• 3 مئی, 2024

حضور نے فرمایا کہ کم از کم تین دن ٹھہرنا چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ جن کا بیعت کا سن 1898ء کا ہے، فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ آپ حامد علی کے ساتھ مہمان خانے میں جائیں اور ظہر کے وقت مَیں پھر ملاقات کروں گا۔ (جب یہ وہاں پہنچے تو ان کو یہ کہا گیا) کہتے ہیں مَیں مہمان خانے چلا گیا وہاں کھانا آیا، ذرا آرام کیا۔ ظہر کی اذان ہوئی۔ مجھے پہلے ہی حامد علی صاحب نے فرمایا تھا کہ آپ پہلی صف میں جا کر بیٹھ جائیں۔ چنانچہ میں اُسی ہدایت کے ماتحت پہلی صف میں ہی قبل از وقت جا بیٹھا۔ حضور تشریف لائے، نماز پڑھی گئی۔ نماز کے بعد حضور میری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ کب جانا چاہتے ہیں۔ مَیں نے کہا حضور! ایک دو روز ٹھہروں گا۔ حضور نے فرمایا کہ کم از کم تین دن ٹھہرنا چاہئے۔ دوسرے روز ظہر کے وقت میں نے بیعت کے لئے عرض کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ابھی نہیں، کم از کم کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں۔ ہمارے حالات سے آپ واقف ہوں۔ اس کے بعد بیعت کر لیں۔ مگر مجھے پہلی رات ہی مہمان خانے میں ایک رؤیا ہوئی جو یہ تھی۔ (اب یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس خواب کے ذریعہ سے رہنمائی ہو رہی ہے۔ یہ جو غیر احمدی کہتے ہیں ناں یا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بغیر سوچے سمجھے لوگ بیعت کر لیتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی بڑے آرام سے بیعت لے لیا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام تو ہر ایک کی حالت کے مطابق بیعت لیتے تھے جب تک یہ تسلی نہیں ہو جاتی تھی کہ اس شخص کی تسلی ہو گئی ہے۔ بہر حال کہتے ہیں میں نے ایک خواب دیکھی۔) مَیں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک نور نازل ہوا اور وہ میرے ایک کان سے داخل ہوا اور دوسرے کان سے تمام جسم سے ہو کر نکلتا ہے۔ اور آسمان کی طرف جاتا ہے۔ (یعنی یوں ہو کر نکل نہیں گیا بلکہ یہ داخل ہو کے سارے جسم میں سے گزرا پھر دوسری طرف سے نکل گیا اور پھر آسمان کی طرف چلا جاتا ہے) اور پھر ایک طرف سے آتا ہے اور اس میں کئی قسم کے رنگ ہیں۔ سبز ہے، سرخ ہے، نیلگوں ہے، اتنے ہیں کہ گنے نہیں جا سکتے۔ قوسِ قزح کی طرح تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تمام دنیا روشن ہے اور اُس کے اندر اس قدر سرور اور راحت تھی کہ مَیں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے صبح اُٹھتے ہی یہ معلوم ہوا کہ رؤیا کا مطلب یہ ہے۔ (اس خواب کا مطلب یہ ہے) کہ آسمانی برکات سے مجھے وافر حصہ ملے گا اور مجھے بیعت کر لینی چاہئے۔ اسی رؤیا کی بناء پر مَیں نے حضرت صاحب سے دوسرے روز ظہر کے وقت بیعت کے لئے عرض کیا مگر حضور نے منظور نہ فرمایا اور تین دن کی شرط کو برقرار رکھا۔ چنانچہ تیسرے روز ظہر کے وقت میں نے عرض کیا کہ حضور! مجھے شرح صدر ہو گیا ہے اور لِلّٰہ میری بیعت قبول کر لیں۔ (خدا کے واسطے بیعت قبول کر لیں۔) چنانچہ حضور نے میری اپنے دستِ مبارک پر بیعت لی اور میں رخصت ہو کر لاہور آ گیا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر9 صفحہ126-127۔ ازروایات حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ)

حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں (ان کا بیعت سن 1898ء ہے۔ پہلے بھی انہی کی روایت تھی) کہ لاہور میں ایک وکیل ہوتے تھے، ان کا نام کریم بخش تھا۔ وہ بڑی فحش گالیاں حضرت (مسیح موعود علیہ السلام) کو دیا کرتے تھے۔ ایک دن دورانِ بحث اُس نے کہا کہ کون کہتا ہے مسیح مر گیا؟ مَیں نے جواباً کہا کہ مَیں ثابت کرتا ہوں کہ مسیح مر گیا۔ اُس نے اچانک ایک تھپڑ بڑے زور سے مجھے مارا۔ اس سے میرے ہوش پِھر گئے اور مَیں گر گیا۔ (یعنی بیہوشی کی کیفیت ہو گئی) جب مَیں وہاں سے چلا آیا تو اگلی رات مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ کریم بخش ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر پڑا ہے اور اُس کی چارپائی کے نیچے ایک گڑھا ہے اس میں وہ گر رہا ہے اور نہایت بے کسی کی حالت میں ہے۔ صبح میں اُٹھ کر اُس کے پاس گیا اور میں نے اُسے کہا کہ مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ تو ذلیل ہو گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصے کے بعد اس کی ایک بیوہ لڑکی کو ناجائز حمل ہو گیا۔ اُس نے کوشش کر کے جنین کو گروایا۔ مگر اس سے لڑکی اور جنین دونوں کی موت واقع ہو گئی۔ پولیس کو جب علم ہوا تو اُس کی تفتیش ہوئی جس سے اُس کا کافی روپیہ ضائع گیا اور عزت بھی برباد ہوئی۔ وہ شرم کے مارے گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا۔ مجھے جب علم ہوا تو میں اُس کے گھر گیا، اُسے آواز دی۔ وہ باہر آیا۔ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود کی مخالفت کا وبال چکھ لیا ہے یا ابھی اس میں کچھ کسر باقی ہے۔ اُس نے مجھے گالیاں دیں اور شرمندہ ہو کر اندر چلا گیا۔ (یعنی اثر پھر بھی اُس پرنہیں ہوا) اور پھر کبھی میرے سامنے نہیں آیا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر9 صفحہ206-207 ازروایات حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ)

اس قسم کے واقعات اب بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جو ظلم ہو رہے ہیں، ان میں اس قسم کے واقعات بھی ساتھ ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ بیان اس لئے نہیں کیا جاتا کہ بعض اَوروجوہات ہیں۔ کیونکہ ابھی وہاں کے حالات ایسے نہیں، کہیں اَور تنگ نہ ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ پاکستان میں بھی، ان حالات میں بھی یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توہین کرنے والے ہیں، اُن سے انتقام لیتا جا رہا ہے۔ کئی واقعات لوگ لکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی پکڑ کی۔ کس طرح اُن کی ذلّت کے سامان کئے۔ لیکن بہر حال جب وقت آئے گا تو وہ بیان بھی کر دئیے جائیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن لوگوں کا، اُس علاقے کے لوگوں کا پھر اس کو دیکھ کے ایمان بہر حال بڑھتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 28؍دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

نیشنل اجتماع لجنہ اماء اللہ برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2022