• 19 مئی, 2024

مطالعہ کتب

حُسن اتفاق سے 11؍نومبر 2021ء کو میں نے MTA آن کیا تو کسی ملک کے خدام کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے virtual ملاقات ہو رہی تھی اور پہلا سوال ہی یہ تھا کہ مطالعہ کتب کے لیے خدام کو کیسے آمادہ کریں؟ حضور پُرنور نے جو فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ مطالعہ کی عادت ہی نہیں رہی، شوق ہی نہیں ہے۔ آپ یہ شوق بیدار کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب یا الفضل آن لائن اور الفضل انٹرنیشنل سے لے کر آپس میں سرکولیٹ (circulate) کریں۔

پھر فرمایا: ’’سلسلہ کی چند AudioBooks بھی alislam.org پر موجود ہیں۔ انہیں کاپی کر کے اپنے دوستوں کو دیں تا وہ اپنی کاروں میں آتے جاتے انہیں سنیں۔ اس سے دلچسپی پیدا ہوگی اور مطالعہ کا شوق بیدار ہوگا‘‘۔

خاکسار (لئیق احمد طاہر) کا آزمودہ نسخہ ہے۔ آپ چار چار انصار اور خدام کے سٹدی سرکلز (Study Circles) بنا لیں، ایک گروپ اردو بولنے اور پڑھنے والوں کا ہو اور دوسرا گروپ انگریزی بولنے والوں کا۔پھر صرف ایک صفحہ روزانہ مطالعہ کے لیے مقرر کر دیں، اس طرح 15صفحے ایک شخص پندرہ روز میں پڑھ لے گا، جو چنداں مشکل نہیں، اور چار دوستوں کا گروپ پندرہ دن میں 60 صفحے پڑھ لے گا۔ پھر باری باری اپنے گھروں میں مل بیٹھنے کے لیے میٹنگ رکھیں۔ یہ پندرہ روزہ میٹنگ ہوگی، جس میں ہر ممبر پندرہ صفحے کا خلاصہ بتائے لیکن over a high cup of tea یہ میٹنگ ہونی چاہیے تا شوق کو مہمیز کا کام دے۔ ہر بار گروپ کی یہ میٹنگ ایک گھنٹہ کے قریب ہو، لمبی نہ ہو۔ کوئی سوال ہو تو گروپ میں اس کا جواب دیں۔ ضرورت ہو تو کسی اہل علم، کسی مربی سلسلہ سے استفادہ کر لیا جائے۔ دونوں گروپس، اردو دان اور انگریزی دان، کی الگ الگ میٹنگز ہوں۔ اس طرح ہر ممبر کی چائے پلانے اور اس کے گھر میں میٹنگ اڑھائی ماہ کے بعد ہوگی۔ کسی پر ایسا بوجھ نہیں پڑے گا۔ دلچسپی کے لئے مندرجہ ذیل کتب سے شروع کریں۔

مسیح ہندوستان میں، کتاب البریہ، کشتی نوح، تذکرہ الشہادتین، پیغام صلح، فتح اسلام اور آریہ دھرم وغیرہ۔

پرنس فلپ۔ دی ڈیوک آف ایڈنبرانے عرصہ دراز ہوا ایک بار کہا تھا کہ T.V. وغیرہ کی وجہ سے مطالعہ کا شوق کم ہو رہا ہے۔ اگر 1000صفحہ کا ناول (Novel)ہوتو اس کی اس قدر دلچسپ فلم بنائی جاتی ہے کہ چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا۔ یہ فلم ڈیڑھ گھنٹہ میں دیکھ لی جاتی ہے مثلاً

The Battle of Britain, Pearl Harbour, 10 Commandments, The Bible، لیکن اس کے برعکس 1000 صفحہ کا ناول کئی دن بلکہ کئی ہفتہ میں پڑھاجاتا ہے، مثلاً سر ونسٹن چرچل کی کتاب (The World War 2 (volume3 کئی ہفتے میں پڑھی جا سکتی ہے لیکن اس کی فلم چند گھنٹوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا کہ آپ 1150صفحات روزانہ پڑھتے تھے اور میں 950 صفحات روزانہ پڑھتا ہوں۔ جامعہ احمدیہ ربوہ میں میرے نگران مقالہ، حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب بتاتے تھے کہ خلافت لائبریری کی ہزاروں کتب پر حضرت مصلح موعودؓ کے نوٹس ہیں۔ عربی کتب، انگریزی کتب، فارسی کتب، اردو کتب، پنجابی کتب، ناول، جاسوسی ناول، Books of Fiction، تفاسیر قرآن کریم، اور شروحِ احادیث پر آپؓ کے نوٹس ہیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپؓ کو کس قدر مطالعہ کا شوق تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے ایک حیرت انگیز بات بیان فرمائی ہے کہ محمد بن ناصر حضرمی بات کرتے تو بہت تیزی سے جلد جلد بلا تکان بولتے جاتے لیکن ساری گفتگو میں قرآن و حدیث کے الفاظ سے باہر ایک لفظ بھی نہ ہوتا تھا۔

