• 5 مئی, 2024

ارشاداتِ نور (قسط 5)

ارشادتِ نور
قسط 5

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:

سورة فاتحہ کی عظمت

فرمایا۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے تمام بادشاہوں، دولتوں اور ملکوں اور دنیاوی سازوسامان کو ایک طرف رکھا ہے اور سورة فاتحہ و قرآن عظیم کو ایک طرف۔ اور ارشاد کیا ہے کہ الحمد کے مقابلہ میں سارے جہان کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھ۔غورکرنے کا مقام ہے۔ الحمد ایک طرف ہے اور کل دنیا کا جاہ و جلال ایک طرف۔ پس تم اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرو۔

فرمایا۔ یہ بات اس آیت سے ظاہر ہے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ ﴿۸۸﴾ لَا تَمُدَّنَّ عَیۡنَیۡکَ اِلٰی مَا مَتَّعۡنَا بِہٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا تَحۡزَنۡ عَلَیۡہِمۡ

(الحجر: 88-89)

ہمارے حضرت صاحب نے الحمد کی کئی تفسیریں لکھی ہیں۔ شیخ ابن عربی لکھتے ہیں کہ جتنی بار الحمد پڑھتا ہوں نئے ہی علوم کھلے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ نابھہ میں وعظ کرتے ہوئے معلوم کیا کہ صرف الحمد سے تمام مذاہب باطلہ کا رد ہو سکتا ہے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ397-398)

انبیاء کرام کا ذات الہٰی کا ادب

فرمایا۔ انبیاء کرام ذات ا لہٰی کا بہت ادب کرتے ہیں۔

ابوالانبیاء خلیل الرحمٰن حضرت ابرا ہیمؑ فرماتے ہیں۔ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ۔

(الشعراء: 80-81)

کھانا کھلانے اور پانی پلانے کو تو خدا کی طرف منسوب کیا ہے اور مرض کو اپنی طرف۔ ایسا ہی سورہ الکہف میں ایک ولی اللہ نے کشتی کا عیب ناک کرنا اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ فَاَرَدۡتُّ اَنۡ اَعِیۡبَہَا (الکہف: 80) غرض انبیاء کا مذہب یہ ہے کہ وَالشَّرُّ لَیْسَ اِلَیْکَ۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ402)

دوزخیوں کے کان، آنکھ، زبان کام دیں گے

فرمایا۔ قرآن مجید میں آیا ہے وَ نَحۡشُرُہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ عُمۡیًا وَّ بُکۡمًا وَّ صُمًّا (بنی اسرائیل: 98) اور دوسرے مقام پر یوں بھی فرمایا کہ (1) وَ رَاَ الۡمُجۡرِمُوۡنَ النَّارَ (الکہف: 54) مجرم لوگ آگ کو دیکھیں گے۔ (2) سَمِعُوۡا لَہَا شَہِیۡقًا وَّ ہِیَ تَفُوۡرُ (الملك: 8) اس کا شور سنیں گے۔ (3) دَعَوۡا ہُنَالِکَ ثُبُوۡرًا (الفرقان: 14) موت کو پکاریں گے۔

ان تین آیات سے ثابت ہے کہ دوزخیوں کے کان، آنکھ، زبان کام دیں گے۔ پس ان میں توفیق یہ ہے کہ اس پہلی آیت میں جو فرمایا کہ وہ بہرے، گونگے، اندھے ہوں گے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کوئی حجت قویہ اپنی نجات کے لیے پیش نہ کر سکیں گے اور وہ ایسا نظارہ نہ دیکھیں گے جو خوش کن ہو اور ایسی بات نہ سنیں گے جو خوشی پہنچائے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ416-417)

ہجرت کی اصل غرض

فرمایا۔ مومن کا کام یہ ہے کہ جس مکان، جس لباس، جس غذا، جس صحبت سے غفلت پیدا ہو اسے چھوڑ دے۔ ہجرت کی اصل بھی یہی ہے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ418)

