سے بھی زائد امریکی عوام یہی گمان کرتی ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد ہیں اور اسلام کے مذہب کو اب مزید نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ اسی خیال کو ان سے دور کرنا اس وقت کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ اب آپ خود ہی انصاف کریں کہ جہاں میڈیا پر ہر وقت دہشت گرد لوگوں کا اسلام سے تعلق جوڑکر آپ خبریں شائع کریں اور امن پسند مسلمانوں کو نہ ہی سنیں اور نہ ہی ان کے امن کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ تو وہاں منفی اثرات ہی مرتب ہوں گے اور شائد وہی میڈیا کا مقصد بھی ہے اور یہ سب کچھ ایک طرف کی کہانی بیان ہورہی ہے۔ ’’یہ القاعدہ یا طالبان‘‘ تمام مسلمانوں کی اور اسلام کی نمائندگی تو نہیں کر رہے۔ ان کروڑہا مسلمانوں کو بھی تو دیکھیں جن کا اس واقعہ سے یا اس گروپ اور تنظیم سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے صرف چند لوگوں نے اسلام کو ہائی جیک کیا ہے اور میڈیا انہی کے نظریات کو اچھال رہا ہے اور لوگوں میں اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کا کارنامہ سر انجام دے رہا ہے۔ حالانکہ اب عوام الناس کو چاہیئے کہ جب وہ اتنا منفی پروپیگنڈا سن رہے ہیں اسلام کے بارے میں تحقیق بھی کریں تاکہ انہیں اسلام کی صحیح تعلیمات کے بارے میں علم ہو۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ’’القاعدہ اور طالبان‘‘ کا گروپ سب کے لئے نقصان دہ نہیں ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ وہ بہت خطرناک گروپ ہے۔ لیکن یہ آپ کو بھی تو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ آپ خود غیر جانبدارانہ اسلام کے بارے میں تحقیق کرکے حقیقت حال سے واقف ہوں۔

اس وقت میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ’’احمدی مسلمان‘‘، ’’امن کی بہترین مثال ہیں‘‘۔ جو کہ نہ صرف امن پسند ہیں بلکہ اپنے ملک کے وفادار بھی ہیں۔ احمدی مسلمانوں نے اس وقت لاکھوں پمفلٹ تقسیم کئے ہیں تاکہ لوگوں کو حالات کا صحیح علم ہو اور اسلام کے امن پسند ہونے کی صحیح تعلیمات سے آگاہی ہو۔ مسلمان اپنے اپنے ملک میں جہاں کہیں بھی وہ رہتے ہیں یہ تعلیم ہے کہ وہ ہر ملک میں وفاداری کریں۔ یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ ہم احمدی مسلمانوں نے سارے امریکہ میں اس سالگرہ کے موقعہ پر خون کے عطیہ جات دینے کی بھی مہم چلائی ہوئی ہے کہ مسلمان تو زندگی عطا کرتا ہے۔

Muslim for Life Muslim for Peace

یہ طرز ہے احمدی مسلمانوں کی۔ ایک تو یہ کہ مسلمان زندگی بخش ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمان امن قائم کرتا ہے۔ اس کے لئے آپ ہماری ویب سائٹ پر جا کر بھی مزید معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ احمدیہ کمیونٹی 1889ء میں انڈیا قادیان سے شروع ہوئی اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں پھیل چکی ہے۔ جن کا ماٹو یہی ہے کہ ’’محبت سب کیلئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ مضمون کے آخر میں خاکسار کا بھی تعارف ہے اور ریڈیو کے پروگرام کا وقت اور اعلان بھی ہے۔

دی سن نے خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’9/11۔ ستمبر 11 کے واقعہ نے کس طرح مجھے متاثر کیا‘‘ کے عنوان سے اپنی اشاعت 8؍ستمبر 2011ء میں صفحہ A6 پر تفصیل کے ساتھ انگریزی میں شائع کیا۔ اس کا متن آپ کے استفادہ کے لئے پیش ہے۔

کون بھول سکتا ہے کہ وہ کہاں تھا اور کیا کر رہا تھا؟ جب 9/11 کا دہشت گرد حملہ ہوا۔ میں اپنے دفتر میں کام کر رہا تھا جب مجھے ایک دوست کا فون آیا اس نے پوچھا کہ کیا میں ٹی وی کی خبریں دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا نہیں۔ اس نے کہا کہ آپ کو ابھی دیکھنی چاہیئے!