(حیات نور صفحہ45 مؤلفہ حضرت شیخ عبدالقادر سوداگر مل)

تکمیل دین اسلام نبی پاک ﷺ کی پہلی بعثت میں ہوئی۔ (سورہ مائدہ: 4-5)

لیکن تکمیل اشاعت دین اسلام نبی پاکؐ کی دوسری بعثت میں مقدر تھی۔ آپ ؐکے دور اوّل میں انڈونیشیا، اَرجن ٹائن، کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا، برازیل، ساؤتھ افریقہ، ملیشیاء، فجی آئی لینڈز، سائبیریا، آئس لینڈ، فن لینڈ، یورپ وغیرہ میں عربوں میں سے کون پہنچ سکتا تھا۔

وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ۔

(التکویر: 11)

کی پیشگوئی اٹھارویں صدی کے آخر میں پوری ہوئی۔

جہاں تک پرنٹنگ پریس کا تعلق ہے، نبی پاک ﷺ کے زمانہ میں کسی نے اس کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ آپؐ کے زمانہ میں تو کاغذ ہی نہیں تھا۔ Papyrus ایک پودے کا نام ہے،اس کی نرم ٹہنیوں سے کھردرا کاغذ بمشکل بنتا تھا۔ اسی لیے قرآن کریم اس زمانہ میں پتھروں کی سلیٹوں پر، کھال یعنی چمڑے پر، درختوں کی چھال پر اور کپڑے پر لکھا جاتا تھا۔

نبی پاک ﷺ کے 17،18 سال بعدقرآن پاک کا پہلا مکمل نسخہ حضرت عثمانؓ نے اپنے عہد خلافت میں 7 مسلم ممالک کے گورنروں کو بھجوایا اور فرمایا کہ اب اس کی نقلیں تیار کر کے رواج دیں۔ اس زمانہ میں گنتی کے چند صحابہ و صحابیات لکھ پڑھ سکتے تھے۔ اسی لیے حفظ پر زور تھا، ہزاروں حفاظ قرآن تھے۔ خلیفہ مامون کے زمانہ میں نسبتاً بہتر کاغذ عرب میں پہنچا۔ حضرت مولانا حکیم نورالدینؓ، خلیفہ اول کے زمانہ تک حالت یہ تھی کہ مسلمان بخاری کو دیکھنے کو ترستے تھے۔ قرآن کریم اور حدیثوں کے قلمی نسخے ہوتے تھے۔ ایک آدمی ساری ز ندگی میں آخر قرآن کریم اور بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ کے کتنے نسخے لکھ سکتا تھا، دو چار اور پھر انہیں خرید کون سکتا تھا۔لائبریریوں میں ایک ایک نسخہ رکھوادیاجاتا تھا اور لوگ ان سے استفادہ کرتے تھے۔

1436ء میں جرمنی کے ایک شخص نے، جس کا نام Goldsmith Johannes Gutenberg (گولڈ سمتھ جوہانس گوٹن برگ) تھا، ایک سادہ سا پریس ایجاد کیا۔ اس پر کتابیں یا اخبار نہیں چھپ سکتے تھے، صرف ایک آدھ سطر لکھی جا سکتی تھی۔ پھر اچانک انقلاب آگیا اور لیتھو پرنٹنگ پریس 1796ء میں ایجاد ہوا، یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش سے صرف 39سال پہلے۔ قدیم یونانی زبان میں لیتھو کے معنی ہیں ’پتھر‘ اور گرے فین (Fane) کے معنی ہیں ’لکھنا‘۔ اس پریس پر کتب، اخبارات، رسائل کروڑوں کی تعداد میں چھپنے لگے۔ حضور علیہ السلام کی براہین احمدیہ جلد اول تا 4،1880 ءتا1884ء اسی پرشائع ہوئیں۔ گویا خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر سے اشاعت اسلام کے لیے یہ پریس ایجاد ہوا، سبحان اللّٰہ۔

تفسیر کبیر جلد ہفتم سورۃ النمل صفحہ327 پر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ تحریر فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ ان کے لڑکے نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ میرے والد صاحب میرے نام الفضل جاری نہیں کرواتے۔ میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام الفضل جاری نہیں کراتے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل رہے اور وہ آزادانہ طور پر اس پر غور کر سکے۔ میں نے انہیں لکھا کہ الفضل پڑھنے سے تو آپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اور مذہبی آزادی نہیں رہے گی۔لیکن کیا اس کا بھی آپ نے کوئی انتظام کر لیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں، اس کی کتابیں اس پر اثر نہ ڈالیں، اس کے دوست اس پر اثر نہ ڈالیں اور جب یہ سارے کے سارے اثر ڈال رہے ہیں تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر تو کھانے دیں اور تریاق سے بچایا جائے۔‘‘