خدا سے بے پرواہی کے اسباب

فرمایا۔ جب انسان کو صحت ہو، اس کے پاس مال ہو، جتھا ہو، حسن ہو، کامیابی ہو تو وہ خدا اور آخرت سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ427)

پانچ نعمتوں کا حصول

فرمایا۔ سورہ نحل کے آخری رکوع سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ نعمتیں پانچ چیزوں سے حاصل ہوتی ہیں۔ 1۔جو چاہتا ہے کہ دنیا میں سکھ یا آرام پائے۔ 2۔آخرت میں بزمرۂ صالحین مبعوث ہو۔ 3۔خدا تعالیٰ اسے اپنا برگزیدہ بندہ بنائے۔ 4۔اپنی جناب سے دین و دنیا کے امور کی ہدایت کرے۔ 5۔صراط مستقیم حصول مقصد کی اقرب راہ پر چلائے تو اسے چاہئے کہ حضرت ابراہیمؑ کی مانند سارے جہان کی خوبیاں اپنے اندر جمع کرے، اللہ کے تمام اسماء کا فرمانبردار ہو، راستباز ہو، شرک نہ کرے اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر کرے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ434)

آنحضرتؐ کا ایک ہی سوال کے مختلف جواب دینے میں حکمت

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف لوگ آ کر مختلف قسم کے سوال کیا کرتے تھے کہ یا حضرت سب سے بڑی نیکی کیا ہے تو آپؐ ہر ایک کو الگ الگ جواب دیا کرتے تھے۔ کسی کو کہا کہ ماں باپ کی خدمت کرو۔ کسی کو مال خرچ کرنے کو کہا۔ ایک کو آپؐ نے اپنی زبان پکڑ کر کہا کہ اس کو قابو میں رکھ۔ ایک کو مغلوب الغضب ہونے سے منع کیا۔ اس پربعض نے اعتراض کیا ہے کہ سوال تو ایک تھا مختلف جواب کیوں دئیے گئے ؟ اصل یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام امت کے حکیم ہوتے ہیں۔ وہ جس شخص میں جس خلق کی کمزوری دیکھتے ہیں اسی کی تکمیل ونگہداشت کی تاکید کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کے نیکی کرنے کے اسباب معیار مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی تو قوم اور برادری کے دباؤ سے، کوئی آبائی تقلید اور رسم ورواج کی پابندی سے، کوئی کسی حاکم وغیرہ کی خوشنودی کے لیے نیک کام کیا کرتا ہے جو خوب یاد رکھنا چاہئے کہ دراصل کوئی خوبی کی بات نہیں ہوتی۔ اس بناء پر انبیاء علیہم السلام وہ بات بتایا کرتے ہیں جس سے طبیعت تو مضائقہ کرے مگر شریعت حکم کرے کہ یہ کام کراؤ۔ پھر نفس پر زور دے کر اسے وہ کام کرنا پڑے جو عند اللہ موجب ثواب و برکت ہو۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ440-441)

قرآن میں مذکور انبیاء کے واعظ

قرآن شریف میں انبیاء علیہم السلام کے بیان میں جابجا ان کے واعظ بھی مذکور ہیں۔ اگر ان کو بنظر غور و نعمّق پڑھا جائے تو واعظین کو صاف معلوم ہو جائے کہ اسلام نے ان کے کیا فرائض مقرر کئے ہیں۔ مگر مسلمانوں نے افسوس قرآن شریف کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ وہ قرآن مجید کو پڑھتے نہیں۔ جو پڑھتے ہیں وہ سمجھتے نہیں، اور جو سمجھتے ہیں وہ اسے اساطیر الاولین یعنی قصے کہانیوں سے زیادہ وقعت نہیں دیتے۔

(ارشادتِ نور جلد دوم صفحہ441)

(مرسلہ: فائقہ بُشرٰی)

پچھلا پڑھیں

نیشنل اجتماع لجنہ اماء اللہ برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2022