• 6 مئی, 2025

مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو

مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتؐ میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔ اس نے کہا سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍوَّبَارِکْ وَ سَلِّمْ۔ یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردوپیش حاضر رہتے ہیں اس لیے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے۔ بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمتگار سے ذرا کوئی کام بگڑا مثلا چائے میں نقص ہوا تو جھٹ گالیاں دینی شروع کردیں۔ یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کردیا اور ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا بس بیچارے خدمت گاروں پر آفت آئی۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ437-438 ایڈیشن 1988ء)

’’انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حسن ہیں ایک حسن معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو ۔۔۔۔ ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوق عباد میں تقویٰ سے کام لے‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ218)

’’جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے قمار بازی سے بد نظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے توبہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ18-19)

ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان سے ایک دو مرتبہ عفو اور درگزر کیا جائے اور نیک سلوک کیا جاوے تو اطاعت میں ترقی کرتے اور اپنے فرائض کو پوری طرح سے ادا کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض شرارت میں اور بھی زیادہ ترقی کرتے اور احکام کی پروا نہ کر کے ان کو توڑ دینے کی طرف دوڑتے ہیں۔ اب اگر ایک خدمت گار کو جو نہایت شریف الطبع آدمی ہے اور اتفاقاً اس سے ایک غلطی ہوگئی ہے اسے اٹھ کر مارنے اور پیٹنے لگ جائیں تو کیا وہ کام دے سکے گا؟ نہیں، بلکہ اس سے تو عفو اور درگزر کرنا ہی اس کے واسطے مفید اور اس کی اصلاح کا موجب ہے مگر ایک شریر کو جس کا بارہا تجربہ ہو گیا ہے کہ وہ عفو سے نہیں سمجھتا بلکہ اور بھی شرارت میں قدم آگے رکھتا ہے تو اس کو ضرور سزا دینی پڑے گی اور اس کے واسطے مناسب یہی ہے کہ سزا دی جاوے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ256 ایڈیشن 1988ء)

پچھلا پڑھیں

اندھیری رات میں نور

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 مارچ 2022