حضرت مولوی غلام حسینؓ۔ ایک بے نظیر عاشق کتب

آپ جب قادیان جاتے تو حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی لائبریری میں داخل ہو جاتے اور کتابیں پڑھنا شروع کر دیتے۔ حضرت خلیفہ اولؓ ان کے کھانے کا انتظام فرماتے۔ جب کوئی کتاب پڑھنے کے لیے اٹھاتے تو پہلے عزرائیل کو مخاطب کر کے کہتے: ’’اے عزرائیل! تو بھی خدا کا بندہ ہے اور میں بھی خدا کا بندہ ہوں۔ میری درخواست ہے کہ جب تک یہ کتاب نہ پڑھ لوں میری جان نہ نکالنا‘‘۔ سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے 13؍مئی 1944ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک قادیان میں ان کے بارہ میں فرمایا کہ حضرت مولوی غلام حسینؓ بڑے عالم اور نیک انسان تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ اور وہ گویا کتابوں کا کیڑا تھے بلکہ مولوی غلام حسین صاحبؓ کو حضرت خلیفہ اولؓ سے بھی زیادہ کتابوں کا شوق تھا۔

ان کا حافظہ اتنا زبردست تھا کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک کتاب انہیں پڑھنے کے لیے دی۔ انہوں نے جلد جلد ورق الٹنے شروع کیے۔ ایک صفحہ پر نظر ڈالتے اور اسے الٹ دیتے۔ اتنی جلدی وہ ورق الٹ رہے تھے کہ حضرت خلیفہ اولؓ کو خیال آیا کہ شاید وہ کتاب پڑھ نہیں رہے۔ چنانچہ حضورؓ نے کہا کہ مولوی صاحب! پڑھیں بھی تو سہی۔ انہوں نے کہاکہ آپ مجھ سے اس کتاب میں سے کوئی بات پوچھ لیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے کوئی بات پوچھی تو کہنے لگے کہ وہ اس کتاب کے فلاں صفحے پر فلاں سطر میں لکھی ہے اور فی الواقعہ ایسا ہی تھا۔

حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک دفعہ ان سے کہا کہ مجھے موقع دیں کہ میں آپ کی کیا خدمت کروں۔ کچھ سوچ کر کہنے لگے: ’’دل چاہتا ہے کہ میرے لیے ایسا مکان بنا دیا جائے جس کی دیواریں کتابوں کی بنی ہوں، جس کے اندر مجھے بٹھا دیا جائے۔ پھر مجھ سے کوئی نہ پوچھے کہ روٹی کھائی ہے کہ نہیں۔ میں کتابیں پڑھتا جاؤں اور اتارتا جاؤں۔ جب رستہ بن جائے تو باہر نکل آؤں‘‘

حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ وہ بڑے غریب آدمی تھے۔ بعض اوقات 7,7۔8,8وقت کا فاقہ کرتے لیکن کسی کو بتاتے نہیں تھے۔ لیکن جب کھانا آتا توو ہ ایک ہی وقت میں سات سات۔آٹھ آٹھ آدمیوں کا کھانا کھا جاتے تھے۔ ان کی بیعت 1891ء کی ہے اور یکم فروری 1908ء کو وفات ہوئی۔ لاہور سے ان کا جنازہ قادیان لایا گیا مگر معتمدین بہشتی مقبرہ نے اعتراض کیا کہ ان کی وصیت نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو جب ان کے اس اعتراض کا علم ہوا تو حضورؑ نے فرمایا: ’’ان کی وصیت کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو مجسم وصیت ہیں‘‘۔ چنانچہ حضورؑ نے ان کا جنازہ پڑھایا اور جنازہ کو کندھا دیا۔ انجام آتھم میں 313اصحاب احمد کی فہرست میں آپؓ کا نام 133نمبر پر لکھا ہوا ہے۔

(ملخص از:لاہور تاریخ احمدیت صفحہ 85تا90مؤلفہ حضرت شیخ عبدالقادر سابق سوداگر مل)

حضرت حافظ سید علی میاں ؓ

حضرت حافظ سید مختار احمد مختارؓ شاہ جہاں پوری کے والد بزرگوار حضرت حافظ سید علی میاںؓ کے بارہ میں ’’حیات مختار‘‘، صفحہ 84،85 سے ایک اقتباس پیش ہے۔ مکرم سید سلیم شاہجہان پوری اس کے مؤلف ہیں۔ آپؓ لکھتے ہیں:
’’سید علی میاں قدرت کی ان شاہکار ہستیوں میں سے ایک تھے جو زمانہ کی سینکڑوں گردشوں کے بعد منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہیں اور اپنے محیر العقول کارناموں سے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔‘‘