میں نے ٹی وی لگایا اور چند منٹوں میں میں نے لاکھوں دوسرے لوگوں کے ساتھ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرانے والے دوسرے طیارے کو براہ راست ٹیلی کاسٹ ہوتےدیکھا۔ میں مکمل طور پر دنگ رہ گیا۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چیز تھی جس کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھنے کی بجائے صرف فلموں میں دیکھنے کی توقع کرتے ہیں۔ خوفناک سانحے کا علم میرے سامنے ہو رہا تھا۔ سینکڑوں لوگ جو اب مر چکےہیں ان کا میرے دل اور روح پر ایک بھاری اور گہرا اثر پڑگیا تھا اور دن کے اختتام تک یہ تعداد تقریباً 3000 تک پہنچ گئی تھی جو اس وقت ناقابل تصور تھا اور اس کے بعد کے سالوں اور آئندہ کی 9/11 کی سالگرہ ہوں میں ہم سب پر ایک دکھ کا ناقابل برداشت بوجھ بن جانا تھا۔

حالیہ تاریخ میں کسی بھی سانحے کی کوئی بھی دوسری سالگرہ نائن الیون سے پیدا ہونے والے دکھوں کی برابر نہیں ہوسکتی اور نہ صرف مجھے بلکہ دنیا بھر کے قانون پسند، امن پسند مسلمانوں کی اکثریت کو جو تکلیف پہنچی ہے وہ یہ کہ جو کچھ دنیا میں اتنے شیطانی اور خوفناک انداز میں کیا گیا۔ وہ 10 سال پہلے 3000 معصوم جانوں والا خوفناک دن تھا۔ لاکھوں لوگوں کے ذہنوں میں پہلے یہ تاثر تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور مسلمان پُرامن، مہذب لوگ ہیں۔ اب پورے امریکہ اور یورپ میں رائے عامہ کے مطابق ان کا ردّعمل بالکل برعکس ہے۔ واضح طور پر یہ رائے اور حقیقت کے کسی بھی احساس کی عکاسی نہیں کر سکتی۔ لیکن حقیقت ایک تصور ہے اور یہ کہ جب لوگوں کے ذہنوں میں اس خیال کا بار بار تکرار کیا جاتا ہے تو یہ مشکل سے حیران کن ہوتا ہے کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ لیکن آپ نے کبھی ان لوگوں کے حوالے سے ایسا ہوتا نہیں دیکھا ہوگا جنہیں ٹموتھی جم جونز جیسے عیسائی کہا جاتا ہے اور آپ کو میڈیا کی رپورٹوں میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا جو کہ ناروے کے 77 لوگوں کے قتل عام اور خود ساختہ عیسائیوں اینڈرس بریوک کے بارے میں ہے۔ ’’تمام عیسائی دہشت گرد ہیں‘‘ اور ’’عیسائیت ایک دہشت گرد مذہب ہے‘‘ کے بورڈ کا کوئی میڈیا برش سڑوک نہیں ہے پھر بھی یہ بالکل وہی پیغام ہے جو انٹرنیٹ اور مغربی میڈیا کے ذریعے ڈینیل پائپس، رابرٹ اسپینسر اور پامیلا گیٹلر جیسے اسلام فوبیس کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ اینڈرس بریوک پر ان کی اشتعال انگیز اور نفرت بھری بیان بازی کا اثر ان کے 1500صفحات کے ’’منشور‘‘ میں واضح طور پر ظاہر ہے جہاں صرف رابرٹ اسپینسر کے 162 حوالوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس نے خدا کے نام پر اپنی ناقابل معافی برائی کو اسی طرح جائز قرار دیا جس طرح جہادی مسلم انتہاء پسند اسلام کے نام پر کرتے ہیں۔ ’’انتہاء اسباب کا جواز بنتی ہے‘‘۔ جب کہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں کہتا ہے کہ دہشت گردی، زمین میں فساد اور بے گناہ لوگوں کا قتل مکمل طور پر حرام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ القاعدہ اور طالبان نے ایک ہی قرآنی آیت (سیاق و سباق سے ہٹ کر) کا حوالہ دے کر اپنے بُرے کام کو جائز قرار دیا۔ جیسا کہ اسلام مخالف پنڈتوں کو آپ کچھ بتانا چاہیئے کہ وہ دونوں ایک ہی ’’نظریاتی نقطہ‘‘ پر ہیں بس مخالف ایجنڈے ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور جو چیز تاریخی طور پر اہم ہے وہ خوف و ہراس پھیلانے اور شیطان سازی کے حربے ہیں جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت کو بھڑکانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں (بشمول نازی جرمنی میں) یہودیوں اور ان کے مذہب کے خلاف ایک عیسائی قوم اور پادریوں کے۔