اپنے والد ماجد کی سیرت کے متعلق حافظ سید مختار میاں کا مندرجہ ذیل بیان ان کے والد کی پاکیزہ سیرت اور ان کے تبحر علمی پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ ایک استفسار کے جواب میں آپ نے فرمایا:
’’میرے والد بزرگوار حضرت حافظ سید علی میاں نہایت عالم عابد زاہد بزرگ تھے، جن کی زندگی سچے مسلمان کی زندگی تھی۔ ان کی نامور شخصیت کی وجہ سے بھی ہمارے خاندان کو بہت عظمت حاصل ہوئی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔‘‘

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو بیان کرتے سنا کہ یوپی کی طرف نظر کروتو چوٹی کے علماء میں حضرت حافظ سید علی میاں ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی اظہارکیا کہ انہوں نے حافظہ کی خوبی میں حضرت والد صاحب جیسا کوئی ایک شخص بھی نہیں دیکھا۔ ایک مرتبہ والد صاحب کی املاک کے متعلق تمام رجسٹریاں اور سرکاری کاغذات کہیں گم ہو گئے۔ ان کی ہو بہو نقل انہوں نے اپنی زبانی یادداشت کی بناء پر سطر بہ سطر لکھ ڈالی اور لطف یہ کہ اگر اصل دستاویز میں کوئی لفظ کٹا ہوا تھا تو وہ نقل میں بھی کٹا ہوا تھا۔چند دن کے بعد کاغذات بازیاب ہو گئے تو نقول کے مطابق اصل پا کر سب لوگ حیران رہ گئے۔

آپ مزید لکھتے ہیں کہ راقم الحروف کو حضرت سید علی میاں ؓ کی ہمسائیگی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ان کو قریب سے دیکھنے، ان کی اقتدا میں نمازیں ادا کرنے اور ان کی خدمات بجا لانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ وہ ایک نہایت سادہ منکسر المزاج، محنتی بلا کے ذہین و فہیم اور شگفتہ مزاج بزرگ تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم کے متعلق صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ ان کے استاد کھیل ہی کھیل میں ان کو سبق پڑھا دیا کرتے تھے جو انہیں فوراً یاد ہو جاتا تھا۔ اور پھر کبھی ذہن سے محو نہیں ہوتا تھا۔ وہ جو کتاب پڑھتے تھے وہ ازبر ہو جاتی تھی۔ حافظہ کی اس حیرت انگیز طاقت نے آخر وقت تک ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ آپ کےکسی درسگاہ میں تعلیم پانے کی کوئی شہادت راقم الحروف کو نہیں ملی لیکن یہ خیال قرین قیاس ہے کہ آپ نے عربی و فارسی کی تعلیم اپنے والد ماجد ہی سے حاصل کی ہوگی۔

حضرت سید علی میاں کے بے نظیر حافظہ کے متعلق ایک بات یہ بھی مشہور تھی کہ آپ کی ملکیت میں جو دو گاؤں تھے ان کا حساب کتاب وہ خود رکھتے تھے۔ کوئی کارندہ کبھی نہ رکھا۔ ان موضعوں کے باغات کے کل درختوں بلکہ درختوں کے پھلوں تک کی تعداد آپ کے حافظہ میں محفوظ رہتی تھی۔

(ملخض از حیات مختار مؤلفہ مکرم سید سلیم شاہجہاں پوری صفحہ84تا85)

حضرت حافظ سید مختار احمد

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار یہ نصیحت فرمایا کرتے تھےکہ ’’موجودہ زمانہ کی لادینی یلغار سے محفوظ رہنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ امام دوراں کی کتب کا مطالعہ جاری رکھا جائے‘‘ کیونکہ آپ کے خیال میں لادینی نظریات و افکار کے مہلک زہروں کا بہترین تریاق حضرت مسیح موعود کے بے نظیر کلام میں موجود ہے۔ آپ احمدی نوجوانوں اور خصوصاً پڑھے لکھے احمدی احباب کو مشورہ دیتے رہتے کہ ’’وہ حضرت اقدس کی تمام کتب کا بالاستیعاب مطالعہ جاری رکھیں اور جن اصحاب کو کم فرصتی کا سامنا ہو تو وہ کم از کم حضرت اقدس کی یہ چار کتب تو ضرور پڑھتے رہیں، یعنی 1۔تحفہ گولڑویہ، 2۔ تذکرۃ الشہادتین، 3۔ چشمہ معرفت، 4۔ کتاب البریہ‘‘۔ آپ فرماتے تھے کہ ’’حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے ان کتب میں وہ دلائل بیان فرمائے ہیں کہ متعصب سے متعصب مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا‘‘

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار کے بے نظیر حافظے کے متعلق جناب سلیم شاہجہاں پوری لکھتے ہیں کہ ’’حضرت حافظ مختار احمد صاحب کے زمانے میں آپ کا کوئی بھی ہم عصر اس صفت میں ان کا حریف نہ بن سکا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی جملہ کتب کوآپ نے اتنی بار پڑھ کر لوگوں کو سنایا کہ حضرت اقدس کی اکثر کتابوں کے صفحات کے صفحات آپ کو ازبر ہو گئے تھے۔ آپ دوران گفتگو اصل کتاب سے حوالہ اس روانی، جوش اور دلنشین انداز سے پڑھتے تھے کہ حضرت اقدس کی وہ تحریر سامعین کے دلوں میں اتر جاتی اور لوگ آپ کے دلکش انداز بیان اور طرز استدلال پر عش عش کر اٹھتے۔ راقم الحروف کو اپنی زندگی کے اکثر اوقات میں ایسے دلکش اور ایمان افروز مناظر دیکھنے کا ہزاروں بار موقعہ ملا اور میں نے محض خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت حافظ صاحب کی ان مجالس سے بقدر استطاعت بھرپور استفادہ کی توفیق پائی۔ فالحمدللّٰہ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ دوران گفتگو کسی کتاب سے حوالہ دینے کی ضرورت پیش آنے پر مجھ سے فرماتے کہ بیٹا اندر جاؤ اور غربی جانب کی الماری کے اوپر نیچے کی طرف تیسرے خانہ میں دائیں سے بائیں طرف چلو اور پانچویں کتاب نکال لاؤ۔ اور آپ حیرت سے سنیں گے کہ یہ کتاب وہی کتاب ہوتی جو حافظ صاحب کو مطلوب تھی۔ گویا ہزاروں کتابوں کی جگہ، جو اس وسیع و عریض مکان کے ہر کمرے کی متعدد الماریوں کے درجنوں خانوں میں رکھی ہوئی تھیں، حضرت حافظ صاحب کے حافظے میں محفوظ تھی۔ اور ان کا حافظہ اس معاملے میں کبھی غلطی نہ کرتا تھا۔ پھر جس سرعت کے ساتھ کتاب آپ کے ہاتھ میں پہنچتی تھی اسی تیزی کے ساتھ آپ مطلوبہ حوالہ نکال کر حاضرین کے سامنے پیش کر دیا کرتے تھے۔ یہ معاملہ صرف سلسلے کی کتابوں تک محدود نہ تھا بلکہ غیر از جماعت مصنفین کی کتابوں کے متعلق بھی آپؓ کے حافظے کا یہی عالم تھا‘‘

(حیات مختار صفحہ108تا109)

1۔ حضرت حافظ سید مختار احمد مختار صاحبؓ کے حافظہ کا یہ حال تھا کہ رمضان شروع ہونے والا تھا۔ کسی نے ان کے والد صاحب، حضرت حافظ سید علی میاںؓ سے پوچھاکہ اس بار شاہجہاں پور میں رمضان میں آپؓ نے تراویح کے لیے کسی حافظ قرآن کا انتظام نہیں کیا؟ آپؓ نے فرمایا: ’’ہمارا تو خیال تھا کہ اس سال مختار میاں سے قرآن کریم سنیں گے۔ حضرت حافظ سید مختار احمد مختارؓ نے اسی وقت اپنی والدہ سے کہا کہ ہمیں کوئی تنگ نہ کرے، کھانا دروازہ کے سامنے خادم رکھ جایا کرے۔ آپ روزانہ ایک پارہ قرآن یاد کرتے اور شام کو نماز عشاء کے بعد سنا دیتے۔ یوں 29دن میں سارا قرآن کریم حفظ کر کے سنا ڈالا۔ تیسواں پارہ آپؓ کو پہلے ہی یاد تھا۔

2۔ حضرت حافظ سید مختار احمد مختار فرمایا کرتے تھے کہ ’’ہم نے تو حضور علیہ السلام کی ساری کتب حضور کی زبان مبارک سے سنی ہیں۔ حضورؑ کا معمول تھا کہ سیر اور مجالس عرفان کے دوران اپنی تازہ تصنیفات کے مضامین کا ذکر فرماتے رہتےتھے۔ ایک بار آپؓ نے خاکسار لئیق احمد طاہر سے فرمایاکہ اگر ہم حضور کی کوئی تحریر کسی غیر احمدی ادیب کو دیں اور اسے کہیں کہ وہ اس جیسی تحریر لکھ سکتا ہے تو لکھے۔ لیکن بار بار پڑھنے کے باوجود وہ ایسی تحریر نہیں لکھ سکتا …….. کچھ وقفہ کے بعد جب آپؓ نے مجھےحیران اور ششدر پایا کہ بار بار پڑھ کر بھی کوئی ادیب کیوں لکھ نہیں سکتا تو فرمایا: ’’جہاں حضورؑ نے لکھا ہے کہ میرے خدا نے یہ وحی کی، یہ الہام کیا، تو وہ کیا لکھے گا۔ اس کا تو ایمان اور اعتقاد ہی یہ ہے کہ وہ خدا جو نبی پاک ﷺ سے ہمکلام ہوتا تھا اب اس نے بولنا بند کر دیا ہے اور وحی و الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے‘‘