9/11 کو دن اب بھی مجھ پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ اس کی بڑھتی ہوئی ضرورت یہ ہے کہ میرے عمل اور تعلیمی کوششوں سے اسلام کی حقیقی تصویر اور پیغام کو پیش کیا جائے۔ جو چیز متاثر کن ہے وہ یہ ہے کہ بیشک بہت سے لوگ اسلام کے بارے میں سچائی کے لئے سرگرمی سے جستجو نہیں کرتے لیکن بہت سے کم از کم آپ کی بات سننے کو تیار تو ہیں۔

امید ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کریں گے اور دنیا پر اپنی توجہ کو وسیع کریں گے تاکہ اسلام کو کھلے دل و دماغ سے صحیح طور پر معلوم کیا جاسکے اور نہ صرف آنکھیں بند کر کے قبول کریں جو بھی آوازیں ان کو آرہی ہیں کہ اسلام اور مسلمان کیا ہیں؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ غیر جانبدارانہ جانچ پڑتال ان لوگوں کے چہروں پر جھلکتی ہے جو اسلام قبول کرتے ہیں اور میڈیا میں مسلمانوں کی تمام منفی تصویروں کے باوجود 9/11 مجھے تعلیم اور دنیا کو واپس دینے کے لئے کس طرح حوصلہ افزائی کرتا ہے احمدیہ مسلم کمیونٹی کی حالیہ میڈیا مہموں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور دیگر جگہوں پر اسلام کا حقیقی چہرہ ہمارے ’’مسلمان امن کے لئے‘‘، ’’مسلمان وفاداری کے لئے‘‘ اور اب ’’مسلمان زندگی کے لئے‘‘ کی آگاہی کی کوششیں شامل ہیں۔

9/11 کو ضائع ہونے والی تین ہزار روحوں کے اعزاز میں احمدیہ مسلم کمیونٹی یو ایس اے 11؍ستمبر کو اور اس کے آس پاس ملک بھر میں 100 سے زائد مقامات پر بلڈ ڈرائیو ز کو سپانسر کر رہی ہے جس کا مقصد 10 ہزار یونٹ خون کا عطیہ جمع کرنا ہے تاکہ 30000 زندگیاں بچائی جاسکیں۔

ہم سب کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس زندگی بخش مسلمانوں کی حمایت میں اکٹھے ہوں۔ آپ آن لائن www.muslimsforlife.org پر جاکر اپنے قریبی دن، وقت اور عطیہ کا مرکز ڈھونڈ سکتےہیں یا آپ 11؍ ستمبر کو صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک چینو کے 11941رمونا ایونیو میں بیت الحمید مسجد میں عطیہ دینے آسکتے ہیں۔ مزید معلومات کے لئے 2252-627-909 پر رابطہ کریں۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 9؍ستمبر 2011ء میں صفحہ A6 پر خاکسار کا مضمون 9/11 کے حوالہ سے ’’دس سال بعد9/11‘‘ عنوان سے شائع کیا۔ نفس مضمون وہی ہے۔ جو اس سے قبل اوپر گزر چکا ہے۔

ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 8؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 8 پر خاکسار کا مضمون خاکسارکی تصویر کے ساتھ شائع کیا جس کا عنوان یہ دیا کہ ’’دس سال بعد 11؍ستمبر کا سانحہ‘‘ اخبار نے خاکسار کا پورا مضمون شائع کیا۔ نفس مضمون وہی ہے جو پہلے گذر چکا ہے۔

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 8؍ستمبر 2011ء میں OPINION کے تحت خاکسار کا مضمون شائع کیا۔ جس کا عنوان تھا کہ ’’9/11 کے حادثہ نے مجھے کس طرح متاثر کیا‘‘ یہ بھی وہی مضمون ہے جس کا ذکر دیگر اخبارات کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔

دیسی ٹاک اخبار۔ انڈین اخبار ہے اس نے اپنی اشاعت 9؍ستمبر 2011ء میں صفحہ 4 پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ خاکسار کا مضمون اس عنوان سے شائع کیا۔ ’’9/11 Changed The Way Islam Is Viewed‘‘

یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل دیگر اخبارات کے حوالہ سے شائع ہوچکا ہے کہ اس 9؍ستمبر کے سانحہ نے کس طرح مجھے متاثر کیا۔ اصل میں تو امریکن اور دوسری پبلک کو یہ بتانا مقصود تھا اور ہے کہ اسلام کا صحیح تصور، اسلام کے صحیح معانی اور اسلام کی صحیح تعلیمات تو پُرامن رہنے کی ہے۔ محبت اور بھائی چارے کی ہے۔ جس رنگ میں میڈیا اسلام کی تصویر پیش کر رہا ہے یا طالبان اور القاعدہ پیش کر رہے ہیں وہ نہ سہی اسلام کے نمائندے ہیں اور نہ ہی یہ اسلامی تعلیمات ہیں۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس میں بہت زیادہ کامیابی ہوئی اور اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کرنے کا ہر جگہ موقع ملا۔ سکولز، کالجز میں، یونیورسٹیز میں، نیز بہت سارے دیگر مذاہب کے لیڈرز نے خاکسار کو اپنے اپنے چرچوں اور عبادت گاہوں میں تقریر کرنے کے لئے بلایا اور بہت عرصہ تک خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک

اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان تقاریر کے دوران پبلک زیادہ آتی رہی اور لوگ ہماری مساجد کا وزٹ کرتے رہے جبکہ اس سے قبل انہوں نے کبھی مسجد دیکھی بھی نہ تھی۔ اسلام کا بہت زیادہ چرچا ہوا اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے مواقع میسر آئے۔ اس کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی ایسا ہوا بلکہ پولیس کے محکمہ میں بھی خاکسار کو بلایا جاتا اور چیف پولیس یہ درخواست کرتا کہ ہمارے پولیس کے لوگوں کو اسلام کے بارے میں بتائیں چنانچہ جب بتایا جاتا تو وہ بہت حیران ہوتے اور ان لوگوں کے سوالوں کا اچھی طرح پتہ چل جاتا کہ انہیں اسلام کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں ہیں اور جو ہیں وہ صرف پریس اور میڈیا اور TV سے سن کر بات کر رہے ہیں۔ اس لئے جس قدر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے کہ ہمیں اس کے ذریعہ اسلام کی صحیح تعلیمات پہنچانے کا موقع ملا۔ سوالات میں اکثر جہاد کے بارے میں سرفہرست رہتا۔ پھر عورتوں کے بارے میں، پھر یہ کہ قرآن میں بعض آیات ایسی ہیں جو تشدد کی تعلیم دیتی ہیں اور جب انہیں ساری آیات اس کا محل سمجھایا جاتا تو وہ سمجھ جاتے۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

نیا سال مبارک، نیا سال مبارک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 جنوری 2023