احمدیت کا بطل جلیل حضرت حافظ روشن علیؓ
سیرت و سوانح

مؤلفہ مکرم سلطان احمد صاحب سے ہمارے آج کے مضمون سے متعلق چند واقعات ہدیہ قارئین کرتا ہوں۔آپؓ موضع رنمل میں، جو گجرات پھالیہ روڈ پر گجرات سے 20میل کے فاصلہ پر ہے، پیدا ہوئے (صفحہ:7) 4-5 سال کی عمر میں آپ ؓ کے والد صاحب کی وفات کی وجہ سے آپؓ کی دکھتی ہوئی آنکھوں کی طرف توجہ نہ ہو سکی اور آپؓ کی بینائی بہت کمزور ہوگئی اور سکول کی تعلیم بھی حاصل کرنے سے محروم رہے۔ حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادی نے 9 سال کی عمر میں آپ کو اپنے پاس بلوالیا جہاں آپ نے 15-16سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ پھر آپ قادیان بھجوائے گئے۔ بیعت کے بعد تعلیم و تربیت کے لیے حضور علیہ السلام نے آپؓ کو حضرت قاضی امیر حسین صاحبؓ کے سپرد کر دیا۔ آپؓ نے 5سال ان کی شاگردی کی۔ حضرت خلیفہ اول ؓ کے ارشاد پر آپؓ نے طب کی کتاب نفیسی بھی حضرت قاضی امیر حسین صاحبؓ سے درساً درساً پڑھی۔

(صفحہ9تا10)

حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ آپؓ کو Moving Encyclopaedia of Islam کہا کرتے تھے۔

(صفحہ19)

ایک انوکھی اور غیر معمولی بات یہ ہے کہ جس طرح لوگ قرآن کریم حفظ کرتے ہیں آپؓ نے حفظ قرآن کے بعد اسی ترتیب سے سارے قرآن کا ترجمہ بھی یاد کیا ہوا تھا۔ آپؓ پورے پارے کی تلاوت کر کے پھر زبانی اس کا ترجمہ بھی سنایا کرتے تھے۔ 1924ء میں جب آپؓ ویمبلے کانفرنس میں تَصَوُّفْ کے موضوع پر خطاب کر نے کے لیے مدعو کئے گئے اور آپؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہمراہ تشریف لے گئے تو اپنی غیر معمولی ذہانت اور حفظ کی عدیم المثال صلاحیت کی وجہ سےآپؓ نے دو ماہ کے قیام میں ہی اکثر انگریزی کے جملے سیکھ لیےاور انگریزی خوانوں کے مذاق کے مطابق نہایت عمدگی سے گفتگو کر لیتے تھے۔ آپؓ انگریزی کے چند الفاظ اور ہاتھ کے دو تین اشاروں کے ساتھ انگریزوں سے بے تکلف مذہبی گفتگو فرما لیا کرتے تھے۔

(صفحہ19)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لکھا ہےکہ ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلستان جاتے ہوئے جب حضور ؓ عدن میں اترے تو حضورؓ نے عربی میں ایک عرب دکاندار سے کھجوروں کا بھاؤ پوچھا۔ اس نے جو جواب دیا حضورؓ اسے سمجھ نہ سکے۔ حضورؓ یہ سمجھے کہ وہ عرب حضورؓ کی بات سمجھ نہیں سکا، لہٰذا حضورؓ نے پھر اس سے سوال کیا لیکن اس نے وہی جواب دیا۔ اسی طرح دو چار دفعہ ہوا تو حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ بے اختیار ہنسنے لگے۔ حضورؓ نے حافظ صاحبؓ سے پوچھا کہ کیوں ہنس رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپؓ عربی بول رہے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ پنجابی بول رہے ہیں اور وہ صرف اندازہ لگا کر جواب اردو میں دے رہا ہے لیکن آپ اس کے لہجہ کی وجہ سے سمجھ رہے ہیں کہ وہ عربی بول رہا ہے لیکن ایسی خراب اردو بول رہا ہے کہ آپ اسےسمجھ نہیں سکتے حالانکہ وہ عربی نہیں اردو میں جواب دے رہا ہے۔

(کتاب ’’حافظ روشن علیؓ‘‘ صفحہ20، الفضل 28؍مارچ 1946ء، صفحہ6)

آپؓ صفحوں کے صفحے ایک دفعہ سن کر پھر دوبارہ سنا سکتے تھے۔ ہزاروں عربی اشعار یاد تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی قصائد اور بعض عربی کتب کے اشعاریاد تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے عربی قصائد اور بعض عربی کتب آپؓ کو یاد تھیں۔ 1924ء میں لندن جاتے ہوئے دمشق میں حضرت مصلح موعودؓ کو تبلیغ کے لیے حضورؓ کی ایک عربی کتاب کی ضرورت پڑی۔ حضورؓ نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہم یہ کتاب نہیں لائے۔ حضرت مولانا روشن علیؓ نے وہ کتاب زبانی حضورؓ کو سنانی شروع کر دی۔

( کتاب ’’حافظ روشن علیؓ‘‘ صفحہ21)

ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ حافظ صاحب! کیا آپؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’اعجاز المسیح‘‘ پڑھی ہے۔ آپؓ نے فرمایا: کتاب کھولو۔ اس نے کتاب کھولی تو آپؓ نےاس کے 35صفحات زبانی سنا دیئے۔

(کتاب ’’حافظ روشن علیؓ‘‘ صفحہ22)

حضرت خلیفہ اولؓ فرمایا کرتے تھےکہ میں نے اپنے تمام روحانی علوم میاں محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانیؓ) کو دے دیے ہیں اور تمام ظاہر ی علوم حافظ روشن علی صاحبؓ کو دے دیے ہیں۔

(کتاب ’’حافظ روشن علیؓ‘‘ صفحہ 24)

آپؓ نہ صرف اردو میں ہی تقریر کرنے کی مہارت تامہ رکھتے تھے بلکہ عربی میں بھی آپؓ ایسے زور اور روانی کے ساتھ تقریر فرما سکتے تھے۔ آپؓ نے گھنٹوں تک لمبی تقاریر عربی زبان میں کیں۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحب فرماتے ہیں کہ ’’شدید گرمیوں کے دنوں میں روزہ رکھ کر آپ نے 1914ء تا 1927ء کے رمضان المبارک میں سالہا سال اکیلے قرآن کریم کا مکمل درس دیا۔ آپؓ ظہر سے عصر تک باقاعدہ درس دیا کرتے تھے۔ طریق یہ تھا کہ پہلے ایک پارہ کی تلاوت کرتے، پھر بلا تامل ترجمہ بیان کرتے، پھر ضروری مطالب بیان فرماتے۔ آپؓ قرآن کریم کے قریباً سب سے زیادہ عالم تھے۔ صرف عالم ہی نہیں بلکہ نہایت متقی اور باعمل عالم تھے۔

(کتاب ’’حافظ روشن علیؓ‘‘ صفحہ39)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب کے مطالعہ کے لیے بار بار جو تاکید فرمائی ہے، بلا وجہ نہیں ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ایسے کئی دوستوں کا علم ہے جنہوں نے بڑے شوق سے بیعت کی لیکن مطالعہ کتب سے ایک گونہ بے اعتنائی برتی اور معمولی وجوہات کی بنا پر جماعت سے دور ہو گئے۔ ایک صاحب Hounslow کے رہنے والے تھے، انہوں نے بیعت کی۔ وہ حافظ قرآن تھے، قاری کہلاتے تھے، بڑے بے نفس انسان تھے۔ انہوں نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ایک کتابچہ ’’احمدیت کا پیغام‘‘ پڑھا اور بیعت کر لی۔ وہ برٹش نیشنل پاکستانی تھے۔ انہیں خاکسار نے بار بار سمجھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کریں تا کہ احمدیت کے فیضان سے ان کے رگ و پے میں نور ایمان کی حرارت اور پائیدار تبدیلی پیدا ہو۔ لیکن ہر بار یہی جواب دیتے کہ ’’احمدیت کا پیغام‘‘ والے کتابچہ کے مطالعہ کے بعد میرا ہر سوال حل ہو گیا مجھے مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا تھا کہ وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نےبھی تکبر سے کام لیا ہے۔

(نزول المسیح صفحہ:403)

یہ صاحب یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک غیر از جماعت امام کے پیچھے احمدیوں کو نمازیں پڑھنے کی ممانعت ہے، یہ رمضان المبارک میں ریجنٹ پارک کی مسجد میں بعض اچھے قاریوں کے پیچھے نماز تراویح پڑھنے چلے جاتے تھے اور آہستہ آہستہ جماعت سے دور ہونے لگے۔ گو کہتے یہی رہے کہ میں احمدی ہوں لیکن خلافت خامسہ کی بیعت سے محروم ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

ایک صاحب اچھے شاعر تھے۔ انہوں نے سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ کی کوئی نظم ’’کلام محمود‘‘ سے پڑھی اور بیعت کر لی۔ کئی سال تک جماعت کے ساتھ وابستہ رہے، چندے بھی دیتے رہے، ہمیشہ جماعتی میٹنگز اور سوال و جواب کی مجالس میں شریک ہوتے رہے لیکن حضور علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ سے بے اعتنائی اور بے رغبتی کا اظہار کیا۔ انہیں بھی کئی بار مطالعہ کتب کی تحریک کی گئی لیکن بے سود۔ بالآخر بتدریج دور ہوتے گئے اور نظام سلسلہ کی برکات سے محروم ہو گئے۔ اس دوری کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچیاں مغربی ماحول کی آلودگی کا شکار ہو گئیں۔ اور پھر وہ شرم اور ندامت کی وجہ سے ہم سے کنارہ کش ہو تے ہوتے اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کر بیٹھے۔

اس کے برعکس ایک درخشندہ مثال پیش کرتا ہوں۔ حضرت مرزا عبدالحق صاحب مرحوم امیر ضلع سرگودھا و پنجاب کم و بیش ہر سال جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کے لیے آتے تھے۔ خاکسار 1988ء میں کرائڈن میں تھا، پھر ساؤتھ آل میں سولہ سال تک رہا۔ کئی بار آپ سے نیاز حاصل ہوتا رہا۔ نمازوں کے بعد خوب مجلس لگتی اور آپ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی عشق انگیز یادوں سے مجلس گرما دیتے تھے۔ایک بار مطالعہ کتب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر میں فرمانے لگے کہ میں نے حضور السلام کی جملہ کتب کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ فرماتے تھے کہ عربی کتب کا بھی ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ فرماتے تھے کہ عربی کتب کے معانی جاننے کے لیے میں نے کئی عربی کی لغات خریدیں اور ان عربی کی ڈکشنریوں کی مدد سے حضور علیہ السلام کی جملہ عربی کتب کا مطالعہ کیا۔

سلطان القلم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوفارسی اور عربی میں الہام ہوا: ’’در کلام تو چیزے است کہ شعراء را درآن دخلے نیست۔ کَلاَمٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَّبٍّ کَرِیْمٍ۔

(کاپی الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ62، بحوالہ تذکرہ صفحہ508،558)

تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ106، بحوالہ تذکرہ صفحہ508)

ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں: ’’میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں کیونکہ جب میں عربی یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن، جلد18،صفحہ434)

اسی طرح آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے مگر جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا، جو مجھے دیا گیا ہے، وہ ہر گز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں، جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہےتو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا۔ لیکن اگر یہ حکمت اور معرفت، جو مردہ دلوں کے لیے آب حیات کا حکم رکھتی ہے، دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی تو تمہارے پاس اس جرم کا کوئی عذر نہیں کہ تم نے اس سرچشمہ سے انکار کیا جو آسمان پر کھولا گیا زمین پر اس کو کوئی بند نہیں کر سکتا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ104)

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ403)

پھر آپؑ نے ایک جگہ یہ بھی تحریر فرمایا کہ:
’’سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ361)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں:
’’عزیزو! یہی وہ چشمہ رواں ہے کہ جو اس سے پئے گا وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا اور ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی پیشگوئی یَفِیْضُ الْمَالَ حَتّٰی لاَ یَقْبَلُہٗ اَحَدٌ (ابن ماجہ) کے مطابق یہی وہ مہدی ہے جس نے حقائق و معارف کے ایسے خزانے لٹائے ہیں کہ انہیں پانے والا کبھی ناداری اور بے کسی کا منہ نہ دیکھے گا۔یہی وہ روحانی خزائن ہیں جن کی بدولت خدا جیسے قیمتی خزانے پر اطلاع ملتی ہے اور اس کا عرفان نصیب ہوتا ہے۔ ہر قسم کی علمی اور اخلاقی، روحانی اور جسمانی شفاء اور ترقی کا زینہ آپؑ کی تحریرات ہیں۔ اس خزانے سے منہ موڑنے والا دین و دنیا، دونوں جہانوں سے محروم اٹھنے والا قرار پاتا ہے اور خدا کی بارگاہ میں متکبر شمار کیا جاتاہے، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحہ365)

اللہ تعالیٰ ہمیں مطالعہ کتب اور خصوصاً کتب حضرت مسیح موعود ؑ کو پڑھنے کی توفیق دے۔

(مولانا لئیق احمد طاہر۔ مبلغ سلسلہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

نیشنل اجتماع لجنہ اماء اللہ برکینا فاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2022